میری 23 اگست کی تحریر سے کچھ سوالات نے جنم لیا ہے ۔ میں نے سوچا کہ جواب پوسٹ میں دیا جائے تاکہ سب اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ۔متذکّرہ سوالنامہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات کو ان سکولوں میں دیا گیا تھا جنہوں نے آغا خان بورڈ سے الحاق کیا تھا یا اس کے لئے درخواست دی تھی ۔ بیکن ہاؤس جس کی ایڈمنسٹریٹر یا مینجنگ ڈائریکٹر خورشید محمود قصوری کی بیگم ہیں پیش پیش تھا ۔ یہ اس سال کے شروع کا واقع ہے ۔ ایک صاحب نے مجھے سوالنامے کی جھلک دکھائی تھی ۔ میں ان دنوں کافی بیمار تھا اس لئے کچھ لکھنا ممکن نہ ہوا ۔ سب سوال مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ دادا ہونے کے باوجود مجھے یہ سوال شرمناک محسوس ہوئے
۔ایک سادہ سوال جو یاد پڑتا ہے اس طرح تھا ۔ کیا آپ کا کسی سے جنسی تعلق قائم ہوا ہے ۔ کتنا عرصہ رہا اور اس کے بعد آپ نے کیا محسوس کیا ؟
سعادت حسن منٹو کی متذکّرہ کتاب کی وجہ سے منٹو پر مقدمہ چلا تھا اور قید ہوئی تھی ۔ سنا تھا کہ منٹو نے عدالت میں کہا تھا کہ میں حقیقت بیان کرتا ہوں ۔گندگی کے ڈھیر پر چادر پڑی ہوتی ہے میں صرف اسے اٹھا دیتا ہوں ۔ جج نے کہا تھا جو کچھ آپ اپنی بیوي کے ساتھ کرتے ہیں کیا اس پر سے بھی آپ چادر اٹھا دیتے ہیں تا کہ آپ کے بچوں کو اپنی پیدائش کی حقیقت معلوم ہو جائے ؟ اس کے بعد منٹو کچھ نہ بولا ۔ یہ کتاب ممنموع قرار دی گئی تھی ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانہ میں پابندی اٹھائی گئی تھی مگر ضیاء الحق کے زمانہ میں پھر پابندی لگ گئی تھی ۔ پرویز مشرف کے کمال سے کمسن بچوں کے کورس کا حصہ بن گئی تھی مگر نکالنی پڑی ۔ تیس سال قبل کسی نے اس کتاب کے چند صفحے بطور نمونہ مجھے پڑھائے تھے ۔ ان صفحوں میں ایک مفروضہ زنا کی پوری تفصیل تھی ۔
بریگیڈیئر قاضی نے لفظ پورنو استعمال کیا ہے ۔ میں تو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں کہوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ پورنوگرافی بھی اسی کا انگریزی ترجمہ ہے ۔ ایک پاکستانی ڈکشنری میں پورنوگرافی کا ترجمہ فحش نگاری ہے ۔ ملاحظہ ہو پورنوگرافی کا ترجمہ انگریزی ميں ۔
(1) The depiction of erotic behavior (as in pictures or writing) intended to cause sexual excitement. (2) Material (as books or a photograph) that depicts erotic behavior and is intended to cause sexual excitement
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طلباء و طالبات سے عریاں جنسی سوالات پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ نویں دسویں کے طلباء و طالبات کو نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں پڑھا کر تعلیم کا معیار کیسے بلند ہو گا ؟ اور اس سب کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا امریکہ یا برطانیہ جہاں سیکس مادر پدر آزاد ہے میں دسویں یا بارہویں کے کورس میں نفسانی شہوت پیدا کرنے والی کہانیاں شامل ہیں ؟
ہم کسی ہوٹل میں صرف ایک وقت کا کھانا کھانے جائیں تو بھی پہلے پرکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیسے لوگ ہوں گے اور ہمیں کیسا کھانا ملے گا مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل صرف بڑا نام یا امارت دیکھ کر غلط لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو آغاخان بورڈ کے سپرد کرنے سے پہلے یہ تو معلوم کر لینا چاہیئے کہ آغاخان کیا تھے اور اتنے امیر اور ہزہائینس کیسے بنے اور اب ان کے کیا مشاغل ہیں ۔ کلک کیجئے پہلی قسط کے لئے یہاں اور دوسری قسط کے لئے یہاں ۔
مختصر یہ کہ اسماعیلیوں سے غدّاری اور انگریزوں کی خدمت کے عوض ایک دن میں امیر و کبیر بن گئے تھے اور ہزہائینس بھی ۔