آج کے دن


آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے دو لاکھ پچپن ہزار کی آبادی میں سے چھیاسٹھ ہزار انسان ہلاک اور انہتر ہزار زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے ۔

پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور دو سو کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے ۔

پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور پچیس لوگ ہلاک ہو گئے ۔

ہر سال ایڈنبرا فیسٹیول کے نام پر پرنس نائٹ منائی جاتی ہے ۔

میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔

Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won’t appreciate others doing so.

آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا ۔

وہ کون ہے ؟


وہ میری بیوی ہے پچھلے اڑتیس سال سے ۔ کون کہتا ہے کہ ارینجڈ میریج اچھی چیز نہیں ہے ۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ ارینجڈ میریج یورپی سٹائل کی لو میریج سے زیادہ کامیاب ازدواجی زندگی مہیا کرتی ہے ۔ میں زبردستی کی شادی کی بات نہیں کر رہا ۔ اریجڈ میرج وہ ہوتی ہے جس میں والدین اپنے بچوں کی عادات پر نظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ تبادلہء خیال بھی کرتے ہیں ۔

آج کا دن اس کے نام جو چار اگست کو پیدا ہوئی


اس کے والد صاحب کا کاروبار قاہرہ میں تھا ۔ وہ عرصہ دراز سے وہیں رہتے تھے ۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئی ۔ اس کے والد صاحب کے آباؤ اجداد اس علاقہ میں رہتے تھے جو چھ سال پہلے پاکستان بن چکا تھا ۔ اچانک اس کے والد صاحب کے دل میں پاکستان کی محبت جاگی اور وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گئے ۔ وہ پاکستان کی کوئی زبان نہ بول سکتی تھی اور نہ سمجھ سکتی تھی ۔ پھر بھی اسے سکول میں داخل کرا دیا گیا چوتھی جماعت میں ۔ اس نے بہت محنت کی اور چند ماہ میں تھوڑی بہت اردو لکھنے لگی ۔ ہر سال وہ پاس ہوتی چلی گئی اور پنجاب یونیورسٹی سے فزکس کیمسٹری میں بی ایس سی پاس کی ۔ مگر اردو بولتے ہوئے وہ ٹ چ ڈ ڑ صحیح طرح نہیں بول سکتی تھی ۔اڑتیس سال قبل وہ میرے گھر آئی تو اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ میرے دل میں اس کے لئے قدر اور محبت جاگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ خیال رہے پہلی نظر میں عشق صرف افسانوں میں ہوتا ہے حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی لئے کسی نے کہا ہے ۔ کہتے ہیں جسے عشق ۔ خلل ہے دماغ کا ۔ اس کے ہاتھ سے پکے کھانے کھائے ۔ پاکستانی ہی نہیں چین ۔ مصر ۔ اٹلی اور ترکی کی ڈشز بھی بہت اچھی اور مزے دار بناتی ہے ۔ میں نے اس کے بنائے ہوئے گلاب جامن اور رس ملائی بھی کھائی ہوئی ہے ۔ مٹھائی کی دکان والے کیا مقابلہ کریں گے ۔

وہ میری خوشیوں میں شامل ہوئی اور میرے غم میں میری ڈھارس بندھائی ۔ میرے ساتھ اس نے افریقہ اور یورپ کی سیر بھی کی اور حج اور عمرے بھی ۔ ہمیشہ اس نے میرے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا ۔ اب وہ میرے دل و دماغ پر چھا چکی ہے ۔ وہ کون ہے ؟ جاننے کے لئے کل اسی بلاگ پر تشریف لا ئیے ۔

Thousand visits – ایک ہزار دورے مکمل

پچھلے دو دنوں میں اتنا مشغول رہا کہ میں اپنے بلاگ پر توجہ نہ دے سکا ۔میں نے یہ بلاگ 7 اور 8 مئی کی درمیانی رات کو بنایا تھا ۔ 31 جولائی تک یعنی 85 دنوں میں زائرین نے اس کے ایک ہزار دورے کئے ۔

I remained so involved during past two days that could not pay attention to my blog. I had designed and launched this blog on the night between 7th and 8th May, 2005. On 31st July, it had registered 1000 visits.

جسے اللہ رکھے

کچھ ہفتے قبل میں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھا تھا اور عنوان رکھا تھا سر منڈاتے ہی اولے پڑے ۔ ایک قاری نے ۔ملّا نہ سمجھ لیں قاری پڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ ہاں تو ایک قاری نے بالکل صحیح تجویز کیا تھا کہ عنوان جسے اللہ رکھے ہونا چاہیئے تھا ۔ مگر میں نے عنوان اپنے والدین کی پریشانی کے لحاظ سے رکھا تھا ۔ خیر ۔ آج پھر میں گڑبڑ کرنے لگا تھا کہ مجھے اپنے قاری کی تجویز یاد آ گئي ۔آج کل روشن خیال اسلام کی تعمیر زور شور سے جاری ہے جس کے نتیجہ میں جہاد سے متعلق آیات کورس کی کتابوں سے نکالنے کا حکم ہے اور اسی سال کے اندر سارے دینی مدرسوں کو بند کرنا ہے ۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھرنکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ایک دوست کی یاد آئی جو ایک سال قبل اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے تھے ۔ اختر صاحب سے میری ملا قات بیالیس سال قبل ہوئی جو آہستہ آہستہ دوستی میں ڈھل گئی ۔ انہوں نے ترپن سال قبل انجنیئرنگ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ مجھ سے تیرہ سال بڑے تھے اس لئے بے تکلف دوستی ہوتے ہوئے بھی احترام قائم رہا ۔ اختر صاحب صاف گو انسان اور باعمل مسلمان تھے ۔ اکتیس سال قبل وہ کسی ٹریننگ پروگرام کے تحت چیکوسلواکیہ گئے ۔ وہ ملک جو اب دو یا تین ملکوں میں بٹ چکا ہے ۔ اس زمانہ میں یہ کٹر کیمیونسٹ ملک تھا اور مسلمانوں والا نام رکھنا بھی واجب القتل جرم تھا ۔ واپس آ کر انہوں نے اس وقت کے لحاظ سے عجیب واقعہ مجھے سنایا جو اختر صاحب کی زبانی مختصر درج کرتا ہوں ۔

میں جس فیکٹری میں تھا وہاں کوئی دو سو مقامی نوجوان تربیت لے رہے تھے ۔ ان کے بال بہت لمبے تھے اور جینز ۔ بنیان اور جیکٹ پہنتے تھے ۔ بظاہر بالکل لا پرواہ تھے اور اپنی زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں بولتے تھے ۔ ایک دن میرا پاکستانی ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ گیا ۔ دوپہر کی بریک کے دوران کیفیٹیریا میں ایک میز کے ساتھ اکیلا بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان احتیاط سے ادھر ادھر دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ چند منٹ بعد اس نے میری طرف اشارہ کر کے میرے کان میں کہا ۔ لا الہ ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے میرے کان میں کہا الحمدللہ ۔ پھر اس نے اشاروں سے پوچھا کہ تمہارا ساتھی کیا ہے ؟ میں نے کہا لا الہ تو اس نے نفی میں سر ہلایا اور اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ وہ مسلمان نہیں وہ شراب پیتا ہے ۔ اس دن کے بعد جب بھی کیفیٹیریا میں کوئی آفیسر موجود نہ ہوتا وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور اشاروں میں پاکستان کے متعلق پوچھتا رہتا ۔ کبھی قرآن شریف کی کوئی سورۃ مجھے سنا دیتا ۔ ایک دن وقفہ لمبا تھا تو اس نے مجھے پوری سورۃ بقرہ سنا دی ۔ میں نے ہمت کر کے اسے پوچھا کہ قرآن تم نے کہاں سے سیکھا تو اس نے بتایا کہ ایک استاد ہے جو ان کی طرح کسی اور فیکٹری میں کام کرتا ہے لیکن سب کچھ خفیہ ہے اگر کسی کو پتہ چل جائے تو سب کو ہلاک کر دیا جائے گا ۔ پھر ایک دن میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ان کے گروہ میں بارہ ہزار مسلمان ہیں اور آہستہ آہستہ تعداد بڑھ رہی ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن شریف کی حفاظت اپنے ذمّہ لے رکھی ہے ۔ یہ واقعہ اس کی ایک ادنی مثال ہے ۔مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتاہے جو منظورخدا ہوتا ہے

اپنے مکروہ ارادوں کو جتنا چاہیں خوشنما بنا لیں صیہونی ۔ نیو کان ۔ان کے باج گذار اور خوشامدی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

مسلمانوں کو گبھرانا نہیں چاہیئے اور علّامہ اقبال کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیئے
تندیء باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

شعیب صفدر صاحب کی ہدائت پر آج بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ۔

ذی شعور شخص فیصلہ کرنے سے پہلے متعلقہ علم رکھنے والے لوگوں سے ایک مطالعاتی سروے کراتا ہے اور اس سروے کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران ایسا نہیں کرتے بالخصوص ملٹری ڈکٹیٹر اپنے آپ کو عقل کل اور ہرفن مولا سمجھتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف تو تمام حدود پھلانگ چکے ہیں ۔ جو وعدے انہوں نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کو ختم کر نے کے بعد کئے تھے چھ سال گذرنے کے بعد بھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا ۔ البتہ جو ادارے پہلے ٹھیک کام کر رہے تھے ان کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔جہاں تک دینی مدرسوں کا تعلق ہے میں پچھلے تیس سالوں میں معلومات کی خاطر اسلام آباد ۔ راولپنڈی ۔ لاہور اور اکوڑہ خٹک میں کچھ مدرسوں میں جا چکا ہوں ۔ وہاں صرف اور صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔ دہشت گردی کی تعلیم تو بہت دور کی بات ہے وہاں فرقہ واریت کی بھی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ فرقہ واریت ان نام نہاد مشائخ میں سے کچھ پھیلاتے ہیں جو حکومت کے خرچ پر عیش کر رہے ہیں ۔

افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ کیلئے امریکی حکومت نے مدرسوں کے باہر خاص مراکز میں عسکری تربیت کا انتظام کیا تھا جس پر ہر سال امریکہ کئی سو ملین ڈالر خرچ کرتا رہا ۔ ان مراکز میں تربیت پانے والے زیادہ تر لوگ پاکستانی نہیں تھے ۔ ان کے لیڈروں کو امریکی حکومت کے مہمانوں کے طور پر امریکہ لیجایا جاتا تھا اور ان سے وہاں تقریریں بھی کروائی جاتی تھیں ۔ اس سارے کھیل میں پاکستانی مدرسوں کا کوئی رول نہ تھا ۔ اب بھی کسی جنگ یا دھماکے میں پاکستانی مدرسوں کا کوئی کردار نہیں ۔ پرویزمشرف اپنی ڈکٹیٹرشپ کو قائم رکھنے کے لئے اسلام کے خلاف امریکی اور برطانوی حکومتوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ۔ اگر امریکی اور برطانوی عوام کو حقیقت کا علم ہو جائے تو مجھے یقین ہے وہ اس کی حمائت نہیں کریں گے ۔

نمرود کی خدائی ؟

اللہ سبحانہ و تعالی نے جو کمپیوٹر میرے جسم میں رکھا ہوا ہے اس کا پروسیسر دنوں یا ہفتوں نہیں مہینوں سے متواتر چل رہا ہے اور بلاگنگ کرتا جا رہا ہے ۔ اتنی زیادہ پوسٹس کہ ان کو انسان کے بنائے ہوۓ کمپیوٹر کے ذریعہ کسی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کی میں استطاعت و استداد نہیں رکھتا ۔ اس کشمکش میں اپنا دماغ مناسب حروف تصنیف کرنے سے قاصر ہو گیا اور نیند کی پری مجھ سے روٹھ گئی ۔ کسی کا کوئی شعر یا عبارت بھی نہ مل رہی تھی کہ پڑھ کر شائد کچھ سکون ملے ۔وجہ کیا ہے ؟ سب جانتے ہیں مگر ظاہر کرنے میں پس و پیش ہے ۔ دھماکہ امریکہ میں ہو یا انگلستان یا مصر میں شامت بے سہارا پاکستانیوں کی بالخصوص اگر داڑھی والے ہوں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری روشن خیالی کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ کراچی میں روزانہ پچاس موبائل فون چھین لئے جائیں ۔ بیس سے چالیس تک کاریں اور موٹرسائیکل چوری کر لی جائیں یا چھین لی جائیں ۔ روزانہ بھرے بازاروں میں شہری بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو پستول دکھا کر جیبیں خالی کروا لی جائیں ۔ راہ چلتے شریف آدمی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جائے یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم چلایا جائے ۔ اندرون سندھ یا پنجاب حتی کہ اسلام آباد میں کسی شریف زادی کی عزت لوٹ لی جائے اور اس میں پولیس والے بھی شامل ہوں ۔ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑیں ۔ تو ہمارے شہنشاہ ہمیں گڈ گورننس کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔ اوراق الٹ پلٹ کرتے آج کچھ شعر نظر آ گئے سو حاضر ہیں ۔ اس نظم کا عنوان ہے نمرود کی خدائی ۔

یہ قدسیوں کی زمین
جہاں فلسفی نے دیکھا تھا اپنےخواب سحرگہی میں
ہواۓتازہ وکشت شاداب وچشمہ جانفروزکی آرزوکاپرتو
یہیں مسافر پہنچ کےاب سوچنےلگاہے
وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟
وہ خواب کا بوس تو نہیں تھا ؟

اے فلسفہ گو
کہاں وہ رویائے آسمانی ؟
کہاں یہ غرور کی خدائی ؟
مگر۔ ۔ یہاں تو کھنڈر دلوں کے
یہ نوع انسانی کی کہکشاں سے
بلندوبرترطلب کےاجڑے ہوئے مدائن
شکست آہنگ حرف ومعنی کےنوحہ گرہیں

میں آنےوالےدنوں کی دہشت سےکانپتاہوں
میری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
کہ حرف و معنی کے ربط کا
خواب لذّت آگیں بکھر چکا ہے
کہ راستے نیم ہوش مندوں سے
نیند میں راہ پو گداؤں سے
صوفیوں سے بھرے پڑے ہیں
حیات خالی ہے آرزو سے
( ن م راشد )

شاعر نے علامہ اقبال کو مخاطب کیا ہے

سائنس کی کرامات اور اسلام

بات چلی سائنس کی ترقی کی اور کفر اور شرک کی حدوں کو چھونے لگی ۔ میں نے معاملہ کو سلجانے کی کوشش کی مگر

(1) Success of communication depends on how it is perceived and not on how it is delivered.
(2) Perception of communication is influenced by education / training of the receiver and emotional state in which he / she is at the time of communication.

دانیال صاحب فرماتے ہیں

دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والی سائنسی ترقی نے جنگوں، بھوک، وبائی امراض جیسے ملیریا ٹائیفائڈ وغیرہ کو کنٹرول کرنے میں حیرت انگیز مدد دی ہے ۔ ۔ ۔ سائنس محبت اور امن کا نہ صرف سبق دیتی ہے بلکہ ایک نہایت اہم بات جو محترم بلاگر نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ سائنس مسیحائی کے جو کام انجام دے رہی ہے

ملیریا ٹائیفائڈ پولیو والی بات ٹھیک ہے لیکن انتھراکس اور زہریلی گیسیں وغیرہ بھی سائنسدانوں کی ایجاد ہیں جو صرف انسانوں کو ہلاک کرنے کی لئے ہیں ۔ سائنس اخلاقیات کا مضمون نہیں ہے کہ اس میں محبت اور امن کا ذکر ہو اور نہ ہی سائنس میں دل ہوتا ہے جو ترس کھائے ورنہ جتنی دوائیاں انسانوں پر تجربے کر کے بنائی جاتی ہیں اور جو اشیاء صرف انسان کی ہلاکت کے لئے بنائی گئی ہیں وہ نہ بنتیں ۔ برطانوی اور امریکی سائنسدانوں کی محبت اور امن کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے ۔ پوست کی کاشت سینکڑوں سال سے ہندوستان میں ہو رہی تھی ۔ اس سے خشخاش حاصل کی جاتی تھی جو کچھ اہم دواؤں میں استعمال ہوتی تھی اور ویسے بھی ایک مقوّی غذا تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے افیون تیار کی (تفصیل انشا اللہ پھر کبھی) ۔ بعد میں پوست سے مغربی دنیا کے سائنسدانوں نے امریکہ کے سیاسی پروگرام کے تحت ہیروئین تیار کی ۔ پوست کی کاشت پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ارد گرد قبائلی علاقہ میں کی گئی اور وہاں ہیروئین بنانے کے پلانٹ بھی لگائے گئے ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ روسی فوجیوں اور قبائلی پختونوں کے نشئی بننے سے پہلے ہیروئین یورپ اور امریکہ میں پہنچ گئی تو بوکھلا کر پابندیاں پاکستان پر لگا دی گئیں ۔

رہی مسیحائی تو یہ بیسویں یا اکیسویں صدی کا کارنامہ نہیں بلکہ انسان کی سب سے اہم ضرورت صحت ہے اس وجہ سے مسیحائی ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے ۔ جراحی میکینائز ہونے سے کافی سودمند ہوگئی ہے مگر میرا خیال ہے کہ طب میں زمانہ قدیم کا معالج آج کے میڈیکل سپیشلسٹ سے بہتر تھا ۔ اس پر انشاء اللہ پھر کسی وقت لکھوں گا ۔ چین اور جاپان میں ابھی تک قدیم علاج رائج ہیں اسی لئے ان لوگوں کی صحت بہت اچھی اور عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں ۔ جاپان میں عورتوں کی اوسط عمر 85 سال سے زیادہ ہے اور مردوں کی اوسط عمر 78 سال سے زائد ہے ۔ چین میں شدید آب و ہوا اور غربت ہونے کے باوجود عورتوں کی اوسط عمر 73 اور مردوں کی 70 ہے جبکہ امریکہ کی انتہائی ترقی اور تمام وسائل کے ہوتے ہوئے عورتوں کی اوسط عمر 79 اور مردوں کی 74 سال ہے ۔ اب تو امریکہ میں بھی قدیم طب تیزی سے رائج ہو رہی ہے ۔

بھوک پر سائنس نے کیسے کنٹرول کیا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا فصلوں کی سائنسی ترقی کا میں نے مطالع کیا ہے لیکن یہ بہت لمبی بحث ہے ۔ رہی جنگ کی بات تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کی جنگ تو نہیں ہوئی مگر اس سے بہت زیادہ مہلک جنگیں ہوئی ہیں ۔ سائنس کی ترقی کے باعث اب لا تعداد لوگوں کو ان کےگھروں میں ہی تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ صرف عراق اور افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ نے جو کاروائیاں کی ہیں ان میں کی گئی بمباری دوسری جنگ عظیم کی بمباری سے سات گنا ہے اور ہلاکت و تباہی آٹھ گنا ہوچکی ہے ۔دانیال صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ سائنس کا بنیادی مقصد جستجواور کھوج ہے ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ دین اس میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ میں نے اپنی تحریر میں ایک متعلقہ ویب سائٹ کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ سائنس بھی دین کی مخالفت نہیں کرتی ۔ اب تو سائنس نے قرآن الحکیم میں تحریر شدہ بیانات کو صحیح ثابت کرنا شروع کر دیا ہے ۔

دانیال صاحب لکھتے ہیں

کئی تحقیقات سے سائنس نے ثابت کردیا ہے انسانوں کے درمیان بلا رنگ و نسل، مذہب اور ذات پات کی اونچ نیچ کے بغیر ساتھ کام کرنے سے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں

جو بات قرآن الحکیم میں درج ہے اور جس پر خطبۃ الوداع میں رسول اکرم صلی علی علیہ و سلم نے زور دیا وہ ایک ہزار چار سو سال بعد سہی لیکن سائنسدانوں نے مان تو لی ۔ خطبۃ الوداع سے اقتباس ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔

دانیال صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ نادرا کی مثال نہ دیں ۔ نادرا نے جو گل کھلائے ہیں وہ شائد دانیال صاحب کے علم میں نہیں ۔ رہا انٹرنیٹ تو اس سے میری دوستی دس سال قبل ہوئی جب اسلام آباد میں انٹرنیٹ صرف ایس ڈی این پی کے کا تھا ۔ بیس سال پہلے یعنی 1985 میں مجبوری کے طور پر کمپیوٹر سے عشق کرنا پڑا کیونکہ مجھے ایم آئی ایس کا جنرل مینجر لگا دیا گیا اور پہلا پروجیکٹ ڈویلوپمنٹ اینڈ امپلیمنٹیشن آف کمپیوٹرائزڈ انوینٹری مینجمنٹ سسٹم دے دیا گیا ۔ انوینٹری کی لاکھوں قسمیں تھیں ۔ سات مین فریم کمپیٹروں کا نیٹ ورک تھا اور ہر مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ پانچ سے پندرہ تک پی سی لگے تھے جو غلام بھی تھے اور خود مختار بھی ۔ ہر آپریٹر کو سروس اس کی دہلیز پر مہیا کرنا تھی اور ساتھ ہی ساتوں اداروں کے اپنے اپنے ڈاٹا کو محفوظ کرکے دوسروں کے لئے ریڈ اونلی بنانا تھا ۔ اللہ کے فضل سے یہ پراجیکٹ دو سال میں ڈاٹا انٹری سمیت مکمل ہو گیا ۔ اپنے بچوں کے کمپیوٹر کا ماہر ہو جانے کے بعد میں بہت سست ہوگیا ۔

دانیال صاحب لکھتے ہیں میرے خیال میں قرآن بھی ایک سائنسی کتاب ہی ہے صرف انداز بیان الہامی ہے ۔

میں دانیال صاحب سے متفق نہیں کیونکہ قرآن کو معاشیات ۔ معاشرت ۔ ستاروں کے علم اور نظام انصاف کے اصولوں کے علاوہ گائیناکالوجی کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے مگر یہ اللہ کا کلام ہے جس کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا ۔ سائنس انسان کے تجربوں کا حاصل ہے اور اس میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے ۔ کچھ ایسی معلومات ہیں جو قرآن کو نہ ماننے والوں نے بیسویں صدی میں دریافت کیں جب کہ وہ قرآن میں موجود تھیں ۔ ہماری پسماندگی کا سبب نہ تو قرآن ہے نہ اسلام بلکہ اسکا سبب ہمارا دین سے دور ہونا اور قرآن کے ساتھ منافقانہ روّیہ ہے کیونکہ قرآن پر عمل کرنا تو کجا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن میں لکھا کیا ہے اور اسی وجہ سے ہم لوگ محنت کرنے کی بجائے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں ۔ دانیال صاحب نے سو فیصد درست بات کی کہ کسی مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لئے سائنسی دلیلوں کی ضرورت نہیں ۔

وما علینا الالبلاغ