اسماء کی ای میل بابت بن مانس یا آدمی ۔ اور اس کا جواب

میرا ارادہ تھا کہ اس کھاتہ کو اردو ہی میں رکھوں گا مگر ایک تو اسماء نے انگریزی لکھ بھیجی دوسرے میرا جواب ذرا لمبا ہو گیا اور میری اردو لکھنے کی رفتار ابھی بہت سست ہے دیگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے اردو بلاگ رکھنے والے اور پڑھنے والے صحیح طرح اردو نہیں جانتے۔ چنانچہ جواب بھی انگریزی میں لکھ دیا۔ اصول کی خلاف ورزی پر معذرت خواہ ہوں۔

Assalamo alaykum w.w.!
Well, as far as comment to ur post about evolution is concerned, i would surely give a detailed answer as my papers would end on 27th :)
Well, i was just wondering do u have any Ahmadi in ur social circle? If yes, then U can ask him for a book
“Revelation, Rationality, Knowledge and Truth” By: Hadhrat Mirza Tahir Ahmad. If you can borrow this book, i’m sure u’ll be greatly delighted to read the book.
Wassalam Take care
Allah Hafiz
ASMA

My Reply

Thank you for your e-mail and your nice guidance on recommending a book. By chance I have already read (not the recommended book but) many books that describe views of people who call themselves Ahmedia. The first discussion I had about it was in 1955 with a student who was Ahmedia. In my young age (including college life), I have been writing articles effectively refuting false claims of the so-called Ahmedia community.

You must be knowing the name of Roshan Din Tanvir who remained editor of Al-Fazal the news paper of your community. I lived for a month with his one son and three daughters at 3-Maclagen Road, Lahore in 1953 or so. In those days Roshan Din Tanvir was at Rabwah. The adjoining apartment was office of Al-Fazal and library. I had access to the library. So I am one of the very few Muslims in Pakistan who were lucky to have that opportunity. There-after Allah was kind to provide me chance to know more about beliefs of followers of Mirza Ghulam Ahmed through my Ahmedia friends at Engineering College, Lahore.

From that study: I know that your community does not believe that Hazrat Adam, AS, was the first human being but only the first Nabi saying that humans were already there. Also, your community does not believe that Hazrat Eisa, AS, was lifted to heavens but believes that he died and is buried some-where in Kashmir.

I also know something that you may not be knowing that nearly all the followers of Mirza Ghulam Ahmed signed a memorandum and sent that to Ruler of Great Britain in early 1947 which stated that followers of Mirza Ghulam Ahmed were not of the same belief as followers of Muhammad Ali Jinnah, as such should be counted as separate community and Qadian (Gurdaspur) should be given to them like Vatican City. This effort resulted in changing of demarcation line of India and Pakistan, and Gurdaspur was given to India because subtracting the followers of Mirza Ghulam Ahmed from the Muslims and adding them to non-Muslims, Muslim majority of Gurdaspur became marginal and eased British Rulers hands to favour Jawahar Lal Nehru who was supported by wife of Viceroy, Lord Mount Batten. This clever action of followers of Mirza Ghulam Ahmed proved cancerous for Pakistan in the form of Jammu & Kashmir dispute.

Quaid-i-Azam was fully confident that state Jammu & Kashmir will even geographically be part of Pakistan because it would be surrounded by Pakistan territory. It was a shock to every Muslim of India when a few days after 14th August, 1947, Redcliff award (of partition) was announced and that showed Gurdaspur (a Muslim Majority area) in India. The result was that India entered her armed forces in to Jammu & Kashmir through Gurdaspur.

Having done all this, I fail to understand, why followers of Mirza Ghulam Ahmed came over to Pakistan and what their leaders Tahir and the next have been doing sitting in London, something like Altaf Hussain?

بن مانس یا آدمی ؟

اسماء نے تبصرہ میں یہ نقطہ اٹھایا ہے

But then becoming an aadmi is also not very easy!! We are homosapiens

جیسا کہ میں نے شروع ہی میں اشارہ دیا تھا میں تخلیق آدم اور پھر تخلیق کائنات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بلکہ میں نے دس مئی کو اس کا آغاز کر دیا تھا۔ میرے خیال میں اس تقابل کا ابھی وقت نہیں آیا تھا مگر پانچ مئی کو اسماء کے مندرجہ بالا تبصرہ کی وجہ سے میں نے سوچا وقتی طور پر اس کے متعلق مختصر سا لکھ دیا جائے اور سب کو اس پر رائے دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔

علم حیاتیات کے نظریات امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تو ٹھیک ہیں مگر بنائے ہوئے آدمی کے ہی ہیں۔ انسان غلطی بھی کر سکتا ہے اور یہ نظریات کل کلاں تبدل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو آفاقی حقیت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا غور کیجئے ہو مو سیپیئنز کے معنی پر

Homo sapiens is a Latin for “knowing man” : a bipedal primate belonging to the super family of Hominoidea, with all of the apes: chimpanzees, gorillas, orangutans, and gibbons

اگر وقتی طور پر اس نظریہ کو صحیح تصوّر کر بھی لیا جائے تو یہ سلسہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق جاری رہنا چاہئے تھا اور پچھلے ایک ہزار سال میں لوگ کچھ بن مانسوں کو آدمیوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے ضرور دیکھتے اور یہ انتہائی اہم خبر تحریر میں آ جاتی اور آج بطور عملی ثبوت موجود ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے یہ نظریہ محض مفروضہ ہے اور از خود ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اگر پہلے بن مانس تھا تو بن مانس پہلے کیا تھا ؟ یہ لمبی بات ہے چنانچہ پھر کبھی سہی۔ علامہ اقبال نے آدمی کی خصلت کو خوب بیان کیا ہے۔تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں ۔۔۔۔۔ انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے
اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم ۔۔۔۔۔ یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی ۔۔۔۔۔ یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے

عجب بات یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ زندگی میں کسی چیز کے متعلق اس کے بنانے والے کی فراہم کردہ معلومات کو سب سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کرتے ہیں تو پھر آدمی کے سلسہ میں ہم آدمیوں کے خالق کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب میں آپ لوگوں بالخصوص اسماء سے چاہتا ہوں۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے آدمی کی پیدائش کو واضح الفاظ میں قرآن الحکیم کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہوا ہے۔ اگر حوالے چاہیئں تو میں حاضر ہوں

کیا ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔؟ ؟ ؟

گذ شتہ جمعہ مسجد سے واپسی پر راستہ میں ایک خوش بوش نوجوان نے مجھے چار صفحوں کا ایک پرچہ تھما دیا جس کا عنوان تھا ” کیا ہم زندہ ہیں ۔ ۔ ؟ ” اس پرچہ کی 74 سطور میں سے چند یہاں نقل کر رہا ہوں۔نائن الیون کا بدلہ لینے کے بہانے بے شمار معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلنے اور دو مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود جب امریکہ کا غصہ ٹھنڈ ا نہ ہوا تو دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا گیا اور ہم نے اس میں تعاون کرتے ہوئے تن من دھن سبھی کچھ بیچ ڈالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینکڑوں جوانوں کو ہم نے چند ڈالروں کے عوض پنجروں میں بند کرنے کے لئے گوانتا ناموبے بھیج دیا اور اجازت دی کہ جاؤ امریکہ ان سے وہی سلوک کرو جو قریش مکہ نے بلال۔ یاسر یا عمّار بن یاسر ( رضی اللہ عنہم) سے کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اکیسویں صدی کے شایان شان بننے کے لئے بے حیائی کو روشن خیالی کے نام پر ترویج دی۔ مذاکروں میں اسلام اور نظریہ پاکستان کی ہم نے دھجیاں بکھیریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان اور اسلام کا لا متناہی سلسلہ ہائے بے حرمتی چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ امریکہ نے قرآن پاک کے نسخے پھاڑنے۔ غشل خانوں کے فرش پر بچھا نے اور فلش میں بہانے کی جسارت کر لی۔ سوا ارب مسلمان ۔۔ ؟ خس و خاشاک کی مانند ۔۔ جھاگ کی مانند ۔۔ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حقیر اور بے وقعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی قوم سے بمشکل نیوز ویک چھپایا کہ کہیں انہیں

قرآن مجید کی بے حرمتی کی خبر نہ لگ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچہ کے آخر میں شعر ہیں۔
اٹھو کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر
قطرہء شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
شمع کی طرح جئیں ہر جگہ عالم میں
خود جلیں۔ دیدہء اغیار کو بینا کر دیں

تبصروں کے جوابات میں تاخیر کی معذرت

اسماء۔ نبیل۔ عبداقدیر۔ جہانزیب اور سائرہ عنبریں۔ !
دیر سے رجوع کرنے کی معذرت ۔ بہر حال دیر ہونا اندھیر ہونے سے بہت بہتر ہے۔ آپ سب کا شکریہ میری حوصلہ افزائی کرنے کا۔ دیر کا سبب یہ ہوا کہ یہ کھاتہ بناتے ہوئے میں نے ایک غلطی کر دی تھی جس کے باعث ایک تو آپ کے تبصرے تاخیر سے شائع ہوئے دوسرے مجھے ان کی اطلاع نہ ہوئی۔ آج میں کھاتہ دوہرا رہا تھا کہ میں نے آپ کے تبصرے دیکھے۔ الحمدللہ۔ غلطی مل گئی اور ٹھیک کر دی ہے۔ انشا اللہ آئندہ کوتاہی نہیں ہوگی۔ اس کو میں اصلی کھاتہ میں لکھ رہا ہوں تا کہ سب کو آسانی سے پتہ چل جائے۔ اب تبصروں کا مختصر جواب:اسماء: آپ نے اہم نقطہ اٹھایا ہے اس کے متعلق میں اصلی کھاتہ میں لکھو گا انشا اللہ جلدی۔

نبیل: آپ کے تبصرہ کا جواب زکریّا نے میرے پڑھنے سے بھی پہلے دے دیا۔ مزید کوئی مشورہ ہو تو ضرور تھوڑا وقت نکالیں۔

جہانزیب: والدین کا فرض ہے کہ اولاد کو انسان بنانے کی کوشش کریں۔ اس لئے اولاد کو چاہیئے کہ جلدی سے جلدی انسان بن جائے۔ ہا ہا ہا !

عبداقدیر: کھاتے کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ نے پولینڈ کے بچے کی دلچسپ کہانی لکھی ہے۔

سائرہ عنبرین: میری والدہ کے لئے نیک دعا کا شکریہ۔ شیخ سعدی ایک مفکّر تھے۔ انہوں نے نہائت سادہ زندگی گذاری اور آدمیوں کو انسان بنانے کی کوشش کی۔

پاس نہیں ہوا۔ فرسٹ آیا ہوں

جموں توی ریاست جموں کشمیر کا ایک شہر ہے جو ریاست کا موسم سرما کا دارالخلافہ ہے اور دریائے توّی کے کنارے پر آباد ہے۔ نام کی مثال جرمنی کے شہر ” ڈوسل ڈارف ام رائن ” جیسی ہے جو دریائے رائن کے کنارے آباد ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں تعلیم کا نظام اور معیار بہت عمدہ تھا اور سوائے دو مدرسوں کے تعلیم تقریبا مفت تھی ۔ ایک مدرسہ جموں توّی میں تھا ” ماڈل اکیڈمی” اور ایک سرینگر میں ” برن ہال” ۔ 1947 میں برن ہال کو ایبٹ آباد (پاکستان) منتقل کر دیا گیا اور ایو ب خان کے دور میں اس مدرسہ کو پاکستان آرمی نے فتح کر لیا۔ جی ہاں بالکل ایسے ہی جیسے چار مرتبہ پاکستان کو فتح کیا (ایوب خان۔ یحی خان۔ ضیا الحق اور پرویز مشرّف نے) جموں کا پرنس آف ویلز کالج (سرکاری) عمدہ تعلیمی معیار کے باعث پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔ میں ماڈل اکیڈمی میں پڑھتا تھا۔ اس مدرسہ میں تین سال نرسری کے پھر سات سال جو سات سٹینڈرڈ کہلاتے تھے۔ سیونتھ سٹینڈرڈ کے آخر میں ” او لیول” یا “میٹرک” کا امتحان دے سکتے تھے۔ 1946 میں میں نے فرسٹ سٹینڈرڈ کا امتحان دیا۔ میری پھو پھی کی بیٹی جو مجھ سے آٹھ سال بڑی ہیں نے مجھے بتایا کہ جب میں فرسٹ سٹینڈرڈ کا نتیجہ سن کر گھر لوٹا تھا تو میرے چہرے پر کو ئی خوشی نہ تھی۔ پوچھنے پر میں نے بتایا تھا ” محلہ میں رہنے والے میرے تینوں ہم جماعت پاس ہو گئے ہیں” پوچھا گیا ” لیکن تمہارا نتیجہ کیا رہا ؟” میں نے منہ بسورتے ہوے بتایا ” میں فرسٹ آیا ہوں”۔ ہاں جی تو لگائیے قہقہہ میری بیوقوفی پر یا داد دیجئے میری معصومیت کی

ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گذرگاہ کا

آپ جانتے ہی ہیں کہ خالق حقیقی نے ایک پتلا بنایا پھر اس مین روح پھونکی تو وہ متحرّک ہو گیا۔ آپ پوچھتے ہیں روح کیا ہے تو حناب یہ تو خالق ہی جانے۔ بڑے بڑے ناموں والے سائینسدان تھک ہار کے خاموش ہو گئے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہون کہ اگر خود کو کچھ معلوم نہ ہو تو دوسرے کی بات مان لینا چاہیئے۔ آپ نے سنا ہو گا۔

نکل جاتی ہے جب خوشبو ۔ تو گل بے کار ہوتا ہے

مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ روح نکل جائے تو جسم بے کار بلکہ بالکل بے کار ہوتا ہے۔

آپ نے تو مجھے پٹڑی سے اتار دیا۔ ہاں تو روح پھونکی اور ایک انسان معرض وجود میں آیا۔ یہ تھے حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان۔ (کچھ لوگ حضرت آدم علیہ السلام کو پہلا نبی مانتے ہیں پہلا انسان نہیں وہ اور بھی بہت کچھ نہیں مانتے۔ بہر کیف اس سے میری صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا) پھر خالق نے اس نر میں سے ایک مادہ انسان کو پیدا کیا۔ سارے انسانوں یا آدمیوں کو انسانوں کے اس جوڑے کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ فرشتوں نے بھی کہا تھا ” ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ ( اللہ ) نے ہم کو دے دیا ہے ” ذرا غور کیجیئے کہ آدمی ہر دور میں بہت کچھ جاننے کے دعوے کرتا آیا ہے اور آج کے دور میں تو اتنے اونچے دعوے ! ! ! آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ میرے خیال میں علامہ اقبال نے کچھ صحیح کہا ہے ۔ ملاحظہ ہو

ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گذ ر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک کو سحر کر نہ سکا

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان سعدی لکھی یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتاب میں نے جب پہلی بار پڑھی تو میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ اس وقت مجھے وہ بچوں کی کہانیاں لگیں مگر آدھی صدی گزرنے کے بعد آج میں سوچتا ہوں کہ یہ کہانیاں ہر عمر کے آدمیوں کے لئے ہیں اور ان کو پڑھ کر آدمی انسان بن سکتا ہے۔ آپ فالحال مندرجہ دو کہانیاں پڑھئیے۔ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا۔ درویش کے پاس اس کا کتا بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کتا ؟ “۔ درویش نے جواب دیا ” یہ کتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے “۔

ایک آدمی کو کتے نے کاٹ لیا۔ درد سے اس کے آنسو نکل آۓ۔ اس کی کمسن بچی اسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو۔ کتا آپ سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ بھی اس کو کاٹ لیں”۔ آدمی نے کہا ” بیٹی ٹھیک ہے کہ کتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں اور انسان کتے کو نہیں کاٹتا “۔