شاہ فیصل صاحب کی تحریر کے حوالے سے میں 29 نومبر کو کچھ لکھ چکا ہوں ۔ اب اصل موضوع یعنی “ہمارے اردگرد کا ماحول اور ہماری معاشرتی مجبوریاں” کی طرف آتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں میری مندرجہ ذیل تحاریر ممد ثابت ہو سکتی ہیں ۔
بتاریخ 11 جون 2005ء
بتاریخ 3 جولائی 2005ء
بتاریخ 15 جولائی 2005ء
مجھے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے پاکستان سے باہر کم از کم درجن ممالک میں جانے کا موقع فراہم کیا اور ان کے علاوہ دس دوسرے ملکوں کے باشندوں سے واسطہ پڑا ۔ میں جہاں کہیں گیا یا جن لوگوں سے ملا اولین ترجیح ان کے معاشرہ کے مطالعہ کو دی ۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے معاشرہ کی مثال شائد ہی دنیا میں کسی اور جگہ ہو ۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتی ہے اور حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتی ہے ۔ اپنی بہتری کیلئے محنت اور لگاتار کوشش کو اپنانے کی بجائے آسان اور بعض اوقات غیر قانونی یا غیر اخلاقی طریقے اپنانا عقلمندی یا بردباری گردانتی ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کچھ تو اس کا سبب ہونا چاہیئے ۔ میں نے اس جستجو میں سالہا سال مغز کھپائی کی مگر وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ اسلئے ہر قاری سے میری استدعا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے علم اور تجربہ سے میری رہنمائی کرے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ میں جس بنیاد پر مدد مانگ رہا ہوں اس کا خاکہ پیش کروں ۔
یہ جانتے ہوئے کہ شادی پر کئے جانے والی کئی رسمیں صرف سچی یا جھوٹی شان دکھانے کیلئے ہوتی ہیں لوگ ان رسموں کو نہ خود ختم کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو ختم کرنے دیتے ہیں ۔ ایک شادی کی تیاریوں میں صاحب خانہ نے مجھ سے مشورہ مانگا تو میں کہا کہ ٹھیک ہے سب کچھ ایک دم ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ شادی کے دن جو شو شا کرنا چاہتے ہیں کر لیں اور شادی کے پہلے اگر کچھ کرنا ضروری ہی سمجھتے ہیں تو آپ اور آپ کی بیوی کے بہن بھائی بچوں سمیت گھر کے اندر موج میلہ کر لیں اور ایک وقت میں صرف ایک کھانا پکوالیں ۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے ۔ کہنے لگے کہ عزیز و اقارب مانتے نہیں ۔ کہتے ہیں سب ٹھیک ہے مگر رہنا تو اس دنیا میں ہے ۔
اب تو کسی کے مرنے پر بھی رسومات کے حوالے سے شادی کا سا شک ہونے لگا ہے ۔ ایک صاحب فوت ہو گئے ۔ ان کی سب اولاد باعمل مسلمان کہلاتی ہے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ قُل ۔ جمعراتیں اور چالیسواں کرنے کیلئے رشتہ داروں کو بلانا ٹھیک نہیں ۔ اس سے بہتر ہے کہ غریب بچوں کی تعلیم کا خرچ یا کسی لاچار خاندان کا نان و نفقہ والد صاحب کے ترکہ سے حاصل ہونے والے منافع سے ادا کرتے رہیں گے ۔ جواب ملا لوگ کیا کہیں گے ۔ ہمارے والد غریب تو نہیں تھے ۔ جائیداد چھوڑ کر مرے ہیں تو ہم ان کیلئے اتنا بھی نہ کریں اور سب کچھ کیا گیا ۔
جھوٹ بولنا عیب نہیں سمجھا جاتا اور کئی لوگ تو جھوٹ کو بُردباری کا نام دیتے ہیں ۔ مزید کوئی بات یا واقعہ خود سے تصنیف کر کے دوسرے کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ۔ سچ بولنے والے کو ناتجربہ کار ۔ بیوقوف یا اُجڈ سمجھا جاتا ہے ۔ میں خود کئی بار بیوقوف کا خطاب حاصل کر چکا ہوں ۔ میرے سامنے ایک خاتون نے دوسری سے کچھ پوچھا تو اس نے سچ بول دیا جو اُس کے اپنے ہی خلاف جاتا تھا ۔ جب وہ چلی گئی تو پوچھنے والی خاتون بڑبڑائی “ایسا بھی کیا سچ بولنا جس سے اپنا ہی نقصان ہو”۔
دو تین ساتھی بیٹھے ہیں اور کسی غیر حاضر ساتھی کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے یا اس کی برائیاں بیان کی جا رہی ہیں ۔ اتفاق سے وہ آ جاتا ہے اور پہلے والوں میں سے ایک چلا جاتا ہے تو اب جانے والے کی باتوں کا مذاق اُڑانا یا اس کی برائی کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ دفتر میں کام کرتے ہوں تو باس کے سامنے اس کے سب سے زیادہ تابعدار بن جانا اور اور باس کی عدم موجودگی میں اس کی برائیاں کرنا حتٰی کہ گالیوں سے نوازنا ۔ دوسرے کی بات کا منفی یا اپنی مرضی کے مطابق مطلب نکالا جاتا ہے ۔
چھوٹا بچہ ناسمجھ ہوتا ہے ۔ اس کے سامنے کسی نے گالی دی ۔ وہ سیکھ رہا ہے اس نے گالی بھی سیکھ لی ۔ جب وہ دہراتا ہے تو اس پر قہقہے لگائے جاتے ہیں ۔ بچہ سمجھتا ہے کہ اس بات پر سب خوش ہوتے ہیں سو وہ بار بار گالی دہراتا ہے ۔ یہی بچہ جب بڑا ہو کر بہن بھائیوں یا ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو غضب کا شکار ہوتا ہے ۔ مگر پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔
صاحبِ خانہ سے کوئی ملنے آتا ہے اور وہ ملنا نہیں چاہتے ۔ اپنے بچے کو کہتے ہیں کہ جا کرکہہ دو کہ ابا ۔ بابا یا ڈیڈی یا ابو گھر میں نہیں ہیں ۔ یہ بچہ بڑا ہو کر جھوٹ بولتا ہے تو والدین سیخ پا ہوتے ہیں مگر کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا ۔
سولہ سترہ سالہ بیٹا کسی لڑکی کی چھیڑ چھاڑ کر آتا ہے گھر میں شکائت آتی ہے ۔ شکائت کرنے والے کی بے عزتی کی جاتی ہے ۔ جب اسی بچے کی عادات کی وجہ سے والدین پر آفت پڑتی ہے تو کہتے ہیں “کسی نے دشمنی لی یا اللہ کی یہی مرضی تھی”۔ کیا اللہ نے انہیں بچے کی صحیح تربیت سے منع کیا تھا ؟
ہر عمل یا بات میں صرف اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور یہ جانتے ہوئے کہ دوسرا سچا ہے اسے غلط قرار دینا ۔ مزید دوسرے کے مال پر ہوشیاری یا ہیرا پھیری سے قبضہ کرنا اپنی بہادری یا عقلمندی سمجھنا ۔
دوسرے کی تکلیف کو تکلیف نہ سمجھنا اور اپنا رونا ہر حال میں روتے رہنا ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی بیمار عورت کی مزاج پُرسی کیلئے آئی عورتیں بیمار کی کم سُنتی ہیں اور اچھی خاصی صحتمند ہوتے ہوئے اپنی درجن بھر بیماریاں گِنوا دیتی ہیں ۔
اپنے دیس کی بنی مصنوعات پر غیر ملکی مصنوعات کو اور اپنے ہموطنوں پر غیرملکیوں کو ترجیح دینا خواہ اپنی مصنوعات اور اپنے ہموطن غیرملکیوں سے بہتر ہوں ۔ غیرملکی مصنوعات کھا کر یا پہن کر یا گھر میں رکھ کر اس پر فخر کرنا ۔
اپنے آپ کو پکے مسلمان کہتے ہوئے ٹی وی اور مووی فلموں میں سے فیشنوں کو اپنانا جو عام طور پر عُریاں ہوتے ہیں ۔ اگر اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے “کیا کریں ۔ ماحول کے مطابق چلنا پڑتا ہے”۔ یہ ماحول بناتا کون ہے ؟
کبھی مجبوری کے تحت یا کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے میکڈانلڈ ۔ کے ایف سی ۔ ہوٹل یا ریستوراں سے کچھ کھا لینے میں تو کوئی ہرج نہیں لیکن اکثریت صرف اپنی بڑائی جتانے کیلئے ایسا کرتی ہے اور بہانے بہانے سے گفتگو میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ آج سے 20 سال قبل گھر کا پکا نہ کھانے والے کو گنوار سمجھا جاتا تھا ۔ اب اسے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ ان لوگوں نے کبھی سوچا کہ ہمارے ملک میں کم از کم چوتھائی لوگ ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی میسّر نہیں ہے ؟
آخر ہماری قوم کو کب سمجھ آئے گی ؟ کیا طالبان ان سب خرابیوں کا ردِعمل نہیں ہیں ؟
قیام پاکستان کے بعد “قوم بنانے کا عمل” پر کسی نے کام نہیں کیا۔
اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کا کردار بہت مرکزی ہے۔ ذرائع ابلاغ والوں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے قوم کی تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دینا چاہیے۔
الف نظامی صاحب
میں آپ سے متفق ہوں ۔ یہ بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔
بر صغیر کا ماحول ہر مذہب کے ماننے والوں کی شامل کرکے ذات پات کے ایک مکروہ نظام میں جکڑا ہوا ہے جہاں ہر عمل اور ہر بات صرف اپنی یا اپنی ذات کی بڑائی دکھانے کے لیے کی جاتی ہے۔۔ جیسا کے آپ نے فرمایا کے آپ کئی ملکوں اور شہروں کی سیاحت کرچکے ہیں تو آپ نے لازمی یہ مشاہدہ کیا ہوگا کے بہت سی ایسی اشیا جیسے گھر، گاڑی، موبائل فون عام طور پر ششکے مارنے کے کام نہیںآتے۔۔ نہ ہی انکی وجہ سے کسی کی عزت ہوتی ہے ۔۔ نیویارک ، لندن اور پیرس میں تو آپ اچھے خاصے لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹمیںسفر کرتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ اسی وجہ سے وہ جراثیم موجود ہونے کے باوجود جڑ نہیں پڑسکتے۔۔ جبکہ بر صغیر اور مڈل ایسٹمیں نہ صرف یہ کہ یہ سلسہ خوب پھل پھول رہا ہے بلکہ ابھی کل ہی بی بی سی پر خبر لگی کے بھارت میں ہیلی کاپٹر میں بارات لے کر جائی جارہی ہے۔۔ یہ سلسہ تبھی تھمے گا جب ہم “تقوی” کے عزت کا میعار بنائیں جیسا کے رسول اللہ کا فرمان ہے۔۔ اور یہی ہر مذہب اور سوسائٹی کے لیے قابل عمل بھی
راشد کامران صاحب
ماشاء اللہ آپ نے بڑی پتے کی بات کی ہے ۔ بلاشبہ تمام انسان برابر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی تقوٰی کی وجہ سے اعلٰی مرتبہ رکھتا ہو ۔ میرا خیال ہے اب مجھے یہ بھی لکھنا ہو گا کہ تقوٰی ہوتا کیا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری مدد فرمائے ۔
السلام علیکم
واقعی اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ان مثالوں کے تمام کردار ہمارے درمیان موجود ہیں۔۔ کہیں نہ کہیں ہم خود ان معاشرتی رویوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔۔۔ ہمارے ایک جاننے والے انکل کے چہلم پر ان کے بیٹوں نے باقاعدہ کارڈز چھپوائے تھے اور شہر کے تمام کرتا دھرتا لوگوں کو بلایا تھا۔۔ اور پھر ظاہر ہے باقی انتظام بھی ایسا ہی تھا جیسے لوگ شادیوں پر کرتے ہیں۔۔۔
جھوٹ، دھوکہ، غیبت، حق تلفی اب ہمارے معاشرے میں جیسے سرایت کر چکے ہیں۔۔ مجھےتو ان سارے مسائل کی جڑ ذرائع ابلاغ لگتے ہیں۔۔ خصوصاً ٹیلیویژن۔۔۔۔اخلاقی قدروں کو تباہ کرنے میں میڈیا کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔۔۔
مصنف ِدریچہ صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
آپ نے بالکل درست کہا ۔ ہمارا معاشرہ جہنمی بن چکا ہے ۔ قہر اسلئے نازل نہیں ہوتا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کے گناہوں کی سزا روزِ قیامت دی جائے گی ۔ البتہ سرزنش ہوتی رہتی ہے جسے لوگ اپنی نااہلی کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے ۔ یہ زلزلے ۔ سونامی ۔ مہنگائی ۔ قتل و غارت میرے خیال کے مطابق سب کچھ اللہ کے قہر کی نشانیاں ہیں ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » تمام انسان برابر ہیں سوائے ۔ ۔ ۔