بی بی سی کے ہارون رشید لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے دورہ کے بعد کیا کہتے ہیں
لال مسجد اور مدرسہ حفصہ میں کوئی زیر زمین سرنگ نہیں، غیرملکیوں کی موجودگی کی بھی تصدیق نہیں ہوسکی، ابو زر جیسے شدت پسند کیا ہوئے، یرغمالیوں کی تعداد آیا صرف چھاسی تھی یہ بھی واضح نہیں، وہ کہاں تھے اور کہاں چلے گئے؟ مسجد اور مدرسے کے دورے کے بعد بھی ان سوالات کے جواب نہیں مل سکے۔
مسجد و مدرسہ میں صرف رینجرز اور گولیوں سے چھلنی در و دیوار تھے۔ جن دیواروں پر آیات یا نظمیں لکھی تھیں وہاں اب گولیوں نے عجیب و غریب نقوش چھوڑے تھے۔ مسجد کا مرکزی ہال تو محفوظ رہا تاہم اس کے برآمدے کی ٹین کی چھت بےشمار سوراخوں اور در و دیوار آگ سے سیاہ ہوچکے تھے۔ دو میناروں کو بھی گولیوں سے نہیں بلکہ بظاہر راکٹوں سے نقصان پہنچا ہے۔
رینجرز بوٹوں میں جب مسجد میں گھومتے دیکھے گئے تو چند صحافیوں کی شکایت پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ مسجد نہیں رہی۔ مسجد کے احاطے میں سکیورٹی فورسز نے خاردار تار لگا کر صحافیوں کی تقل وحرکت محدود رکھی گئی تھی۔
مدرسے کے فرش ٹوٹے ہوئے شیشیوں، طالبات کے جوتوں، پتھروں، پلاسٹک کے برتنوں اور ملبے سے بھرے پڑے تھے۔ مدرسے کی حالت سے صاف ظاہر تھا کہ میدان جنگ مسجد سے زیادہ یہ چار منزلہ عمارت رہی۔ کوئی کمرہ کوئی دیوار محفوظ نہیں رہی۔
تہہ خانے پہنچے تو وہ اس قسم کا نہیں جو ذہن میں آتا ہے۔ زیر زمین بڑے بڑے کمرے ضرور ہیں تاہم ان میں جنوب کی جانب باقاعدہ بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جوکہ قریب سے گزر رہے ایک نالے کی جانب کھلتی ہیں۔ اسی جانب سے داغے گئے راکٹوں سے دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ بھی تھے۔
مسجد و مدرسے میں اتنے زور دار دھماکے ہوئے کہ پنکھوں کے پر ان کی شدت سے آسمان کی جانب مڑ گئے تھے۔
مدرسے کے ہی ایک کمرے میں صحافیوں کو دکھانے کے لیے قبضے میں لیا گیا اسلحہ سجایا گیا تھا۔ اس میں پستول سے لے کر مشین گنز، دستی اور پیٹرول بم، استعمال شدہ اور غیراستعمال شدہ گولیوں کے ڈھیر اور راکٹ لانچر شامل تھےالبتہ ان پندرہ خودکش حملہ آوروں کی بیلٹس نظر نہیں آئیں جن کی ذرائع ابلاغ میں سرکاری ذرائع کے مطابق بات کی گئی تھی۔
مسجد و مدرسے کے باہر کئی مقامات پر دیوراوں میں شگاف ڈالے گئے تھے اور مدرسے کا آہنی دروازہ بھی گرا ہوا تھا۔ ایک جلی ہوئی گاڑی بھی باہر کھڑی تھی۔ اندر کئی کنکریٹ پلر بھی دھماکوں سے ٹوٹ چکے تھے۔ مسجد و مدرسے کے درمیان واقع بچوں کی لائبریری بھی لڑائی سے متاثر ہوئی۔ جبکہ قریب میں عبدالرشید غازی اور ان کے بھائی کی رہائش گاہ اور چند کواٹروں کا بھی حال باقی عمارتوں سے مختلف نہیں تھا۔
مدرسے کی ایک سمت عمارت میں آگ لگی تھی جس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس سے مختلف چیزوں کے جلنے سے درمیانے دھماکے بھی سننے گئے۔
اس تمام لڑائی میں مثبت بات کمروں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود دینی کتب محفوظ دکھائی دے رہی تھی۔کہیں کہیں خون کے دھبے موجود ہیں۔ بظاہر سکیورٹی فورسز نے صحافیوں کو لانے سے قبل کافی صفائی بھی کی ہوگی۔
ایک صحافی مسعود عاصم کا کہنا تھا کہ حکومت اس دورے سے پہلے جو باتیں کر رہی تھی اور اب جو یہاں بتا رہی ہے اس میں فرق نظر آ رہا ہے۔ ’پہلے حکومت کا موقف تھا کہ یہاں انتہائی مطلوب افراد ہیں اور ابو منصور انہیں لیڈ کر رہا ہے اور دوسرا زیر زمین غار ہیں۔ مجھے لگتا ہے انہیں غلط معلومات ملی تھیں‘۔
اجمل صاحب ،
آپ نے جو تحقیق کی ہے اور جو عرق ریزی ان حقائق کو لکھنے میں جمع کی ہے وہ مستحق ہے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اردو محفل پر بھی آئیں اور ہم مل کر وہاں ان حقائق کو زیر بحث لائیں جس سے ایک بہت بڑی اکثریت ناواقف ہے۔
اگر آپ کہیں تو میں لال مسجد اور سوالات کے نام سے ایک دھاگہ کھول لوں اور آپ کو وہاں دعوت دے دوں۔
محب علوی صاہب
آپ شروع کیجئے اور اس لا ربط مجھے مہیا کر دیجئے تو نوازش ہو گی کیونکہ مجھے اب اپنی آجری تحریر نہیں مل رہی