چوری چھُپے تدفین کیوں کی گئی ؟

لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس میں شہید ہونے والوں کو فوجی حکام نے بدھ 11 جولائی اور جمعرات 12 جولائی کی درمیانی رات بڑے بڑے گڑھے کھود کر اجتماعی طور پر دفنانا شروع کر دیا تھا ۔ نہ میّتوں کی پہچان کرائی گئی اور نہ اپنے بچوں ۔ بچیوں ۔ بہنوں ۔ بھائیوں کیلئے اسلام آباد میں آپریشن ایریا کے قریب پہنچے ہوئے سینکڑوں خواتین و حضرات کو مطلع کیا گیا ۔ وہ بیچارے اِدھر سے اُدھر پریشان حال پھرتے رہے ۔ اس سے قبل لاشیں نکال کر چوری چھُپے اسلام آباد ۔ راولپنڈی ۔ ٹیکسلا سمیت مختلف مقامات پر کولڈ سٹورز میں پہنچائی گئیں تھیں اور ان کے گرد سخت حفاظتی پہرے لگا دیئے گئے تھے ۔

جب آپریشن شروع ہوا اس وقت لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس میں 2500 کے لگ بھگ افراد تھے جن میں بھاری اکثریت طالبات کی تھی ۔ زخمیوں کو ملا کر باہر نکل آنے والوں کی حکومت کی طرف سے دی گئی زیادہ سے زیادہ تعداد 1300 سے کم ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی 1200 سے زائد افراد کہاں گئے جن میں بہت سی طالبات بھی شامل تھیں ؟

جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں 10 جولائی کو ایدھی صاحب سے 200 کفن مانگے گئے پھر 11 جولائی کی صبح 800 یا 1000 مزید کفن مانگے گئے لیکن یہ خبر نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد ایدھی صاحب کو مزید کفن بھیجنے سے منع کر دیا گیا ۔ بعد میں ایدھی صاحب نے بتایا کہ ان سے 1200 کفنوں کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس میں شہید ہونے والوں کی تعداد 1200 کے لگ بھگ ہے ۔

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ایک تابوت میں صرف ایک لاش ہے ۔ اسلام آباد کے ایچ ۔ 11 قبرستان میں 12 جولائی کی صبح تدفین کے دوران جب کچھ صحافی پہنچے تو ایک تابوت کے اندر کئی لاشیں پائی گئیں ۔ اس کے بعد صحافیوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔ صحافیوں کے پہنچنے سے پہلے بہت کچھ زیرِ زمین دبایا جا چکا تھا ۔ بعد میں قبرستان میں مزید قبروں کی کھدائی کے لئے مزید مزدوروں کو بھی بلا یا گیا تھا

مولوی عبدالعزیز اور مولوی عبدالرشید غازی کی والدہ کی میّت گم ہو گئی ۔ اگر مرنے والوں میں بے شمار عورتیں نہ ہوتیں تو ایک عورت کی میّت کیسے گم ہو تی ؟

ایک شخص 11 جولائی کی صبح سرکاری طور پر لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے اندر گیا تھا ۔ اُس نے بتایا کہ ہر طرف سفید چادروں میں لپٹی لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں جو سینکڑوں تھیں اور ان میں سے جلے گوشت کی بُو آ رہی تھی ۔ اس نے لال مسجد کی چھت پر بھی کچھ لاشیں دیکھیں جن کو پرندوں نے نوچا ہوا تھا ۔ اس نے بتایا کہ جامعہ حفصہ کی عمارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا اور لال مسجد کی حالت بہتر تھی ۔ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کی چاردیواری کئی جگہوں سے گر چکی تھی ۔ لال مسجد کی عمارت میں کمانڈوز نے بارود سے اُڑا کر جو سوراخ بنائے تھے ان سے پوری مسجد کے اندر دیکھا جا سکتا ہے ۔

حکومت کے اہلکار لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس میں شہید ہونے والوں کی تعداد کبھی 73 بتاتے اور کبھی 150 سے 250 تک ۔ حکومت نے مرنے والوں کی جو فہرست لگائی اس میں ورثاء کی اکثریت کو اپنے بچوں یا بچیوں کے نام نہیں ملے ۔ اس جھوٹ کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ 150 یا 250 کے علاوہ باقی مرنے والی طالبات اور معلمات تھیں ۔ چونکہ حکومت کے سینیئر فوجی اور سویلین اہلکاروں نے بار بار اعلان کیا تھا کہ کوئی طالبہ یا عورت ہلاک نہیں ہوئی اور اس بڑے جھوٹ کو چھپانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ان کی لاشیں غائب کر دی جائیں ۔

میڈیا کے لوگوں کو 11 جولائی کو 11 بجے قبل دوپہر لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس لیجانے کا کہا گیا مگر لیجایا نہ گیا ۔ پھر 12 جولائی بعد دوپہر میڈیا کے کچھ افراد کو لے جایا گیا مگر لیجانے سے پہلے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی صفائی کی گئی ۔ لال مسجد کی عمارت کی کئی جگہوں کی تازہ مرمت کی گئی اور تازہ رنگ کیا گیا تھا ۔ جامعہ حفصہ کے سب کمرے جلے ہوئے تھے اور چھت کے پنکھوں کے پر  پگھل کر لٹک گئے تھے ۔ ایسے میں وہاں موجود طالبات کا کیا بچا ہو گا ؟  صحافیوں کو وضو کرنے کی جگہ ۔ تالاب اور کئی دوسری جگہوں کی طرف جانے نہیں دیا گیا ۔ اس کا مقصد سوائے اسکے کیا ہو سکتا ہے کہ میڈیا والے اندر کی اصل صورتِ حال نہ جان سکیں ۔

آپریشن سے پہلے ایک خاص قسم کا بغیر پائلٹ کے جہاز لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے اوپر سے گذرا تھا ۔ ایسے جہاز امریکہ کے پاس ہیں ۔ ان سے عمارت کے اندر موجود انسانوں کی تصاویر لی جا سکتی ہیں ۔ اس کے بعد جامعہ حفصہ کے اندر ایسے گولے پھینکے گئے جن سے اتنی زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم بھسم ہو جاتے ہیں ۔ ایسے گولے امریکہ نے بغداد ایئرپورٹ پر پھینکے تھے اور 2500 ریپبلیکن گارڈز بھسم ہو گئے تھے اور ان کے جسموں کا بہت کم مادہ بچا تھا جو آسانی سے وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا ۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صحافیوں کا دورہ کیوں 27 گھنٹے مؤخر کیا گیا اور رات کی تاریکی میں چوری چھپے کیوں اجتمائی تدفین کی گئی ۔ امریکہ تو غیروں بالخصوص مسلمانوں کو مارتا ہے لیکن ہمارے اپنے آپ کو سیّد کہنے والے صیہونی نے اپنے ہی ملک کی سینکڑوں مؤمنہ بچیوں اور مؤمن بچوں کو بھسم کر دیا ۔ اور اس پر دہشتگرد بُش کی داد وصول کی ۔

میڈیا والوں کو اسلحہ اور ایمونیشن کے ڈھیر دکھائے گئے ۔ یہاں پر بھی حکومتی منصوبہ بندی مات کھا گئی ۔ ایمونیشن کا اتنا بڑا انبار ہوتے ہوئے جنگجو جو 100 سے زائد کہے جاتے تھے اور ان کے پاس مشین گنیں تھیں تو وہ کیسے ڈھیر ہو گئے ؟ ایک ریٹائرڈ آفیسر کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا اسلحہ ۔ ایمونیشن اور صرف 50 جوان ہوتے تو وہ کم از کم ایک ماہ تک کسی حملہ آور کو لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے قریب بھی نہ آنے دیتے ۔ ویسے تو کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں جب پولیس والے یا سیکیورٹی ایجنسی والے کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو اس سے ہر قسم کی چیز برآمد کر لیتے ہیں ۔ مولوی عبدالرشید غازی نے تو کہا تھا کہ ہمارے مرنے کے بعد حکومت یہاں سے ایٹم بم بھی برآمد کر سکتی ہے ۔


صحافی کیا بتاتے رہے ؟

مسجد کے شمال مشرق میں کورڈ مارکیٹ کے قریب مدرسے سے رضاکارانہ طور پر نکلنے والوں کے لیے قائم ’سرینڈر پوائنٹ‘ پر صحافیوں کی سہولت کے لیے کیمپ لگا دیا جوکہ درحقیقت سہولت کم اور ’سرینڈر‘ زیادہ تھا۔

صحافیوں کو وہاں تک محدود کر دیا گیا۔ انہیں بہترین کھانے اور ٹیلیفون کی سہولت کے علاوہ جب حکومت کا دل چاہا اور جتنی چاہی معلومات بھی فراہم کر دیں۔ یعنی صحافیوں کی انگریزی میں جو کہتے ہیں ’سپون فیڈنگ‘ کی گئی۔
حکومت نے تو جو کیا سو کیا صحافی بھی اس صورتحال میں کافی خوش اور مطمئن دکھائی دیئے۔ اسلام آباد کے صحافی میرے خیال میں ملک کے دیگر علاقوں کے صحافیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور دانشمند ہیں لیکن اس ’سپون فیڈنگ‘ پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔

ذریعہ آج اور جیو ٹی وی چینلز ۔ جنگ ۔ ڈان ۔ دی نیوز ۔ ڈان ۔ بی بی سی اُردو

This entry was posted in خبر, گذارش on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.