قہوہ یا چائنیز گرین ٹی ۔ ایک عمدہ علاج

پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان میں کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری
تیسری قسط ۔ چائے کی دریافت کب ہوئی
چوتھی قسط ۔ چائے بھی کیا چیز ہے

پانچویں قسط

میں نے ایک گذشتہ پوسٹ میں لکھا تھا کہ قدیم طبی معالج آج کے میڈیکل سپیشلسٹ سے بہتر تھا ۔ سو حاضر ہے ۔

To sum up, here are just a few medical conditions in which drinking green tea is reputed to be helpful:

cancer
rheumatoid arthritis
high cholesterol levels
cariovascular disease
infection
impaired immune function

قہوہ کولیسٹرال کو کم کرتا ہے

چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ قہوے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ قہوہ چار پانچ ہفتے پلایا جس سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ کے محقق بھی قہوے کی مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔

قہوہ کینسر سے بچاتا ہے

قہوے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن
۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔

قہوہ ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ قہوہ بطور سٹیمولینٹ ۔ ڈائی یوریٹک ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ دارچینی ڈال کر بنایا جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتا ہے ۔

Atherosclerosis
قہوہ اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتا ہے ۔
میں ہونے والی انفلیمیشن کو قہوہ کم کرتا ہے ۔ Inflammatory Bowel Disease (IBD)

جگر کی بیماریاں اور یرقان
جو لوگ روزانہ قہوے کے دس یا زیادہ کپ پیتے ہیں انہیں جگر کی بیماریوں بشمول یرقان کا کم خطرہ ہوتا ہے ۔

Slimming
قہوے کا ایکسٹریکٹ چربی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے آدمی موٹا نہیں ہوتا ۔

مزید تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل سائٹس دیکھئے

http://www.sciencedaily.com/releases/2003/08/030805072109.htm
http://www.vitacost.com/science/hn/Benefits_Weight/Green_Tea.htm
http://healthyherbs.about.com/cs/herbfaqs/p/pfgrtea.htm
http://www.newstarget.com/000371.html
http://news.bbc.co.uk/2/hi/health/3125469.stm

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کسی شاعر نے کہا تھا ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” ۔ سچ ہی کہا تھا ۔ میں نے لکھ دیا Please do not disturb ۔ خیال تھا کہ قاری کالج میں پڑھتے ہیں یا ماضی قریب میں پڑھتے رہے ہیں بات سمجھ لیں گے مگر ایسی ہماری قسمت کہاں ۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہوسٹل میں عموماّ جب لڑکے عام کھانے کے علاوہ کچھ کھانے لگتے تو دروازہ پر لکھ کر لگا دیتے Please do not disturb میرے محترم قاریوں نے سمجھا کہ میں خدانخواستہ اتنا گستاخ ہوں کہ اُنہیں Buzz off کر دیا ہے ۔

چائے بھی کیا چیز ہے

پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری
تیسری قسط ۔ چائے کی دریافت کب ہوئی

چوتھی قسط

چو یوآن چانگ جس کا دور 1368 سے 1399 عیسوی تھا نے 1391 عیسوی میں حکم نافذ کروایا کہ آئیندہ چاء کو پتی کی صورت میں رہنے دیا جائے گا اور ٹکیاں نہیں بنائی جائیں گی ۔ اس کی بڑی وجہ ٹکیاں بنانے اور پھر چورہ کرنے کی فضول خرچی کو روکنا تھا ۔سولہویں صدی کے شروع میں چائے دانی نے جنم لیا ۔ اس وقت چائے دانیاں لال مٹی سے بنائی گیئں جو کہ آگ میں پکائی جاتی تھیں ۔ پھر اسی طرح پیالیاں بنائی گیئں ۔ ایسی چائے دانیاں اور پیالیاں اب بھی چین میں استعمال کی جاتی ہیں ۔

سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں پرتغالی لوگ چین کے مشرق میں پہنچے اور انہیں مکاؤ میں تجارتی اڈا بنانے کی اجازت اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ علاقے کو قزّاقوں سے پاک رکھیں گے ۔ خیال رہے کہ انگریزوں کو چینیوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بالکل نہیں دی اور تجارت کی اجازت بھی ستارہویں صدی کے آخر تک نہ دی ۔ گو شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے ترکوں کے ذریعہ چاء پہلے ہی یورپ پہنچ چکی ہوئی تھی مگر پرتغالی تاجر چینی چاء کو براہ راست یورپ پہنچانے کا سبب بنے ۔

یورپ میں ولندیزی یعنی ڈچ تاجروں نے چاء کو عام کیا ۔ انہوں نے ستارہویں صدی میں اپنے گھروں کے ساتھ چائے خانے بنائے ۔ سال 1650 عیسوی میں آکسفورڈ میں پہلا چائے خانہ ۔ کافی ہاؤس کے نام سے بنا ۔ اور 1660 عیسوی کے بعد لندن کافی خانوں سے بھرنے لگا جن کی تعداد 1682 عیسوی تک 2000 تک پہنچ گئی ۔ستارہویں صدی کے آخر میں کسی نے پتے سوکھانے کے عمل کے دوران تخمیر یعنی فرمنٹیشن کا طریقہ نکالا جو بعد میں کالی چائے کی صورت میں نمودار ہوا یعنی وہ چائے جو آجکل دودھ ملا کر یا دودھ کے بغیر پی جا رہی ہے ۔ یہ کالی چائے ایک قسم کا نشہ بھی ہے ۔ اسے عام کرنے کے لئے اس کا رنگ خوبصورت ہونے کا پراپیگنڈا کیا گیا چنانچہ رنگ دیکھنے کے لئے سفید مٹی کی چائے دانی اور پیالیاں بننی شروع ہوئیں ۔

چین کا مقابلہ کرنے کے لئے انیسویں صدی میں انگریزوں نے چاء کے پودے اور بیج حاصل کئے اور ہندوستان میں چاء کی کاشت کا تجربہ شروع کر دیا ۔ اس کوشش کے دوران بیسویں صدی کے شروع میں پتا چلا کہ چاء کے پودے کی جنگلی قسم آسام کی پہاڑیوں میں موجود ہے ۔

میں دریافت ہوا کہ چاء کے پودے کا نباتاتی نام کامیلیا سائنیسس ہے ۔ سبز اور کالی چائے پینے کے لئے ان کے تیار کرنے میں فرق ہے ۔ کالی چائے کھولتے ہوئے پانی سے بنتی ہے جبکہ سبز چائے میں 70 درجے سیلسیئس (Celsius) تک گرم پانی ڈالنا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں کالی چائے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں عام کی گئی ۔ ہندوستان اور سری لنکا میں صرف کالی چائے پیدا ہوتی ہے ۔

ماشاء اللہ میرے گھر میں رونق

آج میں بہت خوش ہوں ۔ ٓآج میری اکلوتی پوتی پہلی بار میرے گھر آئی ہے ۔ ہاں میں اپنے بیٹے زکریا کی بیٹی مشیل کی بات کر رہا ہوں ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مشیل فوراً میری دوست بن گئی ہے ۔ زکریا بیٹے نے میرا اعراب والا اردو چابی تختہ یعنی کی بورڈ بھی بنا دیا ہے ۔آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔ میں بہت مصروف ہوں ۔

Please Do not Disturb

چاء کی دریافت کب ہوئی اور ٹی کیسے بنی ؟

پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری

تیسری قسط

چاۓ کی دریافت آج سے 4740 سال قبل ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین (شین یا سین) میں شہنشاہ دوم شین نونگ ( 2737 سے 2697 قبل مسیح) نے علاج کے لئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چاء بھی دریافت کی ۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا ۔ چاء ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے ۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا ۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز ۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے ۔ بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے پیا جاتا ۔ساتویں صدی میں چاء کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا ۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا ۔ اسی دوران یہ چاء تبت اور پھر شاہراہ ریشم کے راستے ہندوستان ۔ ترکی اور روس تک پہنچ گئی

سال 850 عیسوی تک چاء کی ٹکیاں بنانے کی بجائے سوکھے پتوں کے طور پر اس کا استعمال شروع ہو گیا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی میں چاء پیالہ میں ڈال کر اس پر گرم پانی ڈالنے کا طریقہ رائج ہو گیا ۔ جب تیرہویں صدی میں منگولوں یعنی چنگیز خان اور اس کے پوتے کبلائی خان نے چین پر قبضہ کیا تو انہوں نے چاء میں دودھ ملا کر پینا شروع کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مارکوپولو نے اپنی چین کے متعلق تحریر میں چاء یا چائے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ کیا مارکو پولو واقعی چین گیا تھا ؟

جسے آج ہم بھی مغربی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹی کہنے لگے ہیں اس کا قدیم نام چاء ہمیں 350 عیسوی کی چینی لغات یعنی ڈکشنری میں ملتا ہے ۔ شروع میں یورپ میں بھی اسے چاء (Chaw)ہی کہا جاتا تھا ۔ چھٹی یا ساتویں صدی میں بدھ چین سے چاء کوریا میں لے کر آئے ۔ کوریا میں کسی طرح ۔ سی ایچ ۔ کی جگہ ۔ ٹی ۔ لکھا گیا ۔ ہو سکتا ہے اس زمانہ کی کورین زبان میں ۔ چ ۔ کی آواز والا حرف ۔ ٹی ۔ کی طرح لکھا جاتا ہو ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ چاء کو Tay لکھا گیا ۔ اسطرح یورپ میں چاء ۔ ٹی اور ٹے ۔ بن گئی ۔ جرمنی میں اب بھی چاء کو ٹے کہتے ہیں ۔

باقی انشا اللہ آئیندہ

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں
اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں
اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں
اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش
یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے
اور اللہ کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جاۓ

اللہ اکبر ۔ سبحان اللہ ۔ جسے اللہ رکھے ۔

آج کی ترقی یافتہ سائنس یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گی کہ ملبے کے نیچے دبا کوئی انسان 15 دن سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ لیکن جب اللہ تعالی کی قدرت سے 63 دن بعد ایک انسان ملبے کے نیچے سے زندہ نکلتا ہے تو انسان کے بناۓ ہوۓ سائنس کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انسان کہہ اٹھتا ہے “اور تم اللہ کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟”مظفرآْباد سے 5 میل کے فاصلہ پر کمسر میں مقبوضہ کشمیر سے آۓ ہوۓ مہاجرین کا کیمپ ہے ۔ یہ مہاجرین 8 اکتوبر کے زلزلہ سے گرے ہوۓ مکانوں کا ملبہ ہٹا رہے تھے کہ 10 دسمبر کو ملبے کے نیچے دبی ہوئی ایک 45 سالہ خاتون زندہ ملی ۔ اس خاتون کے والدین اور دو بھائی اسی زلزلہ میں ہلاک ہو چکے ہیں ۔ دو دن یہ خاتون مقامی لوگوں کے پاس رہی ۔ 12 دسمبر کو جرمن ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ٹیکے لگانے کے لئے وہاں پہنچی تو لوگوں نے بتایا کہ یہ خاتون ملبے کے نیچے سے نکلی ہے اور کچھ کھا پی نہیں رہی ہے ۔ جرمن ڈاکٹروں نے پاکستان اسلامِک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ رابطہ کیا ۔ اس تنظیم کے ڈاکٹر وہاں گئے اور اس خاتون کو لیکر مظفرآباد آئے۔ اس خاتون کا وزن صرف 25 کلوگرام رہ گیا ہوا ہے ۔ مظفرآباد میں ڈاکٹر اس خاتون کا طبی معائنہ کررہے ہیں ۔ اس کی حالت کا صحیح پتہ چلنے کے بعد اسے مناسب طبّی اور دیگر امداد فراہم کی جائے گی

تصویر بشکریہ نواۓ وقت