گناہِ بے لذّت اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے سے فائدہ کچھ نہ ہو لیکن نقصان ہوتا ہو ۔
اگر کوئی شخص میڈیکل کی ایک یا دو کتابیں سرسری طور پر پڑھ لے اورپھر اتنے پر بھی عمل کئے بغیر دعوٰی کرے کہ وہ ڈاکٹر بن گیا ہے تو کوئی شخص اس کو ڈاکتر نہیں سمجھے گا بلکہ اس کی دماغی حالت پر شک کیا جائے گا ۔ اسی طرح کسی بھی موضوع پر بولنے یا لکھنے سے پہلے اس کے متعلق گہرا مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن حیرت ہے کہ ہمارے مُلک میں مسلمان باوجود مندرجہ بالا مثال سے متفق ہونے کے دین اسلام کا صحیح طور سے علم حاصل کئے بغیر اسکے بارے میں جو جی میں آتا ہے کہہ یا لکھ دیتے ہیں ۔
مزید آجکل فيشن ہو گيا ہے کہ کچھ لوگ اپنی قابليت يا دريا دلی يا نام نہاد روشن خيالی دکھانے کيلئے ايسی ايسی تحارير لکھتے ہيں جن سے اُن کو کوئی فائدہ پہنچے نہ پہنچے البتہ نقصان ضرور ہوتا ہے جس کا اُنہيں احساس تک نہيں ہوتا ۔ کوئی اللہ کے احکامات کے مخالف لکھتا ہے تو کوئی اللہ کے احکام کو مُلّاؤں کی اختراع قرار ديتا ہے ۔ کچھ ايسے بھی ہيں جو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدوں کو نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک انسانی حقوق کے خلاف اور ظالمانہ لکھتے ہيں ۔ گويا وہ اللہ سے زيادہ انسانيت پسند ہيں ۔
کوئی مزيد آگے بڑھتا ہے اور 1400 سال پرانے اسلام کو سائنس کے اس دورِ جديد ميں ناقابلِ عمل قرار دے ديتا ہے ۔ کيا ان لوگوں کے خيال ميں نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک اس کائنات کے خالق اور اس کے نظام کو چلانے والے کے عِلم ميں نہ تھا کہ چودہ سو سال بعد کيا ہونے والا ہے ؟ اور کيا يہ لوگ سمجھتے ہيں کہ نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے زيادہ سمجھدار ہيں يا زيادہ جانتے ہيں ؟
مندرجہ بالا برتاؤ کے برعکس کچھ لوگ ایسے اعمال کو قرآن کا حکم قرار دے دیتے ہیں جو کہ قرآن میں موجود نہیں ہوتے ۔ سب سے عام فقرہ جو شادی کے دعوت ناموں پر بھی چھپا ہوتا ہے “رشتے آسمان پر بنتے ہیں اور زمین پر ان کے تکمیل کی جاتی ہے ۔ القرآن “۔ ایسی کوئی آیت نہیں ہے چناچہ ایسا عمل دین میں غلُو کے زمرے میں آتا ہے ۔
کيا آج کے مسلمانوں نے کبھی سوچا کہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف اس طرح لکھ کر يا ان ميں ترميم کر کے وہ گناہِ بے لذّت کے علاوہ کچھ حاصل نہيں کر رہے ؟
قران جو که ہر کسی کے گهر پر بڑا ہے اس کے متعلق پاکستان میں بولا جانے والا ایک جهوٹ اپ نے پکڑا ہے ـ
اور جس کو حدیث کہتے هیں اس میں کیسے کیسے جهوٹ بولے گئے هیں پچهلے
چند سو سالوں میں آپ اس کا اندازه کر سکتے هیں ؟
قران والے اسلام کو موڈیفائی کرنے کی بات کوئی بهی نہیں کرسکتا کیونکه اس میں ابہام هیں هی نہیں
مگر بعد میں لکهی گئی کتابوں کو جب مسلمان ایمان بنا لیں گے تو پهر تو زمانے کے ساتھ چلنا مشکل هو جائے گا ـ
ہاں قران ہر زمانے کے لیے هے
کیونکه اس کو نازل کرنے والی ذات کے سارے هی علوم مخلوق هیں ـ
آؤ قران کی بات کریں
قران کے پڑهنے کو فروغ دیں
اللە کی مہربانیوں کے حصول کے لیے
خاور صاحب
آپ بات غلط سمت میں لے گئے ہیں ۔ میں نے بات کی ہے کہ جو دین اسلام ہے سو وہ ہے ۔ اس کی کسی چیز کی مخالفت یا کسی ایسی چیز کو اس کے ساتھ منسلک کرنا جو اس میں نہ ہو گناہ بے لذت ہے ۔ باقی باتیں جو آپ نے لکھی ہیں وہ فی الحال میرا موضوع نہیں ہیں
اسلامی تعلیمات اور
قرآن پاک کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بنانا بھی اسلام اور قرآن پاک میں تحریف کے مترادف
ہے۔ہمیں اسلام وقرآن پاک کے تابع ہونا ہےناکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان معاملات پر اختلاف رائے رکھنے کے لیے فقہ،صرف و نحو اور دیگر دینی علوم سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔اردو میں قرآن پاک کے تراجم و تفاسیر کی تعداد تیس سے زائد ہے اختلاف رائے رکھنے والے ان میں سے کتنے تراجم یا دیگر دینی علوم کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں؟
ہاں تجسس و تحقیق اور سمجھنےکی غرض سے اختلاف رائے ہو تو بات اور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد علماء کی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ المورد کے سربراہ اور سرکاری مولوی غامدی اس کی واضح مثال ہے۔آپ اپنی خواہشات کے مطابق ان سے ترجمہ تفسیر اور دیگر دینی معاملات حل کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ دین اسلام غامدی نہیں ۔
بیشتر فاضل بلاگرز کا مقصد اسلامی تعلیمات اور قرآنی آیات کو نقل کرنے کا صرف اور صرف دعوت فکر دینا ہوتا ہے۔جس سے وہ تبلیغ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔جو احسن بات ہے۔
لیکن بعض روشن خیال بلاگر بھائی ایسے بھی موجود ہیں جو مذہب اسلام کو اپنی روشن خیالی کا جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔بقول انکل اجمل گناہ بے لذت کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھ لینا یا ایک آدھ حدیث کی کتاب پڑھ لینے سےہم عالم دین نہں بن سکتے بعینہ جس طرح ایک آدھ نسخہ مل جانے سے کوئی حکیم نہیں بن جاتا۔۔۔۔۔
دین کو سمجھنے کا ایک لمحہ بھی بعض اوقات اپنے خدا سے ملا دیتا ہے۔اور بعض اوقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل کی انتہا پاگل پنے کی ابتدا بن جاتی ہےاور عقل پر پردہ پڑنے سے انسان شیطان کے قریب ہوجاتا ہے۔لہذا گمراہی پیدا کرنے والی ان غیر علمی بحوث سے ہر ممکن بچنا ہی چاہئیے۔اور تھوڑے معاملات ہیں بحث کےلیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل اجمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے انتہائی اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔اور
ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے
دین میں آسانیاں پیدا کرنے کے نام پر تحریف و فتنہ پیدا کرنے والے نام نہاد علماء سے بچائے آمین
آپ نے واقعی ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسکا واحد حل یہی ہے کہ قرانی آیات اور احادیث کا جب بھی حوالہ دیا جائے ساتھ میں سورہ اور آیت کا نمبر یا حدیث کی کتاب اور آیت کا نمبر بھی درج کیا جائے تاکی اسکو متعلقہ کتاب سے کنفرم کیا جاسکے۔
حکیم صاحب کے تبصرے پر نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جاوید احمد غامدی کی فکر سے آپ کو اختلاف ہو جسکا ہر انسان کو حق ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ جس کی فکر سے ہمیں اختلاف ہو اسکے ساتھ سرکاری، جعلی یا اسطرح کے سابقے اور لاحقے استعمال کریں؟ کیا ہی بہتر ہو اگر آپ انکی کس فکر پر اپنا اختلافی نوٹ ان سے زیادہ بہتر دلیل کے ساتھ سامنے لائیں ؟ اور دوسروں کو اس سے اختلاف کرنے کا حق بھی دیں
حکیم خالد صاحب ۔ السّلامُ علَیکُم
آپ نے درست لکھا ہے ۔ جہاں تک جاوید احمد غامدی صاحب کا تعلق ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ ان کو روشن راہ دکھائے ۔ ان کی اب تک کی تحاریر سے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دین میں غلُو کے تواتر سے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ رب ذوالجلال حامی و ناصر ہو تو کٹھن سے کٹھن منازل بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے صرف خواہش کرنے سے طے ہو جاتی ہیں ۔ میں پہنچے ہوئے بزرگوں کی بات نہیں کر رہا ۔ میرے جیسے کم عمل مسلمان کی بھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مدد کرتا ہے ۔ میں کئی یوم سے ایک نام کی تلاش میں تھا جو میرے ذہن سے ماؤف ہو گیا تھا ۔ شعیب صفدر صاحب نے ایک مکروہ فلم کا ذکر کیا تو تلاش اور پڑھی ۔ پھر کل آپ کے تبصرہ سے پہلے وہ نام مع چند کارناموں کے میرے گھر پہنچ گیا اور آپ کے تبصرہ میں بھی اسی کا ذکر آ گیا ۔ سُبحان اللہ
راشد کامران صاحب
آپ نے درست کہا کہ قرآن شریف اور حدیث مبارکہ کا حوالا باقاعدہ ہونا چاہئیے ۔ قرآن شریف کے سلسلہ میں اسلئے بھی ضروری ہے تاکہ پڑھنے والا نہ صرف اپنی تسلّی کر سکے بلکہ اس کا سیاق و سباق بھی دیکھ کر اسے اچھی طرح سے سمجھ سکے ۔
جہاں تک جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کا تعلق ہے بہتر ہو گا کہ آپ ان کی تصانیف لے آئیں پھر اپنے پاس مستند ترجمہ والا قرآن شریف رکھ لیں اور خود موازنہ کریں ۔ حکیم خالد صاحب نے درست لکھا ہے غامدی صاحب کے متعلق ۔ میری میز پر اس وقت غامدی صاحب کی تحاریر سے نکالے ہوئے چالیس ایسے مسلک پڑے ہیں جنکو وہ غلط طور پر قرآن شریف اور حدث مبارکہ کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ آپ اپنا صحیح ای میل کا پتہ بھیج دیجئے تو میں انشاء اللہ نقل کر کے آپ کو بھیج دوں گا پھر آپ ان کا قرآن شریف اور حدیث مبارکہ سے موازنہ کر لیجئے گا ۔
اجمل میرا ای میل وہی ہے جو میں تبصرے میں لکھتا ہوں۔ میرا نکتہ صرف یہ ہے کہ چاہے جاوید احمد غامدی سے آپ کو یا حکیم صاحب کو سخت اختلاف ہے لیکن اگر اردو بلاگنگ کے وہ لوگ جن کے نقش قدم پر تمام لوگ چلنے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہی پاکستان کے چند پڑھے لکھے لوگوں کے نام کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگانے شروع کردیں گے تو باقی لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہوسکتا ہے آپ درست ہوں لیکن اگر کسی کی تحقیق میں زمانہ مستقبل میں سقم دریافت ہو تو محقق کی نیت پر شک و شبہ پڑھے لکھے اور علمی لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا یہی سائنسی علوم کی بنیاد ہے اور یہی مذہبی علوم کی۔۔ کیونکہ ہم نے سائنسی علوم میں یہ بات نافذالعمل رکھی تو آپ دیکھیں کتنی خوبصورتی سے سائنسی علوم پروان چڑھے لیکن مذہبی علوم میں ہم نے قران کے علاوہ ہر نظریہ اور خیال کو مطلق قرار دیا جنکے نتیجے میں انتہا پسندی کی حد تک فرقہ واریت بڑھی اور مذہبی علوم سے عملیت پسندی کا خاتمہ ہوا اور نتیجہ میرے اور آپ کے سامنے ہے کہ آج ہم مسلم کے علاوہ سب کچھ ہیں یعنی ماڈریٹ مسلم، انتہا پسند مسلم، دہشت پسند مسلم ۔۔ اگر میری بات ناگوار گزری تو معذرت لیکن اظہار رائے میرا بنیادی حق ہے اور میں تہذیب کے دائرے میں وقتا فوقتا تنقیدی تبصرے لکھتا رہوں گا۔
راشد صاحب
مسئلہ میرے اختلاف کا نہیں ہے بلکہ غلط ترجمہ اور تفسیر کئے جانے کا ہے اس میں نہ تو بحث کی گنجائش ہے نہ اجتہاد کی ۔
1 ۔ غامدی صاحب سورت 42 شورٰی آیت 17 کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ کتاب میزان ہے ۔ یا قرآن کا ایک نام میزان ہے ۔ جبکہ ترجمہ ہے اللہ وہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اور ترازو [یعنی عدل و انصاف] اُتارا
2 ۔ سورت 85 البروج آیات 4 و 5 کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ اصحاب الخدود سے مراد دورِ نبوی کے قریش کے فراعنہ ہیں ۔ جبکہ یہ واقعہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے بہت پہلے کا ہے
3 ۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ سورت اللہب میں ابو لہب سے مراد قریش کے سردار ہیں ۔ جبکہ ابو لہب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کافر چچا کو کہا گیا ہے ۔
4 ۔ لکھتے ہیں کہ اصحاب الفیل قریش کے پتھراؤ اور آندھی سے ہلاک ہوئے اور بھی اپنے آپ سے بہت کچھ لکھا ہے ۔ سورت الفیل پڑھ کر دیکھیئے کہ غامدی صاحب نے ٹھیک لکھا ہے ؟
5 ۔ لکھتے ہیں کہ سنّت قرآن شریف سے مقدم ہے ۔ جو وجوہات لکھی ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کا عمل نعوذ باللہ قرآن شریف یعنی اللہ کے حکم پر فوقیت رکھتا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ قرآن شریف سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنّت سے بھی مقدم ہے
6 ۔ لکھتے ہیں کہ حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث سے بہت سے اسلامی عقائد اور عمل ثابت ہوتے ہیں جن میں سے سب سے اہم نماز ہے جس کا طریقہ ہمیں حدیث سے ملتا ہے ۔
7 ۔ لکھتے ہیں کہ معروف اور منکر کا تعیّن انسانی فطرت کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معروف اور منکر کا تعیّن اللہ کی وحی سے ہوتا ہے ۔ اگر یہ انسان پر چھوڑ دیا جاتا تو دین کا کہیں نام و نشان نہ ہوتا ۔ ہر شخص اپنا دین اپنی اغراض کے مطابق بنا لیتا ۔
8 ۔ لکھتے ہیں کہ ریاست کسی بھی چیز کو زکٰوة سے مستثنٰی کر سکتی ہے ۔ جبکہ اسلامی ریاست بھی کسی چیز کو زکٰوة سے مستثنٰی نہیں کر سکتی
9 ۔ لکھتے ہیں کہ چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا قرآن شریف سے ثابت ہے ۔ جبکہ کہ قرآن شریف میں ایسا کہیں بھی نہیں لکھا البتہ یہ سنّت سے ثابت ہے
10 ۔ لکھتے ہیں کہ کھانے کی صرف چار چیزیں حرام ہیں خون ۔ مُردار ۔ سؤر کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ ۔ جبکہ اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں حرام ہیں کچھ لکھ دیتا ہوں ۔ کتا ۔ گدھا ۔ گیدڑ ۔ چیل ۔ گدھ ۔ بہت لمبی فہرست ہے
بار بار بجلی چلی جاتی ہے ۔ دو گھنٹوں میں یہ لکھا ہے ۔ اگر آپ مکمل تجزیہ چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل پتہ پر لکھئے سنا ہے کہ وہ موازنہ کی ایک کتاب بنا رہے ہیں ۔ جب کتاب چھپ جائے تو منگوا لیجئے ۔
مکتبہ قرآنیات ۔ 3 ۔ اے ۔ یوسف مارکیٹ ۔ غزنی سٹریٹ ۔ اُردو بازار ۔ لاہور ۔
راشد کامران صاحب ۔ میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی عمر کتنی ہے ؟ اور اس عمر میں کون کون سے موضوعات پر آپ نے تحقیق کی ہے اور کونسی نئی اشیاء دریافت کی ہیں ؟
آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اسلام مکمل طور پر سائنٹیفک دین ہے مگر یہ خود سائنس نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے تبدیل کر دے ۔ آپ کا یہ استدلال آپ کی علمِ دین اور تاریخ سے ناواقفیت کا مظہر ہے کہ ہم دین میں تبدیلی نہ کرنے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین پر عمل چھوڑ دیا اور جھوٹی عیاشیوں میں پڑ گئے ۔ فرقہ واریت بھی دین سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ آپ دین کو اپنی نالائقی کا قصوروار ٹھہرانے سے پہلے دین کو سمجھنے کی کوشش تو کیجئے ۔
بلا شُبہ اظہارِ رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن تعلیم یافتہ اور سمجھدار لوگ اظہارِ رائے سے پہلے موضوع کے ہر پہلو کا مطالع کرتے ہیں ۔ تنقید کرنا بہت آسان کام ہے ۔ آپ نے شائد سنا ہو گا کہ ایک مشہور مصّور نے ایک بہترین تصویر بنا کر چوراہے میں یہ لکھ کر رکھ دی اس میں کیا غلطی ہے ؟ لوگوں نے لکیریں لگا لگا کر تصویر کا حشر کر دیا ۔ دوسرے دن اس نے ایک عام سی تصویر یہ لکھ کر رکھ دی کہ اس میں جو غلطی ہے اسے پنسل سے ٹھیک کر دیجئے تو کسی نے ایک لکیر بھی نہ لگائی ۔ آپ تعلیم یافتہ لگتے ہیں آپ تو اُن لوگوں میں سے نہ بنیئے ۔ جس موضوع کو آپ تنقید کا نشانہ بنائیں پہلے اس کا اچھی طرح مطالع کر لیجئے ۔
جن کو آپ انتہاء پسند یا شدّت پسند وغیرہ کا نام دیتے ہیں کبھی آپ ان سے ملے ہیں ؟ ان کے ساتھ کبھی رہے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر ان کو ایسے القاب دینے کا حق آپ کو کیسے حاصل ہے ؟ کیا یہ سائنٹیفک طریقہ ہے جس کے آپ مبلغ ہیں ؟
اجمل شاید آپ کو میری بات ناگوار گزری معذرت کا طلبگار ہوں ویسے میری عمر 31 سال ہے اور کمپیوٹر سائنس میرا شعبہ ہے ۔ پریڈیکیڈ لوجک میری دلچسپی اور ریسرچ کا شعبہ ہے۔
جیسے مثال کے طور پر آپ اپنے پوائنٹ نمبر 5 اور 6 کو لیجیے نبمر پانچ پوائنٹ کہتا ہے کہ ایک شخص قران سے زیادہ رسول کے عمل (سنت) کو فوقیت دیتا ہے ۔۔ پوائنٹ نمبر 6 کہتا ہے کہ وہی شخص حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت کرنے کو نہیں مانتا۔ اسکو کنٹراڈکشن کہتے ہیں۔ لوجک یہ کہتی ہے کہ اگر ایک کنٹراڈکشن مل جائے تو پورا آرگیومنٹ غلط مانا جائے گا۔
ترازو اور میزان کا فرق وہی ہے جو زلف اور بال کا ہے ۔۔ آپ نے اپنے بلاگ میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی وہی کام آپ نے خود کیا یعنی کسی کی کتاب سے بغیر حوالوں اور سیاق و سباق کے کچھ فقرے لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ نہایت ممکن ہے کہ جب سیاق و سباق کے ساتھ اسی چیز کو پڑھا جائے تو ایک نہایت مختلف بات نکلے۔
چلیں اس پر بات کرتے ہیں ۔۔ آپ نے دو تراجم میں سے ایک کو درست قرار دیا میرے جیسے کم علم شخص کے لیے اگر آپ وہ اصول بیان کردیں جس کی بنیاد پر آپ نے ایک ترجمہ کو درست اور ایک کو غلط قرار دیا ہے ۔ اور کیا آپ نہیں سمجھتے کے یہ موازنہ کی کتابیں کسی صورت اہم نہیں ہوتیں جیسے یہاں “قران میں بیس غلطیاں“ یا “قران میں غیر مسلم کو مارنے کا حکم“ جیسی کتابیں عام ہیں جن کی یہ اپروچ ہوتی ہے یعنی 6666 آیات میں سے دو لفظ پکڑ کر کہیں “دیکھو لکھا ہے جہاں نظر آئیں مار دو“
میرا مقصد گفتگو کو طویل کرنا نہیں تھا صرف یہ عرض کرنا ہے کہ علمی گفتگو کرتے ہوئے عامیانہ انداز اختیار کرنا بہت نا انصافی کی بات ہے جن چیزوں میں تدبر اور غورو فکر کرنے کے گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے قران کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قران نے خود غورو فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے نہ کے اندھی شخصی تقلید۔
میرا خیال ہے گفتگو تبصروں میں کافی طویل ہوگئی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک علیحدہ پوسٹ کی ضرورت ہے ۔ میں اس بات سے اتفاق کروں گا کہ جس کتاب سے بھی کوئی اقتباس نقل کیا جائے اس کا پورا حوالہ دیا جانا چاہیے اور بالفرض اگر لکھتے وقت رہ گیا ہو تو بعد میں ضرور دینا چاہیے تاکہ سند رہے اور پڑھنے والا بھی اپنی تسلی کر سکے۔ اس کے علاوہ میں راشد کی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ ہمیں سابقے اور لاحقے لگانے کی بجائے دلائل سے تنقید کرتے ہوئے بات کرکے قاری پر چھوڑ دینی چاہیے اور اگر مزید وضاحت درکار ہو تو کر دینی چاہیے۔
ویسے یہ غلطی کبھی کبھی مجھ سے بھی ہو جاتی ہے مگر ایسا کرنا علمی اور تحقیقی رویہ نہیں اور آپ کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ انتہا پسند ، نام نہاد کی اصطلاحات سے بھی ویسے ہی گریز کرنا چاہیے جیسے سرکاری ، جعلی جیسے الفاظ سے
راشد کامران صاحب
آپ کی عمر 31 سال ہے ۔ آپ کی عمر میں نے اسلئے پوچھی تھی کہ میری عمر 67 سال ہو چکی ہے ۔ آپ پاکستانی ہوتے ہوئے امریکنوں سے بھی آگے ہیں کیونکہ امریکن عام طور پر نام ہی سے بلاتے ہیں لیکن عمر کا فرق محسوس طور پر کافی زیادہ ہو تو نام سے پہلے مسٹر لگا دیتے ہیں ۔ بہر حال مجھے آپ سے کوئی شکائت نہیں کہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔
دوسرا عمل جس پر آپ کی طرف سے تکرار ہے یہ ہے کہ آپ بجائے اسکے کہ خود قرآن شریف کا مستند ترجمہ اور تفسیر پڑھیں جو 30 ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں پھر جو کچھ جاوید احمد غامدی صاحب نے لکھا [جو مستند نہیں] اس کی پڑتال کریں آپ مجھ پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ آپ محقق ہیں مگر یہ محقق کا اصول نہیں ہے کہ بغیر تحقیق کئے دوسروں پر اعتراض کئے جائیں ۔ میں نے تحقیق کی اور پھر غامدی صاحب کے بارے میں لکھا ۔ آپ نے لکھا ہے کہ میں نے حوالے نہیں دیئے مگر آپ نے غور نہیں کیا کہ میں نے کتنی مشکل سے اتنا کچھ بھی لکھا کیونکہ جیسا میں لکھ چکا ہوں بجلی کی سپلائی بار بار بند ہو رہی تھی ۔ میرے پاس حوالے موجود ہیں صرف ان کو لکھنے کیلئے وقت درکار تھا ۔ میں صرف ایک حوالہ آپ کی تشفیع کیلئے لکھ دیتا ہوں
غامدی صاحب نے اپنے دو مضامین “برہان صفحہ 140 ” اور “میزان صفحہ 22 طبع دوم” میں لکھا ہے کہ کتاب میزان ہے ۔
کمال ہے ۔ آپ نے ترازو اور میزان کا فرق نکالنا شروع کر دیا ۔ ترازو اردو میں میزان کو کہتے ہیں جو کہ عربی کا لفظ ہے ۔
آپ جو ہدائت مجھے بار بار دے رہے ہیں کاش اپنے آپ کو بھی دیں تو آپ کا ذہن صاف ہو جائے ۔
میں مزید اس موضوع پر بحث نہیں کرنا چاہتا ۔ بہترین طریقہ ایک ہی ہے کہ آپ خود مطالع کریں اور اپنے ذہن کو مطمٔن کریں ۔
وما علینا الی البلاغ
محب علوی صاحب
حقیقت یہ ہے کہ میں نے دس کے دس مکمل حوالے لکھے ہی تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی ۔ اس سے پہلے معمول کے مطابق چالیس منٹ کیلئے بجلی بند رہ چکی تھی ۔ دوبارہ جب مجھے یقین ہوگیا کہ تیسری بار بجلی نہیں جائے گی تو میں نے پھر لکھنا شروع کیا ۔ ابھی پانچ حوالے لکھے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ آخر جب بجلی بحال ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ بغیر غامدی صاحب کی تحاریر کے حوالوں کے جلدی جلدی لکھ دوں ۔ صرف قرآن شریف کے حوالے لکھ دیئے کہ مجھے زبانی یاد تھے ۔
میرا نظریہ ہے کہ میں دوسروں سے سوال اپنے علم میں اضافہ اور وضاحت کیلئے پوچھتا ہوں اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ مستند کتب کا خود مطالعہ کروں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ دینی مدارس کے خلاف کتنا زہر اُگلا جاتا ہے ۔ ان زہر اُگلنے والوں سے کبھی پوچھ کے دیکھئے کہ وہ کس مدرسہ گئے تھے وہاں کتنا وقت گذارہ تھا اور کس سے بات چیت کی تھی تو پتہ چلے گا کہ زیادہ سے زیادہ باہر سے مدرسہ دیکھا تھا ۔ اسی طرح بغیر قرآن شریف کو سمجھنے کی کوشش کئے اس میں غلطیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں جس سے اللہ نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ ہر شخص نے یہ تصور کر لیا ہے کہ اعتراض کرنا اس کا حق ہے بالخصوص اس کتاب پر جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے نازل کی ۔ سائنس کا ہر لفظ صحیح ہے کیونکہ وہ انسان کا لکھا ہوا ہے ۔ میں اس کو نہیں مانتا ۔ اسی تناظر میں میں نے بغیر کسی کا حوالہ دیئے سب بہن بھائوں کی توجہ اس امر کی طرف مبزول کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کو ایک قسم کی ذاتی بحث کا رنگ مل گیا ۔
میں نے اللہ کو پہلے بغیر دلیل کے مانا اور پھر عمر بھر اس پر تحقیق کی اور میرا اعتقاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا ۔ سائنس اللہ کی تخلیق کردہ اشیاء اور عوامل کی انسان کی طرف سے دریافت ہے ۔ انسان کی دریافت صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی اور اس نظریہ میں مستقبل میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے لیکن كرآن تبدیل نہیں ہو سکتا ۔ سائنس اور قرآن متصادم نہیں ہیں لیکن قرآن سائنس سے مقدم ہے ۔
معذرت چاہتا ہوں ۔۔۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کے اختلاف رائےکرنے سے صورت حال اسطرح کی ہو جائے گی اگر نام کے سلسلے میں دل آزاری ہوئی تو اسکے لیے مزید معذرت۔
آپ صاحب بلاگ ہیں اگر تبصرے حذف کرنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔ فورم فراہم کرنے کا شکریہ
راشد کامران صاحب
آپ غامدی صاحب کے یہی دو مضامین جن کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی برہان اور میزان سامنے رکھ لیجئے اور ساتھ قرآن شریف باترجمہ رکھ لیجئے اور ان کا موازنہ کر لیجئے تو بات واضح ہو جائے گی ۔
میں نے یہ دونوں مضامین پڑھ رکھے ہیں اور میں انکی فکر سے متفق ہوں۔ اپنی کج بیانی کے باعث اصل مدعا درست طریقے سے بیان نہیں کرسکا اور میں چاہوں گا کے آپ میرے پچھلے تبصرے حذف کردیں صرف یہ گزارش ہے کہ کسی فکر کو یکدم غلط کہنے اور اسے کاذب قرار دینے کے بجائے اگر ہم یوں کہہ لیں کے “مجھے فلاں شخص کی فکر سے اختلاف ہے“ تو کیا ہی بہتر ہے اور اس سے شاید ہم اسطرح کی ناپسندیدہ صورت حال سے بچ سکیں۔۔
راشد کامران صاحب
میں نے کسی کو کاذب نہیں لکھا ۔ میں ہمیشہ مستند تحاریر سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ دین کے متعلق میں نے کبھی اپنا ذاتی خیال لکھنے کی کوشش نہیں کی سوائے اس کے کہ مجھے یہ پسند ہے یا میں ایسے کرتا ہوں ۔
اجمل صاحب ،
میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ مدرسے آج کے دور میں وہ مظلوم درسگاہیں جن پر تنقید کے کوڑے برسانے ہر شخص نے اپنا فرض اولین سمجھ لیا ہے اور ان سے ایسے ایسے مطالبات کیے جاتے ہیں جو ان کے دائرہ کار سے بالکل باہر ہیں جیسے یہ سوال کہ ان مدرسوں نے کتنے سائنسدان پیدا کیے ہیں ، کتنے ڈاکٹر کتنے انجنئیر پیدا کیے ہیں۔ ایسے سوال پوچھتے دیکھ کر انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ کیا کبھی کسی میڈیکل کالج کی انتظامیہ نے یہ سوال کیا ہے کہ یہاں سے کتنے حدیث اور فقہ کے عالم پیدا ہوئے ہیں یا کسی انجنئیرنگ یونیورسٹی کے چلانے والوں سے کسی نے پوچھا ہو کہ یہاں سے لسانیات کے کتنے ماہر پیدا ہوئےہیں ، فلسفہ کے کتنے عالم بنے ہیں اس یونیورسٹیوں سے مگر مدارس سے ایسے لاینجل سوالات کا سلسلہ مشرف صاحب کے دور میں زور و شور سے جاری و ساری ہے۔