آزادی مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) آزادی کی سالگرہ مبارک my-id-pakاللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ“۔ وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟

قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب بھی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ ۔ ۔ ۔ اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے ۔ ۔ ۔ چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو ۔ ۔ ۔ کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے یہ بات نہ بھُولو ۔ ۔ ۔ کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

پاکستان کیلئے انتخابات

my-id-pakآج ہمارے ملک کی عمر 69 شمسی سال ہونے میں 3 دن باقی ہیں اور قمری مہينوں کےحساب آج پاکستان بنے 71 سال ایک ماہ اور 13 دن ہو گئے ہیں ۔ قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے (صوبے) بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی (ہندو) نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی 100فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا
جب 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اُڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے
مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ” پاکستان “

آيئے سب ميری اس دعا ميں شامل ہو جايئے

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے ۔ ۔ ۔ مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
ہو سکی تیرے رُخ پہ نہ قرباں اگر ۔ ۔ ۔ اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا ۔ ۔ ۔ تیرے گُل رنگ چہرے کی تابندگی
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑے ۔ ۔ ۔ اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم
سبز پرچم تیرا چاند تارے تیرے ۔ ۔ ۔ تیری بزمِ نگاری کے عنوان ہیں
تیری گلیاں، تیرے شہر، تیرے چمن ۔ ۔ ۔ تیرے ہونٹوں کی جنبش پہ قربان ہیں
جب بھی تیری نظر کا اشارہ ملا ۔ ۔ ۔ تحفَہِ نفسِ جاں پیش کر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے

قابلِ اعتماد دوست ؟

my-id-pakلوگ وہی ہیں بہترین اور قابلِ اعتماد جو آپ جیسے کیسے بھی ہیں آپ کو قبول کرتے ہیں
نہ کہ وہ
جو آپ کی حیثیت دیکھ کر آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں
اور نہ وہ
جو اس توقع سے آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں کہ آپ اُن کیلئے کچھ کر سکیں گے

ضمیر کی آواز

انعام رانا کا مضمون بعنوان ” جلیانوالہ باغ کی چیختی روحیں“ شائع ہوا تھا جس کی مندرجہ ذیل سطور بہت متاثر کُن تھیں

مری میں پیدا ہونے والا ڈائر بخوبی واقف تھا کہ بیساکھی کیا ہوتی ہے مگر وہ تو ہندوستان کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ راج قائم رہنے کے لئے ہے ۔ اپنے 65 گورکھا اور 35 پٹھان اور بلوچی سپاہیوں کے ساتھ جب اس نے 10 منٹ تک اس اجتماع پر گولیاں برسائیں تو افسوس ایک ہاتھ بھی گولی چلاتے ہوۓ نہ کانپا ۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ماضی کا قصہ ہے جس نے اُس وقت کی سیاست ، ادب اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کی آزادی کی خواہش پر مہمیز کا کام کیا ۔ اس سانحے کا ذکر کرتے ہوئے یوں تو ہر حساس دل صدمے کی شدت سے بوجھل ہو جاتا ہے لیکن انعام کے متذکرہ مضمون کے چند آخری الفاظ کی حقیقت آج بھی اتنی ہی عیاں ہے جتنی اُس وقت تھی ۔ آج بھی اپنے لوگوں کی قِسمتوں کا فیصلہ کرتے ، قائد اعظم کی تصویر اور نبی اکرم صلعم کے خوبصورت فریم میں جڑے آخری خُطبہ کے سائے تلے چرمی کُرسیوں میں پشت دھنسائے اور گرمیوں کے موسم میں عوام کے پیسے سے یخ کمروں میں ان کے مفادات کا خون کرتے ہوئے ہاتھ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کانپتے لیکن جلیانوالہ باغ کے وہ بے رحم ہاتھ جو آنے والے وقت میں شقاوت کا بے مثل استعارہ بنے ۔ ان میں ایک ہاتھ یقیناً ایسا بھی تھا جو کانپا تھا لیکن وہ ہاتھ ہندوستانی نہیں تھا

جنگ عظیم اوّل میں ہندوستانی عوام نے اس اُمید پر انگریز سرکار کا ساتھ دیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر وہ اپنے آقاوں سے کچھ رعائیتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن جنگ کے بعد سرکار نے 21 مارچ 1919ء کو رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ پاس کر دیا جس کے تحت کسی بھی ہندوستانی کو محض شک کی بنا پر حراست میں لے کر قید کیا جا سکتا تھا ۔ اس ایکٹ کے خلاف پورے ہندوستان میں احتجاج کی سی کیفیت تھی ۔ امرتسر اس وقت تقریبا ڈیڑھ لاکھ آبادی کا شہر تھا جو اقتصادی وجوہات ، گولڈن ٹمپل اور سیاسی شعور زیادہ بیدار ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا ۔ اس وقت 2 کانگرسی رہنما ڈاکٹر سیف الدین کِچلو اور ستیہ پال عوام میں مقبول تھے ۔ ہنگامے کے ڈر سے مقامی ڈپٹی کمشنر نے 10 اپریل کو انہیں حراست میں لے کپیٹن مَیسی کے دستے کی زیر نگرانی دھرم شالہ روانہ کر دیا ۔ کیپٹن مَیسی کا تعلق ایک گورا پلٹن سے تھا ۔ 1917ء میں انگلینڈ سے ہندوستان آیا تھا اور اس وقت امرتسر گیریزن کا آفیسر کمانڈنگ تھا

جب ڈاکٹر کِچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کی خبر عوام تک گاندھی کی گرفتاری کی خبر کے ساتھ پہنچی تو لوگ مشتعل ہو کر نعرے لگاتےسول لائنز کی طرف چل پڑے ۔ کیپٹن مَیسی کے پاس دستے محدود تعداد میں تھے ۔ ضروری جگہوں پر انہیں تعینات کرنے کے بعد اس نے لاہور کے لیفٹنٹ گورنر مائیکل او ڈائر کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا ۔ 11 اپریل کی صبح تک لاہور سے 600 مزید فوجی پہنچ گئے اور لاہور سے آنے والے ایک میجر نے کمان مَیسی سے اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ 12 اپریل کو جالندھر بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر ڈائر نے وہاں پہنچ کر طاقت کے مظاہرے کے طور پر گھر گھر تلاشی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں مارشل لاء لگا کر کسی بھی قسم کے اجتماع کو ممنوع قرار دے دیا

19 اپریل کو بیساکھی کا تہوار تھا جس میں شرکت کرنے قرب جوار کے تمام شہروں سے لوگ امرتسر پہنچے ہوئے تھے چونکہ یہ افراد شہر کے رہائشی نہیں تھے اسلئے انہیں مارشل لاء کے حُکم نامہ کا علم نہیں تھا ۔ جلیانوالہ باغ صرف نام کا ہی باغ تھا ۔ اصل میں یہ تقریبا 6 سے 7 ایکڑ پر مُشتمل چاروں طرف سے دیواروں میں محصور ایک قطعہ تھا جس میں 5 تنگ گلیوں سے ہی جایا جا سکتا تھا ۔ جلیانوالہ باغ میں بیساکھی کے تہوار کا انتظام تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ اس موقع پر سیاسی تقاریر کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ بریگیڈیر ڈائر نے اس مجمعے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ایک مسلّح دستے کو تیاری کے ساتھ باغ کی ایک گلی پر تعینات کرنے کا حکم دیا ۔ کیپٹن مَیسی بھی اس مشین گن دستے کا حصہ تھا ۔ بریگیڈئر ڈائر کے ارادے ۔ مسلّح دستے کی تیاری اور غیر مسلّح ہجوم دیکھ کر کیپٹن مَیسی نے فائر کرنے سے معذرت کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ اس کی جگہ کسی اور کو تعینات کیا جائے ۔ مَیسی کو اسی وقت حراست میں لے لیا گیا اور بذریعہ کورٹ مارشل اس کی تنزلی کر کے لیفٹننٹ بنا کر انگلستان واپس بھیج دیا گیا ۔ بعد ازاں وہ سانحہ رُونما ہوا جس میں تقریبا 1000 افراد گولیوں کا نشانہ بنےMassey_Child
آٹھ نو سال کے بعد مَیسی میجر بنا تو اس کی یونٹ کو ہندوستان بھیجا گیا اور مَیسی بھی یونٹ کے ساتھ اٹک آ گیا ۔ جون کے مہینے میں اٹک کا درجہ حرارت پہاڑیوں میں گھرے ہونے کی بنا پر تقریباً 50 ڈگری کے آس پاس پہنچ جاتا تھا ۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کوئی سرکاری کام کر رہا تھا تو اس کی نظر پریڈ گراونڈ میں ایک دوسری یونٹ کے ہندوستانی سپاہی پر پڑی جسے اینٹوں سے بھرا پٹھو پہنا کر بطور سزا چِلچِلاتی دھوپ میں دوڑایا جا رہا تھا ۔ اگر اس کی رفتار تھوڑی کم ہو جاتی تو سکھ سنتری بطور سزا اس کی پشت پر ایک کوڑا مارتا ۔ جب سزا میں وقفہ ہوا تو وہ سپاہی پانی کے نل پر پہنچا ہاتھ دھوئے ۔ کلی کر کے پانی باہر پھینک دیا اور دونوں پاوں دھو کر اپنی عبادت کرنے لگا ۔ وقفہ ختم ہونے پر اسے پھردوڑایا جانے لگا ۔ میجر مَیسی نے دوسری یونٹ پیغام بھیج کر اس سپاہی کو اپنے پاس بلوایا اور اس سے دریافت کیا کہ اس گرمی کے موسم میں جبکہ وہ سزا پر بھی ہے اس نے پانی کیوں نہ پیا ۔ اس سپاہی نے کہا کہ رمضان کے مہینے میں اس کا روزہ تھا جو کہ فرض عبادت ہے اور اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ میسی نے کہا کہ سزا کے وقفے میں اگر تم آرام کر لیتے تو ذرا تازہ دم ہوجاتے تو اس سپاہی نے کہا کہ نماز عین وقت پر ادا کرنا فرض ہے اور وہ اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کر سکتا کیونکہ نماز قضا کرنے سے اس کا رب ناراض ہو جاتا ۔ میجر میَسی اس کے عزم سے بہت متاثر ہوا اور اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی کہ اگر اسلام کے ایک ادنٰی پیروکار کا یہ عالم ہے تو مذہب اسلام کے فلسفہ کا کیا عالم ہو گا ۔ اب وہ زیادہ تر اپنے خیالات میں مستغرق رہتا اور ڈیوٹی سے اس کی دلچسپی کم ہو گئی ۔ اس نے راولپنڈی سے مذہب اسلام پر کتابیں
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – میَسی کا بچپن
منگوا کر پڑھیں اور کچھ عرصے میں مذہب اسلام نے اس کے دل میں گھر کر لیا ۔ وہیں یونٹ کی مسجد میں ایک دن جمعہ کی نماز سے پہلے میسی نے امام صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا

اس کے قبول اسلام کی خبر ملتے ہی مَیسی اور اس کے حکام بالا کے درمیان حالات تلخ ہو گئے اور نتیجتا میسی کا کورٹ مارشل کر کے اسے فوج سے نکال دیا گیا اور اس کا بینک اکاونٹ منجمد کر کے سوائے جیب میں چند روپوں کے لاہور کا ٹکٹ دے کر اس علاقے سے نکال دیا گیا ۔ لاہور پہنچ کر وہ J.W.Massey_croppedاسٹیشن کے نزدیک برگنزا ہوٹل میں ٹھہرا ۔ قیام کے دوران اس نے اخبار میں علامہ عبداللہ یوسف علی کا ایک مضمون پڑھا جو لاہور کالج کے پرنسپل تھے ۔ مَیسی ان سے ملنے پہنچا اور اسلام سے متعلق چند امور کی وضاحت طلب کرنے ساتھ اپنی بپتا بھی بیان کی ۔ علامہ صاحب نے بتایا کہ اس ماہ کے آخر انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہونا متوقع ہے جس میں نواب آف بہاولپور بھی تشریف لائیں گے ۔ ان سے کہیں گے کہ مَیسی کے روزگار کے سلسلہ میں کوئی مدد فرمائیں ۔ انجمن کے جلسہ میں یہ روایت تھی کہ علماء کے خطاب کے ساتھ ہی کوئی ایک نو مسلم اپنے اسلام لانے کی کہانی بھی بیان کرتا تھا ۔ اس سال یہ اعزاز مَیسی کے حصے میں آیا

نواب صاحب نے تقریر سن کر مَیسی کو گلے لگایا ۔ اسی رات سر عبدالقادر کےگھر ایک ڈنر کا اہتمام تھا جہاں مَیسی کو بھی مدعو کیا گیا اور نواب صاحب سے تفصیلی ملاقات کے دوران سَر عبدالقادر نے نواب صاحب سے مَیسی کے روزگار کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ۔ نواب صاحب نے مَیسی کو اسی وقت بہاولپور سٹیٹ فورسز کی فرسٹ بہاول پور اِنفنٹری میں کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر تعینات کر دیا ۔ مَیسی نے دوسرے دن ہی روانہ ہو کر ڈیرہ نواب صاحب پہنچ کر چارج سنبھال لیا – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – کرنل میسی فرسٹ بہاول پور انفنٹری کی کمان کے دوران

ایک سال کے قلیل عرصے میں کرنل مَیسی نے بٹالین massey_Graveکو ٹریننگ کے اعلی معیار تک پہنچا دیا ۔ دوسرے سال جب دہلی سے انڈین سٹیٹ سروسز کا ایڈوائزر انچیف معائینہ کے لئے آیا تو معائینہ کے بعد اس نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ کی یونٹس کا معیار ہندوستان کی تمام ریاستوں کی افواج سے بہتر ہے اور انڈین آرمی کی ریگولر یونٹ سے کسی طرح کمتر نہیں ہے ۔ نواب صاحب نے مَیسی کی شادی کا اہتمام ایک معزز خاندان کی بیوہ سے کروا دیا تاکہ انہیں خانگی زندگی کا آرام میسر ہو ۔ جون 1934ء میں کرنل مَیسی چند دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئے ۔ انہیں پورے فوجی اعزاز اور اسلامی طریقہ کی رسوم کے مطابق دفنایا گیا
ان کی قبر احمد پور شرقیہ میں قینچی موڑ پر بہاول پور اور احمد پور شرقیہ جانے والی سڑک پر بنائی گئی ۔ جب تک نواب سَر صادق محمد خان زندہ رہے وہ یہاں سے گذرتے ہوئے ہمیشہ کار سے اتر فاتحہ پڑھ کر ریلوے اسٹیشن ڈیرہ نواب صاحب جاتے تھے اور ان کی زندگی میں
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – کرنل میسی صاحب کی قبر
بہاول پور کی فوج کے لیئے حکم تھا کہ یہاں سے گذرتے ہوئے سلامی دے کر گذرا کریں

سورۃ 89 الفجر آیات 27 تا 30 ۔ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾

(اے اطمینان والی روح ۔ تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ۔ پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔ اور میری جنت میں چلی جا)۔‏)۔‏

حوالہ جات
نوائے وقت 17۔18 اپریل 1980ء میں ملک محمد خان اعوان کا مضمون ۔ مصنف بہاول پور سٹیٹ فورسز میں کرنل میسی کے ماتحت رہے
کتاب ”ہم کیوں مسلمان ہوئے“۔ مصنف ڈاکٹر عبدالغنی فاروق ۔ کتاب سرائے ۔ الحمد مارکیٹ ۔ اردو بازار ۔ لاہور
روٹس چیٹ نامی برطانوی ویب سائٹ پر کرنل مَیسی کی عزیزہ مارگریٹ کے سوالات کے متعدد لنکس
انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپنے والا مجید گل کا مضمون

بشکریہ ریاض شاہد صاحب

سچ کو آنچ نہیں

شاید 2005ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک بین الجامعات (inter universities) تقریری مقابلہ منعقد ہوا تھا جس میں طالب علم عدنان خان جدون کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی
اس کے بعد مئی 2006ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہی سٹوڈنٹس کنونشن منعقد ہوا جس میں مُلک کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباء کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا ۔ اِس کنونشن کی صدارت اُس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے کی اور تمام اراکین قومی اسمبلی نے بھی اس کنونشن کو رونق بخشی تھی
اس کنونشن میں طالب علم سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی ۔ خیال رہے کہ سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا

یہ دونوں تقاریر کئی سال قبل میں علیحدہ علیحدہ شائع کر چکا ہوں ۔ کئی ماہ و سال گذر جانے کے بعد بہت سے بلاگرز اور قارئین بدل چکے ہیں ۔ اسلئے متذکرہ دونوں تقاریر پیشِ خدمت ہیں
پہلے عندنان خان جدون پھر سیّد عدنان کاکا خیل