Monthly Archives: November 2007
احتجاج ۔ مزید تصاویر ۔ 1
نگران حکومت کا پہلا کارنامہ
آج کراچی پریس کے سامنے میڈیا پر پابندی اور آزادی صحافت کی بحالی کیلئے صحافی احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے جس میں میڈیا سے وابستہ افرادبڑی تعداد شریک تھے ۔ میڈیا کے نمائندے حکام سے بات چیت کے لیے گورنر ہاؤس جا رہے تھے کہ پولیس نے انہیں روکا اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے پریس کلب میں گھس گئی،پولیس نے 3 بجکر 45 منٹ پر صحافیوں پر لاٹھی چارج شروع کر دیاجس سے کئی صحافی زخمی ہوئے اور ان کے سرپھٹ گئے۔پولیس صحافیوں سمیت 150 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں کراچی پریس کلب کے صدر صبیح الدین غوثی ،سیکریٹری امتیاز فاران ،کے یو جے کے صدر شمیم الرحمان ،خازن عامر لطیف سمیت کئی رہنماء شامل ہیں۔ پولیس نے خواتین صحافیوں پر بھی لاٹھی چارج کیا اور انہیں ہراساں کیا۔صحافیوں نے پولیس تشدد اورگرفتاریوں کے خلاف دھرنا دیا اور اجتماعی گرفتاری دینے کا اعلان کیا۔کئی زخمی صحافیوں کو طبی امداد کے لیے اسپتال پہنچایا گیا ہے جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے ۔ صحافی برادری نے پولیس کی اس کارروائی کی سخت مذمت کی ہے اور اجتماعی گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا ہے اور اس شرمناک کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کی
گئی ہے ۔ دوسری جانب جیو کے کراچی آفس کے باہر پولیس اور رینجرز کی مزید نفری تعینات کردی گئی ہے۔ جیو نیوز کے کارکنوں کی گرفتاری کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے ۔
گذارش ۔ امریکہ ۔ پرویز مشرف ۔ بینظیر
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ڈانا پرینو نے کہا ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے صدر مشرف کو ’صاف اور سیدھا‘ پیغام پہنچایا ہے اور دیکھنا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ڈپلومیسی کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے اس لیے ہم نے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ صدر مشرف نے دو ہفتے قبل لگائی جانے والی ایمرجنسی ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’مشرف نے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے، جو ایک اچھی بات ہے اور وہ وردی بھی اتار دیں گے یہ بھی پاکستانی عوام کے لیے ایک اچھی بات ہے‘۔
ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا صدر بش نے ایمر جنسی ختم کرنے کے لیے کوئی وقت دیا ہے؟ اور اگر دیا ہے اور اس وقت تک ایمرجنسی نہیں اٹھائی گئی تو کیا کوئی کارروائی کی جائے گی؟ تو ترجمان کا جواب تھا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور صدر بش صرف گزارش ہی کر سکتے ہیں۔
برجیش اوپادھیائے کا کہنا ہے کہ حکومت میں تھنک ٹینک کے لوگوں اور حکومتی اہلکاروں کی بات چیت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں مشرف بھی ہوں اور بینظیر بھی ہوں اور صدر مشرف ایک جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان ایل پُل کا کام کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر انہوں نے اس وقت مشرف کے خلاف کڑے قدم اٹھائے اور مشرف ان کے نتیجے میں بھی نہیں ہٹے چاہے یہ عرصہ چھ ماہ ہی کا کیوں نہ ہو تو کیا ہو گا۔
’امریکہ کو ابھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اور افغانستان میں اپنی فوج کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں فوج کے لیے تمام سامانِ رسد اور دوسرا ساز و سامان، ایندھن وغیرہ کراچی سے ہو کر جاتا ہےاور یہ فوج کی منظوری ہی سے ممکن ہے‘۔ ایسے حالات میں امریکہ مشرف سے الگ نہیں ہونا چاہتا۔
اوپدھیائے کے مطابق امریکہ کو ابھی بھی بینظیر اور مشرف کے درمیان مفاہمت کی امید ہے اوت اسی لیے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ڈپلومیسی کے نتائج فوری نہیں آتے۔
بلا تبصرہ
مقرر کی داڑھی پر نظر نہ ڈالئے
پرویز مشرف کی سپریم کورٹ کا پہلا معرکہ
نئے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کی فُل کورٹ نے صدر جنرل پرویز مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر تین درخواستوں کو خارج کردیا ہے جبکہ مخدوم امین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔ عدالت نے صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین، پمز ہسپتال کے ڈاکٹر انوارالحق اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کی درخواستوں کو درخواست گزاروں کی عدم پیروی کی وجہ سے خارج کیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم نے صدر مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر درخواست بھی واپس لے لی ہے۔
[پرویز مشرف کی] سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے جب پیر کو سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ایم ایس خٹک درخواست گزار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ درخواست گزار کے وکیل اس کیس کی سماعت کے لئے عدالت میں حاضر نہیں ہوئے اور نہ ہی اس ضمن میں انہیں درخواست گزار کی طرف سے کوئی ہدایات ملی ہیں۔ [جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین صاحب کے تمام وکلاء3 نومبر کو مارشل لاء لگنے کے وقت سے قید کر دئے گئے ہیں] ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمد اکرم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پمز ہسپتال کے ڈاکٹر انوارالحق کے وکیل اے کے ڈوگر اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کے وکیل بیرسٹر فاروق حسن بھی ان درحواستوں کی سماعت کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں اس ضمن میں کوئی ہدایات وصول ہوئی ہیں جس پر عدالت نے یہ درخواستیں خارج کردیں۔
واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ان کے کاغذات نامزدگی منظور کئے جانے کے خلاف صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم کی طرف سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان درخواستوں کی سماعت کے لئے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک نو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ اُس وقت اس بینچ میں شامل جسٹس سردار رضا محمد خان نے بینچ میں بیٹھنے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ صدر کے دو عہدے رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر ہونے والے فیصلے میں اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں اس لئے وہ اس بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے بعد اس بینچ نے 5 اکتوبر کو ان درخواستوں کی سماعت پر یہ حکم جاری کیا تھا کہ 6 اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے عمل کو جاری رکھا جائے تاہم عدالت نےچیف الیکشن کمشنر کو حکم دیا کہ وہ ان درخواستوں کے فیصلے تک کامیاب ہونے والے امیداوار کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔
درخواستوں کی سماعت 2 نومبر تک جاری رہی اور سماعت کے دوران صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کے وکیل اعتزاز احسن نے اس بینچ کے سامنے یکم نومبر کو درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اور جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی لی جائے کہ وہ سماعت کے دوران اس بینچ میں کوئی ردوبدل نہیں کریں گے اور نہ ہی ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لاء لگائیں گے۔ اس درخواست پر برطرف کئے جانے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 3 نومبر کو ایک عبوری حکم جاری کیا تھا جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ ان درخواستوں کی سماعت تک ملک میں ایمرجنسی نہیں لگائے گی۔ لیکن 3 نومبر کی رات کو ملک میں ایمرجنسی [مارشل لاء] کے نفاذ کے بعد آئین معطل کردیا گیااور پی سی اور کے تحت حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
بشکریہ ۔ بی بی سی اُردو