Yearly Archives: 2005

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

ہمارا رویّہ

اول ۔ ہم نے بہت سے رسم و رواج کو اسلام کا نام دے دیا ہوا ہے اور ان رسم رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں جبکہ اسلام رسم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور انسان کو صرف اللہ اور اس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔

دوم ۔ اگر ہم نے کسی دنیاوی موضوع پر لکھنا ہوتا ہے یا کسی دنیاوی معاملہ پر تنقید کرنا ہوتی ہے تو پہلے اس موضوع یا معاملہ پر تحقیق کر کے مصدقہ مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ اگر اس موضوع یا معاملہ پر کتاب یا کوئی تحریر موجود ہو تو اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں اور سب کچھ اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اس موضوع یا معاملہ پر لکھتے یا تنقید کرتے ہیں ۔ لیکن اگر موضوع یا معاملہ دین اسلام کا ہو تو ہم پورے دین کو سمجھنے کی کوشش تو کجا ۔ قرآن الحکیم کا ترجمہ اور تفسیر کو ایک دفعہ بھی پڑھے بغیر اسلام کے اصولوں پر تقریر اور دل کھول کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویّہ کہاں تک منطقی اور جائز ہے۔ کبھی ہم نے سوچا اس کے متعلق ؟

رسم و رواج

ہم نے بہت سے رسم و رواج غیر مسلموں یا اسلام کے دشمنوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔ سب پر تھوڑا تھوڑا بھی لکھا جائے تو ایک کتاب بن جائے ۔میں اس وقت صرف کارو کاری کا مختصر ذکر کروں گا۔ کارو کے معنی کالا اور کاری کے معنی کالی ہے یعنی جس مرد یا عورت نے اپنا منہ کالا کیا۔ مطلب ہے بدکاری کی۔ یہ رواج زمانہ قدیم سے بلوچوں میں چلا آ رہا ہے اور جہاں جہاں بلوچ گئے اسے ساتھ لے گئے ۔ چنانچہ آجکل یہ رواج بلوچستان کے علاوہ سندھ۔ جنوبی پنجاب اور سرحد میں بھی پایا جاتا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئےاس سرداری نظام کو قانونی تحفظ دیا۔ انگریز گورنر البرٹ سینڈیگن نے 1873 میں قبائل کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرتے ہوئے جن قبائلی رسم و رواج کو قانونی تحفظ دیا ان میں ایک کارو کاری بھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے باقی قوانین کی طرح یہ قانون بھی ابھی قائم ہو گا۔

ان قبیلوں میں قبیلہ کے سردار مطلق العنان حاکم ہوتے ہیں اور باقی لوگ محکوم غلامی کی حد تک ۔ سردار کے خاندان کا مرد جس عورت کو چاہے اپنی ناجائز خواہشات کا شکار بنائے اس پر کوئی قدغن نہیں مگر عام لوگوں میں کوئی سردار کی مرضی کے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتا۔ سردار چاہے کسی کی بیٹی کو کسی اوباش یا بدمعاش سے بیاہ دے یا کسی بڈھے سے جس کے پوتے پوتیاں بھی ہوں۔ انکار کی صورت میں لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار سے باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ کی بات کرنے پر کارو کاری قرار دے کر لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار کا یہ حکم کسی حد تک سردار کے خاندان کی لڑکیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر سردار کے گھرانے کی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے کسی بہانہ سے قتل کر دیا جاتا۔ اگر وہ لڑکی کسی ماتحت لیکن شریف لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سردار مال یا زمیں کی خاطر اسے کسی بوڑھے یا بچے یا شرابی کبابی سے بیاہنا چاہتا ہے تو اس بےگناہ لڑکے کو کسی غریب بےگناہ لڑکی کے ساتھ کارو کاری قرار دے کر دونوں بے قصوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کو کارو یا کاری قرارن دیا جائے نہ ان کو غسل دیا جاتا ہے نہ کفن پہنایا جاتا ہے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ یہی کھیل ہمارے پیارے ملک کے دوسرے علاقوں میں غیرت کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں میں لگ بھگ 70 فیصد عورتیں یا لڑکیاں اور 30 فیصد مرد ہوتے ہیں۔

اب آج کے ایک ہی دن میں مختاراں مائی کے متعلق تین انکشافات پڑھئے۔

مختاراں مائی پچھلے دس دن سے گھر میں نظر بند ہے۔ یہاں کلک کر کے تفصیل پڑھئے

LAHORE, June 10: The interior ministry has placed Mukhtaran Mai’s name on the Exit Control List (ECL). Sources in the ministry told Dawn on Friday that Mukhtaran Mai had been scheduled to leave for London in a day or two on an invitation from the Amnesty International.“Her name has been placed on the ECL with a directive to the Federal Investigation Agency to ensure compliance,” an officer of the FIA said. The official said the government had taken the decision on reports that her visit could ‘tarnish’ the image of the country abroad.

مختاراں مائی پر ظلم کرنے والے 12 افراد کو رہا کرنے کا عدالتی حکم ۔ اسکے لئے یہاں کلک کر کے پوری خبر پڑھئے

باقی ان شاء اللہ اگلی تحریر میں

آج کے دن ایک اعتراف

آج آٹھ جون ہے یعنی میری بیٹی کا یوم پیدائش ہے۔ میری ایک بیٹی ہے۔ ویسے تو سب ہی ایک ہیں یعنی میری ایک بیوی ہے۔ ایک بڑا بیٹا ہے زکریا اور ایک چھوٹا بیٹا ہے فوزی ۔ ٹھیک ہے نا ۔ ایک ایک ہی ہوئے نا ؟ (ہا ہا ہا) میری بیٹی کا نام ہے منیرہ ۔ یہ نام میری امی (اللہ غریق رحمت کرے) نے تجویز کیا تھا۔ میری بیٹی مجھے بہت ہی پیاری ہے۔ اور بیٹی بھی مجھے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک مسئلہ ہے جو کئی سالوں سے حل نہیں ہو سکا وہ یہ کہ میں کہتا ہوں کہ میں زیادہ پیار کرتا ہوں اور بیٹی کہتی ہے میں زیادہ پیار کرتی ہوں۔ بعض اوقات اس معاملہ پر ہم میں تکرار ہو جاتی ہے مگر جلد ہی ہم دونوں ہنسنے لگ جاتے ہیں اور صلح ہو جاتی ہے۔ پرانی بات ہے ایک دفعہ بیٹی کا کوئی مطالبہ مجھے معقول نہ لگا میں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا اور خاموش ہو گیا۔ بیٹی نے سمجھا کہ میں ناراض ہو گیا ہوں اور رو رو کے اپنا برا حال کر لیا۔ میں جب اس کے کمرہ میں گیا تو اسے دیکھ کر حقّا بقّا رہ گیا۔ اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ میں نے بیٹی کو پچکارا اور بڑی مشکل سے باور کرایا کہ میں اس سے ناراض نہیں۔

جنوری میں اور میری بیگم ۔ بیٹی کو کراچی میں سیٹ کرنے گئے۔ چار دن بعد میں سخت بیمار ہو گیا۔ کچھ وقت ہسپتال میں بھی گذارنا پڑا۔ ایک ماہ تک کافی تکلیف رہی۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو میں بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو آدھی بھی نہ رہی تھی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ والدین تو اولاد سے پیار کرتے ہی ہیں مگر ایسی بیٹیاں بہت کم ہوں گی جو اپنے والدین سے اتنا والہانہ پیار کریں۔ چنانچہ میں ہار گیا اور بیٹی جیت گئی۔ ارے ارررررے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ یہ بھی میری ہی جیت ہے کیونکہ بچوں کی جیت والدین کی ہی جیت ہوتی ہے۔

مکّر کٹّیاں نیں چھاواں ۔۔۔۔۔

ہوسٹن (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر امان اللہ خان کی کتاب سے کچھ پنجابی شعر نقل کر رہا ہوں۔ یہ افغانستان اور عراق کی صورت حال کی غمازی کرتے ہیں۔ میں شاعری کے اسلوب سے واقف نہیں ہوں پھر بھی نیچے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مکْر کُٹیاں نیں چھاوان

پیا لگدا حشر دیہاڑا سی ۔ ہر پاسے چیک چہاڑا سی
اینج لگدا سی بغداد نئیں ۔۔۔ فیر ہویا کی سی۔ یاد نئیں
اج چار دوالے کیہڑے نیں ۔ میرا فوٹو لیندے کیہڑے نیں
اے لتاں کس نے کٹیاں نیں ۔ جتھے ہتھ سن اوتھے پٹیاں نیں
او ویلے یاد پئے آوندے نیں ۔ میرے اتھرو وگدے رہندے نیں
جیڑے گھرسن سارے ڈھے گئے نیں ۔ ہن کھنڈرای باقی رہ گئے نیں
کوئی جا کے اج لیا دیوے ۔۔۔ مینوں پورا کوئی بنا دیوے

اردو ترجمہ حاضر ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں۔ غلطیاں درگذر کیجئےگا۔

پُر فریب ہیں سائے

وہ لگتی حشر کی گھڑی تھی ۔ ہر سو چیخ پکار۔ وہاں پڑی تھی
یوں لگتا تھا کہ بغداد نہیں ۔۔۔ پھر ہوا کیا تھا۔ کچھ یاد نہیں
آج چاروں طرف میرے کون ہیں ۔ یہ فوٹو میرا لیتے کون ہیں
یہ ٹانگیں کس نے کاٹی ہیں ۔ ہاتھ جہاں تھے وہاں بھی پٹیاں ہیں
وہ واقعات ہیں اب یاد آنے لگے۔ میرے آنسو بھی ہیں بہنے لگے
جو گھر تھے سارے گرچکے ۔ اب کھنڈر ہی باقی رہ گئے ہیں
کوئی جا کے مجھےلادیوے ۔ مجھے پورا تو کوئی بنا دیوے

کاش ۔ ۔ ۔ مجھے بتا ئے کوئی ۔ ۔ ۔ ؟

کیا ہم حکمرانوں کے زر خرید غلام ہیں ؟ ہماری روشن خیال اعتدال پسند حکومت۔ جو سوائے سانس لینے کے ہر چیز اور ہر کام پر ہم سے بھاری بھر کم ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کے دور میں حکمران خود تو عالی شان عمارتوں میں رہتے اور سات سات کروڑ روپے کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور ٹیکس دینے والے مسکینوں کو پولیس۔ رینجرز اور دیگر ایجنسیوں کے آگے ڈال دیا ہے تا کہ جب وہ حکمرانوں کی ناز برداریاں کرتے کرتے تنگ آ جائیں تو اپنا غصہ ان مسکینوں پر نکالیں۔ چاہے دن ہو یا رات کے دو بجے ان گھروں میں گھس جائیں اور جس سے جو جی میں آئے کریں اور جسے چاہیں اٹھا کر لے جائیں اور ان کو نامعلوم جگہ پر بند کر کے نا کردہ گناہ قبول کرانے کے لئے ان کا حلیہ بگاڑ دیں۔ پھر اگر ان کے لواحقین عدالت سے انصاف کی بھیک مانگیں تو کمال ڈھیٹائی سے کہہ دیں کہ ہم ان بندوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کیا یہی ہے وہ روشن خیال اسلام جس کا ذکر ہمارے صدر صاحب آئے دن کرتے رہتے ہیں ؟ یہ قانون کے نام نہاد محافظ اس وقت کہاں تھے جب پٹرول پمپوں اور کے ایف سی کو آگ لگائی جا رہی تھی اور لوگوں کو گاڑیوں میں سے زبردستی نکال کر گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ؟

اب ملاحظہ ہو آج کا ڈان کا اداریہ۔

BRUTAL POLICE HANDLING

IMAGES of the police and Rangers brutally handling civilians in Karachi’s strike-ridden suburbs on Wednesday were flashed across the world on TV screens, and shamed the nation. The footage showed the Rangers beating up unarmed youth, forcibly entering people’s homes by knocking down their front doors with kicks and the rifle. Thursday’s national newspapers, too, carried pictures showing law enforcement personnel posing with their ‘catch’. A Rangers man in military boots stood on the legs and buttocks of a youth, surrounded by several other young people who were blindfolded, handcuffed and forced to lie flat on the ground with faces down. The camera caught other gun-wielding officers looking unashamedly proud of their accomplishment. This was not Iraq or Palestine under occupation, but a street in Malir.No one can condone hooliganism, stone throwing or burning of petrol stations and vehicles by protesters, as seen in Karachi on Monday and Tuesday; but excessive highhandedness with which the law enforcement personnel brutalized unarmed civilians on Wednesday must also be viewed with a sense of shame. Such a gung-ho style of law enforcement can only strengthen elements harbouring ulterior motives, or those wishing to extract political mileage out of anti-establishment feelings fostered by the growing number of educated, unemployed youth. As it is, many in our urban sprawl are condemned to live without basic amenities, social services or security of life and property. They cannot be blamed for venting their anger at a situation that leaves them with little hope or dignity. The Sindh government must rethink its handling of the law and order situation obtaining in the province, especially when local elections are just round the corner.

نیکی کر دریا میں ڈال

آج 2 جون ہے۔ آج سے ٹھیک آدھی صدی قبل میرے دادا جان (اللہ جنت عطا کرے) اس دار فانی سے رخصت ہوے۔ میرے دادا اور دادی نے حج اس زمانہ میں کیا جب مکہ مکرمہ سے منی۔ عرفات اور واپسی پیدل اور مکہ مکرمہ سے مدینہ اور واپسی اونٹ پر ہوتی تھی۔بعد دوپہر اور رات کو میں دادا جان کے بازو اور ٹانگیں سہلایا کرتا تھا۔ (عام زبان میں دبانا کہتے ہیں) اس دوران دادا جان مجھے اچھی اچھی باتیں اور اپنی تاریخ سنایا کرتے۔ ایک فقرہ وہ عموما کہتے ” نیکی کر اور دریا میں ڈال؛ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ دادا جان نے بتایا۔” یعنی نیکی کرو اور بھول جاؤ۔ اپنی نیکی نہ یاد رکھو نہ جتاؤ۔” پھر بھی بات مجھےپوری طرح واضح نہ ہوئی۔ بعد میں ‍قرآن شریف کے تفسر کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا حکم ہے کہ کسی پر احسان کر کے جتاؤ نہیں۔ بڑی عمر کو پہنچنے پر دوسرے بزرگوں سے معلوم ہوا کہ دادا جان اس کی عملی مثال تھے۔ وہ ہر کسی سے حتہ کہ بغیر جان پہچان کے بھی بھلائی کرتے تھے احسان سمجھ کر نہیں بلکہ فرض سمجھ کر۔ اس لئے برادری کے تمام بزرگ اور شہر کے لوگ ان کی بہت عزّت کرتے تھے اور اہم کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ نیکی کر دریا میں ڈال انسانیت کا ایک عمدہ پہلو ہے۔

ایک طرف تو وہ پچھلے وقتوں کے لوگ اور ایک آجکل کے ہم لوگ کہ بھلائی تو کرنے کا سوچتے بھی نہیں اور دوسروں کو دکھ دینے۔ ان سے ان کے بیٹے ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ باپ چھیننے کے لئے ہر وقت تیار۔ آپ سب نے سنا یا پڑھا ہو گا گہ کراچی کی عبادت گاہ میں دھماکہ اور اس کے بعد نہ صرف دو پٹرول پمپ اور کے ایف سی جلائے گئے بلکہ شریف لوگوں کو گاڑیوں میں سے نکال کر ان کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ کیا ہم لوگ بھڑیوں سے بھی بد تر ہو گئے ہیں ؟

پھول کی فریاد

یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی

کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر  اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو

میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو

شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے

تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے

میری خُوشبُو سے  بسائے گا بچھونا رات بھر

صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر

پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی

رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی

تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے

کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے

دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے

پَتی پَتی ہو چلی  بے آب ۔ مر جانے کو ہے

پیڑ کے دو سبز پتے رنگ میرا اِن میں لال

جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی

حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی

تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی

غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی

دُودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں

کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں

مہر  کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی

ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی

دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ

شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ

میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں

اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں

شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے

دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لے

نور پور شاہاں بم دھماکہ اور قانون کے محافظ

جس لڑکے نے جمعہ کی دوپہر کو ہمیں دھماکہ کی خبر سنائی وہ ہمارے ملازم کا بھتیجھا ہے اور ان کا اور ان کے احباب کے گھر نورپور شاہاں میں ہیں۔ اس کے اور کئی موقع کے گواہوں کے مطابق وہاں ایجنسیوں والے تو کیا پولیس والے بھی مزار کے اندر یا گرد موجود نہ تھے اور دور کسی ہوٹل میں بیٹھے کھا پی رہے تھے جب کہ یہ مزار پریزیڈنٹ ہاؤس۔ پرائم منسٹر ہاؤس اور ڈپلو میٹک انکلیو کے قریب ہے۔ دوسرے فی زمانہ جہاں کہیں بھی لوگ اکٹھے ہوں وہاں سخت سیکیوریٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اس سلسہ میں ڈان کا ایڈیٹوریل یہاں کلک کر کے پڑھئے۔