اسلام ۔ دین یا مذہب ؟

یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے لفظ religion کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیۃ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ” تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔ ۔

ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔

ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔

وضاحت

شعیب صاحب ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب ۔ حارث بن خرم صاحب ۔ اور دیگر صاحبین و صاحبات ۔ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میرے نقل کردہ گانے پر آپ حضرات کا تبصرا دلچسپ ہے اور اس سے کئی ذی معنی اور منطقی سوالات ابھرے ہیں ۔ اس لئے میں نے جواب مین پوسٹ میں دینے کا فیصلہ کیا ۔

سبحان اللہ ۔ تعریف اس خدا کی جس نے مجھے اور آپ سب کو بنایا

اگر کوئی شخص ہمیں ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے تو ہم تحفہ دینے والے احسانمند ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اسے بہتر تحفہ دیتے ہیں ۔ لیکن عجب بات ہے کہ جس نے ہمیں ان گنت تحائف دیئے اور آئے دن دیتا رہتا ہے اس کا ہم شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ ” اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے” ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے سورۃ 55 الرحمان اردو ترجمہ کے ساتھ صفحہ 931 سے 936 تک ۔ ماہ رمضان میں تلاوت کا کئی گنا ثواب کمائیے اور تلاوت کا لطف بھی اٹھائیے ۔

متذکّرہ گانے کی یاد مجھے دو باتوں نے کرائی ۔

اول ۔ ہم اندھا دھند اپنی پیاری زبانوں اردو پنجابی سندھی پشتو کشمیری سرائیکی کو روندتے ہوۓ انگریزی کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہے جس کا صحیح قانون قاعدہ ہی نہیں ۔ ہے کوئی ہم میں جو اپنے ملک کی سب زبانیں جانتا ہے ۔ شائد ایک بھی نہیں ۔ میں خود اپنے آپ کو اس سلسلہ میں مجرم گردانتا ہوں ۔ میں اردو اور پنجابی اچھی طرح جانتا ہوں ۔ سندھی پشتو کشمیری اور سرائیکی میں نے سیکھنے کی تھوڑی سی کوشش کی اور نتیجہ میں یہ زبانیں تھوڑی سی سمجھ لیتا ہوں ۔ (بلوچی کا ذکر میں نے نہیں کیا کیوں بلوچی بذات خود کوئی زبان نہیں ہے)

دوم ۔ تین دہائیوں سے ہم لوگ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ چھوڑ کر صرف کاغذ کے ٹکڑے (ڈگریاں) اکٹھا کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے بھی ہم اپنی دولت سے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ گدھے پر سو من کتابیں لاد دی جائیں پھر بھی وہ گدھا ہی رہتا ہے ۔ لیکن اگر کسی جانور کو بھی تربیت دی جاۓ تو وہ اچھے کام کرنے لگ جاتا ہے ۔

ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اس لئے بے روزگار ہیں کہ انہوں نے امتحان پاس کر کے ڈگریاں لی ہیں تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دی ۔ میں تو کہوں گا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نہ ہونے اور ہماری پسماندگی کا سبب بھی یہی ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہمیں اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہے ۔

حارث بن خرم صاحب لکھتے ہیں ۔ “بالکل ہماری پڑھائی الٹی ہے۔ دراصل عوام دھوبی کے گدھے سے بھی گئی گزری ہے جو رات کو کم از کم گھر تو آ جاتا ہے ۔ حکمرانوں نے کم اور ہماری عادتوں اور ظلم، سہنے کی بری ””’خصلت”” نے ہماری مت مار دی ہے۔”

پڑھائی

شاید 40 سال یا اس سے بھی پہلے جب میں کبھی کبھی فلم دیکھ لیا کرتا تھا ۔ ویسے میرا حافظہ فلموں کے معاملہ میں بہت کمزور ہے ۔ ایک گانے کے کچھ بول یاد ہیں گانے والے کا اور لکھنے والے کا نام یاد نہیں ۔

جو سکندر نے پورس پہ کی تھی چڑھائی
جو کی تھی چڑھائی تو میں کیا کروں
جو کورو نے پانڈو سے کی ہاتھا پائی
جو کی ہاتھا پائی تو میں کیا کروں
بی یو ٹی بَٹ ہے تو پی یُو ٹی پُٹ ہے
زمانے میں پڑھائی کا دستور اُلٹ ہے
جو ہے اُلٹی پڑھائی تو میں کیا کروں

کچھ سنا آپ نے ؟

اردو میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں ۔ چوہدری ۔ چمچہ جو کھانے والا اور سیاسی بھی ہوتا ہے ۔ چیلا جو کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ کھتری ۔ ماسی جو کراچی اور کئی دوسرے علاقوں میں نوکرانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پھڈا ۔ پنگا ۔ ووہٹی یعنی دلہن ۔ بہن ۔ لوٹا ایک طہارت کے لئے ہوتا ہے اور ایک سیاسی ۔ شیدا جو عام طور پر رشید یا ارشاد کا بگاڑا ہوا نام ہوتا ہے ۔ پاوے چارپائی کے اور بکرے یا گائے کے ہوتے ہیں مگر ایک خاص ہوتے ہیں جو کامیابی دلاتے ہیں بغیر محنت کے ۔ دھوتی جسے لاچہ یا تہہ بند بھی کہا جاتا ہے ۔ پینڈو یعنی دیہاتی ۔ ان کو اگر انگریزی میں پڑھا جائے تو ۔ ۔ ۔

C.H.O.W.D.H.A.R.Y. = Chief Hierarchical Officer With Designated Authority for Recurring Years
C.H.A.M.C.H.A. = Chief’s Appointed Managing Coordinator and Helping Associate
C.H.A.I.L.A. = Chief’s Appointed Information and Liaison Associate
K.H.A.T.R.Y. = Key Holder And Treasury Retaining Yankee
M.A.A.S.S.I. = Member Appointed At Social Service Institutions
P.H.A.D.D.A. = Plans to Hold Actions to Deprive the Designated Associates
P.A.N.G.A. = Proposals Attaining Negative Grounds for Actions
W.O.H.T.I. = Women Officer Having Temporary Insanity
B.E.H.N. = Board of Environment, Health and Nutrition
L.O.T.A. = Local and Overseas Travel Agent
S.H.E.E.D.A. = Shining and Honest Enthusiast Engineer Deprived of Ambitions
P.A.W.A.Y. = Phenomenally Accented Weight Accruing Yule-logs
D.H.O.T.Y. = Dress Handed Over To You
P.A.Y.N.D.O.O. = Pakistani American Youth Not Disguising Our Origin
A.B.C.D. = American Born Confused Daisi

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔ میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں
میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی کئی مضامین یاد کئے سال میں ان گنت ٹیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ 10 سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مشکل ہوتی گئی ۔ 10 سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔

میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمشکل روزانہ ایک وقت کی سوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اُٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوئے کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ 6 سال بعد بی ایس انجنئرنگ کا سرٹیفیکیث مل گیا ۔

پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوئے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔

سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سارا دن محنت کی پھر بھی باس کم ہی خوش ہوئے ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوئے پورا دن نوکری کی ۔ جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوٰی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے سجدہ غیر الله کو کروں یا نماز روزہ کی پابندی نہ کروں یا صرف نماز. روزہ. زکوٰة. حج کر لوں مگر حقوق العباد کا خیال نہ کروں جس کے متعلق الله سُبحانُهُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ اگر متعلقہ شخص معاف نہ کرے تو معافی نہیں ہو گی یعنی سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں
کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟
مگر افسوس ہمارے مُلک میں ایسا ہی ہوتا ہے چونکہ دِین کے بارے میں ہماری سوچ ہی ناپختہ ہے

پاکستان کے سکولوں میں کئی عیسائی لڑکے اور لڑکیاں بائبل کی بجائے اسلامیات پڑھتے ہیں کیونکہ اسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں ۔ 22 سال قبل بھرتی کے لئے انٹرویو لیتے ہوئے مجھے چند عیسائی امیدواروں نے حیران کیا کیونکہ انہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان امیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ لیکن اس سے وہ مسلمان تو نہیں بن جاتے ۔

غالباً 1981ء کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل افیئرز تھے ۔ میں نے اُنہیں تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ؟ اُنہوں نے کہا
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
میری حیرانی پر اُس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں نے لبنان میں مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سوائے اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور مُحمد صلی الله عليه و آله وسلم اس کے پیامبر ہیں ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اگر ایم ایس ونڈوز اردو میں ہوتی

If MS Windows XP was in Urdu, The terms would be like this.

Windows XP = کھڑکیاں کاٹا پیٹی
File = مسل – – – Save As = اسطرح بچاؤ
Save =بچاؤ – – – Mailer = ڈاکیہ
Help = مدد – – – Select All = سب چنو
Find = ڈھونڈو – – – Find Again = پھر ڈھونڈو
Move = ہلاؤ – – – Mail = ڈاک
Zoom in = پھیلاؤ – – – Zoom out = سکڑاؤ
Open = کھولو – – – Close = بند کرو
New = نیا – – – – Replace = بدلو
Run = بھگاؤ – – – Print = چھاپو
Cut = کاٹو – – – Print Preview =جائزہ چھپائی
Delete = مٹاؤ – – – Copy = نقل مارو
Paste = چپکاؤ – – – Insert = گھساؤ
View = نظارہ – – – Database = معلومات بنیاد
Tools = اوزار – – – Toolbar = اوزار ڈ نڈی
Mouse = چوہا – – – Click = ٹک کرو
Spreadsheet=بچھاؤ چادر – – – Tree = درخت
Compress = دباؤ – – – Exit = نکلو
Scrollbar = لپیٹن ڈ نڈی

دل تھام کے بیٹھو اب میری باری آئی

وجہ تسمیہ ۔ ٹیگ کا مطلب وہ دھاتی چیز ہوتا ہے جو کسی چیز کے سرے کو محفوظ کرنے کے لئے یا لٹکانے یا کسی چیز میں سوراخ کرنے کے لئے لگائی گئی ہوتی ہے ۔ اسی حوالے سے دفتروں میں استعمال ہونے والی چھوٹی سی ڈوری کو ٹیگ کہا جاتا ہے ۔
ٹو ٹیگ کا مطلب نشان لگانا ہوتا ہے لیکن جو ڈوری یا دھاگہ عیسائی یا ہندو اپنی محبت کا نشان لگانے کے لئے ایک دوسرے کو باندھتے ہیں اسے بھی ٹیگ کا نام دے دیا گیا ۔حارث بن خرم ۔ شعیب اور شبّیر صاحبان نے مجھے نشان لگا دیا ۔ میں نے سوچا اگر نہ لکھا تو نوجوان ناراض نہ ہو جائیں ۔

پچاس سال پہلے ۔ میں گارڈن کالج راولپنڈی میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا ۔ اس سال اللہ کے فضل سے میں نے تقریری مقابلہ میں اپنی زندگی کی پہلی تقریر پر پہلا انعام جیتا تھا ۔ میں طلباء ۔ طالبات اور استادوں سب میں قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا ۔ جو لڑکے لڑکیاں خود پریکٹیکل صحیح نہیں کر پاتے تھے وہ استاد سے کہلوا کر مجھ سے کرواتے تھے ۔

دس سال پہلے ۔ میں ترپن سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لینے کی وجہ سے فارغ تھا چنانچہ میں نے اپنی ذاتی تعلیم و تربیت اور ایک ویلفیئر سوسائٹی کے لئے بھرپور کام کیا

ایک سال پہلے ۔ میں ماشاء اللہ ایک پیاری سی بچی کا دادا بن گیا ۔

پچھلے چھ ماہ میں ۔ اس کھاتہ یا روزنامچہ کی بدولت بہت سے نوجوانوں سے تعلقات بنے جن سے میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں ۔ البتہ قدیر احمد رانا ۔ جہانزیب اشرف اور حارث بن خرّم صاحبان تو مجھے سب کچھ سکھا کر ہی دم لیں گے ۔

محبوب مشاغل ۔ اچھے قاریوں کی آواز میں تلاوت اور صوت القرآن چینل سے ترجمہ سننا ۔ تلاوت زیادہ تر شیخ محمد عبدالباسط عبدالصمد ۔ شیخ عبدالرحمان السدیس ۔ شیخ محمود الحسری اور شیخ سعود الشریم کی سنتا ہوں ۔ کتابوں ۔ رسائل ۔اخبارات اور انٹرنیٹ پر مضامین اور خبریں پڑھنا ۔ کمپیوٹر پر الٹے پلٹے تجربے کرنا ۔

جنہیں ملنا چاہتا ہوں ۔ ذاکر نائک ۔ اسرار احمد ۔ بل گیٹس ۔ نوم چومسکی اور قدیر احمد رانا ۔

حالیہ خوشی کے متحرک ۔ کسی کی مدد کرنا ۔ اپنی پوتی کے متعلق باتیں سننا ۔ اس کی وڈیوز دیکھنا ۔ اس کی تصویریں دیکھنا ۔اپنے بچوں کی کامیابی ۔

خواہشات ۔ تمنّا ہے کہ دنیا میں کچھ کام کر جاؤں ۔ اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں ۔ خیال رہے اس میں انسانیت کی خدمت شامل ہے ۔

محبوب کھلونے ۔ پرسنل کمپیوٹر اور عمارتوں ہوائی جہازوں کاروں اور اسلحہ کے سکیلڈ ماڈل

پسندیدہ خوراک ۔ ماشاء اللہ بیوی ۔ بیٹی اور دونوں بہو بیٹیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی بریانی ۔ پلاؤ ۔ کوفتے ۔ پزّا ۔ لزانیا ۔ ششلک ۔ کشری ۔ محشی ۔ کیک ۔ بسیسا اور بسبوسا ۔ دونوں بیٹوں کی لائی ہوئی چاکلیٹ ۔ آئس کریم کیک ۔ موز (موس) کیک ۔

پسندیدہ ٹی وی شو ۔ میں ٹی وی کا شوقین نہیں مگر جب دیکھوں تو یہ دیکھتا ہوں ۔ ڈاکٹر اسرار ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ۔ نیشنل جیوگرافک چینل اور ٹام اینڈ جیری یا اسی طرح کے کارٹون ۔

پسندیدہ فلمیں ۔ عرصہ دراز گذرا فلم بینی چھوڑے اس لئے نام یاد نہیں رہے ۔ صرف وہ فلمیں پسند تھیں جن میں اداکاری ۔ فلمنگ ۔ ہدائتکاری اور تھیم سب عمدہ ہوں ۔

پسندیدہ گلوکار جو تھے ۔ نورجہاں ۔ محمد رفیع ۔ لتا منگیشکر ۔ ثریّا ملتانیکر ۔ احمد رشدی ۔

پسندیدہ گانے ۔ گانے سننا چھوڑے شائد چالیس سال ہو گئے ۔ بچپن اور نوجوانی میں چند گانے پسند تھے جو احباب کے حکم پر گانے بھی پڑتے تھے ۔

سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل
تجھ کو دنیا میں ملے گا اسکا پھل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
غم کو سینے سے لگانا سیکھ لے
غیر کو اپنا بنانا سیکھ لے
درد سہہ کر مسکرانا سیکھ لے
چھوڑ خودغرضی وفا کی راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
ایک ہی آدم کی سب اولاد ہیں
کچھ توخوش ہیں اورکچھ ناشادہیں
جرم ان کا کیا ہے جو برباد ہیں
تو زمانے کے اصولوں کو بدل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
دوسروں کے واسطے زندہ رہو
جان بھی جائے تو ہنس کر جان دو
معصیت کے واسطے شرمندہ نہ ہو
چھوڑ خودغرضی خدا کی راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل

لو دھن کا گھر لوٹنے والو لوٹ لو دل کا پیار
پیار وہ دھن ہے جس کے آگے ہر دھن ہے بیکار
انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام
دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے گا بس نام
کیوں تم نے لگائے ہیں یہاں ظلم کے ڈیرے
پیتے ہو غریبوں کا لہو شام سویرے
دھن ساتھ نہ جائےگا بنے کیوں ہو لٹیرے
خود پاپ کرو نام ہو شیطان کا بدنام
لاکھرں یہاں شان اپنی دکھاتے ہوئے آئے
دم بھر کے لئے ناچ گئے دھوپ میں سائے
وہ بھول گئے تھے کہ یہ دنیا ہے سرائے
آتا ہے کوئی صبح تو جاتا ہے کوئی شام

جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا
یہ ٹھاٹھ باٹھ تیرا یہ آن بان تیری
رہ جائے گی یہیں پر یہ ساری شان تیری
اتنی ہی ہے مسافر بس داستان تیری

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو
خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو
ہمارا کیا ہے ہم تو مر کے جی لیں گے
یہ زہر تم نے دیا ہے تو ہس کے پی لیں گے
تمہاری راہ چمکتی رہے ستاروں میں
دیار حسن میں حسن دیار بن کے رہو

When I kneel by the side of my mother
As my evening prayer I recite
There O LORD ! make me child again
Just for tonight

اگر مجھے ایک سو ملین ڈالر مل جائیں تو میں ایک ایسا مدرسوں کا نظام بناؤں جس میں فیسیں طلباء و طالبات کے لواحقین کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں ۔ ان میں سائنس اور دینی تعلیم دونوں کا بہت عمدہ بندوبست ہو اور ان کے لئے زبردست کمپیوٹرائزڈ لائبریری ہو تا کہ طلباء اور طالبات کو زیادہ کتابیں نہ خریدنا پڑیں اور وہ سائنس میں ترقی کرنے کے ساتھ اچھے باعمل مسلمان بن سکیں ۔میں پناہ کہاں لوں گا ۔ اللہ تعالی جہاں پناہ دے گا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔

جو پوشاک پہننا پسند نہیں ۔ چمکیلے یا شوخ رنگ کے کپڑے ۔ کالی یا لال قمیض ۔ لال پتلون ۔ سبز جوتے اور بے ڈھنگے فیشنی ۔

میری بری عادتیں ۔ غیبت نہ کرنا ۔ کسی کا مذاق نہ اڑانا اور دوسروں کو ایسا کرنے سے منع کرنا ۔ شور سے گبھرانا ۔ بدی کو دور کرنے کی کوشش ۔ ناچ گانے والی محفلوں میں نہ جانا ۔

جنہیں میں نشان لگانا چاہتا ہوں ۔ تین درجن کے قریب نفوس نشان زدہ ہو چکے ۔ میں نے مشکل سے یہ چنے ہیں
اے ڈبلیو کے
ثاقب سعود

ضیاء احمد
فہیم شیخ
بد تمیز