Monthly Archives: July 2007

اگر یہ صحیح ہے تو ۔ ۔ ۔

حکومت پاکستان اور لال مسجد کی انتظامیہ کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرنے والاسرکاری افسر کو گرفتار کرلیا گیا ہے تاہم ابھی اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جارہا اورمزید تحقیقات کی جارہی ۔ذرائع کے مطابق جب بھی حکومت اورلال مسجد کے درمیان مفاہمت ہوتی نظر آتی تو یہ سرکاری افسر دونوں طرف غلط فہمیاں پیداکردیتا اورمعاملات پھر تعطل کا شکار ہوجاتے ۔ یہ بھی بتایا گیاہے کہ اسی سرکاری افسر نے لال مسجد کے مہتمم اعلی مولانا عبدالعزیز غازی کو برقعہ پہن کر باہر آنے کامشورہ دیا اور کہا کہ حکومت اور آپ کے درمیان ڈائیلاگ کروا دوں گا جس پر مولانا عبدالعزیز برقعہ پہن کر باہر نکل آئے اور گرفتار ہوگئے ۔ذرائع کے مطابق حکمران جماعت کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اوروفاقی وزیر اعجاز الحق جب بھی لال مسجد کی انتظامیہ سے معاملات طے پاکر باہر نکلتے تو یہ افسر لال مسجد جا کر حکومت کی غلط پلاننگ بتاکر دونوں بھائیوں کو مشتعل کردیتا لیکن ابھی حکومت اس گرفتار شخص کانام بتانے سے گریز اں ہے جبکہ لال مسجد کی انتظامیہ بھی اس شخص کا نام نہیں بتا رہی ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور لال مسجد کی درمیان تنائو پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ موجود تھا جسکے مذموم ارادے کامیاب ہوئے اور پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد آج میدان جنگ بناہوااور پاکستان کے مدارس دنیا بھر میں اپنا مقام کھو چکے ہیں

اردو محفل کے ماہرین کی خدمت میں

مبارک ہو کہ آپ نے اردو محفل کو بہت خوبصورت اور محفوظ بنا دیا ۔

میں آج اُردو محفل میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر پوری کوشش کے باوجود اپنی ماضی میں لکھی تحاریر تک نہ پہنچ سکا ۔ نہ بہبودِ عامہ لکھ کر اور نہ اپنا نام لکھ کر اور نہ مجھے کوئی اور طریقہ سمجھ میں آیا ۔ بہت بہت شکریہ آپ کا ۔ میرے پاس اتنا زیادہ فالتو وقت نہیں کہ میں ہر بار آدھا پونا گھنٹہ اپنی تحریر تلاش کرنے پر لگاؤں ۔ بخشو بی بلی ۔ چوہا لنڈورا ہی بھلا ۔

ہینگ لگے نہ پھٹکری ۔ رنگ چوکھا آئے

بہبودِ عامہ کے کاموں کیلئے مالدار ہونا ضروری نہیں ۔ ایسے بہت سے کام ہیں جو ہر شخص کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔ ایسے بھی بہت سے بہبودِ عامہ کے کام ہیں جن پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا ۔ یہ کام باہمی مشورہ سے ہو سکتے ہیں اور انفرادی طور پر بھی ۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں ۔

درخت لگانا ۔ صرف اپنے گھر میں نہیں بلکہ کھُلی زمین پر اور اس کی پرورش کرنا ۔ پہلے سے لگے درختوں کی پرورش اور حفاظت کرنا ۔

سڑک ۔ محلے یا گلی میں پانی کا نلکا لگا ہے اور کوئی کھُلا چھوڑ گیا جس سے پانی ضائع ہو رہا ہے ۔ اسے بند کر دینا اور اپنے جاننے والوں سے ادب کے ساتھ ذکر کرنا کہ نلکا کھُلا نہیں چھوڑنا چاہیئے اس سے ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے ۔

زیرِ زمین پانی کا پائپ پھٹ جانے سے پانی ضائع ہو رہا ہو تو متعلقہ محکمہ تک اطلاع پہنچائی جائے اور اس وقت تک یاد دہانی کرائی جائے جب تک پائپ کی مرمت نہ کر دی جائے ۔

کوئی شخص کوڑا کرکٹ کی مخصوص جگہ کی بجائے کسی اور جگہ کوڑا وغیرہ پھینکے تو اسے اُٹھا کر مخصوص جگہ پر پھینک دیا جائے اور اپنے جاننے والوں کو مؤدبانہ طریقہ سے وقتاً فوقتاً یاد دہانی کرائی جائے کہ کوڑا مخصوص جگہ پر ہی پھینکنا چاہیئے ۔ اگر کسی کو غلط جگہ کوڑا پھینکتے دیکھ لیا جائے تو اس کے سامنے ہی اُٹھا کر مخصوص جگہ پھینکا جائے اور اسے مؤدبانہ طریقہ سے کہا جائے کہ آئیندہ مخصوص جگہ پر کوڑا پھینکا کیجئے ۔

کوئی گالی گلوچ کر رہا ہو تو اسے پیار سے سمجھایا جائے کہ آپ تو بڑے اچھے انسان ہیں ۔ ضروری بات ہے کہ آپ کو تکلیف پہنچی جس کی وجہ سے آپ غلط الفاظ کہنے پر مجبور ہوئے لیکن اس سے دوسرے کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ آپ دوسرے کو اپنے اچھے سلوک سے متأثر کر سکتے ہیں ۔

کوئی بچہ یا بچی یا عمر رسیدہ خاتون یا مرد یا نابینا سڑک کے کنارے کھڑا ہے اور سڑک عبور کرنا چاہتا ہے ۔ ٹریفک کو روک کر اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار پہنچا دیا جائے ۔

ایسے اور بہت سے عمل ہیں جو بہبودِ عامہ کے دائرہ میں آتے ہیں اور ان کیلئے پیسہ درکار نہیں ۔ اور سبحان اللہ ۔ ایسی تمام اچھائیاں کارِ ثواب ہیں اور اللہ ان کا بہت اجر دیتا ہے ۔

عامر لیاقت کا استعفٰے

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت  نے پاکستان کے مرکز اسلام آباد کے دل ۔ آبپارہ ۔ میں واقع لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر 2 جولائی بعد دوپہر فوج کشی شروع کی او ر اب تک جاری ہے ۔

چند یوم قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور اور صدر جنرل پرویز مشرف کے چہیتے ڈاکٹر عامر لیاقت سے ایک ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا
“لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن ہونا چاہیئے یا نہیں؟”

ڈاکٹر عامر لیاقت نے یہ جانتے ہوئے کہ حکومت اور بالخصوص اسکی اپنی جماعت ایم کیو ایم کی پالیسی سے اختلاف بہت مہنگا پڑ سکتا ہے جواب دیا
“وہ ہمارے بچے بچیاں ہیں ۔ ان کے خلاف کوئی مسلحہ کاروائی نہیں ہونا چاہیئے”
اس نے مزید کہا
” اول اور آخر راستہ مذاکرات کا راستہ ہے”

نتیجہ حسب اُمید تھا اور بہت جلد نکل آیا ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کو فوراً مستعفی ہونا پڑا ۔ اس کے باوجود جن لوگوں کی عقلوں پر پردہ پڑ چکا ہے وہ حکومت کے اس ظالمان بلکہ خونخوار اقدام کو جائز قرار دینے کیلئے مختلف بہانے گڑھ رہے ہیں ۔ اللہ ان لوگوں کو سیدھی راہ دکھائے ۔ آمین ۔

حکومت کے وعدے ؟ ؟ ؟

سینکڑوں طالبات کے والین یا بھائی اسلام آباد اپنی بچیوں یا بہنوں کو لینے کیلئے پہنچے ہوئے ہیں جن میں سے کئی دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ جو طلباء و طالبات باہر نکل آئیں گے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور وہ اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں ۔ اس اعلان کے بعد کوئی 170 طلباء اور پانچ سو کے قریب طالبات لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے باہر نکل آئے ۔ فوجی آفیسر نے ان سب کے نام پتے درج کئے اور ساتھ ساتھ ہر ایک کا انگوٹھا بھی لگوایا پھر گاڑیاں ان کو لے کر نمعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئیں اور ان کے والدین یا بھائی اسلام آباد میں پریشان بیٹھے ہیں ۔ ویگن پر چڑھتے ہوئے ایک طالبہ سے صحافی نے کچھ پوچھنا چاہا تو اس نے کہا کہ ہمیں منع کر دیا گیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طالبات کو فی الحال حاجی کیمپ میں رکھا گیا ہے یا قید کر دیا گیا ہے جبکہ 170 طلباء کو اڈیالہ جیل میں قید کر دیا گیا ہے ۔

لال مسجد کے قریب رہنے والوں سے رابطہ

سیکتڑ جی ۔ 6 اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اردگرد رہنے والوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومتی کارندوں نے پیر 2 جولائی کی شام کو اُنہیں علاقہ چھوڑنے کا کہا تھا اور لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی تھی ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ایسے بچے بچیاں بھی محصور ہیں جو 3 جولائی کو قرآن شریف پڑھنے گئے تھے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی ذاتی وجوہ سے گئے تھے ۔ ان سب نے کسی طرح انتظامیہ سے رابطہ کر کے گھر جانے کیلئے محفوظ راستہ مانگا تھا جو وعدہ کرنے کے باوجود مہیا نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ابھی تک جامعہ حفصہ کی کئی کمسن بچیاں بھی محصور ہیں ۔ اس سے واضح ہے کہ آپریشن کی تیاری بہت پہلے کر لی گئی تھی اور مذاکرات کا ڈرامہ صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے تھا ۔ مزید یہ کہ آپریشن کا حکم دینے والے کو معصوم بچوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ۔ ٹھیک ہے کہ لال مسجد والوں نے اچھا نہیں کیا لیکن کون سے ملک میں اپنے ہی ملک کے باشندوں کو اس بیدردی سے مارا جاتا ہے ؟

ڈیڈ لائین 12 بجے دوپہر تک بڑھائے جانے کے بعد 250 سے زائد طلباء اور 100 طالبات مناسب حفاظتی اور ٹرانسپوٹ کا انتظام نہ ہونے کے باوجود باہر نکل کر کھڑے ہو گئے ہیں اور سنا ہے کہ کچھ رفاہِ عامہ کے ادارے انہیں لیجانے کیلئے اپنے طور پر بندوبست کر رہے ہیں ۔