Yearly Archives: 2006

خبر دار ۔ جاسوس ميسنجر سے بچِئے

 مائيکروسافٹ ايم ايس اين ميسنجر کی بجائے ايک نيا ميسنجر ميدان ميں لايا ہے جس کی خوبيوں کا چرچا ہو رہا ہے ۔ اس کا نام ہے وِنڈوز لائيو ميسنجر ۔ ميں نے بھی اس سے مُستفيد ہونے کا سوچا اور اسے ايک ہفتہ قبل اپنے کمپيوٹر پر نصب کر ديا ۔ دو دن بعد اس ميں اور ميرے کمپيوٹر کے محافظ نارٹن ميں جنگ چھِڑ گئی ۔ ميں ميسنجر کھولنے کی کوشش کرتا تو وہ نہ کھُلتا ۔ وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ميرے کمپيوٹر کا محافظ اُسے روک رہا تھا ۔  

مُجھے ياد آيا کہ ميرا بيٹا زکريا جب دسمبر 2005 جنوری 2006 ميں يہاں تھا تو شرارتی سافٹ ويئر پکڑنے اور اُسے قيد کرنے والی سافٹ ويئر ميرے کمپيوٹر ميں نصب کر گيا تھا جو ميں نے اس ماہ ميں نہيں چلائی تھی ۔ ميں نے اُسے چلايا تو معلوم ہوا کہ وِنڈوز لائيو ميسنجر نے ميرے کمپيوٹر ميں ايک جاسوس بٹھا رکھا تھا جو ميرے کمپيوٹر کے متعلق معلومات مائيکروسافٹ کو بھيجنے کی کوشش کر رہا تھا ۔   

مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ مائيکروسافٹ ونڈوز کے مَينيو ميں 4 چيزيں تھيں ۔ ميسنجر شارٹ کَٹ ۔ ہوم ۔ فيڈبَيک اور ٹول بار ۔ ميں نے صرف شارٹ کَٹ نصب کيا تھا ۔ اُس کے باوجود جاسوس کو خفيہ طور پر ميرے کمپيوٹر ميں داخل کر ديا گيا تھا ۔ چنانچہ ميں نے اُسی وقت  جاسوس پروگراموں کو قيد کيا اور وِنڈوز لائيو ميسنجر کو حذف کر کے 2005 والا پرانا ايم ايس اين ميسنجر نصب کر ديا ۔

 * 

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل پتہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name ۔ ۔ http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

اُردو ترجمہ ۔ اصطلاحات

 مندرجہ ذيل ترجمے يا اصطلاحات پيشِ خدمت ہيں  

بلاگ مخفف ہے ويب لاگ کا ۔ لاگ کا ترجمہ ہے بياض چنانچہ بلاگ کا ترجمہ ہوا مواصلاتی بياض   

سائيڈ بار کا ترجمہ بھی پہلے سے موجود ہے حاشيہ ۔ اس طرح رايٹ سائيڈ بار ہوئی داہنا حاشيہ اور ليفٹ سائيڈ بار ہوئی باياں حاشيہ 

چَرنے کا انگريزی ميں ترجمہ  براؤز ہے يا يوں کہيئے کہ براؤز کا اُردو ترجمہ چَرنا ہے ۔ چَرنے والے جانور کو چرِند کہتے ہيں ۔ اس لئے براؤزر کا ترجمہ ہوا چرِند 

کلِک کا ترجمہ ٹِک ہے اور اِن دو الفاظ ميں کوئی خاص فرق نہيں اس لئے بہتر ترجمہ دريافت ہونے تک اسے ايسے ہی رہنے ديا جائے   

نتيجہ

مواصلاتی بياض  Blog

حاشيہ  Side Bar

  داہنا حاشيہ Right Sidebar

 باياں حاشيہ  Left Sidebar

  چرِند Browser

*

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل پتہ پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے چرِند ميں لکھ کر پڑھيئے        ۔

Hypocrisy Thy Name۔ ۔ ۔  http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔ ۔

کاش کوئی مُجھ کو سمجھاتا

کاش کوئی مُجھ کو سمجھاتا

ميری سمجھ ميں کچھ نہيں آتا

قسمت کی ہے يہ ہيرا پھيری

ہاتھ حُکمرانوں کا جيب ہے ميری

يعنی جيب عوام کی 

پاکستان کے سينٹ ميں حکمران جماعت کے رُکن نثار ميمن نے سوال پوچھا تھا کہ روزانہ استعمال کی اشياء کی جون 1996 سے جون 2006 تک کی پرچون قيمتوں کا مؤازنہ پيش کيا جائے ۔ اس کے جواب ميں پاکستان کی وزير برائے اقتصادی امور حنا  ربّانی کھر  نے 17 اگست 2006 کو سينٹ ميں مندرجہ ذيل اعداد و شمار پيش کئے ۔ 

موصوفہ  وزير کے مطابق

گائے کے ايک کلو گوشت کی قيمت جون 1999 ميں 53 روپے 59 پيسے اور اب 108 روپے 78 پيسے ہے

بکرے کے ايک کلو گوشت کی قيمت جون 1999 ميں 101 روپے 55 پيسے اور اب 204 روپے 3 پيسے ہے

دال ماش ايک کلو کی قيمت جون 1999 ميں 32 روپے 2 پيسے اور اب 69 روپے 37 پيسے ہے 

دودھ ايک ليٹر کی قيمت جون 1999 ميں 16 روپے 72 پيسے اور اب 24 روپے 33 پيسے ہے

  

اصل صورتِ حال اسلام آباد ميں 

گائے کا ايک کلو گوشت جون 1999 ميں 60 روپے کا تھا اور اب 150 روپے کا ہے

بکرے کا ايک کلو گوشت جون 1999 ميں 100 روپے کا تھا اور اب 250 سے 260 روپے کا ہے 

دال ماش ايک کلو جون 1999 ميں 32 روپےکی تھی اور اب 80 روپے کی ہے

دودھ ايک ليٹر جون 1999 ميں 16 روپے کا تھا اور اب کم از کم 28 روپے کا ہے البتہ پانی ڈالا ہو تو 24 روپے بھی مل جاتا ہے   موصوفہ وزير نے پٹرول اور ڈيزل کی قيمتوں کا ذکر نہيں کيا جس نے سب ريکارڈ توڑ ديئے ہيں ۔ اکتوبر 1999 ميں جب جمہوری حکومت پر فوج نے قبضہ کيا تو پٹرول کی قيمت 22 روپے 60 پيسے فی ليٹر تھی اور اب کئی ماہ سے تقريباً 58 روپے فی ليٹر ہے ۔   

قارئين ہماری حکومت کی معلومات کے معيار کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگا سکتے ہيں ۔ موصوفہ  وزير نے پرچون قيمتيں پيسوں کی حد تک بتائيں جبکہ مندرجہ بالا اشياء کی قيمتيں پچھلے کم از کم 20 سال ميں ہم نے پيسوں ميں نہيں ديکھيں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے حُکمران مُلکی حالات سے بالکل بے خبر ہيں اور موج ميلے ميں مصروف ہيں ۔

 *

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے tp://iabhopal.wordpress.com

آرزو اور انتظار

عمر اُدھار مانگ کے لائے تھے چار دن

دو  آرزو  ميں کٹ گئے دو  انتظار ميں

ٹھيک ہی کہا تھا بہادر شاہ ظفر نے ۔ زندگی ميں ہے ہی کيا ؟  بس آرزو اور انتظار ۔ ۔ ۔

عورت کی زندگی کے سفر کا خاکہ

ڈيرہ غازی خان سے اپنا ڈيرہ والے منير احمد طاہر صاحب کے شکريہ کے ساتھ

بچہ جب ليٹے ہوئےبڑوں کو بيٹھا يا کھڑا ديکھتا ہے تو اُس کے دل ميں اُٹھ بيٹھنے کی آرزو پيدا ہوتی ہے اور وہ سر آُٹھانے کی کوشش بھی کرتا ہے پھر اسی انتظار ميں رہتا ہے کہ کس دن وہ بيٹھنے لگے گا ۔ بيٹھنے لگتا ہے تو چلنے والوں کو ديکھ کر کھڑے ہو کر چلنے کی آرزو کرتا ہے اور اسی انتظار ميں وقت گذارتا ہے ۔ چلنے لگتا ہے تو گھر سے باہر جانے کی آرزو لے بيٹھتا ہے اور انتظار ميں رہتا ہے کہ کب وہ خود دروازہ کھولنے کے قابل ہو گا ۔  

باہر جانے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ جوان ہونے کی آرزو ميں دن گذارنے لگتا ہے اور چھُپ چھُپ کر آئينے ميں ديکھتا رہتا ہے کہ کب موچھيں اور داڑھی نکليں گی ۔ تعليم حاصل کرنے کے دوران کوئی اس انتظار ميں رہتا ہے کہ چھُٹياں ہوں تو سير و سياحت کی آرزو پوری کرے ۔ کوئی امتحان کی انتظار ميں رہتا ہے کہ اپنی محنت کا پھَل حاصل کرے ۔

جوان ہو کر ايک ساتھی کی آرزو دل ميں چُٹکياں لينے لگتی ہے اور وہ اس آرزو کی تکميل کا بيقراری سے انتظار کرتا ہے ۔ شادی کے بعد ماں يا باپ بننے کی آرزو جنم ليتی ہے اور وہ اُس خوش آئيند گھڑی کی انتظار ميں دن گننے لگتا ہے ۔ بچہ مل جاتا ہے تو اُسے آرزو ہوتی ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر قابل بن جائے تو اس وقت کی انتظار ميں دن مہينے اور سال گذرنے لگتے ہيں ۔ پھر بچوں کی شادی کی آرزو جکڑ ليتی ہے اور اچھے رشتوں کی انتظار ميں رہتا ہے ۔ 

ملازمت کرے تو بڑا افسر بننے کی آرزو ہر وقت دامنگير رہتی ہے اور ايک کے بعد دوسری ترقی کی انتظار ميں سال پہ سال گذارتا ہے ۔ تجارت کرے تو زيادہ سے زيادہ امير بننے کی آرزو نہيں چھوڑتی اور اُس دن کی انتظار ميں رہتا ہے جب اُسے زندگی کی تمام آسائشيں حاصل ہو جائيں ۔

بچوں کی شادياں ہو جانے پر بچے اپنے اپنے کاموں ميں مصروف ہو جاتے ہيں اور وہ والديا والدہ سے بوڑھا دادا يا دادی بن جاتا ہے ۔ ايسے ميں وہ ايک آرزو دل ميں بسا ليتا ہے کہ بچے خوش رہيں اور اپنی خوشيوں ميں اُسے بھی شريک کر ليا کريں ۔ اگر اس کا بچہ بہت دُور چلا جائے تو بھی تمام تر حقائق جانتے ہوئے اُس کے ديدار کی آرزو دِل ميں لئے اُس کی انتظار ميں سال يا مہينے نہيں بلکہ دن گنتا رہتا ہے ۔  

بہت خوش قسمت ہوتا ہے وہ شخص جس کی يہ آخری آرزو پوری ہوتی ہے ۔ اور اس سے بھی زيادہ خوش قسمت وہ شخص ہوتا ہے جس کے بچے اُس کا صرف خيال ہی نہيں رکھتے بلکہ اُس کی خدمت بھی کرتے ہيں ورنہ بعض اِنہی  آرزوؤں  اور انتظار کو سينے سے لگائے اس دنيا سے کُوچ کر جاتے ہيں ۔ 

* 

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

– – Hypocrisy Thy Name    http://iabhopal.wordpress.com  يہ منافقت نہيں ہے کيا ۔ ۔ 

جھوٹ کے پاؤں ؟

کہا جاتا ہے کہ جھُوٹ کے پاؤں نہيں ہوتے مطلب کہ جھُوٹ بولنے والے کا بيان بدلتا رہتا ہيں کيونکہ اُس کے بيان سےحقيقت مفقود ہوتی ہے ۔  

اين بی سی نيوز نے بتايا ہے کہ ايک برطانوی حُکام کے مطابق برطانيہ سے امريکہ جانے والے ہوائی جہاز گرانے کے الزام ميں گرفتاريوں پر امريکہ نے مجبور کيا تھا ۔

برطانوی حُکام نے مزيد کہا کہ مبيّنہ حملہ ناگزير نہيں تھا کيونکہ ابھی تو مشکُوک افراد نے ہوائی جہاز ميں نشستيں بھی محفوظ نہيں کرائيں تھيں اور کچھ کے پاس پاسپورٹ بھی نہ تھے ۔

بُش کے داخلی تحفظ ميں معاون فرانسز ٹاؤن سينڈ نے کہا کہ امريکہ برطانيہ اور  پاکستان کے افسران کے مابين مکمل تعاون اور ہم عملی تھی ۔ 

برطانيہ کے حُکام نے يہ بھی کہا کہ امريکيوں نے يہ زور ديا تھا کہ اگر مبيّنہ سرغنہ راشد رؤف کو پاکستان ميں فوری طور پر گرفتار نہ کيا گيا تو امريکہ خود اُسے حراست ميں لے لے گا يا پاکستان پر اُسے گرفتار کرنے کيلئے زور ڈالے گا

برطانوی حُکام نے يہ انکشاف بھی کيا کہ راشد رؤف کو برطانيہ کے اعتراضات کے باوجود پاکستان ميں گرفتار کيا گيا ۔

قبل ازيں اين بی سی نے کہا تھا کہ مبيّنہ بارود پاکستان ميں ٹيسٹ کيا گيا تھا ۔ 

يہ خبر ڈان اور جنگ ميں پڑھيئے

* 

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔   http://iabhopal.wordpress.com

يومِ استقلال ۔ اُس گمنام بچے کے نام

يوممِ اِستقلال مُبارِکFlag-1
پاکستان پائيندہ باد
اُس گمنام مسلمان بچے کے نام جو تعمیرِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک مسلمان محلے میں سڑک پر دوڑا جا رہا تھا ٹھوکر کھا کر گرا اور خون بہتے دیکھ کر رونے لگا ۔ ایک مسلمان راہگیر نے ٹوکا “مسلمان کا بچہ ہو کر تھوڑا سا خون بہہ جانے پر رو رہا ہے “۔
دوسرے راہگیر نے کہا “بہت شرم کی بات ہے”۔
بچے نے جواب دیا “جناب چوٹ لگنے اور خون بہنے پر میں نہیں رو رہا ۔ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ جو خون پاکستان کے لئے بہنا تھا وہ آج بیکار ہی بہہ رہا ہے”۔

جناب مطلوب الحسن سیّد اپنی کتاب ‘ہمارے قائد’ میں لکھتے ہیں جب یہ واقعہ قائد اعظم کو بتایا تو اُنہوں نے فرمایا “اب پاکستان بننے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی”

پچھلے 55 سال سے ہمارے مُلک پر بيوروکريٹ حکومت کر رہے ہيں چاہے وردی ميں ہوں يا بغير وردی اور ہم لوگ محکوم ہيں ۔ کيا پاکستان اِسی لئے بنا تھا ؟   ہم قائد اعظم کی عزّت کے دعوے تو بہت کرتے ہيں جو صرف دفتروں ميں اُن کی تصوير لگانے تک محدود ہيں ۔ لاکھوں روپيہ خرچ کر کے شاہراہ اسلام آباد کے کنارے قائد اعظم کی بيس پچيس فٹ کی شبيح آويزاں کروا کر اپنی منافقت کو اُجا گر کرتے ہيں ۔ کيا قائد اعظم نے ہميں يہی کہا تھا ؟ ملاحظہ ہو پاکستان کے گزيٹڈ آفيسروں سے چٹاگانگ ۔ مشرقی پاکستان ۔ ميں قائدِ اعظم محمد علی جناح  کے 25 مارچ 1948 کے خطاب سے اقتباس

“Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.”

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://iabhopal.wordpress.com

خوش قِسمت دادا

سالگرہ مبارک ہماری بہت پياری مِشَّيل
 تم جيؤ ہزاروں سال ۔ ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزارا

للہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری پياری پوتی پر اپنی رحمتيں نازِل کرے ۔ آمين

آج دادا اور دادی کی جان [ابھی تک اکلوتی] پياری پوتی مِشَّيل [زکريا کی بيٹی] ماشاء اللہ دو سال کی ہو گئی ہے ۔
مِشَّيل جب دسمبر 2005 ميں پہلی بار پاکستان آئی تو خيال تھا کہ امريکی ماحول يعنی اکيلا رہنا کی وجہ سے وہ پاکستان کے ماحول اور ہم سے گھبرائے گی ليکن اُس نے ثابت کر ديا کہ “جو کھينچتی ہے تُجھ کو وہ خون کی کشش ہے”۔ اسلام آباد ايئرپورٹ پر سامنے آتے ہی ميں نے آگے بڑھ کر اُسے بُلايا تو ماشاء اللہ مُسکرا کر اُس نے ميری روح تازہ کر دی ۔ گھر پہنچ کر مِشَّيل اپنی امّی کی گود ميں بيٹھی تھی ۔ ميں نے بُلايا تو مُنہ چھُپا ليا ۔ اس پر ميں ہنس ديا تو مِشَّيل نے اِسے کھيل بنا ليا ۔ جب ميں بُلاتا تو عموماً چھُپ جاتی کبھی اپنی امّی کی گود ميں کبھی اپنے ابّو کی ٹانگوں ميں کبھی صوفے کے پيچھے ۔ اگر ميں نہ بلاؤں تو خود مجھے بُلاتی ۔ جب ميں کہتا ” مِشَّيل آ جا” تو چھُپ جاتی ۔ ايک دن دوسری منزل پر جا کر مُجھے بلانے لگ گئی “دادا ۔ دادا” ميں اُوپر گيا تو ہنستی ہوئی کمرے ميں چھُپنے کيلئے بھاگی ۔

مِشَّيل کے واپس امريکہ جانے کے بعد جب ہم ٹيليفون کرتے تو کہتے کہ مِشَّيل کو ٹيليفون دو ۔ مِشَّيل اپنی دادی اور پھُوپھو سے اپنی سپيشل زبان ميں باتيں کرتی ۔ ميرے ساتھ صرف ايک دفعہ بات کی ورنہ ميری آواز سُنتے ہی ٹيليفون اپنے ابّو کو دے کر بھاگ جاتی ۔ 30 جون 2006 کو زکريّا بيٹے کا ٹيليفون آيا کہ مِشَّيل کہہ رہی ہے “دادا فون ۔ دادا فون”۔ اُس وقت ميں موجود نہيں تھا تو اپنی دادی سے باتيں کرتی رہی ۔ چند منٹ بعد ميں پہنچ گيا پھر ميرے ساتھ بھی باتيں کيں جو میری سمجھ ميں نہيں آئيں ۔

اب تو اللہ کے فضل سے يہ حال ہے کہ لَيپ ٹاپ کی طرف اشارہ کر کے مِشَّيل اپنے ابُو سسے کہتی ہے ۔ دادا فوٹو يعنی دادا کی تصوير دِکھاؤ ۔ دس بارہ دن پہلے ہم نے ٹيليفون کيا تو زکريّا نے بتايا کہ مِشَّيل کو زکام اور بخار ہے ۔ ميں نے کہا پھر تو اُس سے بات نہيں ہو سکے گی ۔ ايک منٹ بعد مِشَّيل نے آ کر اپنے ابُّو سے ٹيليفون لے ليا اور ميرے ساتھ باتيں کرنے لگی ۔ وہ مُجھے کچھ بتاتی رہی دادا ۔ ۔ ۔ دادا ۔ ۔ ۔ مُجھے ايک آدھ لفظ سمجھ آيا مثلاً کَيپ ۔ مُجھ سے ميری بيگم نے ٹيليفون پکڑ ليا تو مِشَّيل نے اپنی دادی کی بات نہ سُنی اور کہا دادا فون تو ميری بيگم نے ٹيليفون مُجھے واپس دے ديا اور مِشَّيل پھر ميرے ساتھ باتيں کرنے لگ گئی ۔ بعد ميں مِشَّيل نے اپنی دادی کے ساتھ بھی بہت باتيں کيں ۔ اب تو زکريّا کہتا ہے دادا سے بات کرنی ہے تو مِشَّيل بھاگی ہوئی آتی ہے۔ سُبحان اللہ ۔ چشمِ بَد دُور