کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کسی شاعر نے کہا تھا  ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” ۔ سچ ہی کہا تھا ۔ میں نے لکھ دیا ۔ خیال تھا کہ قاری کالج میں پڑھتے ہیں یا ماضی قریب میں پڑھتے  رہے ہیں بات سمجھ لیں گے مگر ایسی ہماری قسمت کہاں ۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہوسٹل میں عموماّ جب لڑکے عام کھانے کے علاوہ کچھ کھانے لگتے تو دروازہ پر لکھ کر لگا دیتے

  Please do not disturb 

میرے محترم قاریوں نے سمجھا کہ میں خدانخواستہ اتنا گستاخ ہوں کہ اُنہیں Buzz off  کر دیا ہے ۔ 

   

سُپر ہائی وے ؟

انسان کا قلب تو ایک ” سُپر ہائی وے“ کی مانند ہے

اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں،

امیر کبیر بھی چلتے ہیں،

غریب و فقیر بھی گزرتے ہیں،

خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزر گاہ ہےِ

نیکو کاروں، پارساؤں اور دین داروں کے علاوہ کافروں، مُشرکوں، مُجرموں اور گنہگاروں کے لئے بھی یہ شارع عام ہے
عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسی بھی ٹریفک ہو، اس سے متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہونے کا خطرہ ہے

اس لئے راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اس میں سرخ بتی کے لئے کوئی جگہ نہیں

قدرت اللہ شہاب

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت 

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں

اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں

اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں

اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں

اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں

کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش

یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے

اور الله کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے

پاکستانی اور غیر زبان

” آپ پاکستانی ہو کر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں ؟“ اُس نے میری جواب طلبی کی
میں نے معذرت کی ” مجھے عربی نہیں آتی اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی“۔
” آپ کی زبان کیا ہے؟“ افسر نے پوچھا
” اُردو“ میں نے جواب دیا

” پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا  رشتہ ہے؟“ افسر نے طنزیہ پوچھا

میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے

قدرت اللہ شہاب

تہذیب و تمدّن

انگریز تو خیر اپنے مادری لہجے میں انگریزی بولنے پہ مجبور ہے لیکن جاپانی ، جرمن، اطالوی، فرانسیسی ، روسی اور چینی انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تو اپنے فطری لہجے کو انگلستانی لہجے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے

غلامی کے دَور نے احساسِ کمتری کی یہ وراثت صرف ہمیں عطا کی ہے۔ اگر ہم اپنے قدرتی لہجے میں انگریزی زبان بولیں تو اسے بڑا مضحکہ خیز لطیفہ سمجھ لیا جاتا ہے

قدرت اللہ شہاب

سچا کون ؟

والد صاحب نے کہا ” انسان کو کسی کی عدم موجودگی میں وہی بات کرنا چاہیئے جو وہ اس کے منہ پر بھی دہرا سکے“۔
بات معمولی سی تھی مگر میں نے اس پر عمل بڑا مشکل پایا ہے۔ ہاں جب کبھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی ہے اس وقت زندگی بڑی ہلکی اور آسان محسوس ہوئی ہے

قدرت اللہ شہاب