دوسری قسط 9 فروری 2007 کو لکھی گئی
جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب حکمران بنے تو اُنہوں نے بھارت ميں اپنی موروثی جائداد واگذار کرانے کی خاطر بھارت نواز شملہ معاہدہ پر دستخط کردئيے ۔ جنگ بندی لائين کو لائين آف کنٹرول مانا اور مسئلہ کشمير کا فيصلہ صرف گفت و شنيد کے ذريعہ کرنے کا اقرار کيا اس کے علاوہ شمالی علاقہ ميں جان نثار فوجيوں کی قيمتی جانوں کی قربانی دے کر بھارت سے واپس ليا ہوا علاقہ بھارت کو دے ديا جس کے نتيجہ ميں سياچين کا مسئلہ پيدا ہوا ۔
جنرل ضياء الحق صاحب نے جموں کشمير کی بجائے افغانستان کی جنگ ميں دلچسپی لی ۔
بےنظیر بھٹو صاحبہ نے 1988 عیسوی میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988 عیسوی میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا گیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا ۔ مشترکہ پريس کانفرنس ميں جب ايک سوال کے جواب ميں راجيو گاندھی نے بڑے تلخ لہجہ ميں جموں کشمير کو بھارت کا حصہ کہا تو محترمہ منہ دوسری طرف کر کے ہنس ديں ۔ اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی گئی جن سے مقبوضہ علاقہ ميں بھارتی ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی ۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو پاکستان سے بھی مایوسی ملی ۔ پہلے بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ 1989 عيسوی ميں بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ بھارتی فوجيوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی ۔
موجودہ حکومت کی مہربانی سے بھارت نے جنگ بندی لائين پر کہيں ديوار بنا لی ہے اور کہيں خاردار تار لگا دی گئی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمير سے کوئی ظُلم کا مارا بھاگ کر آزاد جموں کشمير ميں پناہ بھی نہ لے سکے ۔ مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کا ايک پُرامن اور بے ضرر سياسی اتحاد تھا حُريّت کانفرنس جو جموں کشمير کے لوگوں کی آواز دنيا تک پہنچاتا تھا ۔ ہماری موجودہ حکومت بڑی محنت و کوشش سے اس کے دو ٹکڑے کرنے ميں کامياب ہو گئی ہے گويا مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کی زبان کے دو ٹکڑے کر دئیے ہیں ۔ اپنے ملک ميں حق کی آواز اُٹھانے والا غائب ہو جاتا ہے اور اعلٰی عدالتيں ان کی بازيابی کے حکم ديتے ديتے تھکتی جا رہی ہيں ۔
جہاد تو کيا دين اسلام پر عمل کرنے والوں کيلئے پاکستان کی زمين تنگ کی جا رہی ہے ۔ قرآن شريف کی آيات جو جہاد فی سبيل اللہ کے متعلق ہيں يا کفّار کے خصائل بيان کرتی ہيں کو نفرت انگيز [Hate literature] کہہ کر تعليمی نصاب سے نکالا جا رہا ہے ۔ دين اسلام کی پابندی کرنے والے ہر شخص کو مشکوک سمجھا جانے لگا ہے ۔
ذرائع ابلاغ اس معاملہ ميں اہم کردار ادا کرتے ہيں ۔ ہمارے ملک کے ايک دو اخبار چھوڑ کر باقی سارے جہاد کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔ یہاں انیل خان لُونی اور جلیل امر جیسے قلکاروں کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہیں جو پاکستان بننے کو ہی غلط کہتے ہیں اور قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ اليکٹرانک ميڈيا قوم کو ننگے فيشن اور ناچ گانا سکھانے کے علاوہ جہاد کے خلاف زہر اُگل رہا ہے ۔
پاکستان کے عوام ميں کچھ کو لُوٹ گھسُوٹ سے فرصت نہيں اور کچھ کو بے پناہ مہنگائی کے باعث نان نقفہ کی تگ و دو ميں گِرد و پيش کا ہوش نہيں ۔
ہماری قوم کے ڈھنڈورچی [big mouths] جو کہ اکثر اين جی اوز کی صورت ميں مجتمع ہيں اُنہيں جموں کشمير کے بے کس لوگوں پر ظلم ہوتا نظر نہيں آتا ۔ اُن کے ساتھ اگر يہ لوگ بہت رعائت کريں تو اُنہيں جہادی اور اِنتہاء پسند کہتے ہيں ورنہ دہشتگرد ۔ کچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو کہتے ہيں کہ پاکستان کو کشمير سے کيا ملے گا خواہ مخوا کشميريوں کی مدد کر کے بھارت سے لڑائی کا خطرہ مول ليا ہوا ہے ۔
اب ثاقب سعود صاحب ہی بتائيں کہ کہاں ہيں افراد ۔ بیرونی امداد ۔ اسلحہ اورچھُپنے کے لئے جگہ ؟