کسی شاعر نے کہا تھا ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” ۔ سچ ہی کہا تھا ۔ میں نے لکھ دیا Please do not disturb ۔ خیال تھا کہ قاری کالج میں پڑھتے ہیں یا ماضی قریب میں پڑھتے رہے ہیں بات سمجھ لیں گے مگر ایسی ہماری قسمت کہاں ۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہوسٹل میں عموماّ جب لڑکے عام کھانے کے علاوہ کچھ کھانے لگتے تو دروازہ پر لکھ کر لگا دیتے Please do not disturb میرے محترم قاریوں نے سمجھا کہ میں خدانخواستہ اتنا گستاخ ہوں کہ اُنہیں Buzz off کر دیا ہے ۔
چائے بھی کیا چیز ہے
پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری
تیسری قسط ۔ چائے کی دریافت کب ہوئی
چوتھی قسط
چو یوآن چانگ جس کا دور 1368 سے 1399 عیسوی تھا نے 1391 عیسوی میں حکم نافذ کروایا کہ آئیندہ چاء کو پتی کی صورت میں رہنے دیا جائے گا اور ٹکیاں نہیں بنائی جائیں گی ۔ اس کی بڑی وجہ ٹکیاں بنانے اور پھر چورہ کرنے کی فضول خرچی کو روکنا تھا ۔سولہویں صدی کے شروع میں چائے دانی نے جنم لیا ۔ اس وقت چائے دانیاں لال مٹی سے بنائی گیئں جو کہ آگ میں پکائی جاتی تھیں ۔ پھر اسی طرح پیالیاں بنائی گیئں ۔ ایسی چائے دانیاں اور پیالیاں اب بھی چین میں استعمال کی جاتی ہیں ۔
سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں پرتغالی لوگ چین کے مشرق میں پہنچے اور انہیں مکاؤ میں تجارتی اڈا بنانے کی اجازت اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ علاقے کو قزّاقوں سے پاک رکھیں گے ۔ خیال رہے کہ انگریزوں کو چینیوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بالکل نہیں دی اور تجارت کی اجازت بھی ستارہویں صدی کے آخر تک نہ دی ۔ گو شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے ترکوں کے ذریعہ چاء پہلے ہی یورپ پہنچ چکی ہوئی تھی مگر پرتغالی تاجر چینی چاء کو براہ راست یورپ پہنچانے کا سبب بنے ۔
یورپ میں ولندیزی یعنی ڈچ تاجروں نے چاء کو عام کیا ۔ انہوں نے ستارہویں صدی میں اپنے گھروں کے ساتھ چائے خانے بنائے ۔ سال 1650 عیسوی میں آکسفورڈ میں پہلا چائے خانہ ۔ کافی ہاؤس کے نام سے بنا ۔ اور 1660 عیسوی کے بعد لندن کافی خانوں سے بھرنے لگا جن کی تعداد 1682 عیسوی تک 2000 تک پہنچ گئی ۔ستارہویں صدی کے آخر میں کسی نے پتے سوکھانے کے عمل کے دوران تخمیر یعنی فرمنٹیشن کا طریقہ نکالا جو بعد میں کالی چائے کی صورت میں نمودار ہوا یعنی وہ چائے جو آجکل دودھ ملا کر یا دودھ کے بغیر پی جا رہی ہے ۔ یہ کالی چائے ایک قسم کا نشہ بھی ہے ۔ اسے عام کرنے کے لئے اس کا رنگ خوبصورت ہونے کا پراپیگنڈا کیا گیا چنانچہ رنگ دیکھنے کے لئے سفید مٹی کی چائے دانی اور پیالیاں بننی شروع ہوئیں ۔
چین کا مقابلہ کرنے کے لئے انیسویں صدی میں انگریزوں نے چاء کے پودے اور بیج حاصل کئے اور ہندوستان میں چاء کی کاشت کا تجربہ شروع کر دیا ۔ اس کوشش کے دوران بیسویں صدی کے شروع میں پتا چلا کہ چاء کے پودے کی جنگلی قسم آسام کی پہاڑیوں میں موجود ہے ۔
میں دریافت ہوا کہ چاء کے پودے کا نباتاتی نام کامیلیا سائنیسس ہے ۔ سبز اور کالی چائے پینے کے لئے ان کے تیار کرنے میں فرق ہے ۔ کالی چائے کھولتے ہوئے پانی سے بنتی ہے جبکہ سبز چائے میں 70 درجے سیلسیئس (Celsius) تک گرم پانی ڈالنا ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں کالی چائے دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں عام کی گئی ۔ ہندوستان اور سری لنکا میں صرف کالی چائے پیدا ہوتی ہے ۔
ماشاء اللہ میرے گھر میں رونق
آج میں بہت خوش ہوں ۔ ٓآج میری اکلوتی پوتی پہلی بار میرے گھر آئی ہے ۔ ہاں میں اپنے بیٹے زکریا کی بیٹی مشیل کی بات کر رہا ہوں ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مشیل فوراً میری دوست بن گئی ہے ۔ زکریا بیٹے نے میرا اعراب والا اردو چابی تختہ یعنی کی بورڈ بھی بنا دیا ہے ۔آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔ میں بہت مصروف ہوں ۔
Please Do not Disturb
چاء کی دریافت کب ہوئی اور ٹی کیسے بنی ؟
پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری
تیسری قسط
چاۓ کی دریافت آج سے 4740 سال قبل ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین (شین یا سین) میں شہنشاہ دوم شین نونگ ( 2737 سے 2697 قبل مسیح) نے علاج کے لئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چاء بھی دریافت کی ۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا ۔ چاء ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے ۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا ۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز ۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے ۔ بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے پیا جاتا ۔ساتویں صدی میں چاء کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا ۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا ۔ اسی دوران یہ چاء تبت اور پھر شاہراہ ریشم کے راستے ہندوستان ۔ ترکی اور روس تک پہنچ گئی
سال 850 عیسوی تک چاء کی ٹکیاں بنانے کی بجائے سوکھے پتوں کے طور پر اس کا استعمال شروع ہو گیا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی میں چاء پیالہ میں ڈال کر اس پر گرم پانی ڈالنے کا طریقہ رائج ہو گیا ۔ جب تیرہویں صدی میں منگولوں یعنی چنگیز خان اور اس کے پوتے کبلائی خان نے چین پر قبضہ کیا تو انہوں نے چاء میں دودھ ملا کر پینا شروع کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مارکوپولو نے اپنی چین کے متعلق تحریر میں چاء یا چائے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ کیا مارکو پولو واقعی چین گیا تھا ؟
جسے آج ہم بھی مغربی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹی کہنے لگے ہیں اس کا قدیم نام چاء ہمیں 350 عیسوی کی چینی لغات یعنی ڈکشنری میں ملتا ہے ۔ شروع میں یورپ میں بھی اسے چاء (Chaw)ہی کہا جاتا تھا ۔ چھٹی یا ساتویں صدی میں بدھ چین سے چاء کوریا میں لے کر آئے ۔ کوریا میں کسی طرح ۔ سی ایچ ۔ کی جگہ ۔ ٹی ۔ لکھا گیا ۔ ہو سکتا ہے اس زمانہ کی کورین زبان میں ۔ چ ۔ کی آواز والا حرف ۔ ٹی ۔ کی طرح لکھا جاتا ہو ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ چاء کو Tay لکھا گیا ۔ اسطرح یورپ میں چاء ۔ ٹی اور ٹے ۔ بن گئی ۔ جرمنی میں اب بھی چاء کو ٹے کہتے ہیں ۔
باقی انشا اللہ آئیندہ
دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں
اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں
اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں
اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش
یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے
اور اللہ کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جاۓ
اللہ اکبر ۔ سبحان اللہ ۔ جسے اللہ رکھے ۔
آج کی ترقی یافتہ سائنس یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گی کہ ملبے کے نیچے دبا کوئی انسان 15 دن سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ لیکن جب اللہ تعالی کی قدرت سے 63 دن بعد ایک انسان ملبے کے نیچے سے زندہ نکلتا ہے تو انسان کے بناۓ ہوۓ سائنس کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انسان کہہ اٹھتا ہے “اور تم اللہ کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟”مظفرآْباد سے 5 میل کے
فاصلہ پر کمسر میں مقبوضہ کشمیر سے آۓ ہوۓ مہاجرین کا کیمپ ہے ۔ یہ مہاجرین 8 اکتوبر کے زلزلہ سے گرے ہوۓ مکانوں کا ملبہ ہٹا رہے تھے کہ 10 دسمبر کو ملبے کے نیچے دبی ہوئی ایک 45 سالہ خاتون زندہ ملی ۔ اس خاتون کے والدین اور دو بھائی اسی زلزلہ میں ہلاک ہو چکے ہیں ۔ دو دن یہ خاتون مقامی لوگوں کے پاس رہی ۔ 12 دسمبر کو جرمن ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ٹیکے لگانے کے لئے وہاں پہنچی تو لوگوں نے بتایا کہ یہ خاتون ملبے کے نیچے سے نکلی ہے اور کچھ کھا پی نہیں رہی ہے ۔ جرمن ڈاکٹروں نے پاکستان اسلامِک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ رابطہ کیا ۔ اس تنظیم کے ڈاکٹر وہاں گئے اور اس خاتون کو لیکر مظفرآباد آئے۔ اس خاتون کا وزن صرف 25 کلوگرام رہ گیا ہوا ہے ۔ مظفرآباد میں ڈاکٹر اس خاتون کا طبی معائنہ کررہے ہیں ۔ اس کی حالت کا صحیح پتہ چلنے کے بعد اسے مناسب طبّی اور دیگر امداد فراہم کی جائے گی
تصویر بشکریہ نواۓ وقت
چائے اور انگریز کی مکّاری
پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط
چائے کیسے اور کب بنی اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تہذیب و تمدن میں یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے ایشیا اور افریقہ بہت ترقّی کر چکے تھے ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دولت کے نشہ میں اپنی لاپرواہیوں عیاشیوں اور اہل مغرب بالخصوص انگریزوں کی عیاریوں کے باعث ایشیا اور افریقہ کے لوگ رو بتنزّل ہو کر پیچھے رہتے چلے گئے ۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کردار سے تو سب واقف ہی ہوں گے ۔ چین کے بارے بھی سنیئے ۔انگریزوں کو پہلی بار سبز چائے کا علم ستارھویں صدی کے شروع میں اس وقت ہوا جب 1615 عیسوی میں ایک شخص رچرڈ وکہم نے چائے کا ایک ڈبّہ شہر مکاؤ سے منگوایا ۔ اس کے بعد لگ بھگ تین صدیوں تک یورپ کے لوگ چائے پیتے رہے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ چائے ہے کیا چیز ۔ اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 میٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔
انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی ۔ پھر چینیوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہردل عزیز لیڈر بن گیا ۔ وہ موزے تنگ تھا جس نے قوم کو ٹھیک کیا اور افیمچیوں کو راہ راست پر لایا جو ٹھیک نہ ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیا جہاں وہ افیون نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ جس کے نتیجہ میں آج پھر چین سب سے آگے نکلنے کو ہے ۔ یہ موذی افیون ہندوستانیوں کو بھی لگ گئی مگر ہندوستان بشمول پاکستان میں ابھی تک کوئی موزے تنگ پیدا نہیں ہوا ۔ میں نے ایک گذشتہ تحریر میں سائنس کی ایجادوں میں افیون کا ذکر کیا تھا سو یہ ہے حقیقت ۔
بیسویں صدی کے شروع میں انگریزوں کو فلپین لوگوں کے ذریعہ پتا چلا کہ چائے کی طرح کا پودا مشرقی ہندوستان کے علاقہ آسام میں پایا جاتا ہے چنانجہ اس کی باقاعدہ کاشت ہندوستان میں شروع کر کے کالی چائے تیار گئی جس کی پیداوار اب 200000 مٹرک ٹن سے تجاوز کر چکی ہے ۔
باقی انشا اللہ آئیندہ