آج ہم اپنے ضمیر کی کی فرمائش پہ چند دیگر ادا روں کا ذکر کریں گے ۔ چونکہ ہمارے ہاں کرپشن میں بڑی یونٹی پائی جاتی ہے چنانچہ آپ کو یوں لگے گا جیسے یہ سارے واقعات آپ کے شہرکے ہی ہیں۔
انکل سرگم کے مطابق اسلام آباد ایک عجیب و غریب شہر ہے ۔ اس میں عجیب لوگ وہ ہیں جوسرکاری بنگلوں کے اند رہتے ہیں اور غریب وہ ہیں جو ان بنگلوں کے باہر رہ کر ان کی چوکیداری کرتے ہیں۔اس شہر میں کوئی کلچر نہیں دکھائی دیتاالبتہ ہارٹی کلچر ہر طرف نظر آتا ہے۔شہر میں کوئی سینما ہال نہیں لہذا لوگ تفریح کیلئے اسمبلی ہال چلے جاتے ہیں۔ شہر میں شاہی افسروں کی ریل پیل توہے مگر ریلوے اسٹیشن کوئی نہیں۔ سیاسی اڈے تو ہیں مگر بسوں اور ہوائی جہاز کا کوئی اڈہ نہیں۔ یہاں نہ رکشہ ہے نہ تانگہ ہے نہ احتجاج ہے نہ ہنگامہ ہے۔
اسلام آباد کی بولی: چونکہ اسلام آباد میں پاکستان کے مختلف شہروں کے لوگ آباد ہیں چنانچہ ا اس شہر کی اپنی کوئی بولی نہیں، ہر کوئی دوسرے کی بولی ہی بولتاہے جس میں حاکم وقت کی بولی بولنا یہاں کے لوگ اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ الیکشن میں اسلام آباد ایک سیاسی منڈی بن جاتا ہے ،جہاں دوسرے علاقوں سے آنے والے سیاسی تاجر جمع ہو کر سیاسی گھوڑوں کی خریداری پہ اپنی اپنی بولیاں لگاتے ہیں اوراونچی بولی لگانے والے کمزور کی بولتی بندکروادیتے ہیں۔بقول انکل سرگم، اسلام آباد میں زیادہ تر حاکم وقت کی بولی کا بول بالا رہتا ہے یعنی جو حاکم وقت“ بولتا ہے وہ ”وقت کا حکم“ بن جاتا ہے۔ دیگرمسلوں کی طرح پاکستانی تماش بین بولی کے مسئلے پہ بھی یک زباں نہیں ہوسکے۔ یہاں عوام گھر میں مادری بولی بولتے ہیں، دفتری زبان انگلش ہے، قومی زبان اردو ہے، مذہبی زبان عربی ہے اور ترانہ فارسی
زبان میں ہے۔
اسلام آباد کے بازار: سرگم کے ذاتی مشاہدے کے مطابق کراچی بیداروں کا شہر ہے، لاہور بازاروں کا اور اسلام آباد بے زاروں کا شہرکہلاتا ہے۔ یہاں بہت عرصہ پہلے والیٴ شہر یعنی چیئر مین سی ڈی اے نے ایک اتوار بازار لگوایا تھا۔ بعد میں آنے والی حکومتیں بازار میں اضافہ تو نہ کر سکیں البتہ انہوں نے دنوں میں اضافہ کیا چنانچہ اب ہفتے میں تین دن بازار گرم رہتا ہے۔ ان بازاروں کا فائدہ اُن دوکانداروں کو ہوتا ہے جنکی سبزی شہروں میں نہیں بکتی اور نقصان اُن سرکاری اداروں کو ہوتاہے جن کے افسران کی بیگمات سرکاری گاڑیوں میں سرکاری پٹرول پہ ”اتوار بازاریاں“ کرتی ہیں۔ اس بازاری لوٹ مار میں سی ڈی اے کے تنخواہ دار ملازم بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بازار سی ڈی اے کے ملازمین کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ ان ملازمین کی مٹھی گرم کرنے سے اُنکی دکھاوے کی سختی اور کنٹرول کو نرمی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں مہنگائی کے مارے لوگ ہفتے بھر کی سبزی سستی سمجھ کر خریدتے ہیں اور پھر ہفتہ بھرباسی سبزی کھاتے رہتے ہیں۔ بقول سرگم ، اسلام آباد کے بازار اتنے حسین ہیں کہ یہاں کا ہر بازار ”بازار حُسن“ لگتا ہے۔
اسلام آباد کے ہسپتال: اسلام آباد میں چند سرکاری اور کئی بیوپاری ہسپتال ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں دعائیں کام آتی ہیں اور بیوپاری یعنی پرائیویٹ ہسپتالوں میں دوائیں۔سرکاری ہسپتال کو چند من چلے اور من جلے ’سرکاری ہنس کے ٹال‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اگر مریض چھوٹے گریڈ کا ہو تو اُسے ”ہنس کے ٹال“ دیا جاتا ہے جبکہ اونچے گریڈ کے اشرف المخلوقات کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں عام مریض کا داخلہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی سکول میں۔ بونگا اس بات پہ حیران ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں ”مینٹل ہاسپٹل“ کوئی نہیں ہے۔ انکل سرگم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے شہری مہنگائی سے اسقدر بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں نہ تو کسی حادثے سے صدمہ پہنچتا ہے اور نہ ہی کسی بات پہ خوشی محسوس ہوتی ہے لہذا جب انکے پاگل ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تو پھرپاگل خانے کی کیا ضرورت؟ سرکاری ہسپتال میں مریض ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر چھٹی ہونے کا۔کچھ دانشمند ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں مریض کو ”چیک“ کرتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ کلینک میں اُسے ”کیش“ کرجاتے ہیں۔ اس ”چیک اور کیش“ میں ڈاکٹروں کا کوئی قصور نہیں۔ ڈاکٹروں کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ اگر کوئی سولہ گریڈ کا ملازم ڈاکٹر کی تنخواہ سنے تو وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجائے۔ ان سرکاری ہسپتالوں کی ایمبولینس کی حالت کسی چھوٹے گریڈ کے مریض کی حالت جیسی ہوتی ہے جو اپنی تنخواہ رگڑ رگڑ کے چلتی ہے۔ ایمبولینس چونکہ اسلام آباد کی سڑکوں پہ کم ہی دوڑتی نظر آتی ہے اسلئے غیر ملکیوں کو یہی لگتا ہے کہ ”بیمار کا حال اچھا ہے“۔ ان ہسپتالوں میں ”بخشیش“ کا زبانی قانون نافذ ہے جس پہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔خاکروب سے لیکر ایکسرے اور ٹیسٹ لیبارٹریوں تک بغیر بخشیش کے کام نہیں چلتا البتہ مریض چل دیتا ہے۔ بقول سرگم ، اگر اسلام آباد کے ہسپتالوں کی دن بھر کی بخشیش کو ہسپتال کے فنڈ میں جمع کرادیا جائے تو اس سے ہسپتال اور مریض دونوں اپنے پیروں پہ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ان سرکاری ہسپتالوں میں عوام اپناسب کچھ لگاکرآتے ہیں اور اپنا سب کچھ گنوا کر جاتے ہیں۔ ا ن ہسپتالوں کے بارے میں یہ شعر مناسبت رکھتا ہے کہ “جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا، دو گز کفن کا ٹکڑا تیر ا لباس ہوگا”۔
اسلام آباد کے تہوار: اسلام آباد میں چونکہ ابھی اپنا کوئی تہوار نہیں بنا اسلئے یہاں کے لوگ تہوار منانے اپنے آبائی شہروں کو چلے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ دوسرے ملکوں کے تہوار بڑ ے انہماک سے مناتے ہیں۔ چنانچہ مدر ڈے، فادر ڈے، گرینڈ فادر ڈے اور ویلن ٹائن ڈے، کرسمس نائٹ اور نیوٴ ایر نائٹ انکے پسندیدہ تہوار کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بڑے بڑے لوگ غیر اسلامی ملکوں کی ایمبیسوں کے خاص تہواروں اور خاص دنوں میں بھی بڑے شوق سے جاتے ہیں جہاں ٹیشو پیپر میں ڈھکے ہوئے گلاسوں میں ”مشروب ِ مغرب“پیتے ہیں جسکے اثر سے ہونے والی گفتگو کو غیر ملکی انجائے [enjoy] کرتے ہیں۔ مذہبی تہواروں میں بری امام اور گولڑہ شریف کے عرس بھی بڑے شوق و عقیدت سے منائے جاتے ہیں، جن میں غریب نوجوان نواح میں ہونے والے ڈانس، جوئے ا اور نشے سے اپنا ”شو ق او ر عقیدت“ پورا کر لیتے ہیں ۔
تحریر ۔ فاروق قیصر ۔ ۔ ۔ بشکریہ جنگ
بہت اچھی منظر کشی فرمائی ہے انکل سرگم نے۔ اسمیں زرہ برابر بھی مبالغہ آرائی نہیں۔
ساجد اقبال صاحب
انکل سرگم تو ہمیشہ ہی ٹھیک کہتے ہیں
nice . .to read about one of my favourite city
Very well written masha-Allah
Hospitals have the same picture in every ‘sarkari’ hospital, not only in Islamabad.
These practices are codemnable especially the “check” and “cash” doctor, unethical and immoral, totally unbecoming of a physician.
“Bakhsheesh” has become so common, I did not know. I was a physician in ‘sarkari hospital’ 50 years ago in Pakistan. It was not so common then but of course Pakistan ab bahot taraqqi ker chuka hai
اُمید صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ کیا آپ اسلام آباد میں رہتے ہیں ؟
بھائی وہاج احمد صاحب
پچاس سال قبل ڈاکٹر بھی ایسے نہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے فیملی ڈاکٹر کبھی بن بلائے بھی گھر آ جاتے اور اگر کوئی بیمار ہوتا تو علاج بتا جاتے مگر فیس یہ کہہ کر نہ لیتے کہ آپ نے بلایا نہیں تھا میں محلہ میں آیا تو خیریت دریافت کرنے آ گیا ۔
بہت عمدہ تحریر ہے اور شئیر کرنے کا خصوصی شکریہ
محب علوی صاحب
عنائت کا شکریہ