قرآن شریف کا اَدَب

قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تا کہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو

کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو 1426 سال پہلے آئے ہوئے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔ فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن الله سُبحانُهُ و تعالٰی کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں

میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فَرفَر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

الله سُبحانُهُ و تعالٰی ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا ربِ العالمین

خودی ؟

جس بندہء حق بیں کی خودی ہو گئ بیدار

شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرّے میں پوشیدہ ہے جو قوّت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندہء آفاق ہے ۔ وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکیء فطرت سے ہوا محرم اعماق

علامہ محمد اقبال

آج 29 فروری ہے

جو نیکی کرنا ہے آج ہی کر لیں

دوسروں سے بھلائی کر کے دعاؤں سے جھولی بھر لیں

دِل اپنا صاف کر لیں

جو ناراض ہیں اُنہیں راضی کر لیں

کسی کے بارے میں بُرا خیال دِل میں لانا بند کر دیں
دوسروں کی جِتنی ہو سکے خدمت کر لیں

مستحق لوگوں کی بھرپور مالی امداد کر لیں

آج کا دِن 4 سال بعد آئے گا
اُس وقت الله جانے کون زندہ ہو گا اور کون نہیں

انسان کا دِل

انسان کا قلب تو ایک ” سُپر ہائی وے“ کی مانند ہے

اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں،

امیر کبیر بھی چلتے ہیں،

غریب و فقیر بھی گزرتے ہیں،

خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزر گاہ ہےِ

نیکو کاروں، پارساؤں اور دین داروں کے علاوہ کافروں، مُشرکوں، مُجرموں اور گنہگاروں کے لئے بھی یہ شارع عام ہے

عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسی بھی ٹریفک ہو، اس سے متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہونے کا خطرہ ہے

اس لئے راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اس میں سرخ بتی کے لئے کوئی جگہ نہیں

قدرت الله شہاب

کامیابی

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ

فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

 کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

علامہ محمد اقبال

طریقہ جو صرف پاکستانیوں کا ہے

” آپ پاکستانی ہو کر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں ؟“ اُس نے میری جواب طلبی کی
میں نے معذرت کی ” مجھے عربی نہیں آتی اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی“۔
” آپ کی زبان کیا ہے؟“ افسر نے پوچھا
” اُردو“ میں نے جواب دیا

” پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا  رشتہ ہے؟“ افسر نے طنزیہ پوچھا

میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے

قدرت الله شہاب

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

(میری 10 جنوری 2009ء کو شائع کردہ تحریر)

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں ۔ حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج نے جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا