جیو نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں نے مولانا عبدالرشید غازی سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ اگر آپ بھرپور تعاون کریں تو ہم بھی آپ کی مدد کریں گے جس کے بعد مولا نا عبد ا لرشید نے مذاکرات پر رضامندی اور بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس یقین دہانی کے بعد انہوں نے وزیراعظم سے رابطہ کیا او رانہیں صورتحال بتائی جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے خلاف کارروائی کے لئے ہم احکامات جاری کرچکے ہیں اور واپسی بہت مشکل ہے تاہم انہوں نے مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد علماء سے بات چیت ہوئی اور علمائے کرام لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات کے لئے آئے ہیں لیکن سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے اندر نہیں جاسکے۔
ٹی وی اور اخبارات پر پابندی کی وجہ سے صحیح صورتِ حال سامنے آنا مشکل ہے ۔ موقعہ پر ٹرِپل وَن بریگیڈ کی لوگ اور فوج کے کمانڈوز بھی پہنچ گئے ہوئے ہیں ۔ آپریشن تو کل دوپہر 12 بجے شروع کیا گیا تھا مگر گذشتہ آدھی رات کے بعد 2 بجے جبکہ ایک رینجر کے علاوہ 20 شہری اور طلباء و طالبات ہلاک اور 400 کے قریب زخمی ہو چکے تھے [کئی درجن شدید زخمی ہیں] پریس کانفرنس میں حکومت نے اعلان کیا کہ حالات کے پیشِ نظر آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے 5 سے 10 سال کی کمسن بچیوں کو بھی نکالنے کا موقع نہ دیا گیا اور پہلے زخمی ہونے والے جو 6 طلباء ہسپتال پہنچائے گئے اُنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا ۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ۔ بلوچستان اور وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے اور 12 مئی کو کراچی میں کیا ہوا تھا ۔ اپنوں کے خون کی پیاسی حکومت ۔ بے بس وزیرِاعظم اور دھوبی چھاپ پارلیمنٹ نمعلوم اس ملک کا کیا حشر کریں گے ۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے اور ہمیں اس عذاب سے بچائے ۔ آمین
ڈیڈ لائین ۔ حکومت کی طرف سے صبح 10 بج کر 34 منٹ پر اعلان کیا گیا کہ اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے محصورین نے 11 بجے قبل دوپہر تک اپنے آپ کو حکومت کے حوالے نہ کیا تو آپریشن شروع کر دیا جائے گا ۔ ہمارے حکومتی اہلکار جو 26 گھینٹوں میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے وہ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ 26 منٹ میں فیصلہ کریں ۔