Monthly Archives: July 2007

بے بس وزیرِاعظم

جیو نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں نے مولانا عبدالرشید غازی سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ اگر آپ بھرپور تعاون کریں تو ہم بھی آپ کی مدد کریں گے جس کے بعد مولا نا عبد ا لرشید نے مذاکرات پر رضامندی اور بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس یقین دہانی کے بعد انہوں نے وزیراعظم سے رابطہ کیا او رانہیں صورتحال بتائی جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے خلاف کارروائی کے لئے ہم احکامات جاری کرچکے ہیں اور واپسی بہت مشکل ہے تاہم انہوں نے مدد کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد علماء سے بات چیت ہوئی اور علمائے کرام لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات کے لئے آئے ہیں لیکن سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے اندر نہیں جاسکے۔

ٹی وی اور اخبارات پر پابندی کی وجہ سے صحیح صورتِ حال سامنے آنا مشکل ہے ۔ موقعہ پر ٹرِپل وَن بریگیڈ کی لوگ اور فوج کے کمانڈوز بھی پہنچ گئے ہوئے ہیں ۔ آپریشن تو کل دوپہر 12 بجے شروع کیا گیا تھا مگر گذشتہ آدھی رات کے بعد 2 بجے جبکہ ایک رینجر کے علاوہ 20 شہری اور طلباء و طالبات ہلاک اور 400 کے قریب زخمی ہو چکے تھے [کئی درجن شدید زخمی ہیں] پریس کانفرنس میں حکومت نے اعلان کیا کہ حالات کے پیشِ نظر آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے 5 سے 10 سال کی کمسن بچیوں کو بھی نکالنے کا موقع نہ دیا گیا اور پہلے زخمی ہونے والے جو 6 طلباء ہسپتال پہنچائے گئے اُنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا ۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ۔ بلوچستان اور وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے اور 12 مئی کو کراچی میں کیا ہوا تھا ۔ اپنوں کے خون کی پیاسی حکومت ۔ بے بس وزیرِاعظم اور دھوبی چھاپ پارلیمنٹ نمعلوم اس ملک کا کیا حشر کریں گے ۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے اور ہمیں اس عذاب سے بچائے ۔ آمین

ڈیڈ لائین ۔ حکومت کی طرف سے صبح 10 بج کر 34 منٹ پر اعلان کیا گیا کہ اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے محصورین نے 11 بجے قبل دوپہر تک اپنے آپ کو حکومت کے حوالے نہ کیا تو آپریشن شروع کر دیا جائے گا ۔ ہمارے حکومتی اہلکار جو 26 گھینٹوں میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے وہ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ 26 منٹ میں فیصلہ کریں ۔

آبپارہ اسلام آباد میں 10 ہلاک 400 زخمی

آج 6 بجے سہ پہر تک ایک رینجر ۔ ایک صحافی ۔ ایک دکاندار ۔ ایک جامعہ حفصہ کی 15 سالہ طالبہ اور 6 لال مسجد کےطلباء ہلاک ہونے کا پتہ چلا ہے جبکہ یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے ۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد 400 کے قریب ہے ۔ زخمیوں میں اکثریت طالبات اور طلباء کی ہے ۔ 6 بجے تک رینجرز کی طرف سے گیس شیل اور گولیوں کی فارنگ جاری تھی جبکہ لال مسجد کی طرف سے کبھی فائرنگ ہوتی تھی اور کبھی بند رہتی تھی ۔ رینجرز بکتربند گاڑیوں پر سوار ہیں ۔ آبپارہ کے کافی عام لوگ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اردگرد پتھروں سے رینجرز کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔

جنگ آن لائن کے مطابق

لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عبدالرشید غازی نے کہا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ تمام غیر قانونی سرگرمیوں سے اُنہیں آگاہ کریں گے اس کے باوجود کارروائی کی جارہی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ جیو نیوز سے گفت گو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کا آغاز رینجرز نے کیا۔شیلنگ اور بھگدڑ مچنے کے باعث سو سے ڈیڑھ سو کم عمر بچیاں زخمی ہوئی ہیں جن میں سے کچھ بچیوں کو اسپتال لے جایا گیا ہے۔ مولانا عبدالرشید غازی نے مطالبہ کیا کہ لیڈی ڈاکٹر جامعہ حفصہ بھیجی جائیں جو زخمی بچیوں کا علاج کریں ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ طلبہ کے پاس کوئی جدید اسلحہ نہیں بلکہ ٹرپل ٹو رائفل اور تیس بور کے لائسنس یافتہ ہتھیار ہیں ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ رینجرز یا پولیس کے کسی افسر نے لال مسجد انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود آج صبح ایس ایس پی اسلام آباد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اوپر سے جو حکم ملتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ۔ مولانا عبدالرشید غازی نے کہا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ تمام غیر قانونی سرگرمیوں سے انتظامیہ کو آگاہ کیا جائے گا۔ طلبہ نے ایسے کئی معاملات کی نشاندہی کی جن پر انتظامیہ کی طرف سے کارروائی بھی کی گئی لیکن آج صبح اچانک لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا محاصرہ کرلیا گیا اور کارروائی شروع کردی گئی جو سمجھ سے بالا تر ہے ۔

لال مسجد پر کاروائی

پیر 2 جولائی تک لال مسجد کے ارد گرد 1500 مسلّح رینجرز اور 500 کمانڈو پولیس تعینات کر دی گئی تھی ۔ آج لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر گیس کے گولے پھینکے گئے جس سے دو طالبات زخمی اور کئی بیہوش ہو گئیں ۔ اس کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی ۔ اب تک ایک رینجر کے مرنے کی اطلاع ملی ہے ۔ اے ایف پی کے مطابق بعد دوپہر دو بجے تک دو پولیس مین اور آٹھ طالبات زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔ ہسپتال کے مطابق ابھی اور زخمی آ رہے ہیں ۔ اس وقت بعد دوپہر پونے چار بج چکے ہیں

عدالتِ عظمٰی میں حکومت کو 2 جولائی کو جو ہزیمت اُٹھانا پڑی یہ عوام کی اس سے توجہ ہٹانے کی ایک بودی کوشش لگتی ہے

کمپیوٹر سے پہلی ملاقات

محب علوی صاحب نے کچھ دن قبل اسلام آباد کے سِیرینا ہوٹل میں ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کانفرنس کا حال لکھا تھاجس نے مجھے گذرا زمانہ یاد کرا دیا ۔ ستمبر 1985 عیسوی میں مجھے جنرل منیجر ایم آئی ایس [Management Information Systems] لگا دیا گیا ۔ ایم آئی ایس میں پاکستان کا پہلا اور سب سے بڑا کمپیوٹر سنٹر تھا جس میں آئی بی ایم کا مین فریم کمپیوٹر نصب تھا ۔ اُن دنوں مجھے کمپیوٹر کی سُدھ بُدھ نہ تھی ۔ جو صاحب کمپیوٹر سینٹر کے انچارج تھے وہ مجھ سے بہت جونیئر تھے مگر اسی گریڈ میں پہنچ گئے تھے جس میں کہ میں تھا ۔ اُنہوں نے مجھے اتنا ڈرایا کہ جیسے میں ساری عمر کمپیوٹر کو سمجھ نہ سکوں گا ۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وسط 1986 عیسوی میں مجھے Computerised Inventory Management System کی development اور implementation کا پروجیکٹ دے دیا گیا ۔ میرے لئے Inventory Management System تو مشکل کام نہ تھا کیونکہ یہ پروجیکٹ تو اللہ کے فضل سے میں 1970 عیسوی سے قبل اپنی فیکٹری کیلئے سرانجام دے چکا تھا جہاں ہزاروں قسم کے materials اور tooling تھی مگر کمپیوٹر سینٹر کے انچارج مجھے کمپیوٹر سینٹر سے دور رکھنے کیلئے پورا زور لگا رہے تھے ۔ میں نے بغیر اس کی شکائت کئے زیادہ کام کا بہانہ بنا کر اعلٰی سطح پر بات کی اور تین پی سی XT8088 خرید لئے اُن میں 20MBکی ہارڈ ڈسک ڈرائیوز لگی ہوئی تھیں جسے دیکھنے کیلئے دُور دُور سے لوگ آتے تھے کیونکہ آئی بی ایم کے مین فریم کمپیوٹر کی Storage capacity کل 50MB تھی ۔ میں نے دو اور انجنیئروں کو ساتھ ملا کر ان کمپیوٹروں پر ابتدائی کام شروع کردیا ۔

تمام کوائف اکٹھا کرنے کے بعد جب میں نے سسٹم اور مطلوبہ صفحات ڈیزائین کر لئے تو کمپیوٹر سینٹر کو مربوط سافٹ ویئر ڈویلوپ کرنے کا حکم دلوا دیا ۔ دو ماہ گذر گئے مگر کمپیوٹر سینٹر کے درجن بھر ماہرین کچھ بھی نہ کر سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈنمارک کی ایک کمپنی کے متعلقہ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جو بنا بنایا پیکیج دینا چاہتے تھے مگر وہ ہمارے کام کیلئے زیادہ مفید نہ تھا ۔ فیصلہ ہوا کہ میں اُن کے ساتھ مل کر کام کروں گا ۔ پراجیکٹ بہت وسیع اور مشکل تھا پھر بھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے 18 ماہ میں سافٹ ویئر ڈیویلوپ کرا دی ۔ جب data entry کا وقت آیا ۔ تب مجھے خیال آیا کہ اگر ایک آئیٹم کو غلطی سے دو بار فَولِیو الاٹ کردیا ۔ یا ایک فَولِیو پر دو آئیٹم درج کر دیئے ۔ تو ایسی غلطی پکڑنا بہت ہی مشکل ہو گا کیونکہ آئیٹمز کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ تھی اور یہ مختلف فیکٹریوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ میں نے پھر کمپیوٹر سنٹر کے انچارج سے کہا کہ کوئی ایسی سافٹ ویئر بنا دیں کہ duplication نہ ہو ایک ماہ گذر جانے کے بعد بھی اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا ۔

میں مئی 1987 عیسوی میں اپنا ذاتی پی سی خرید چکا تھا اور میرا بڑا بیٹا زکریا اس پر 4 ماہ کی طبع آزمائی کا تجربہ حاصل کر چکا تھا ۔ میں نے زکریا سے کہا کہ مجھے ایسا پروگرام بنا دے کہ duplication نہ ہو ۔ اس نے مجھے دو تین دن میں BASIC میں ایک چھوٹا سا پروگرام لکھ کر دیا جس کی میں نے testing کی اور وہ ٹھیک ثابت ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ Computer work میں شوق سے کامیابی ہوتی ہے نہ کہ اسناد [Certificates] اکٹھا کرنے سے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسناد اکٹھا کرنے کا شوق بہت ہے ۔ کام کرنے والے کم ہیں ۔ ہمارے کمپیوٹر سینٹر کے انچارج صاحب نے آئی بی ایم کی کئی درجن اسناد حاصل کی ہوئی تھیں ۔

بیتی باتیں

میرے بزرگوار دادا جان جن کا نام روشن الدین تھا حیدرآباد دکن اور جموں [ریاست جموں کشمیر] میں حاجی صاحب کے نام سے مشہور تھے چونکہ اُنہوں نے جوانی ہی میں میری محترمہ دادی جان کو ساتھ لے جا کر حج کر لیا تھا اور اس زمانہ میں ہندوستان سے عام طور پر بوڑھے لوگ حج کرنے جاتے تھے ۔ دادا جان نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ریل گاڑی پر ممبئی گئے جو اُن دنوں بمبے کہلاتا تھا ۔ وہاں سے بحری جہاز پر عدن گئے کیونکہ اس زمانہ میں جدہ کی بندرگاہ نہیں تھی ۔ عدن سے مکہ مکرمہ ۔ مدینہ منورہ اور واپسی اُونٹوں پر سفر کیا ۔ حج کیلئے مکہ مکرمہ سے منی ۔ عرفات ۔ مزدلفہ ۔ منی اور مکہ مکرمہ پیدل سفر کیا تھا ۔

ہندوستانی قوم جب 1857 کی جنگِ آزادی میں ناکام ہوئی تو انگریزوں نے سب سے زیادہ ظلم مسلمانوں پر کیا ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے انگریزوں کی حکومت کا ساتھ نہ دیا جس کے نتیجہ میں سینکڑوں ایکڑ زرخیز اراضی ضبط کر لی گئی جان کا بھی خطرہ تھا اسلئے میرے پردادا [دادا کے والد] اور ان کے بھائی جہاں جگہ ملی چلے گئے ۔ میرے پردادا نظام الدین نے شہر جموں کا انتخاب کیا کہ وہاں انگریزوں کا عمل دخل براہِ راست نہ تھا ۔

میرے دادا جان 1869 عیسوی میں پیدا ہوئے ۔ سب کچھ چھن جانے کے بعد ان کا خاندان بمشکل گذارہ کر رہا تھا اسلئے ایکہ باعِلم خاندان کا چشم و چراغ ہوتے ہوئے میرے دادا کی تعلیم کا بندوبست نہ ہو سکا اور 8 سال کی عمر میں انہوں نے کام سیکھنا شروع کیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے نوجوانی ہی میں بین الاقوامی تاجر بن گئے اور 27 سال کی عمر میں 1896 عیسوی میں ایک بین الاقوامی کمپنی باقاعدہ طور پر قائم کی جسے 1930 عیسوی میں میرے محترم والد صاحب کے سپرد کر کے خود گھریلو ذمہ داریوں اور بہبود عامہ میں لگ گئے ۔ اس کمپنی کا صدر دفتر ممبئی میں قائم کیا پھر وہاں سے آگرہ ۔ حیدآباد دکن ۔ مصر میں قاہرہ ۔ فلسطین منتقل ہوتے ہوئے 1948 عیسوی میں راولپنڈی میں قائم ہوا

قائداعظم کی وفات اور قائدِ ملت کے شہید کئے جانے کے بعد وطن پر قوم کے دشمنوں کا قبضہ ہو گیا اور آہستہ آہستہ دیانتدار تاجروں کیلئے حالات مشکل ہوتے گئے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ 1955 میں والد صاحب شدید بیمار ہو گئے اور ان کو لاہور لیجا کر گنگا رام ہسپتال میں داخل کرا دیا ۔ بیماری کی تشخیص اور علاج میں ایک سال گذر گیا ۔ والد صاحب نے جس شخص کو منیجر رکھا ہوا تھا وہ تاجر بن گیا اور ہمارے بزرگوار دادا صاحب کی قائم کردہ کمپنی 1956 عیسوی میں دیوالیہ ہو گئی ۔ میں ان دنوں گارڈن کالج راولپنڈی میں ایف ایس سی [انٹرمیڈیئٹ] میں پڑھتا تھا ۔
میں نے اس کمپنی کے لیٹر پیڈ کا ایک کاغذ سنبھال کر رکھا ہوا تھا جو آج مجھے مل گیا