“میڈیا کو آزادی میں نے دی”

کیا جنرل پرویز مشرف کا یہ دعوٰی سچ پر مبنی ہے کہ “میڈیا کو آزادی میں نے دی”؟ ملاحظہ کیجئے ایک رپورٹ

ٹی وی چینلز پر مارچ کے اوائل میں چیف جسٹس کی معطلی کے بعد سے شروع ہونے والے عدالتی بحران کے وقت سے سخت دباؤ تھا۔ حکومت نے پہلے بعض مقبول پروگراموں کو بند کرنے کیلئے کہا لیکن اس مطالبے کی وہ کوئی ٹھوس وجہ نہ بتا سکی۔پھر پر ائیویٹ ٹی وی چینلز کو اسٹوڈیوز کے باہر پروگرام فلمانے اور براہ راست ٹیلی کاسٹ پر پابندی عائد کر دی ، میڈیا ورکرز نے اس پر احتجا ج کیا اور حکومت کو میڈیا ورکرز کے مطالبات ماننے پڑے۔ ان شوز کو چلنے کی اجازت دی گئی لیکن لائیو کوریج [coverage] بند کر دی گئی۔

دریں اثناء، حکومت نے اپنا دباؤ برقرر رکھا اور ٹی وی چینلز کے ریونیو کے ذرائع کو ہدف بنا لیا گیا۔ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اشتہارات بند کر دیئے گئے اور دیگر اشہتار کنندگان پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جیو چینل کے ساتھ کاروبار نہ کریں۔ ٹی وی چینلز نے اس تمام دباؤ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور بڑے نقصانات برداشت کئے۔ دوسرا مارشل لاء لگانے کے بعد پرویز مشرف نے ان ٹی وی چینلز کو فتح کر لیا جن کی نشریات پاکستان سے ایئر کی جاتی ہیں ۔ دوسری جانب حکومت نے عالمی اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس ملک کے حکام پر اپنا دباؤ بڑھا دیا جہاں سے کچھ ٹی وی چینلز اپنے پروگرام کو ایئر کر رہے تھے۔

ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ ایمرجنسی کے شکنجے کے بعد جنرل پرویز کی حکومت نے میڈیا کو انتظامیہ کی کمانڈ میں اپنے آپ کو ریگولیٹ کرنے کیلئے دباؤ بڑھا دیا اور ایک ایسے آرڈیننس کے ذریعے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیاہے جو کہ میڈیا پر ایسی پابندیاں عائد کر تا ہے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عملی طور پر اس آرڈیننس کی رو سے ملک میں آزادانہ صحافت ناممکن کر دی گئی ہے ۔ ایک ایسا نام نہاد ضابط اخلاق میڈیا پر لاگو کر دیا گیا ہے جسکی تیاری میں صحافتی برادری سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ۔ نجی چینلوں سے کہا گیا کہ وہ ایک حلف نامے پر دستخط کریں جو کہ چینلوں کو متعلقہ حکام کا فرمانبردار بنا کر رکھ دیگا۔ یہ تمام عمل نجی چینلوں کو معطل کرنے کے بعد کیا گیا اور چینلوں کی انتظامیہ سے کہا گیا کہ وہ حکومت کی شرائط کو مان کر حلف نامے کی ایک ایسی دستاویز پر دستخط کریں اور انہیں اپنی نشریات شروع کرنے کیلئے ایک عبوری اجازت نامہ جاری کیا جائیگا۔ جبکہ پرانے اجازت نامے بھی اسی حکم نامے کے ذریعے منسوخ کر دیئے گئے۔

ذرائع نے کہا کہ جنرل پرویز کی حکومت نے چینلز کی اتھارٹیز کو حالات حاضرہ کے وہ پروگرام بند کرنے کیلئے کہا جو کہ اس کیلئے ناقابل قبول تھے۔ وہ چینلزجنہوں نے دستاویز پردستخط کردیے انہیں کیبل پربحال کردیاگیا کچھ چینلز نے حکومت کا مشورہ تسلیم کرلیا جبکہ دیگر نے انکار کردیا۔ اے آر وائی اور جیو نے حکومت کی اس خواہش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس میں حکومت نے چینلز کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ چینلز عبوری حکومت سے ان معاملات میں تعاون کریں جن کے بارے میں انہیں نشاندہی کی جائے۔گورنمنٹ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ٹی وی چینلز حالات حاضرہ حاضرہ کے پروگرام بند کردیں اور حکومت کیلئے مختلف اہم معاملات پر سرکاری موقف اختیار کریں۔

چینل سے مزید یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے مختلف پروگراموں کی مانیٹرنگ کیلئے تیار رہے کیونکہ وہ پروگرام جو حکومت کو قابلِ قبول نہیں ہونگے نشر نہیں کیے جائینگے ۔ ملک کے کچھ حصوں میں ڈش انٹینا اور انٹرنیٹ کے ذریعے یہ ٹی وی چینلز دیکھے جارہے تھے ۔ پہلے حکومت کے تیکنیکی ماہرین نے نیٹ کے ذریعے یہ ٹی وی چینلز دیکھنے میں پیچیدگیاں پیدا کیں اور اس کے بعد ڈش انٹینا اور اس سے متعلق آلات کی درآمد پر پابندی عائد کردی گئی۔

اور بالآخر ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے یو اے ای سے آپریٹ [operate] کرنے والے ٹی وی چینل بند کروا دیئے گئے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

7 thoughts on ““میڈیا کو آزادی میں نے دی”

  1. روسی شہری

    مظلوم صرف لکھ سکتا ہے ۔اس طرح دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے۔۔۔۔اس قوم کے ساتھ یہی ہو نا چاہہے ۔۔۔مجھے خوشی ہوئی ۔۔اب لو گ خبروں‌سےمحروم ہو گے ۔۔۔عیا ش طبقہ کہتا ہے کے طالبا ن ظالم ہے ۔۔۔۔لیکن یہ کرایہ کے ٹٹو ۔۔۔۔۔پیسہ دو کام کراوا لو۔۔۔ پیسہ پر تو پاکستا نی اپنی ماں‌کو فروخت کر دے(غصہ تو نہیں‌ایا :evil: یہ با ت میں‌ نییں‌ ایک امریکی وکیل نے 1998 میں‌ کہی تھی( ہما رے چنے ہوئے ہو ئے کتے ہمیں ہی کاٹتے ہے ۔۔۔ہما رے ٹکڑوں‌پر پلنے والے پلے ہمیں‌ ہی کاٹنے کو دوڑاتے ہے ۔۔۔

  2. روسی شہری

    برا ہ مہربا نی imageshack,us پر پکیجر مت اپلوڈ کر ے۔۔۔ یہ ایک گٹیھا سروس ہے بلکل مشرف کی طرح۔۔۔۔ میری نصیحت تب اثر کر ے گی جب سائیٹ پر پیلے ڈاڈو نظر آئے گے۔۔۔tinypic.com یا کوئی اور سروس استمعال کرے۔

  3. اجمل Post author

    روسی شہری صاحب
    آپ کے مشورہ سے پہلے ہی میں فوٹو بکٹ کا استعمال شروع کر چکا ہوں ۔ ٹائینی پک بھی پہلے سے بک مارک کیا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی اور سائٹس پر رجسٹر کیا ہوا ہے ۔ بہرحال مشورہ کا شکریہ ۔

  4. امید

    جی یہ وہی میڈیا ہے جسے آپ نے آذاد کیا

    آور

    یہ وہی میڈیا ہے جس پر آپ نے ڈھیر ساری پابندیاں لگائیں

  5. اجمل Post author

    اُمید صاحب
    میں آپ کی تحریر میں معمولی تبدیلی کر رہا ہوں تا کہ بات صحیح سمجھ میں آ سکے ۔
    جی یہ وہی میڈیا ہے جسے آپ نے مادر پدر آزاد کیا
    اور
    یہ وہی میڈیا ہے جس کے سچ بولنے پر آپ نے ڈھیر ساری پابندیاں لگائیں

  6. منان

    کیا میڈٰیا اور پاکستان پر کوی اچھی تحریر ہے جو پچھلے پانچ سال کی تاریخ‌ کا جایزہ دے سکے؟

  7. اجمل Post author

    منّان صاحب
    کوئی سیر حاصل رپورٹ میرے علم میں نہیں ہے ۔ تلاش کی کوشش انشاء اللہ کروں گا ۔ پریس پر دباؤ ہر فوجی آمر کا پہلا ہتھیار ہوتا ہے اور پچھلے 8 سال میں اسے خوب استعمال کیا گیا ۔ اخبار نوائے وقت بہت زیادہ سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ آن لائین نوائے وقت کم از کم 3 بار کئی کئی ماہ کیلئے بلاک کیا گیا ۔ دیگر اخبارات میں سے جس نے بھی حقائق لکھے اسے سختی برداشت کرنا پڑی ۔ جنگ گروپ جو جیو ٹی وی کے بھی مالک ہیں روشن خیالی کے نام پر فحاشی پھیلاتا رہا اور پرویزی حکومت کا پسندیدہ رہا ۔ اس سال کی ابتدا سے اللہ کا خوف جنگ گروپ کے چند مبصرین کے دل میں پیدا ہوا ۔ سچ کا پہلا شکار عامر لیاقت ہوا ۔ آج ٹی وی شروع دن سے سچ بیان کرتا رہا ۔ جوں جوں ظلم بڑھتا گیا سچ بیان کرنے میں تیزی آتی گئی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.