Yearly Archives: 2005

آؤ بچو سنو کہانی

ہم بہن بھائی جب چھوٹے چھوٹے تھے دادا جان سے کہتے کہانی سنائیں ۔ وہ کہتے آؤ سنو کہانی ایک تھا راجہ ایک تھی رانی دونوں کی ہوگئی شادی ختم ہوئی آج کی کہانی ۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے

لیکن میں آج وہ کہانی کہنے لگا ہوں جو آپ نے پہلے کبھی سنی نہیں ہو گی ۔ ویسے کہانی شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے ۔ شادی سے پہلے تو صرف ہوائی قلعے ہوتے ہیں ۔ایک درخت ہوتا ہے جو بہت جلد بڑا ہو جاتا ہے بہت بڑی جگہ گھیر لیتا ہے اور اس کی جڑیں بھی زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ۔ ایک علاقہ میں لوگ ٹھیک ٹھاک رہ رہے تھے ۔ ایک آدمی یہ کہہ کر ان کی زمین پر آیا کہ وہ ان کی زمین کی پیداوار بڑھا دے گا اور وہ اطمینان کی زندگی گذار سکیں گے ۔ اس نے متذکرہ درخت وہاں بو دیا اور ساتھ ہی اپنا مکان بنا کر رہنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت بہت بڑا ہو گیا اور بجائے پیداوار بڑھنے کے اس کے سائے اور جڑوں کی وجہ سے وہاں پیداوار کم ہو گئی ۔

اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اس شیطانی درخت کی ایک شاخ درخت لگانے والے کے گھر میں گھس گئی ۔ اس نے وہ شاخ کٹوا دی ۔ اس کی جگہ دو شاخیں اگ کر اس کے گھر میں گھس گئیں ۔ اس نے وہ کٹوا دیں تو تین چار شاخیں ان کی جگہ اگ کر اس کے مکان میں گھس گئیں اور ساتھ ہی درخت کی جڑوں نے اس کے مکان کی بنیادیں ہلا دیں جس سے درخت لگانے والا نیم پاگل ہو گیا ۔

جناب اس درخت کا نام ہے دہشت گردی ۔ اگر زمین فلسطین ہے تو درخت لگانے والا اسرائیل اور اگر زمین عراق ہے تو درخت لگانے والا امریکہ ۔

بچو کہانی پسند آئی ؟ اپنی رائے ضرور بھیجنا ۔

سچا تے ستھرا

کل کے اخباروں میں پرویز مشرف کا بیان چھپا تھا کہ اس نے اسرائیل سے رابطہ کرنے سے پہلے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور فلسطین کے سربراہ محمود عباس کو اعتماد میں لیا تھا ۔آج کی خبر یہ ہے ۔ فلسطینی انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اسرائیل سے وزیر خارجہ کی سطح پر ملاقات سے پہلے پاکستان کے صدر مشرف نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اعتماد میں لیا تھا۔ اب شاہ عبداللہ کی طرف سے تردید باقی رہ گئي ۔

بی بی سی نے آٹھ لوگوں کے بیانات رقم کئے ہیں

کراچی کے چار ہیں جن میں سے ایک جماعت اسلامی کے ہیں ۔ ان چاروں نے اسرائیل سے بات چیت کے خلاف بیان دیا ہے ۔

لاہور کے تین میں سے ایک نے اسرائیل سے بات چیت کے خلاف بیان دیا ہے اور دو نے اس کے حق میں بیان دیا ہے ۔

سرحد سے اے این پی کے نمائندہ نے اسرائیل سے بات چیت کے حق میں بیان دیا ہےزندہ باد کراچی ۔

Is it NAB or nab
The National Accountability Bureau (NAB) on Friday said it would inquire into the incident of humiliation of a rape victim, Sonia Naz, at the hands of a top military officer of its Lahore bureau where she had reportedly gone to seek justice against SP Khalid Abdullah. However, NAB said before proceedings further, it needed to know the name of the military officer, who according to Sonia, had humiliated and thrown her out of his office, where she had gone to lodge a formal complaint against the alleged corruption of the police officer.

Sonia in her interview with The News had alleged that after being hounded by SP Khalid Abdullah she had even gone to the office of NAB to seek justice as she had proof of corruption of the Faisalabad police and Excise department and that her husband was wrongly implicated in the case without any investigation and proper evidence. Sonia said a military officer who had met her there instead of taking her case seriously, humiliated her. Sonia alleged that the military officer had rather claimed that SP Abdullah was a very powerful police officer and she should go home instead of pursuing cases against him.

Now NAB has said the available complaint and personal visit record of Lahore office for the last six months does not show any such entry, which could establish the aforesaid person’s visit. NAB said it is “a neutral and transparent organisation that believes in good governance”. It urged the national press to verify facts before presenting “unsubstantiated” material before its valued readers. NAB said it would appreciate if the exact date and time of event were indicated, enabling the bureau to inquire into the incident.

Rauf Klasra responds: In her written affidavit given to The News, Sonia Naz has not only given the name of the concerned NAB military officer, who allegedly humiliated her in Lahore office of the NAB, but also his description.

دانیال صاحب کا استفسار ۔ ساتویں اور آخری قسط

دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہیئے؟

جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے لئے مشکل بن گیا ہے ۔ وجہ ۔ ہمارے دماغوں کی فریقوئنسی (frequency) کچھ اس طرح سے سیٹ (set) ہو گئی ہے کہ صرف مغربی دنیا سے آنے والی ویوز (waves) ہمارے دماغ میں سما سکتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دین سے دور ہونے کے ساتھ ہم انسانی سوچ سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اچھائی اور برائی کی پہچان ہی مفقود ہو گئی ہے اور ہمیں ظالم اور مظلوم کی پہچان نہیں رہی ۔

ہم نہیں جانتے سوائے اس کے جس کا علم ہمیں اللہ دے کیونکہ اللہ علیم الحکیم ہے ۔ اس لئے میں اللہ کے کلام سے صرف دو آیات نقل کرتا ہوں ۔

سورۃ 2 البقرہ آیت 85 ۔ اور کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ۔

سورۃ 49 الحجرات آیت 14 ۔یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا

آج کل ہم لوگ نہ تو پورے قرآن پر عمل کرتے ہیں اور نہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے دین کی بہت سی باتیں یا تو معلوم ہی نہیں یا سمجھ میں نہیں آتیں ۔

اگر لاہور یا کراچی کا دولتمند اور طاقتور شخص کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگوں کو اپنے آدمیوں کے ذریعہ قتل کروا دے اور ان کے اثاثوں پر بھی قبضہ کر لے ۔ تو ہم کہیں گے کہ لاہور یا کراچی کا دولتمند ظالم ہے اور کاہنا کاچھا یا لیاری کے غریب لوگ مظلوم ہیں ۔ اگر یہ مظلوم لوگ یا ان کے عزیز و اقارب اپنے اثاثے واپس لینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں اس ظالم کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑ جائے ۔ پھر ان کو اگر دہشت گرد کہا جائے تو یہ ظلم ہوگا انصاف نہیں ۔ تو پھر ہم فلسطینیوں ۔ کشمیریوں ۔ چیچنوں ۔ افغانوں اور عراقیوں کو دہشت گرد کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔ اصل دہشت گرد تو ان کو دہشت گرد کہنے والے خود ہیں جنہوں نے ان کو مارا ۔گھروں سے نکالا اور ان کے اثاثوں پر قبضہ کیا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانوں کو ہر بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے ۔ ملاحظہ ہو
سورۃ البقرہ کی آیات 190 تا 193 کا کچھ حصہ ۔ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔
(ظلم ۔ بے انصافی ۔ فساد سب فتنہ کی قسمیں ہیں)

محمد شاہد عالم صاحب امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ان کے ایک مضمون کا مختصر خلاصہ نیچے درج کر رہا ہوں ۔

دہشت گردی کی جو ڈیفینیشنز امریکہ نے دی ہیں اگر ہم ان کی روشنی میں امریکہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ مبہم و مشکوک ہو جاتا ہے ۔ امریکی حکومت نے اکثر اوقات امریکہ میں اور امریکہ سے باہر دوسرے ملکوں میں سویلین لوگوں کے خلاف تشدد کی کاروائیاں کی ہیں جو امریکہ کی اپنی پیش کردہ ڈیفینیشن کے مطابق دہشت گردی قرار پاتی ہیں ۔ اگر غیرجانبدار مفکّروں کی ایک ٹیم پچھلی دو صدیوں میں ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ دہشت گردوں میں سر فہرست ہے ۔ بلا شبہ جرمنی برطانیہ فرانس ہسپانیہ بیلجیم اٹلی روسی یونین اور جاپان کا بھی فہرست میں اونچا مقام ہو گا اور اگر اس فہرست میں عراق میں صدام کی حکومت بھی ہوئی تو شائد فہرست کے آخری چند میں سے ہو ۔

جل کے دل خاک ہوا آنکھ سے رویا نہ گیا

نگری میری کب تک یونہی برباد رہے گی
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
چاروں طرف چھایا ہے گھٹاٹوپ اندھیرا
کوئی ہے جو بتائے کہ کب ہو گا سویرا

کتنی بار روؤں اور کس کس کو روؤں ۔ دو چار ہوں تو نام پتہ لکھوں ۔ یہ تو روز کا معمول بن گیا ہے میرے سینے میں خنجر اور دماغ پر کچوکے لگانے کا ۔ مختاراں ۔ شازیہ ۔ نازش ۔ سونیا ۔ چند اور تو اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی بپتا کا حال لوگوں تک پہنچ گیا ۔ درجنوں ایسی ہوں گی جن کی کسی کو خبر ہی نہیں ۔ پھر وہ جن کو ایجنسیوں کے لوگ اٹھا کر لے گئے ڈاکٹر آسیہ ۔ نام نہاد خود کش بمبار بہنیں نجانے کتنی اور جن آج تک پتہ نہیں کہاں ہیں اور حکومت کے پالتو عدالتوں میں جھوٹ بولتے ہیں کہ حکومت کے جمعداروں کو ان کی کوئی خبر نہیں ۔ کون جانے ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ۔

ہر صبح اخبار کھولتے ہوئے ہاتھ تھرتھرا رہے ہوتے ہیں جسم کانپ رہا ہوتا ہے اور دل مالک کائنات سے التجا کر رہا ہوتا ہے یا اللہ آج نہ ہو آج نہ ہو ۔ پھر وہی خبر ۔ ۔ ۔ حلق میں جیسے گولہ پھنس جاتا ہے ۔ سر پکڑ کر رہ جاتا ہوں ۔ میرے مولا یہ ظلم کب ختم ہو گا ۔ آزادی ملنے پر ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں دشمنوں نے لوٹیں ۔ ہم نے آزادی ملنے کی قیمت سمجھ کر برداشت کیا ۔ مقبوضہ کشمیر ۔ فلسطین ۔ افغانستان اور عراق میں ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزت لوٹنے والے بھی ہمارے دشمن ہیں اور ہم اتنے کمزور ہیں کہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اب آزادی انسان نما درندوں کو مل گئی ہے ۔ اپنے ملک ہی میں اپنے کہلانے والے اپنی ہی بہنوں بیٹیوں کی عزت لوٹ رہے ہیں ۔ ہمارے محافظ جن کی حفاظت پر مامور ہیں ان ہی کی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹ رہے ہیں اور ہمارے روشن خیال حکمران مدہوش پڑے ہیں ۔ بہت ہوا تو انکوئری کا حکم دیے دیا اور بس ۔ آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ ان روشن خیالوں کو بیرون ملک دوروں ۔ مساجد کے اماموں کو گرفتار کرنے ۔ دینی مدرسوں کو رجسٹر کرنے اور ناچ گانوں اور میلوں ٹھیلوں سے فرصت ہو تو شائد اپنے گرد نظر دوڑائیں ۔ رہی عدالتیں تو ان میں فیصلہ کرنے والوں کے نہ دل ہیں نہ آنکھیں ۔

اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

وضاحت

میری 23 اگست کی تحریر سے کچھ سوالات نے جنم لیا ہے ۔ میں نے سوچا کہ جواب پوسٹ میں دیا جائے تاکہ سب اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ۔متذکّرہ سوالنامہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات کو ان سکولوں میں دیا گیا تھا جنہوں نے آغا خان بورڈ سے الحاق کیا تھا یا اس کے لئے درخواست دی تھی ۔ بیکن ہاؤس جس کی ایڈمنسٹریٹر یا مینجنگ ڈائریکٹر خورشید محمود قصوری کی بیگم ہیں پیش پیش تھا ۔ یہ اس سال کے شروع کا واقع ہے ۔ ایک صاحب نے مجھے سوالنامے کی جھلک دکھائی تھی ۔ میں ان دنوں کافی بیمار تھا اس لئے کچھ لکھنا ممکن نہ ہوا ۔ سب سوال مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ دادا ہونے کے باوجود مجھے یہ سوال شرمناک محسوس ہوئے

۔ایک سادہ سوال جو یاد پڑتا ہے اس طرح تھا ۔ کیا آپ کا کسی سے جنسی تعلق قائم ہوا ہے ۔ کتنا عرصہ رہا اور اس کے بعد آپ نے کیا محسوس کیا ؟

سعادت حسن منٹو کی متذکّرہ کتاب کی وجہ سے منٹو پر مقدمہ چلا تھا اور قید ہوئی تھی ۔ سنا تھا کہ منٹو نے عدالت میں کہا تھا کہ میں حقیقت بیان کرتا ہوں ۔گندگی کے ڈھیر پر چادر پڑی ہوتی ہے میں صرف اسے اٹھا دیتا ہوں ۔ جج نے کہا تھا جو کچھ آپ اپنی بیوي کے ساتھ کرتے ہیں کیا اس پر سے بھی آپ چادر اٹھا دیتے ہیں تا کہ آپ کے بچوں کو اپنی پیدائش کی حقیقت معلوم ہو جائے ؟ اس کے بعد منٹو کچھ نہ بولا ۔ یہ کتاب ممنموع قرار دی گئی تھی ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانہ میں پابندی اٹھائی گئی تھی مگر ضیاء الحق کے زمانہ میں پھر پابندی لگ گئی تھی ۔ پرویز مشرف کے کمال سے کمسن بچوں کے کورس کا حصہ بن گئی تھی مگر نکالنی پڑی ۔ تیس سال قبل کسی نے اس کتاب کے چند صفحے بطور نمونہ مجھے پڑھائے تھے ۔ ان صفحوں میں ایک مفروضہ زنا کی پوری تفصیل تھی ۔

بریگیڈیئر قاضی نے لفظ پورنو استعمال کیا ہے ۔ میں تو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں کہوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ پورنوگرافی بھی اسی کا انگریزی ترجمہ ہے ۔ ایک پاکستانی ڈکشنری میں پورنوگرافی کا ترجمہ فحش نگاری ہے ۔ ملاحظہ ہو پورنوگرافی کا ترجمہ انگریزی ميں ۔

(1) The depiction of erotic behavior (as in pictures or writing) intended to cause sexual excitement. (2) Material (as books or a photograph) that depicts erotic behavior and is intended to cause sexual excitement

اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات سے عریاں جنسی سوالات پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ نویں دسویں کے طلباء و طالبات کو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں پڑھا کر تعلیم کا معیار کیسے بلند ہو گا ؟ اور اس سب کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا امریکہ یا برطانیہ جہاں سیکس مادر پدر آزاد ہے میں دسویں یا بارہویں کے کورس میں نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں شامل ہیں ؟

ہم کسی ہوٹل میں صرف ایک وقت کا کھانا کھانے جائیں تو بھی پہلے پرکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیسے لوگ ہوں گے اور ہمیں کیسا کھانا ملے گا مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل صرف بڑا نام یا امارت دیکھ کر غلط لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو آغاخان بورڈ کے سپرد کرنے سے پہلے یہ تو معلوم کر لینا چاہیئے کہ آغاخان کیا تھے اور اتنے امیر اور ہزہائینس کیسے بنے اور اب ان کے کیا مشاغل ہیں ۔ کلک کیجئے پہلی قسط کے لئے یہاں اور دوسری قسط کے لئے یہاں ۔
مختصر یہ کہ اسماعیلیوں سے غدّاری اور انگریزوں کی خدمت کے عوض ایک دن میں امیر و کبیر بن گئے تھے اور ہزہائینس بھی ۔

دانیال صاحب کا استفسار ۔ چھٹی قسط

دانیال صاحب مزید پوچھتے ہیں ۔ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہیئے؟

خوب سے خوب تر کی تلاش نہ کی جائے تو ترقی تو کیا انسان رو بہ تنزل ہو جاتا ہے ۔ سب سے پہلے سکولوں ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم کو فعال بنا کر کم از کم دوسرے مضامین کے ہم پلّہ بنانا چاہیئے ۔ایک بات ذہن میں رہنا چاہیئے کہ دینی مدرسوں کا آزاد ہونا اشد ضروری ہے ورنہ جو حکومت آئے گی وہ اپنی پسند کا اسلام مدرسوں میں نافذ کر دے گی اور مدرسوں کا فائدہ ہونے کی بجائے مدرسے زحمت بن جائیں گے ۔ مزید مدرسوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ جگ ہنسائی اور اپنے آپ کو گالی دینے سے کم نہیں ہے اس لئے یہ بند ہونا چاہیئے ۔

دین اسلام کی اعلی تعلیم رکھنے والے باعمل سکالرز کی ایک کمیٹی بنانا چاہیئے جو مدرسوں کے سلیبس اور سہولتوں کا مطالع کر کے سفارشات تیار کرے ۔ ان سفارشات پر عمل کرنے کے لئے فنڈز مہیا کئے جائیں اور اسی کمیٹی کی نگرانی میں ان پر عمل کیا جائے ۔ فوری طور پر دینی مدرسوں کو مناسب تعداد میں کمپوٹر مہیا کئے جائیں اور مدرسوں کے اساتذہ کو کمپیوٹر کا استعمال سکھایا جائے ۔ ان کمپیوٹروں پر طلباء قرآن شریف ۔ حدیث اور فقہ کے علاوہ عام استعمال ہونے والی سافٹ ویئر میں بھی دسترس حاصل کریں ۔ ان طلباء کو دین کے مکمل کورس کے ساتھ ساتھ ان کی استداد اور خواہش کے مطابق دوسرے علوم بھی پڑھائے جائیں یعنی انگریزی ۔ فارسی ۔ ریاضی ۔ معاشیات ۔ معاشرتی علوم ۔ طبیعات ۔ کیمیات وغیرہ ۔

مدرسوں کو اس قابل بنایا جائے کہ عام سکولوں اور کالجوں سے تعلم حاصل کرنے کے بعد جو لوگ چاہیں ان مدرسوں میں پڑھ کر مزید دینی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ ان مدرسوں میں ہمہ وقتی اور جزوقتی کورس بھی ہونے چاہیئں تا کہ شام کے وقت وہ لوگ دینی تعلیم حاصل کر سکیں جو دن کے وقت ملازمت کرتے ہیں یا دوسرے سکولوں یا کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ دینی مدرسوں کی مجبوری وسائل کی کمی ہے ۔ نہ صرف مالی بلکہ افرادی بھی ۔اس لئے اس تبدیلی کے لئے اور تبدیلی کے بعد کافی مالی اور افرادی وسائل کی ضرورت ہوگی جس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔اگر حکومت غریبوں کی واقعی خیر خواہ ہے تو ہر مسجد کے امام اور مؤذن کے لئے مدرسہ کی ڈگری اور سرٹیفیکیٹ لازمی کر دے اور تمام سکولوں میں اسلامیات پڑھانے والوں کے لئے مدرسہ کی ڈگری لازمی کر دے اور ان کو باقی اساتذہ کے برابر تنخوا دی جائے ۔ اس طرح جاہل اماموں ۔ تعویز دھاگے اور قبروں کے پوجنے سے نجات حاصل ہو جائے گی اور ہماری اگلی نسل اسلام کو صحیح طرح سمجھ سکے گی ۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم اپنے بچے کو قرآن شریف پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں اور انگریزی یا سائنس یا حساب پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں ۔ بیس سال قبل میں نے اپنے بیٹے کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے ایک قاری صاحب سے بات کی ۔ مشاہرہ انہوں نے نہ مانگا مگر میں نے اپنی مرضی سے انہیں ایک سو روپیہ ماہوار دینا شروع کیا ۔ جن صاحب کی معرفت میں ان قاری صاحب تک پنہچا تھا پوچھنے لگے کہ آپ قاری صاحب کو کیا دیں گے ؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے اتنے زیادہ کیوں دے رہے ہیں سائنس یا انگلش تو نہیں پڑھانی انہوں نے ۔

مدرسوں میں سائنس وغیرہ پڑھانا حکومت کا محظ ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ اس کے لئے کروڑوں نہیں اربوں روپیہ سالانہ درکار ہے ۔ ہماری حکومت جو منافع بخش ادارے بیچ کر اور قرضے لے کر اپنا خرچ پورا کر رہی ہے وہ مزید روپیہ کہاں سے لائے گی ۔ دیگر کیا پاکستان میں تمام طلباء و طالبات کو سائنس پڑھائی جاتی ہے ؟ کمال تو یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم کا انتظام بہت سے سکولوں اور کئی کالجوں میں ابھی تک نہیں ہے اور جن میں ہے ان میں سے بھی آدھے ایسے ہیں جہاں مناسب بندوبست نہیں ہے ۔ ایک جملہ معترضہ ۔ اگر مدرسوں سے پڑھے ہوؤں کو نہ گنا جائے تو پاکستان میں لٹریسی کی کیا شرح رہ جائے گی ؟ 20 فیصد یا اس سے بھی کم ؟ماضی کا تجربہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے تعلیم کا معیار بلند کرنے کے نام پر نجی شعبہ میں اچھے خاصے چلتے ہوئے تعلیمی ادارے یہ کہہ کر قومیا لئے تھے کہ ان کے اساتذہ کے پاس معلمین کی ڈگریاں نہیں ۔ اس طرح بہت سے سکول بند ہو گئے اور جو بچ گئے ان کا جو حشر ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ وہ تو پھر بھی آسان کام تھا جو حکومت نہ کر سکی ۔ دینی مدارس کو صرف دینی خدمت کی امنگ رکھنے والے ہی چلا سکتے ہیں اور ایسا شائد ہی کوئی ایوان حکومت میں ملے ۔

۔باقی انشاء اللہ آئیندہ

دانیال صاحب کا استفسار اور دنیا کا دوہرا معیار ۔ پانچویں قسط

دانیال صاحب پوچھتے ہیں ۔ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟

مدرسہ کے پڑھے ہوئے لوگ ہی نہیں دوسرے لوگ جو مولوی نہیں انہوں نے بھی چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کے حق میں تقاریر کی ہیں اور ممکن ہے کچھ نے حصہ بھی لیا ہو مگر طلباء کو عسکری تربیت دینے کا نہ مدرسوں میں انتظام ہے اور نہ ایسے انتظام سے مدرسوں کا تعلق ہے ۔ بغیر تربیت کے جنگی کاروائیوں میں حصہ لینا بعید از قیاس ہے ۔ کشمیر ۔ چیچنیا اور افغانستان کے جہاد میں حصہ لینے والوں میں انگریزی میڈیم سکولوں اور یورپ اور امریکہ میں پڑھے ہوئے جوان بھی شامل تھے جو کبھی پاکستانی مدرسہ نہیں گئے تھے اور بہت سے ایسے بھی جو پہلے کبھی پاکستان آئے ہی نہ تھے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کے دینی مدرسے جہادی یا دہشت گرد تیار کرتے ہیں بالکل غلط ہے ۔ دنیا کی واحد سپرپاور بننے کے لئے سانپ مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق مسلمانوں کو روس کے خلاف لڑانے کے لئے ان کی عسکری تربیت کا بندوبست امریکی حکومت نے کیا تھا جو دس سال چلتا رہا ۔ مقصد حاصل ہو جانے کے بعد امریکی حکومت نے انہیں آپس میں لڑنے کے لئے چھوڑ دیا ۔ وہی لوگ جن کو امریکی حکومت ہیرو کے طور پر اپنے ذرائع ابلاغ میں پیش کرتی تھی اب انہیں دہشت گرد قرار دے رہی ہے ۔

اسلم بیگ اس بارے کیا کہتے ہیں انتہاء پسندی کا لیبل بھی بغیر اس کی تشریح کرنے کے لگایا جا رہا ہے ۔ کیا دین اسلام پر مکمل عمل کرنے والا انتہاء پسند ہے ؟ مدرسوں کے نصاب میں پچھلے پچاس سال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ماضی قریب تک کسی نے مدرسوں پر فرقہ واریت یا انتہاء پسندی یا دہشت گردی کا الزام لگایا تھا ۔ مدرسوں کا تعلق اتنا ضرور ہے کہ یہ مدرسے پاکستانی ہیں اور وہاں تعلیم پانے والے مسلمان ہیں ۔ پاکستان میں انسانیت کی دلدادہ کہلانے والی عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ اپنے نظریات کو دوسروں پر بزور نافذ کرنے والا انتہاء پسند ہوتا ہے ۔ تو کیا یہ نظریہ مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے اور مدرسوں میں پڑھنے والوں پر انتہاء پسندی کا لیبل لگانے والے اسلام دشمن ہیں اور ان کا ساتھ نام نہاد مسلمان ہیں جو ہر اخلاقی بندش سے آزادی کے خواہشمند ہیں ۔

انسانیت کے علمبرداروں کا دوہرا معیار

گرجا سے منسلک عورتیں جنہیں سسٹر اور نن کہا جاتا ہے اور کچھ کو مدر ۔ ہر وقت اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپے رکھتی ہیں ۔ سر کے بال اور گردن ایک بڑے سے سکارف کے ساتھ ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کلائیاں اور ٹخنے بھی نظر نہیں آتے ۔ کئی سسٹرز تو ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں بھی پہنے رکھتی ہیں ۔ جو سکول گرجوں کے زیر انتظام ہیں ان میں سسٹرز اسی لباس میں جاتی ہیں ۔ پوپ پال کی آخری رسومات ٹیلیویژن پر ساری دنیا میں دکھائی گئیں ۔ تمام عیسائی عورتوں نے اپنے سروں کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا ۔ میں نے دیکھا امریکہ کے صدر جارج واکر بش کی بیوی لورا بش نے دوپٹہ کی طرح کے کپڑے سے اپنے سر کو پوری تقریب میں اچھی طرح ڈھانپے رکھا ۔مدرز ۔ سسٹرز اور ننز اپنے لباس میں مدبّر لگتی ہیں اور خواہ مخوا ان کی عزّت کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ مسلمان عورتیں اپنے جسموں اور سروں کو ڈھانپتی ہیں تو انہیں بنیاد پرست انتہاء پسند اور دہشت گرد تک کہا جاتا ہے ۔ امریکہ ۔ کینیڈا اور یورپ کے کئی ممالک میں طالبات اور معلّمات کے لئے سر کو ڈھانپنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور سر ڈھانپنے کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی جا رہی ہے ۔ یہ دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے ؟ جو اپنے لئے میٹھا وہ دوسرے کے لئے کڑوا کیوں ؟

عورت کے ان نام نہاد حمائتیوں نے آج تک کسی عورت کو پوپ تو کیا معمولی پادری تک نہیں بنایا حالانکہ ایسی عورتیں گذری ہیں جو اس منصب کے لئے موذوں تھیں ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی تاریخ سے ایسی با علم اور اونچے کردار کی خواتین کا پتہ چلتا ہے جن کو مفتی بھی مانا گیا ۔ اس کے باوجود پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو پسماندہ بناتا ہے اور پردے میں رہنے والی مسلمان عورتوں کو مردوں کا قیدی کہا جاتا ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان جن میں نیلوفر بختیار ۔ جسٹس ماجدہ ۔ عاصمہ جہانگیر ۔ حنا جیلانی ۔ وغیرہ اور بہت سے مرد بھی شامل ہیں صیہونیوں کے اس معاندانہ پراپیگنڈہ کا شکار ہو چکے ہیں ۔

باقی انشاء اللہ آئیندہ