Monthly Archives: July 2007

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

کچھ سالوں سے ایک مہم زوروں پر تھی کہ پاکستان کو لادینی [Secular] ریاست ہونا چاہئیے ۔ پھر ثبوت کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی صرف ایک تقریر کو جواز بنانا شروع کیا گیا جس میں قائداعظم نے پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کوئی ہندو ۔ سکھ ۔ عیسائی نہیں ۔ حقیقت میں یہ اسلامی ریاست کے اصول کی ترویج تھی ۔ پھر بغیر کسی ثبوت کے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان تو بنایا ہی لادینی ریاست کے طور پر تھا ۔ قائداعظم کی سب تقاریر اور لوگوں کی امنگوں کا اظہار گویا سب جھوٹ تھا ۔ یہ بحث چلتی رہی ۔ دین سے آزادی چاہنے والے اپنی ہر قسم کی اہلیت بروئے کار لاتے رہے ۔ ملکی ذرائع ابلاغ کی اکثریت میں بھی دین بیزار مضامین کی بھرمار رہی ۔ مگر اس تصوّر کو خاص ستائش پھر بھی نہ ملی ۔ پھر ان لوگوں نے مولویوں کی طرف منہ موڑا اور ان کی تضحیک و تمسخر میں انسانیت کی حدیں پھلانگ گئے ۔ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کی امریکہ غلامی کے زیرِ سایہ ہوتا رہا ۔

پھر فوج کشی مکمل ہونے کے بعد ابھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ سُلگ رہے تھے کہ وسط جولائی میں جیو ٹی وی پر ایک مباحثہ دکھایا گیا جس میں ایک علامہ نقوی صاحب تھے ۔ ایک بالکل بے ضرر قسم کے غالباً سُنّی مولوی تھے اور ایک جدید زمانہ کی خاتون ۔ سب سے پہلے علامہ نقوی صاحب کو موقع دیا گیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام میں ریاست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اس میں تو صرف نبوّت کی بات کی گئی ہے اور یہ بھی کہا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر اب تک کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی ۔ شائد ان کا مسلک اس لحاظ سے ٹھیک ہو کہ وہ کسی خلیفہ کو مانتے ہی نہیں ۔ دوسرے مولوی صاحب نے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھ کر کہا کہ صرف اسی سے ریاست کا تصور مل جاتا ہے لیکن ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ محترمہ کی تقریر شروع ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اسی لئے قرآن میں ریاست کے امور کا کوئی ذکر نہیں ۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ صلح حدیبیہ کے مضمون کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھا گیا بلکہ وہ لکھا گیا جو انگریزی میں اَو گاڈ ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق اس سے بھی ثابت ہوا کہ دین کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ محترمہ نے اپنی تُند و تیز آواز کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور کسی کو بولنے نہ دیا ۔

صلح حدیبیہ کے وقت اور حالات کا تدارک کیا جائے تو سمجھ میں آ جاتا ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے یا اللہ کیوں لکھا گیا لیکن محترمہ اتنی ترقی کر گئی تھیں کہ ان کو “یا اللہ” تو معلوم نہ تھا “او گاڈ” معلوم تھا ۔ بہرحال یہ اوائل اسلام کا واقعہ ہے اس وقت یا اللہ لکھنا بھی بڑی بات تھی کیونکہ مکہ کے کافر مسلمانوں کی کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہ تھے ۔ باقی لگتا ہے کہ محترمہ نے قرآن شریف کبھی پڑھا ہی نہیں کیونکہ قرآن شریف میں سارے ریاستی امور کی حدود مقرر کی گئی ہیں جو میں انشاء اللہ پھر کبھی تحریر کروں گا [میں حدود آرڈیننس کی بات نہیں کر رہا ۔ حد کی کی جمع حدود کی بات کر رہا ہوں]

پی ٹی وی اور جیو ٹی وی پر چُن چُن کر ایسے لوگ بُلائے جاتے ہیں کہ دین اسلام کی تضحیک کی جا سکے یا اسے صیہونی رنگ میں پیش کیا جا سکے یا ثابت کیا جا سکے چودہ سو سال پرانا دین آج کے ترقی یافتہ دور میں نہیں چل سکتا ۔ یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ کسی نے شائد ان کے متعلق ہی کہا تھا “ہو دوست تم جسکے ۔ دشمن اسکا آسماں کیوں ہو”۔

جولائی ہی میں ایک فلم “خدا کیلئے” بہت زیادہ اشتہاربازی کے بعد ریلیز کی گئی ۔ خیال رہے کہ کوئی فلم حکومت کی منظوری کے بغیر ریلیز نہیں ہو سکتی ۔ سُنا گیا ہے کہ اس فلم میں ایک مسلم عالم دکھایا گیا ہے جس سے دو فقرے کہلوائے گئے ہیں ۔

ایک ۔ اسلام میں مسلم لڑکی کو عیسائی لڑکے سے شادی کی اجازت ہے
دوسرا ۔ اسلام میں موسیقی کی ممانعت نہیں

جہاں تک مسلم لڑکی کی غیر مسلم لڑکے سے شادی کا تعلق ہے تو اسکی سورةت ة 2 ۔ البقرہ ة ۔ آیت 221 میں صریح ممانعت کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ سورت 5 ۔ المآئد ہ  ۔ آیت  51 ۔ سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیات 84 اور 113 ۔ ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست بنانے ۔ غیر مسلموں کا جنازہ پڑھنے اور خواہ وہ رشتہ دار ہوں ان کیلئے دعائے مغفرت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ [آیات کا ترجمہ نیچے نقل کیا ہے]

جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تو ہر وہ چیز جو یادِ الٰہی سے غافل کر دے اس کی قرآن شریف میں ممانعت کی گئی ہے ۔ موسیقی کے علاوہ تاش کھیلنا اور دیگر کئی عمل بھی ایسے ہیں جو یادِ الٰہی سے غافل کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق متعدد آیات ہیں ۔ عدنان صاحب جو کسی زمانہ میں موسیقی کے رَسیا تھے اور یہ فلم بنانے والے شعیب منصور کے مداح بھی انہوں نے اپنے روزنامچہ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔

اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف ایک احساس اُبھرتا ہے کہ ہمارے ملک پر پرویز مشرف کی حکومت بھی نہیں بلکہ صیہونیوں اور انتہاء پسند عیسائیوں کی حکومت ہے ۔

سور ت 2 ۔ البقرہ  ۔ آیت 221
اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے،

سورت نمبر ة 5 ۔ المآئدةہ ۔ آیت 51 ۔
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ ان میں سے ہو گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا

سورة ت نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 84
اور آپ کبھی بھی ان میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے

سورت ة نمبر 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 113
نبی اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں

ایوانِ صدر اور صحافیوں کا کردار

لال مسجد تنازع بظاہر تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اور حکومت نے بہت سے ” محب وطن حلقوں “ کے پُرزور اصرار اور دباؤ پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف خونی آپریشن کرکے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی ”رِٹ” قائم کر دی ہے لیکن اس سارے معاملے کو شروع سے آخر تک جس انداز سے ہینڈل کیاگیا اور اب اس آپریشن کے جو مابعد اثرات سامنے آرہے ہیں، ان کے پیش نظر بحیثیت قوم بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت اور بالخصوص ہماری قیادت کی اہلیت کا سوال سب سے زیادہ توجہ اور غور وفکر کا مستحق ہے۔ جیساکہ سب جانتے ہیں لال مسجد کا تنازع اس سال جنوری میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کی سات مساجد کو تجاوزات قرار دے کر منہدم کرنے اور دیگر بہت سی مساجد اور جامعہ حفصہ سمیت کئی مدارس کو انہدام کا نوٹس دیئے جانے پر شروع ہوا تھا، اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ یہ تمام مساجد ومدارس واقعی سر کاری زمین پر قائم تھے اورغیر قانونی طور پر قائم کئے گئے تھے تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد میں ان چند مساجد ومدارس کے علاوہ باقی تمام عمارات سو فیصد قانونی طور پر قائم تھیں؟ اورکیا وفاقی دارالحکومت میں لینڈ مافیا کا صفایا کردیاگیا تھا کہ اب صرف مساجد و مدارس سے قبضہ واگزار کروانا باقی رہ گیا تھا؟ اگر اس کاجواب نفی میں ہے اور اخباری ریکارڈ کے مطابق یقینا نفی میں ہے تو پھر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو گوناگوں داخلی چیلنجوں کا سامنا تھا، صرف مساجد و مدارس کے خلاف کارروائی کس کے کہنے پر کن مقاصد کیلئے کی گئی تھی؟ اس سوال کا جواب سب سے پہلے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

جس انداز سے اس کارروائی کے بعد ملک میں علماء اور دینی مدارس کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں کو بار بارسبوتاژ کرکے علماء ، دینی طبقوں اور بالخصوص لال مسجد انتظامیہ کو اشتعال دلانے اور انتہائی اقدامات پر مجبور کرنے کی کو ششیں کی گئیں وہ کوئی راز کی بات نہیں ہے بلکہ ان مذاکرات میں شریک اعلیٰ حکومتی شخصیت چوہدری شجاعت حسین نے خود تسلیم کیا تھا کہ نادیدہ قوت نے لال مسجد انتظامیہ کے ساتھ مساجد کے معاملے میں طے پانے والے معاہدے کو سبوتاژ کردیا، لال مسجد انتظامیہ کے بعض اقدامات سے تمام قومی حلقوں اورخود علماء نے شدید اختلاف کیا لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ مولانا برادران نے کسی بھی مرحلے پر مذاکرات اور گفت وشنید سے انکا ر نہیں کیا، جبکہ حکومت نے 3 جولائی کو آپریشن کے آغاز پر ہی اعلان کردیا تھا کہ اب لال مسجد انتظامیہ سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، یہ اعلان لال مسجد کے اندر موجود افراد کی کئی دنوں تک کی زبردست مزاحمت اور بعض سنجیدہ رہنماؤں کی مداخلت پر واپس لے لیاگیا اور 9 جولائی کو علماء اور چوہدری شجاعت حسین کی کوششوں سے دوبارہ لال مسجد انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کئی گھنٹوں تک گفت وشنید کے بعد بالآخر تینوں فریقوں کی رضامندی سے معاہدے کا ایک ڈرافٹ تیارکرلیا گیا لیکن مذاکرات میں شامل علماء کے مطابق جب ڈرافٹ پر دستخط کرنے کا مرحلہ آیا تو چوہدری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے اور یہ کہ اس کا فیصلہ ایوان صدر میں ہی ہوگا،

ایوان صدر میں اس ڈرافٹ میں یکطرفہ طور پر تبدیلیاں کی گئیں اور علماء کوتبدیل شدہ ڈرافٹ پر صرف ”ہاں یا نہ“ میں جواب دینے کا پیغام دیاگیا جو ظاہر ہے کہ علماء کیلئے ناقابل قبول تھا۔”جنگ “کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق علامہ غازی بعد میں ایوان صدر کے منظور شدہ ڈرافٹ پر بھی راضی ہوگئے تھے لیکن حکو مت نے آپریشن روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب لیاجاسکتا ہے کہ حکومت نے نامعلوم مصلحتوں کی بنا پر ہر حال میں آپریشن کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا اور مذاکرات کو محض ایک اسٹریٹجی کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔

حکومت کا یہ طرز عمل اپنی جگہ ، اس کے ساتھ ساتھ بعض مخصوصہ ذہنیت کے حامل سیاستدانوں، دانشوروں اور کالم نگاروں نے اس سارے معاملے کو خرابی تک لے جانے میں جو کردار ادا کیا وہ بھی کچھ کم افسوسناک نہیں ہے، بعض کالم نگاروں کو لال مسجد تنازع کی شکل میں علماء ، دینی مدارس اور مذہبی طبقے کے خلاف اپنے بغض کے اظہار کا گویا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا تھا اور انہوں نے یہ موقع ایسے وقت میں بھی ضائع نہیں ہونے دیا جب پوری قوم لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اندر موجود ہزاروں بچوں اور بچیوں کی زندگی کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا تھی ، ایسے وقت میں دونوں فریقوں کو فہم وتدبر اور صبروتحمل کی تلقین کرنے کی بجائے ملک کے بعض نامی گرامی دانشوروں اور کالم نگاروں نے حکومت کو فوری آپریشن کرنے، ” دہشت گردوں“ کو ”کچل دینے“ کے مشورے دیے اورمولانا عبدالعزیز کی برقع میں گرفتاری کے [ڈرامہ کے] بعد علماء اوردینی مدارس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی گئی جس نے لال مسجد انتظامیہ کی مخالف دینی قوتوں کو بھی ان کی حمایت کرنے اور خود علامہ غازی اور ان کے ساتھیوں کو آخر دم تک مزاحمت کرنے پر مجبور کردیا۔

مولانا برادران پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سرکاری زمین پر اپنا ایک ذاتی”قلعہ“ بنایا ہوا ہے جہاں انہیں تمام سہولتیں حاصل ہیں، آپریشن کے اختتام پر صحافی خاص طور پر اس ”قلعے“ کو دیکھنے کیلئے اندر گئے اور یہ رپورٹ دی کہ دس ہزار کے قریب طلبا وطالبات کو مفت تعلیم ، رہائش اور طعام فراہم کرنے والے مولانا برادران کے تین تین کمروں پر مشتمل سادہ سے مکانات کے کسی کمرے میں ایئر کنڈیشنر تو درکنار ائیر کولر اور صوفہ سیٹ تک نہیں تھے، بھاری اسلحے اور” غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی کے الزامات بھی محض افسانہ تھے، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بعض دانشور قومی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کس قسم کے تحقیقی معیار کا ثبوت دیتے ہیں۔ لال مسجد تنازع کے دوران مذکورہ حلقوں کی جانب سے ”حکومتی رٹ“ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا اور لال مسجد انتظامیہ کو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر گردن زدنے کے لائق قرار دیا گیا ۔ اصولی طور پر اس موقف کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن اگر ماضی قریب میں خود انہی حلقوں کے طرز عمل پر غور کیا جائے تو کم از کم ان کی جانب سے یہ موقف بڑا عجیب لگتا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک سال قبل اکبر بگٹی مرحوم نے جب حکومت سے باقاعدہ طور پر بغاوت کرکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس لشکر تشکیل دے کر بلوچستان میں ایک جنگ شروع کردی تھی اور حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے وہاں کارروائیاں کر رہی تھی تو انہی دانشوروں اورسیاسی جماعتوں نے نہ صرف حکومت کی مخالفت کی تھی بلکہ حکومت کے خلاف اکبر بگٹی کی بغاوت کو ”حقوق“ کی جائز جدوجہد سے تعبیر کیاتھا، لال مسجد آپریشن کی سب سے بڑھ کر حمایت کرنے والی ایک حکومتی حلیف جماعت نے تو حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی آپریشن کی صورت میں حکومت سے الگ ہونے تک کی دھمکی دی تھی (جس پر اکبر بگٹی کی ہلاکت کے باوجود بھی عمل نہیں کیا گیا)۔ کیا بلوچستان میں حکومتی رٹ اہم نہیں تھی ؟ اس کاجواب ان حلقوں کے ذمے ہے۔ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے دہرے معیارات سے نجات حاصل کرنے اور قومی معاملات پر تعصبات سے ہٹ کر متوازن سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریر ۔ مولوی محمد شفیع چترالی

کیا ہم مسلمان ہیں ؟

جب میں نویں یا دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953 سے قبل] تو میں نے ایک رسالے میں پڑھا تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کی 4 قسمیں ہیں ۔ ٹھاٹھ کے جو تمام اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں ۔ باٹھ کے جو نماز اور روزے کی پابندی کرتے ہیں ۔ آٹھ کے جو صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور تین سو ساٹھ کے جو صرف عید کی نماز پڑھتے ہیں ۔ لیکن ایک بات ان سب میں تھی کہ وہ اللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن شریف کی عزت بہت کرتے تھے ۔ ایک واقعہ درج کروں ۔ ہمارے محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا جو نماز کبھی کبھار ہی پڑھتا تھا ۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بہت کوشش کی کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھ لیا کرے مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا ۔

جب میں انجنیئرنگ کالج میں پڑھتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا تو ایک دن میں گلی میں جا رہا تھا اور وہ لڑکا مجھ سے کچھ فاصلہ پر آگے جا رہا تھا ۔ اس نے جلدی سے جھُک کر نالی میں سے کچھ اُٹھایا اور کچھ دیر کیلئے کھڑا ہوگیا ۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا مگر اس سے پوچھنے کی جرأت نہ کی ۔ سامنے سے اس کا پڑوسی آ رہا تھا اس نے پوچھا “کیا تھا نالی میں ؟” تو اس نے جواب دیا “قرآن شریف کے ورق کا ٹکڑا”۔ پڑوسی نے پوچھا ” تو تم نے منہ میں ڈال لیا ؟”۔ اس لڑکے کے نے کہا “اور کیا کرتا ؟ قرآن شریف تھا”۔ وہ اس ٹکڑے کو نگل گیا تھا ۔ اس کیلئے شائد یہی قرآن شریف کا احترام تھا ۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں 1500 سے زائد طالبات اور کئی سو طلباء کو جن میں چھوٹی عمر کے بچے بچیاں بھی شامل تھے انتہائی بیدردی سے ہلاک کیا گیا ۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک مسلمان اس سفّاکانہ قتل کا حکم دے اور مسلمان ہی اس انسانیت سوز عمل کا ارتکاب کریں ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں انسانوں کے علاوہ ہزاروں مقدس کتابیں بھی تھیں جن میں قرآن شریف ۔ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت النبی بھی شامل تھیں ۔ جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر مشین گنوں سے فائرنگ اور گولہ باری کی گئی اور جب جامعہ حفصہ کے کمروں کے اندر آگ لگانے والے گولے پھنکے گئے جن کے نتیجہ میں جسموں کے چیتھڑے اڑ گئے اور 1500 سے زائد طلباء و طالبات جل کر ختم ہو گئے ۔ کسی نے نہ سوچا کہ قرآن شریف کے کتنے نسخے آگ کی نظر ہوئے ہوں گے اور کتنوں کے اوراق بکھرے ہو گے ۔ جلی لاشوں اور گولوں سے بکھرے جسموں کے ٹکڑوں کو عوام کی نظر سے بچانے کی عجلت میں کارپردازوں نے کتابِ مقدس کی مزید کتنی بے حرمتی کی ہو گی اس کا کچھ اظہار تو گندے نالے میں پھینکے گئے ملبہ سے ملنے والے قرآن کے اوراق اور پورے پورے جزو [پارے یا سپارے] سے ہوتا ہے ۔

ایسے عمل کی توقع ایک ایسے برائے نام مسلمان سے بھی نہیں کی جا سکتی جو صرف اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور اس نے کبھی قرآن و سنّت پر عمل نہ کیا ہو ۔ فوجی جوتوں سمیت لال مسجد میں پھرتے رہے اور وہاں سے لاشوں اور دوسری اشیاء کو غیر مسلموں سے اٹھوایا گیا ۔ مسجد اور کتابِ مقدس قرآن شریف کے ساتھ یہ سلوک ؟ اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو گا ؟

یہ سوال مجھے پچھلے 15 دن سے بہت تنگ کر رہا ہے “کیا ہم مسلمان ہیں ؟”

ظلم کا حد سے بڑھ جانا

کہتے ہیں کہ ظلم حد سے بڑھ جانا ہے دوا ہو جانا ۔ ظلم تو حد سے بہت آگے بڑھ چکا ۔ اب اس کے دوا ہونے کی انتظار ہے ۔ آج لال مسجد کے چند زخمی طلباء جو تا حال ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں کا کچھ احوال معلوم ہوا ۔ دو تین طلباء کے بازوؤں پر گولیاں لگی تھیں اور ایک کے پیٹ میں کئی گولیاں لگی تھیں ۔ پیٹ میں گولیاں لگنے والے لڑکے کے متعلق ڈاکٹر نے کہا کہ ہم حیران ہیں کہ یہ اب تک زندہ کیسے ہے ۔ طلباء نے بتایا کہ جب اعلان ہوا کہ جو باہر نکلے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور 5000 روپیہ فی کس گھر جانے کا خرچہ بھی دیا جائے گا تو وہ باہر نکلے لیکن باہر نکلتے ہی ان پر فائر کھول دیا گیا جس سے کئی طلباء زخمی ہوئے اور ہو سکتا ہے شہید بھی ہوئے ہوں کیونکہ یہ لوگ زخمی ہو کر گر گئے تھے اور کسی کو ایک دوسرے کا ہوش نہ تھا ۔ جب وہاں کوئی سرکاری آدمی موجود نہ تھا تو ایک زخمی نے منت کی کہ ہمیں کسی طرح ہسپتال سے نکال لے جائیں ۔ جس زخمی کو ہسپتال والے فارغ کرتے ہیں اسے ہتھکڑیاں لگا کر پتہ نہیں کہاں لے جاتے ہیں کہ پھر اس کی کوئی خبر نہیں آتی ۔

حکومت نے اپنے ظلم کے نشانات مٹانے کیلئے دن رات کام کیا ۔ 1500 سے زائد طالبات کے جلے ہوئے جسموں کو راتوں کی تاریکی میں کسی نامعلوم غیرآباد جگہ یا کئی جگہوں پر بڑے بڑے گڑھے کھود کر دبا دیا گیا ۔ طالبات کاسامان ٹرکوں میں بھر کر مختلف غیرآباد جگوں پر پھینکا گیا ۔ مندرجہ ذیل وڈیو میں صرف ایک جگہ [جی سیون ٹو کے گندے نالے] کی چھوٹی سی جھلک دیکھئے کہ وہاں سے کیا ملا ۔ اس مقام پر بھی اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس جلد ہی پہنچ گئی تھی اور انہوں نے قرآن شریف اور حدیث کی کتابوں کے اوراق اور انسانی جسموں کے ٹکرے جو اس وقت تک لوگوں نے علیحدہ کئے تھے یہ کہہ کر اٹھا لئے کہ دفن کریں گے ۔ پھر عام آدمیوں کو وہاں سے ہٹا کر پہرہ لگا دیا گیا ۔ بعد میں بقایا ملبہ 4 ٹرکوں میں بھر کر اٹھا لیا گیا جس کے متعلق کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لیجا کر اسلام آباد کے کسی جنگل میں بکھیر دیا گیا ۔

[youtube=http://www.youtube.com/watch?v=Gzv0lFnwjbs]

گناہِ بے لذّت

گناہِ بے لذّت اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے سے فائدہ کچھ نہ ہو لیکن نقصان ہوتا ہو ۔

اگر کوئی شخص میڈیکل کی ایک یا دو کتابیں سرسری طور پر پڑھ لے اورپھر اتنے پر بھی عمل کئے بغیر دعوٰی کرے کہ وہ ڈاکٹر بن گیا ہے تو کوئی شخص اس کو ڈاکتر نہیں سمجھے گا بلکہ اس کی دماغی حالت پر شک کیا جائے گا ۔ اسی طرح کسی بھی موضوع پر بولنے یا لکھنے سے پہلے اس کے متعلق گہرا مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن حیرت ہے کہ ہمارے مُلک میں مسلمان باوجود مندرجہ بالا مثال سے متفق ہونے کے دین اسلام کا صحیح طور سے علم حاصل کئے بغیر اسکے بارے میں جو جی میں آتا ہے کہہ یا لکھ دیتے ہیں ۔

مزید آجکل فيشن ہو گيا ہے کہ کچھ لوگ اپنی قابليت يا دريا دلی يا نام نہاد روشن خيالی دکھانے کيلئے ايسی ايسی تحارير لکھتے ہيں جن سے اُن کو کوئی فائدہ پہنچے نہ پہنچے البتہ نقصان ضرور ہوتا ہے جس کا اُنہيں احساس تک نہيں ہوتا ۔ کوئی اللہ کے احکامات کے مخالف لکھتا ہے تو کوئی اللہ کے احکام کو مُلّاؤں کی اختراع قرار ديتا ہے ۔ کچھ ايسے بھی ہيں جو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدوں کو نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک انسانی حقوق کے خلاف اور ظالمانہ لکھتے ہيں ۔ گويا وہ اللہ سے زيادہ انسانيت پسند ہيں ۔

کوئی مزيد آگے بڑھتا ہے اور 1400 سال پرانے اسلام کو سائنس کے اس دورِ جديد ميں ناقابلِ عمل قرار دے ديتا ہے ۔ کيا ان لوگوں کے خيال ميں نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک اس کائنات کے خالق اور اس کے نظام کو چلانے والے کے عِلم ميں نہ تھا کہ چودہ سو سال بعد کيا ہونے والا ہے ؟ اور کيا يہ لوگ سمجھتے ہيں کہ نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے زيادہ سمجھدار ہيں يا زيادہ جانتے ہيں ؟

مندرجہ بالا برتاؤ کے برعکس کچھ لوگ ایسے اعمال کو قرآن کا حکم قرار دے دیتے ہیں جو کہ قرآن میں موجود نہیں ہوتے ۔ سب سے عام فقرہ جو شادی کے دعوت ناموں پر بھی چھپا ہوتا ہے “رشتے آسمان پر بنتے ہیں اور زمین پر ان کے تکمیل کی جاتی ہے ۔ القرآن “۔ ایسی کوئی آیت نہیں ہے چناچہ ایسا عمل دین میں غلُو کے زمرے میں آتا ہے ۔

کيا آج کے مسلمانوں نے کبھی سوچا کہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف اس طرح لکھ کر يا ان ميں ترميم کر کے وہ گناہِ بے لذّت کے علاوہ کچھ حاصل نہيں کر رہے ؟

بچ نکلنے والی طالبہ کا انٹرویو

بدھ 11 جولائی کو حکومت کے مطابق آخری 30 طالبات جامعہ حفصہ سے نکلیں تھیں ۔ انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا اور دو دن بعد انہیں انکے والدین کے حوالہ کر دیا گیا تھا ۔ ان طالبات میں ایک مرگلہ کی پہاڑیوں پر کوٹلہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی شہناز اختر بھی ہے ۔ شہناز اختر عام سکول سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد گذشتہ 6 سال سے جامعہ حفصہ میں زیرِ تعلیم تھی اور اب عالِمہ کے کورس کے آخری سال میں تھی کہ سب کچھ آگ اور بارود کی نظر ہو گیا ۔ شہناز اختر کے مطابق ۔ 550 طالبات حدیث کی عالِمہ کا کورس مکمل کر چکی تھیں جس دن ان کی تقسیمِ اسناد کی تقریب ہونا تھی اسی دن نمازِ فجر کے وقت جامعہ حفصہ پر پہلی شدید فائرنگ اور گولہ باری ہوئی ۔

شہناز اختر نے بتایا کہ وہ 5 دوسری طالبات کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرہ میں تھی ۔ دوسرے کمروں میں سے ایک میں ایک میں گولہ آ کر گرا جس سے ایک دم آگ لگ گئی اور 30 طالبات جل کر شہید ہوگئیں ۔ اس کے بعد اُم حسّان نے کہا کہ تمام طالبات کی فہرست تیار کی جائے تو وہ فہرست بنانے میں لگ گئی مگر دوسرے دن تک ابھی 1000 طالبات کے کوائف لکھے تھے کہ ایک اور شدید حملہ ہوا جس میں 85 طالبات شہید ہو گئیں ۔ تیسرے دن حملہ اور بھی شدید تھا جس کے نتیجہ میں 270 طالبات شہید ہو گئیں اور 50 کے لگ بھگ زخمی ہوئیں جن کو کوئی طبّی امداد نہ ملی ۔

شہناز اختر نے بتایا کہ رات کو کامیاب مذاکرات کی بات ہوئی [10 اور 11 جولائی کی درمیانی رات والے آخری مذاکرات] لیکن فجر کے وقت اچانک دھماکوں اور شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں ۔ ہمیں تہہ خانے میں جانے کا کہا گیا ۔ وہاں اس وقت تقریباً 1500 طالبات تھیں ۔ دن نکلا اعلان ہوا کہ جو باہر نکل آئے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ دن کو ساڑھے گیارہ بجے ہم 30 طالبات باہر نکل آئیں ۔ باقی نے یہ کہہ کر باہر جانے سے انکار کر دیا کہ یہ دھوکہ دے رہے ہیں اور پھر ہم باہر نکل کر جائیں گی کہاں ؟ [ان طالبات کی زیادہ تعداد زلزلہ سے متأثر علاقہ سے تعلق رکھتی تھی] ۔ جب ہم جامعہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ جامعہ کی چھت پر کمانڈو کھڑے تھے ۔ انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کردی ۔ بڑی مشکل سے ان کو چیخ کر بتایا کہ ہم باہر جا رہی ہیں ۔ ہم برستی گولیوں میں باہر نکل آئیں تو باہر پھر ہمیں کمانڈوز نے گھیر لیا ۔ پھر زنانہ پولیس نے ہماری تلاشی لی اور سب کچھ رکھوا لیا جس میں 1000 طالبات کے کوائف والی فہرست بھی شامل تھی ۔ کمانڈوز نے ہم پر طنز کیا اور ہمارے ساتھ بدتمیزی بھی کی ۔ پھر ہمیں نقاب اُتارنے کا حکم دیا گیا ۔ بعد میں ہمیں تھانہ آبپارہ لیجایا گیا وہاں پر بھی اہلکار بدتمیزی سے بات گفتگو کرتے رہے ۔ آبپارہ تھانہ سے ہمیں سپوٹس کمپلیکس لیجایا گیا جہاں سے بعد میں مجھے میرے گھر والے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا کر لے آئے ۔

بشکریہ اُمّت ۔ مکمل انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے ۔