مِثل مشہور ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ۔ دِکھانے کے اور ۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ دوسروں کے لئے ایک اصول یا قانون اور اپنے لئے دوسرا اصول یا قانون ۔ آج کی نام نہاد جمہوریت پسند فرنگی دنیا کا بنیادی اُصول یہی ہے ۔ رسُولِ اکرَم صَلّی اللہُ علَیہِ وَ آلِہِ وَ سَلَّم کے حضور میں گُستاخی کے بعد اِسے اِظہارِ رائے کی آزادی کہا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادی صرف مُسلمانوں کی دل آزاری کے سلسلہ میں ہوتی ہے کِسی اور سلسلہ میں نہیں ۔ اِس کی کچھ تازہ مثالیں یہ ہیں ۔1 ۔ میں ڈیوڈ اِردِنگ کا واقعہ 7 فروری کو لکھ چکا ہوں ۔ اب صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی ہالو کاسٹ سے اِختلاف کرے تو مغربی ملکوں کے مطابق یہ ناقابلِ معافی جُرم ہے اور ایسے شخص کا داخلہ آسٹریلیا ۔ کینیڈا ۔ آسٹریا ۔ جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک میں ممنوع ہے ۔
2 ۔ مسٹر ٹونی بلیئر کے پچھلے الیکشن کے دوران لیبر پارٹی نے ایک اشتہار چھاپا جس میں مخالف پارٹی کے سربراہ کو جو یہودی ہے اُڑتا ہوا سوّر دِکھایا گیا تھا ۔ اِس پر یہودیوں نے بہت غصہ دِکھایا اور معافی کا مطالبہ کیا ۔ مسٹر ٹونی بلیئر نے فوراً مطالبہ مان لیا ۔
3 ۔ ایک اور واقعہ سال پہلے کا ہے ۔ ایک برطانوی اخبار کا یہودی رپورٹر لندن کے میئر کے لتے لیتا تھا ۔ میئر نے ایک دفعہ اُسے کنسنٹریشن کیمپ گارڈ [concentration camp guard] کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا یہودی برادری نے طوفان کھڑا کر دیا اور میئر کو اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم بھی یہودیوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور میئر کو معافی مانگنے کا کہا ۔
4 ۔ چند سال قبل ملیشیا کے وزیراعظم [مہاتیر محمد] نے یہودیوں پر کچھ تنقید کی حالانکہ اُنہوں نے کوئی غَلَط بات نہیں کہی تھی اور یہودیوں کی خوبیاں بھی بیان کی تھیں مگر امریکہ اور یورپ میں اِس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا گیا تھا ۔
5 ۔ حال ہی میں جب ایران کے صدر نے کہا کہ صحیح معنوں میں ہالوکاسٹ نہیں ہوا تھا اور یہ کہ یہودیوں کو یورپ منتقل کر دینا چاہیئے تو بھی امریکہ اور یورپ میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
6 ۔ الجزیرہ ٹی وی افغانستان اور عراق کی جنگ کے دوران امریکیوں کی طرف کی خبروں کے علاوہ دوسری طرف کی خبریں بھی نشر کرتا تھا ۔ اِس پاداش میں امریکیوں نے افغانستان میں الجزیرہ کے دفتر پر بم پھینکا جس سے الجزیرہ کا ایک آدمی زخمی بھی ہوا ۔ اِسی طرح عراق میں الجزیرہ کے دفتر پر بم پھینکا جس سے الجزیرہ کا فوٹوگرافر ہلاک ہو گیا ۔
hats off to you. I really liked the fact you only reserved yourself to providing few examples from history as the matter itself needs no further explanation and discussion. It’s ridiculous how the “duality” in various standards of west has been shown so many times and mostly ignored by us. I think the only steadfast rule that has stood the test of time in all these years is: “Jis Ki Lathi Us Ki Bhens” (Might is right). The reason certainly betrayed humans on more than one occasion and resulted in bankruptcy of morality.
I hope to write to you during this week inshallah. No offense or arrogance intended in delay of response to your asking about my well-being. Best regards.
اعجاز آسی صاحب
آپ کا خیال درست ہے
Hay jurme zaeefi ki saza marge mafajat,
آپ کا نام نہیں آیا۔
تبصرہ کا شکریہ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اظہارِ خيال کی آزادی کا ڈھونگ