الحمدللہ ۔ آج میرا پہلا روز نامچہ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے” جو زیادہ تر انگریزی میں لکھتا ہوں اپنی زندگی کے تین سال پورے کر چکا ہے ۔
تفصیلات مندرجہ ذایل ربط پر
Yearly Archives: 2007
ارتقاء ۔ انڈے سے چوزے تک
عمومی خیال یہی ہے کہ مرغی کے نیچے انڈے رکھے اور 21 دن بعد چوزے تیار ۔ سائنس ترقی کر گئی ہے جس نے مرغی کو باہر کر دیا ہے اور یہ کام ایک ڈبّے سے لیا جاتا ہے جسے Incubator کہا جاتا ہے لیکن انڈے سے چوزہ بنانا صرف اُس ذاتِ باری کا کام ہے جس نے اس پوری کائنات کی تخلیق کی ہے ۔ دوسرا کوئی ایسا نہیں کر سکتا ۔ اللہ کی قدرت انڈے کے اندر کیا تبدیلیاں لاتی ہے اس کا جزوی مشاہدہ کیجئے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ تصاویر بنانے کیلئے کتنے درجن چوزے نکالنے والے انڈے توڑے گئے ہوں گے ۔ میرے اندازے کے مطابق ان میں 20 دن بعد والی حالت نہیں دکھائی گئی اور آخری 21 دن بعد والی حالت ہے یعنی مکمل چوزہ انڈے سے باہر ۔
Hypocrisy Defined منافقت کا الجبرا۔
سطحی نظر انسان کو حقیقت سے روشناس نہیں ہونے دیتی اور اس کی سوچ کو اس طرح ڈھال دیتی ہے کہ اسے اپنی بولی یا زبان بھی ناقص لگنے لگتی ہے ۔ یعنی ایک لفظ اس کی اپنی زبان میں بولا جائے تو اس کو فحش یا غیر مہذّب محسوس ہوتا ہے خواہ وہ خود اسی لفظ کو انگریزی میں کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو ۔ یہ بھی منافقت کی ایک قسم ہے ۔ اسی طرح میں اگر کسی فعل کو منافقت کہوں تو کئی صاحبان مجھ سے ناراض ہو جائیں گے مگر ہِپوکریسی [hypocrisy] کہنے سے ناراض ہونے کا امکان بہت کم ہو گا ۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کا ذہن ایسے تخلیق کیا ہے کہ بنیادی طور پر وہ اپنا عمل اور عقیدہ یا سوچ ایک رکھنا چاہتا ہے یعنی منافقت سے دور رہنا چاہتا ہے ۔ اسی وجہ سے بچوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سب بچے جنت میں جائیں گے ۔
الجبراء کے قاعدہ سے
اگر سوچ = عمل تو منافقت = صفر
منافقت کی ایک شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو
منافقت کی دوسری شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد وہی نہ ہوں جو کہ حقیقی دِلی عقائد ہیں
منافقت کی تیسری شکل یہ ہے کہ حقیقی دِلی عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو
جتنی عقائد اور عمل میں تفاوت ہو گی منافقت اتنی ہی زیادہ اور گہری ہو گی
علاج
انہماک کے ساتھ حقائق کا ادراک کرنا چاہیئے
خلوصِ نیّت سے سچ کو ڈھونڈنا اور سمجھنا چاہیئے
اخلاقیات اور فرائضِ انسانی کا حقیقی ادراک کرنا چاہیئے
اسلام آبادکی بولی ۔ بازار ۔ ہسپتال اور تہوار
آج ہم اپنے ضمیر کی کی فرمائش پہ چند دیگر ادا روں کا ذکر کریں گے ۔ چونکہ ہمارے ہاں کرپشن میں بڑی یونٹی پائی جاتی ہے چنانچہ آپ کو یوں لگے گا جیسے یہ سارے واقعات آپ کے شہرکے ہی ہیں۔
انکل سرگم کے مطابق اسلام آباد ایک عجیب و غریب شہر ہے ۔ اس میں عجیب لوگ وہ ہیں جوسرکاری بنگلوں کے اند رہتے ہیں اور غریب وہ ہیں جو ان بنگلوں کے باہر رہ کر ان کی چوکیداری کرتے ہیں۔اس شہر میں کوئی کلچر نہیں دکھائی دیتاالبتہ ہارٹی کلچر ہر طرف نظر آتا ہے۔شہر میں کوئی سینما ہال نہیں لہذا لوگ تفریح کیلئے اسمبلی ہال چلے جاتے ہیں۔ شہر میں شاہی افسروں کی ریل پیل توہے مگر ریلوے اسٹیشن کوئی نہیں۔ سیاسی اڈے تو ہیں مگر بسوں اور ہوائی جہاز کا کوئی اڈہ نہیں۔ یہاں نہ رکشہ ہے نہ تانگہ ہے نہ احتجاج ہے نہ ہنگامہ ہے۔
اسلام آباد کی بولی: چونکہ اسلام آباد میں پاکستان کے مختلف شہروں کے لوگ آباد ہیں چنانچہ ا اس شہر کی اپنی کوئی بولی نہیں، ہر کوئی دوسرے کی بولی ہی بولتاہے جس میں حاکم وقت کی بولی بولنا یہاں کے لوگ اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ الیکشن میں اسلام آباد ایک سیاسی منڈی بن جاتا ہے ،جہاں دوسرے علاقوں سے آنے والے سیاسی تاجر جمع ہو کر سیاسی گھوڑوں کی خریداری پہ اپنی اپنی بولیاں لگاتے ہیں اوراونچی بولی لگانے والے کمزور کی بولتی بندکروادیتے ہیں۔بقول انکل سرگم، اسلام آباد میں زیادہ تر حاکم وقت کی بولی کا بول بالا رہتا ہے یعنی جو حاکم وقت“ بولتا ہے وہ ”وقت کا حکم“ بن جاتا ہے۔ دیگرمسلوں کی طرح پاکستانی تماش بین بولی کے مسئلے پہ بھی یک زباں نہیں ہوسکے۔ یہاں عوام گھر میں مادری بولی بولتے ہیں، دفتری زبان انگلش ہے، قومی زبان اردو ہے، مذہبی زبان عربی ہے اور ترانہ فارسی
زبان میں ہے۔
اسلام آباد کے بازار: سرگم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق کراچی بیداروں کا شہر ہے، لاہور بازاروں کا اور اسلام آباد بے زاروں کا شہرکہلاتا ہے۔ یہاں بہت عرصہ پہلے والیٴ شہر یعنی چیئر مین سی ڈی اے نے ایک اتوار بازار لگوایا تھا۔ بعد میں آنے والی حکومتیں بازار میں اضافہ تو نہ کر سکیں البتہ انہوں نے دنوں میں اضافہ کیا چنانچہ اب ہفتے میں تین دن بازار گرم رہتا ہے۔ ان بازاروں کا فائدہ اُن دوکانداروں کو ہوتا ہے جنکی سبزی شہروں میں نہیں بکتی اور نقصان اُن سرکاری اداروں کو ہوتاہے جن کے افسران کی بیگمات سرکاری گاڑیوں میں سرکاری پٹرول پہ ”اتوار بازاریاں“ کرتی ہیں۔ اس بازاری لوٹ مار میں سی ڈی اے کے تنخواہ دار ملازم بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بازار سی ڈی اے کے ملازمین کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ ان ملازمین کی مٹھی گرم کرنے سے اُنکی دکھاوے کی سختی اور کنٹرول کو نرمی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں مہنگائی کے مارے لوگ ہفتے بھر کی سبزی سستی سمجھ کر خریدتے ہیں اور پھر ہفتہ بھرباسی سبزی کھاتے رہتے ہیں۔ بقول سرگم ، اسلام آباد کے بازار اتنے حسین ہیں کہ یہاں کا ہر بازار ”بازار حُسن“ لگتا ہے۔
اسلام آباد کے ہسپتال: اسلام آباد میں چند سرکاری اور کئی بیوپاری ہسپتال ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں دعائیں کام آتی ہیں اور بیوپاری یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں میں دوائیں۔سرکاری ہسپتال کو چند من چلے اور من جلے ’سرکاری ہنس کے ٹال‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اگر مریض چھوٹے گریڈ کا ہو تو اُسے ”ہنس کے ٹال“ دیا جاتا ہے جبکہ اونچے گریڈ کے اشرف المخلوقات کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں عام مریض کا داخلہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی سکول میں۔ بونگا اس بات پہ حیران ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں ”مینٹل ہاسپٹل“ کوئی نہیں ہے۔ انکل سرگم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے شہری مہنگائی سے اسقدر بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں نہ تو کسی حادثے سے صدمہ پہنچتا ہے اور نہ ہی کسی بات پہ خوشی محسوس ہوتی ہے لہذا جب انکے پاگل ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تو پھرپاگل خانے کی کیا ضرورت؟ سرکاری ہسپتال میں مریض ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر چھٹی ہونے کا۔کچھ دانشمند ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں مریض کو ”چیک“ کرتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ کلینک میں اُسے ”کیش“ کرجاتے ہیں۔ اس ”چیک اور کیش“ میں ڈاکٹروں کا کوئی قصور نہیں۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ اگر کوئی سولہ گریڈ کا ملازم ڈاکٹر کی تنخواہ سنے تو وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجائے۔ ان سرکاری ہسپتالوں کی ایمبولینس کی حالت کسی چھوٹے گریڈ کے مریض کی حالت جیسی ہوتی ہے جو اپنی تنخواہ رگڑ رگڑ کے چلتی ہے۔ ایمبولینس چونکہ اسلام آباد کی سڑکوں پہ کم ہی دوڑتی نظر آتی ہے اسلئے غیر ملکیوں کو یہی لگتا ہے کہ ”بیمار کا حال اچھا ہے“۔ ان ہسپتالوں میں ”بخشیش“ کا زبانی قانون نافذ ہے جس پہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔خاکروب سے لیکر ایکسرے اور ٹیسٹ لیبارٹریوں تک بغیر بخشیش کے کام نہیں چلتا البتہ مریض چل دیتا ہے۔ بقول سرگم ، اگر اسلام آباد کے ہسپتالوں کی دن بھر کی بخشیش کو ہسپتال کے فنڈ میں جمع کرادیا جائے تو اس سے ہسپتال اور مریض دونوں اپنے پیروں پہ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ان سرکاری ہسپتالوں میں عوام اپناسب کچھ لگاکرآتے ہیں اور اپنا سب کچھ گنوا کر جاتے ہیں۔ ا ن ہسپتالوں کے بارے میں یہ شعر مناسبت رکھتا ہے کہ “جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا، دو گز کفن کا ٹکڑا تیر ا لباس ہوگا”۔
اسلام آباد کے تہوار: اسلام آباد میں چونکہ ابھی اپنا کوئی تہوار نہیں بنا اسلئے یہاں کے لوگ تہوار منانے اپنے آبائی شہروں کو چلے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ دوسرے ملکوں کے تہوار بڑ ے انہماک سے مناتے ہیں۔ چنانچہ مدر ڈے، فادر ڈے، گرینڈ فادر ڈے اور ویلن ٹائن ڈے، کرسمس نائٹ اور نیوٴ ایر نائٹ انکے پسندیدہ تہوار کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بڑے بڑے لوگ غیر اسلامی ملکوں کی ایمبیسوں کے خاص تہواروں اور خاص دنوں میں بھی بڑے شوق سے جاتے ہیں جہاں ٹیشو پیپر میں ڈھکے ہوئے گلاسوں میں ”مشروب ِ مغرب“پیتے ہیں جسکے اثر سے ہونے والی گفتگو کو غیر ملکی انجائے [enjoy] کرتے ہیں۔ مذہبی تہواروں میں بری امام اور گولڑہ شریف کے عرس بھی بڑے شوق و عقیدت سے منائے جاتے ہیں، جن میں غریب نوجوان نواح میں ہونے والے ڈانس، جوئے ا اور نشے سے اپنا ”شو ق او ر عقیدت“ پورا کر لیتے ہیں ۔
تحریر ۔ فاروق قیصر ۔ ۔ ۔ بشکریہ جنگ
اکثریت کی ضرورت
کچھ سال قبل مجھے میرے ایک دوست اپنا مکان دکھا رہے تھے کہ ان کے بیٹے کے کمرے میں ان کی بیگم کے ہاتھ کا انگریزی میں لکھا ہوا کتبہ نظر آیا جس کا ترجمہ یہ ہے
جس بستر پر سوئیں ۔ اُٹھ نے پر اسے ٹھیک کریں
جو کپڑے پہنیں ۔ اُتارنے پر انہیں سلیقے سے ٹانگیں
اگر آپ کوئی چیز گرائیں تو اسے اُٹھائیں بھی
اگر آپ سے کوئی چیز گندی ہاجائے تو اسے صاف بھی کریں
اگر آپ کھائیں تو پلیٹ صاف بھی کریں
If you sleep on it, make it up.
If you wear it, hang it up.
If you drop it, pick it up.
If you step on it, wipe it up
If you eat out of it, wash it up.
چٹکلے ۔ ایک کہانی اور چار حقیقی واقعات
ایک ہونہار لڑکا بی ایس میں اول آنے کے بعد ایم ايس کا طالب علم تھا کہ ٹریفک کے حادثہ میں سر کُچلا گیا ۔ پروفیسر سرجن نے اس کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی اور اس کے سر کے کئی آپريشن کئے ۔ چھ ماہ بعد وہ تندرست ہو کر گھر جانے لگا تو پروفیسر سرجن نے اسے کہا ” مجھے بہت خوشی ہے کہ تم اپنے پاؤں پر چل کر گھر جا رہے ہو مگر مجھے دُکھ ہے کہ میں تمہارا دماغ نہ بچا سکا اور اسے نکالنا پڑا ۔ دماغ کے بغیر تم دنیا میں کیا کرو گے ؟”
وقت گذرتا گیا پروفیسر سرجن ریٹائر ہونے کے بعد اپنے گاؤں چلا گیا ۔ ایک دن پروفیسر اپنے گاؤں کی پتلی سی سڑک کے کنارے چل رہا تھا کہ ایک کار پاس سے گذری ۔ آگے جا کر رُکی اور اُلٹی ہی واپس آ کر پروفیسر کے پاس کھڑی ہو گئی ۔ پروفیسر نے بڑی سی نئی کار کو غور سے دیکھا ۔ شوفر نے بڑی سُرعت کے ساتھ کار سے باہر نکل کر پچھلی نشست کا دروازہ کھولا ۔ اس ميں سے ايک نہائت خوش پوش شخص نکل کر آيا اور بڑی گرم جوشی سے پروفيسر کے ساتھ مصافحہ کر کے بولا ۔ “پروفيسر آپ نے مجھے پہچانا نہيں ؟ ميں وہی ہوں جس کا آپ نے آپريشن کر کے جان بچائی اور دماغ ضائع ہونے کا آپ کو افسوس تھا” ۔
پروفيسر نے حيران ہو کر کہا ” يہ سب کيا ہے ؟”
تو وہ بولا “دماغ ضائع ہو جانے کے باعث ميں تعليم جاری نہ رکھ سکا اور ميں نے آرمی ميں کميشن لے ليا ۔ اب ميں ليفٹيننٹ جنرل ہوں” ۔
مندرجہ بالا مختصر ترجمہ ہے ایک امریکی ادیب کی لکھی کہانی کا ۔ لیکن ادیب یونہی ایسی کہانیاں نہیں لکھتے ۔ اس کی کوئی بنیادی عملی وجوہات ہوتی ہیں ۔ اپنی عملی زندگی میں سے 39 سال میرا رابطہ فوجی افسروں کے ساتھ رہا جن میں میجر سے لے کر لیفٹننٹ جنرل تک شامل ہیں ۔ صرف چند واقعات درج کرتا ہوں
آدھی صدی قبل پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے سٹورز ڈیپارٹمنٹ میں ایک میجر صاحب تشریف لے گئے ۔ انہوں نے ایک پرزہ اٹھایا تو اتفاق سے اسے زنگ لگا ہوا تھا ۔ وہاں کھڑے مزدور کو ڈانٹ پلا دی ۔ مزدور نے جواب دیا “صاحب ۔ اس پرزے کو گریس نہیں لگی ہوئی”۔ حکم ہوا “اگر بھیجنے والوں نے گریس نہیں لگائی تو تم کس لئے ہو ؟ یہاں جتنا مال پڑا ہے سب کو ابھی گریس لگاؤ ورنہ نوکری سے فارغ کر دونگا”۔ میجر صاحب حُکم دے کر چلے گئے ۔ وہ بیچارہ اَن پڑھ مزدور تھا ۔ گریس کی بالٹی کھولی اور تمام مال کو گریس لگا دی ۔ اس میں قیمتی گرائینڈنگ وہیل اور کچھ اور پرزے بھی تھے جو گریس لگانے سے بیکار ہو جاتے ہیں ۔ یہ میجر صاحب جنرل بننے کے بعد ریٹائر ہوئے ۔
میں 1960 کی دہائی میں سیکیورٹی کورس پر تھا جس کا انتظام برطانوی حکومت نے کیا تھا ۔ اس کورس کے اختتام پر ہمیں کچھ ڈاکومنٹری فلمیں دکھائی گئیں جو کہ اصل واقعات پر مبنی تھیں ۔ ان میں سے ایک واقعہ ۔ برطانیہ کی رائل آرڈننس فیکٹری میں استعمال ہونے والی ہینڈ ٹرالیاں گم ہونا شروع ہو گئیں ۔ ملٹری انٹیلیجنس نے بڑی محنت کی مگر کچھ سراغ نہ ملا ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ 4 فٹ چوڑی اور 6 فٹ لمبی ٹرالی کوئی فیکٹری سے باہر کیسے لیجاتا ہے جبکہ گیٹ پر فوجی ہر شخص کی جامہ تلاشی بھی کرتے ہیں ۔ ایک سال گذر گیا اور 12 ٹرالیاں غائب ہو گئیں ۔ آخر اعلان کیا گیا کہ جو کوئی چوری کی واردات یا اس کے طریقہ کی اطلاع دے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ ایک ماہ بعد سکیورٹی چیف کے پاس ایک مزدور آیا اور کہا “مجھے مجاز افسر سے لکھوا کر دیں کہ نوکری سے نکالنے کے علاوہ میرے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی تو میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا”۔ سکیورٹی کے چیف نے مطلوبہ حکمنامہ جاری کروا کر اسے بلایا تو اس نے کہا “کل چھٹی کے بعد مجھے فیکٹری سے باہر فلاں جگہ ملیں”۔ دوسرے دن اس نے سکیورٹی چیف کو بتایا “میرا خاندان بڑا ہے اور تنخواہ میں گذارہ نہیں ہوتا تھا ۔ میں نے فیکٹری میں گھاس کاٹنے کا لائینس لے لیا ۔ فارغ وقت میں گھاس کاٹ کر باہر لیجا کر بیچتا مگر پھر بھی ٹھیک سے دو وقت کی روٹی نہ ملتی ۔ اس کے بعد میں نے ایک منصوبہ بنایا ۔ ہر ماہ میں ایک دن گھاس کاٹ کر ٹرالی پر رکھتا اور اُسے کھینچتا ہوا گھر کو چل پڑتا ۔ گیٹ پر فوجی میری تلاشی لیتا اور گھاس کو بھی اُوپر نیچے کر کے دیکھتا مگر ٹرالی کے متعلق کچھ نہ کہتا ۔ میں 12 ٹرالیاں لیجا کر بیچ چکا ہوں اب میں چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے خاندان کو پالوں گا ۔ میں ملازمت سے استعفٰے دے چکا ہوں ۔ آج میری ملازمت کا آخری دن تھا”۔
پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں رواج تھا کہ کوئی گڑبر ہو تو تفتیش فوج کی خفیہ ایجنسی کرتی ۔ مسئلہ حل نہ ہو تو سویلین افسروں کی کمیٹی بنا دی جاتی ۔ کوئی 40 سال پہلے بجلی کے بلب غائب ہونا شروع ہوگئے ۔ ایک ایسے سویلین افسر کو تفتیش پر لگا دیا گیا جس نے میرے ساتھ برطانیہ کا سکیورٹی کورس کیا تھا ۔ اتفاق سے فیکٹری کے ایک ورکر نے بلب اتارتے ہوئے چور کو پکڑ لیا ۔ اس نے چور سے کہا “ملازمت سے تو تم نکال دئیے جاؤ گے ۔ اگر تم مجھے یہ بتا دو کہ بلب گیٹ سے باہر کیسے لے کر جاتے تھے تو تمہارے خلاف اور کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی”۔ چور نے کہا “گیٹ پر تلاشی کا یہ طرقہ ہے کہ چھٹی کے بعد سب ورکر دونو ہاتھ سیدھے اُوپر اُٹھا کر قطار لگا لیتے ہیں اور فوجی ہر ایک کی جامہ تلاشی لیتا جاتا ہے اور کچھ نہ نکلنے پر اسے باہر جانے دیتا ہے ۔ بلب میرے ہاتھ میں ہوتا تھا ۔ میں دونوں ہاتھ اُوپر کر دیتا اور جامہ تلاشی کے بعد میں بلب سمیت باہر نکل جاتا”۔
جرمن مشین گن جو آجکل ہماری فوج کے استعمال میں ہے یہ اس سے پہلے استعمال ہونے والی مشین گن برَین [Bren] سے بالکل مختلف ہے ۔ جب فوج کو اس مشین گن کی پہلی کھیپ بھیجی گئی تو اس کے ساتھ 5000 آپریشنل و تربیّتی مینؤل [Operation and Training Manual] اور 5000 مینٹننس مینؤل [Maintenance Manual] بھیجے گئے اور لکھا گیا کہ ہر کمپنی کمانڈر کو ہر ایک کتاب کی کم از کم دو دو کاپیاں بھیجی جائیں ۔ اس سے ایک ڈیڑھ سال قبل جی ایچ کیو کو سلنگ [Sling] کے نمونے درآمد کر کے بھیجے گئے تھے اور بتایا گیا تھا کہ ایک سال کے اندر سلنگز بنوا لیں تاکہ جب مشین گنز تیار ہوں تو ان کے ساتھ بھیجی جا سکیں ۔ نئی مشین گنز کی کھیپ بھیجے جانے کے کچھ ماہ بعد میں کسی کام سے فیلڈ ایریا [Field Area] گیا ۔ وہاں کیا دیکھا کہ گنرز [Gunners] کو غلط تربیت دی جا رہی تھی اور مشین گن کے ساتھ انہوں نے ایک چھوٹی سلنگ میں وَیبنگ [Webbing] کا ٹکڑا لگا کر لمبی کی ہوئی تھی اور وُیبنگ کا پچھلا سِرا بَٹ [Butt] کے اوپر لپیٹا ہوا تھا ۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں دَنگ رہ گیا ۔ کمپنی کمانڈر جو کہ لیفٹننٹ کرنل تھے سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہیں کوئی کتاب نہیں بھیجھی گئی تھی اور مشین گنوں کے ساتھ اَینفِیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 [Enfield Rifle No.4 Mk 2] کی سلنگز بھیجھی گئی تھیں جن کی لمبائی بہت کم ہونے کی وجہ سے اُنہیں نے اِدھر اُدھر سے وَیبنگ لے کر اُنہیں لمبا کیا ۔ واپس آ کر میں نے پی او ایف کے چیئرمین صاحب کو تفصیل سے آگاہ کیا ۔ اگلے دن وہ مجھے ساتھ لے کر جی ایچ کیو گئے اور کافی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ کسی جنرل صاحب نے حُکم دیا تھا کہ کتابوں کا فیلڈ میں کیا کام چنانچہ جی ایچ کیو کی لائبریری میں 5000+5000 کتابیں رکھوا دی گئی تھیں ۔ سلنگ نئی بنوانے کی بجائے فوجی افسرانِ بالا نے یہ سوچ لیا تھا کہ سلنگ ہی ہے نا ۔ کسی سپلائر کے پاس اَینفِیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 جو کئی سال قبل بننا بند ہو چکی تھیں کی سلنگز پڑی تھیں وہ خرید کر نئی مشین گنوں کے ساتھ بھیج دی گئی تھیں ۔
یونہی تو ہمارہ ملک تباہ نہیں ہوا ۔ 60 میں سے پہلے 6 سال تو مہاجرین کی بحالی اور ملک کا انتظامی ناک نقشہ ٹھیک کرنے میں گذر گئے ۔ باقی 54 سالوں میں سے 32 سال 3 ماہ جرنیلوں نے حکومت کی ہے اور بقایا 21 سال 9 ماہ جرنیلوں نے سویلین حکمرانوں کی کمر پر ریشمی رومال میں چھپا کر پستول رکھے رکھا ۔
دین اور ریاست بحوالہ اسلام اور پاکستان
سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔
تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی جاننے والا حکمت والا ہے
میں نے اپنی ایک تحریر میں دین اور ریاست کے تعلق کے بارے لکھنے کا وعدہ کیا تھا جو اللہ کی مہربانی سے آج پورا ہونے جا رہا ہے ۔ چند سالوں سے کچھ لوگ غوغا کر رہے ہیں کہ دین ذاتی معاملہ ہے اور اس کا ریاست یا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجودہ حکومت اور ملک کے 70 فیصد ذرائع ابلاغ اِس نظریہ کو ہوا دے رہے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ دین ذاتی معاملہ ہے کسی کا دل چاہے اس پر چلے یا نہ چلے حکومت اس قضیئے میں نہیں پڑے گی ۔
حکومت بالخصوص جمہوری حکومت کا کام عوام کی بہتری اور انہیں انصاف ۔ خوراک ۔ پوشاک ۔ تعلیم و تر بیت ۔جان و مال کا تحفظ اور دوسری ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا ہوتا ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ سب عوامل بھی ذاتی معاملات ہیں کیونکہ ان کے عمل و حصول میں ہر فرد کی ذاتی خواہش اور ذاتی فیصلہ حاوی ہوتا ہے ۔ لیکن ان لئے حکومت قوانین وضع کرتی ہے ۔ اگر یہ قوانین دین کو نظرانداز کر کے بنائے جائیں تو وہ دین کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح حکومتی قانون لوگوں کے انفرادی ذاتی معاملہ یعنی دین اسلام پر عمل میں دخل اندازی کرے گا ۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کا قانون جمہور کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دے گا جو کہ جمہوری اصولوں کی نفی ہے ۔
میاں بیوی کے تعلقات سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کسی اور عمل کی نہیں ۔ اس کے بعد ذاتی معاملہ جائیداد ہوتی ہے ۔ وکلاء جانتے ہوں گے کہ سب سے زیادہ مقدمات میاں بیوی کے تعلقات اور جائیداد سے جنم لیتے ہیں ۔ تو پھر کیا ذاتی معاملات ہونے کی وجہ سے حکومت اس سلسلہ میں قوانین وضع نہیں کرے گی یا دین اسلام کے خلاف قوانین بنائے گی ؟ دوسری طرف دین جسے ذاتی معاملہ کہا جاتا ہے اس میں ان دونو معاملات کے سلسلہ میں واضح احکام موجود ہیں جو کہ قرآن شریف میں بڑی وضاحت کے ساتھ آئے ہیں اور مسلمانوں پر فرض ہیں ۔ مزید یہ کہ جمہوریت میں قوانین ملک کے تمام لوگوں کی سہولت کیلئے ہوتے ہیں مگر اکثریت کے خیالات و احساسات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں مسلمان بہت بھاری اکثریت میں ہیں ۔ چنانچہ متذکرہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے اگر غیراسلامی قوانین اپنائے جائیں تو یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہو گا ۔
دین اسلام زندگی گذارنے کا ایک جامع طریقہ ہے جو اس کائنات کے خالق و مالک نے ہمیں بتایا ہے ۔ اس میں ذاتی معاملات صرف وہ ہیں جن میں انسان کی وہ عبادت شامل ہے جس سے اللہ اور اسکی اپنی ذات کے سوا کسی اور کا تعلق نہ ہو ۔ باقی سب معاملات اجتماعی ہیں اور ان سب کیلئے احکام قرآن و سنّت میں موجود ہیں ۔ حکومت قانون سازی کی ذمہ دار ہے اور چونکہ ملک میں بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے اسلئے جمہوری اصولوں کے تحت آئین اور قوانین میں مسلمانوں کے دین کا عمل دخل ضروری ہے ۔
مزید یہ کہ پاکستان کے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین قرار دیا گیا ہے اسلئے ساری قانون سازی قرآن و حدیث کے مطابق جمہوری ۔ عوامی اور آئینی ضرورت ہے جو کہ آج تک نہیں کی گئی اور جنہوں نے اختیارات ہوتے ہوئے نہیں کی وہ نہ صرف اللہ کے بلکہ عوام کی اکثریت کے بھی مُجرم ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام رہبانیت سے روکتا ہے اور احسن طریقہ سے اجتماعی زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ۔ باجماعت نماز ۔ نمازِ جمعہ ۔ نمازِ عید اور حج میں جن اجتماعی روّیوں کی تربیت دی گئی ہے وہ کسی اور مذہب میں موجود نہیں ۔ چارلس اے کروہن جو یو ایس آرمی کے پبلک افیئرز کے ڈپٹی چیف [Deputy Chief of Public Affairs of the US Army] کی حثیت سے جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور اب امریکی جنگی یادگاروں کے پبلک افیئرز کے ڈپٹی ڈائریکٹر [Deputy Director, American Battle Monuments Commission] ہیں حج کی اجتماعیت کے فوائد سے متأثر ہو کر لکھتے ہیں
Muslims are obliged to make at least one trip to the holy city of Mecca during their lifetime. This pilgrimage is known as the hajj. It is mandatory for men, voluntary but encouraged for women. A basic dress code ensures that there’s no visible difference between rich and poor, weak and powerful. This simple requirement unites the faithful.
What if every American who is able to do so made an effort to visit at least one American military cemetery overseas during his or her lifetime? Americans visiting our overseas military cemeteries will find themselves enriched in ways I can only partially explain. At a minimum, the visit will prompt a renewed, and awesome, appreciation of those who sleep in the dust below.
The notion of an American hajj has loopholes, I know. But the thought of an activity or sacrifice that draws us together has merit, and we need this coming together now more than ever.
اگر دین کا معاملہ فرد پر چھوڑ دیا جائے اور دین پر عمل نہ کرنے والے کسی فرد یا گروہ کے دینی عمل میں حائل ہوں تو کس طرح اس فرد یا گروہ کو اپنا حق دلوایا جائے گا اگر قوانین غیر اسلامی ہوں گے ؟ خیال رہے کہ جمہور کے بنیادی حقوق کا تحفظ جمہوری حکومت کا اوّلین فرض ہے ۔
عملی طور پر انسان کے بنائے ہوئے ریاستی قوانین میں اجازت نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اجتماعی معاملات میں قانون پر عمل کرے اور ذاتی معاملات میں قانون کی خلاف ورزی کرے ۔ اسلئے اگر بالفرضِ محال دین کو ذاتی معاملہ کہہ دیا جائے تو کیا کسی شخص کو اجازت ہو گی کہ وہ دین پر عمل کرتے ہوئے حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کرے ؟ جبکہ کہ حکومتی قوانین میں دین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دین کو حکومت میں داخل کر دیا جائے تو جنرل پرویز مشرف اور بہت سی قباحتوں کے علاوہ سڑک پر سے گذرنے کیلئے ہزاروں لوگوں کا راستہ بند نہیں کروا سکیں گے جن میں سیکنڑوں مریض گھنٹوں تڑپتے ۔ ننھے بچے بِلکتے اور کئی بار شدید بیمار گھنٹوں محصور رہنے کی وجہ سے امبولینسوں میں مر چکے ہیں ۔ اور نہ ہی نام نہاد روشن خیالی کے پرستار عیاشیاں کر سکیں گے ۔ دین کو ریاست سے الگ کرنے کی وکالت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن شریف میں حکومتی امور کا کوئی ذکر نہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کیا لکھا ہے ۔
حاکم کی اطاعت
سورت ۔ 4 ۔ النساء ۔ آیت 59۔ اے ایمان والو ۔ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر یقین رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقۂ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔
حاکم کیلئے حُکم
دین کو ریاست سے الگ رکھنے کے حامی یہ تو مانتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اس کے حاکم بھی مسلمان ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ مسلمان حاکم کیلئے اللہ کا کیا حکم ہے ؟
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 165 ۔ اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں ۔ بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے
سورت ۔ 22 ۔ الحج ۔ آیت 41 ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحب اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے ۔ ادائے زکوٰت میں سرگرم رہیں گے ۔ نیکیوں کا حُکم دیں گے ۔ برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار خدا کے ہاتھ میں ہے ۔
سورت النساء میں صاحبِ امر یعنی حاکم کی اطاعت کا حُکم دیتے ہوئے ساتھ شرط لگا دی گئی ہے کہ حکمران سے اختلاف ہو جانے کی صورت میں وہ کرو جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حُکم دیا ہے ۔ اور سورت الحج میں مسلمانوں کے حکمران کے ذمہ کر دیا گیا کہ وہ نماز قائم کرے ۔ ادائے زکوٰت میں سرگرم رہے ۔ نیکیوں کا حُکم دے اور برائیوں سے روکے ۔ اگر دین کو ریاست سے الگ کر دیا جائے گا تو یہ سب کس طرح ممکن ہو گا ؟
انصاف ۔ اللہ کا حکم اور حکومت کا جمہوری فرض بھی
جمہوریت میں انصاف حکومت کا اہم ترین فرض ہوتا ہے ۔ نظامِ انصاف حکومت کے تین اہم ستونوں میں سے ایک ہے ۔ دیکھتے ہیں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اس سلسلہ میں کیا حُکم دیا ہے اور کیا اس پر عمل کرنا اور کروانا مسلمان حکمران کا فرض نہیں ؟
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ۔
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے ۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ۔
سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آیت 58 ۔ بیشک اللہ تمہیں حُکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو ۔ بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے ۔ بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آیت 135 ۔اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچدار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے
اسی طرح معیشت اور معاشرت کے متعلق واضح احکامات قرآن و سنّت میں موجود ہیں ۔ سب کے حوالے دینے سے مضمون بہت طویل ہو جائے گا ۔ ان سب کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا جائے ؟
وما علینا الالبلاغ