احوال شادی کا

اس سال جنوری میں ایک شادی میں شرکت نئے تجربات کا باعث بنی ۔ بارات جمعہ 6 جنوری کو سیالکوٹ سے لاہور جانا تھی اور ولیمہ ہفتہ 7 جنوری کو تھا ۔ بارات صبح 9 بجے روانہ ہونا تھی 10بجے تک صرف وہی لوگ تھے جو اُن کے گھر میں سوئے تھے ۔ ساڑھے دس تک سب باراتی اکٹھے ہو گئے تو فوٹو گرافر غیر حاضر ۔ ٹیلیفون کیا تو پتہ چلا کسی نے اُسے 11 بجے کا وقت دیا تھا ۔ خیر وہ گیارہ سے پہلے پہنچ گئے ۔ اب کاریں تیار کھڑی ہیں مگر بس نہیں آ رہی ۔ معلوم ہوا کہ سڑکیں تنگ ہونے کی وجہ سے بس مُڑ نہیں پا رہی ۔ پینتیس منٹ کی کوشش کے بعد بس رِیورس چلا کر لائی گئی اور ساڑھے گیارہ بجے بارات روانہ ہوئی ۔ سفر کی کوآرڈینیشن اچھی تھی اِس لئے مزید کوئی دشواری نہ ہوئی ۔بس کا ڈرائیور ہارن کی آواز کا دلدادہ تھا ۔ کوئی گاڑی دیکھ لے چاہے اُس کے آگے نہ ہو وہ پریشر ہارن کے بٹن پر ہاتھ رکھ دیتا تھا جو چند منٹ بعد ہی اُٹھتا تھا ۔ لاہور سے واپسی پر دس کاروں اور ایک بس پر مشتمل بارات دُلہن کو لے کر روانہ ہوئی ۔ بس کے ڈرائیور صاحب نے آڈیو کیسٹ چلا دی ۔ پتہ نہیں کونسے زمانہ کا آڈیو کیسٹ پلیئر تھا ۔ آواز کی چیں چیں نے ویسے ہی تنگ کیا ہوا تھا ۔ اِس پر گانوں نے نمک پاشی کی ۔ جو چند بول مجھے یاد رہ گئے ملاحظہ ہوں

دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گیا رے ۔ غضب ہوا رام ظلم ہوا رے

دِل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا کوئی لُٹیرا آ کے لُوٹ گیا

کہیں دِیپ جلے کہیں دِل آ دیکھ لے آ کر پروانے تیری کونسی ہے منزل

وہ دیکھو جلا گھر کسی کا

ولیمہ کے دن معلوم ہوا کہ بیوٹی پارلر والی نے روانگی کے وقت کو اپنا کام شروع کرنے کا وقت سمجھ لیا تھا چنانچہ دُلہن ایک بجے کی بجائے ساڑھے تین بجے تیار ہو کر آئی ۔ لڑکی کے خاندان والوں نے لاہور سے ڈیڑھ دو بجے تک پہنچنا تھا ۔ 4 بج گئے اور ان کی کوئی خبر نہ ملی ۔ آخر ساڑھے چار بجے پہنچے اور بتایا کہ ڈھائی
گھینٹے ڈسکہ میں ٹریفک جام میں پھنسے رہے ۔

بلاگرز کی فوری توجہ اور فوری عمل کی ضرورت

اسلام آباد کے چندبلاگرز اور کچھ آئی ایس پِیز کی درخواست کے نتیجہ میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی [P.T.A.] نے میٹنگ بلائی ہے جو جلد ہونے والی ہے ۔ اس میٹنگ کا ایجنڈا یہ ہے کہ پورے ڈومینز [domains] کی بلاکنگ ختم کی جائے اور صرف قصوروار بلاگز یا ویب سائٹس بلاک کئے جائیں ۔ ضروری ہے کہ اس وقت یعنی میٹنگ ہونے سے پہلے پی ٹی اے پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے جس کا صحیح اور مؤثر طریقہ مندرجہ ذیل ہے ۔
پی ٹی اے کی مندرجہ ذیل ویب سائٹ کھول کر فیڈ بیَک [Feedback] پر ماؤس کا بایاں بٹن دبائیں ۔
http://www.pta.gov.pk/index.php?cur_t=vtext
اس طرح ایک فارم کھُل جائے گا ۔ اس فارم کو مکمل طور پر پُر کریں اور مندرجہ ذیل سے ملتا جُلتا فقرہ ضرور لکھئے ۔
By blocking twelve domains in stead of twelve concerned websites PTA has blocked thousands of innocent websites.
اپنے بلاگ کو ویب سائٹ لکھئے کیونکہ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بلاگ کیا ہوتا ہے البتہ ویب سائٹ تقریباً سب سمجھتے ہیں ۔

ایک سفر کی روداد

ہمیں دولہا کی طرف سے شرکت کی دعوت ملی جن کی رہائش سیالکوٹ میں ہے ۔ جمعہ 6 جنوری کو بارات لاہور جانا تھی ۔ میری کمر اور ٹانگ کے درد کے پیشِ نظر شورہءِ خانہ نے فیصلہ کیا کہ کار چلانا میرے لئے مُضِر ہو گا اِس لئے بس پر سفر کیا جائے اور اِس کے لئے دَیوُو کا انتخاب کیا گیا جس کا کرایہ دوسری بس سے تقریباً دوگُنا تھا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ آرام دہ ہے اور مسافت میں کم وقت لے گی ۔ جمعرات کو 12 بجے دوپہر ایف ۔ 8 ٹرمینل پہنچے جہاں سے وین پر راولپنڈی پہنچائے گئے ۔ وہاں بس میں بیٹھے جو ایک بجے چلی ۔ بس گجرات میں 15 منٹ رُکنے کے بعد چلی مگر شہر کے اندر ہی ٹریفک میں پھنس گئ ۔ سامنے سے آنے والی گاڑیوں نے ساری سڑک روک رکھی تھی اور ایک گاڑی بائیں جانب کی سڑک سے بیچ میں گھس گئی تھی اور کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا ۔ آدھا گھینٹہ گذرنے کے بعد کچھ سواریوں کو نزاکت کا احساس ہوا اور اُنہوں نے اپنی گاڑیوں سے نیچے اُتر کر گاڑیوں کو آگے پیچھے کروایا تو مزید 15 منٹ بعد وہاں سے نکلے ۔ دَیوُو والے راستہ میں مشروب اور کچھ کھانے کو بھی دیتے ہیں ۔ جب ملا تو علم ہوا کہ مِقدار کم ہو چکی ہے اور معیار بھی گِر چکا ہے ۔ نمعلوم کیوں ہمارے ملک میں ہر چیز بڑے طمطراق سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں یہی حال ہوتا ہے ۔ پھر پتہ چلا کہ وزیر آباد سیالکوٹ سڑک بن رہی ہے اس لئے براستہ گوجرانوالا جائیں گے ۔ چنانچہ پونے سات بجے یعنی پونے سات گھنٹے میں سیالکوٹ پہنچے جبکہ دوسری بس ساڑھے پانچ گھینٹے میں پہنچنا تھی ۔

زبان شیرین ملک گیری

پنجابی کا ایک مقولہ ہے ” زبان شیرین ملک گیری” یعنی زبان میٹھی ہو تو انسان حکومت کر سکتا ہے ۔زبان بظاہر ایک چھوٹی سی اور خفیف وزن چیز ہے مگر بہت کم لوگ اسے قابو میں رکھ سکتے ہیں ۔

جو شخص اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے وہ ہر جگہ عزّت پاتا ہے ۔

جُرم و سزا

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔ ترجمہ : تیری ذات [ہر نقص سے] پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی [سب کچھ] جاننے والا حکمت والا ہے

یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے ملک میں گھناؤنا جُرم ہوتا ہے تو کبھی کبھار اخبارات تک پہنچتا ہے اور اِس پر بھی کچھ دِن غُل غپاڑہ ہوتا ہے پھر معاملہ پسِ منظر چلا جاتا ہے ۔ میر والا ملتان کی مختاراں مائی ۔ سُوئی بلوچِستان کی ڈاکٹر شازیہ ۔ فیصل آباد کی سونیہ ناز اور چک شہزاد اسلام باد کی نازش ۔ [آخری دو کی عزّت قانون کے محافظوں نے اغواء کر کے لوٹی] ۔ ان کے متعلق اخبارات نے عوام کو مطلع کیا ۔ کچھ روز کے لئے فضا میں ارتعاش پیدا ہوا پھر حسبِ معمول خاموشی جیسے ایک مووی فلم تھی جو ختم ہوئی اور تماشائی گھروں کو چلے گئے ۔ مختاراں مائی تو کبھی کبھار اخباروں میں نظر آ جاتی ہے مگر اُس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کیا سزا ملی عوام نہیں جانتے

این جی اوز بھی کچھ دن شور مچاتی ہیں پھر سو جاتی ہیں اور اُن کا بھی زیادہ زور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے پر ہوتا ہے جیسے حدود آرڈیننس میں لکھا ہو کے عورتوں کے ساتھ زیادتی کرو ۔ حدود آرڈیننس کو ختم کیا گیا تو بدکاری کو روکنا ناممکن ہو گا کیوں کہ کِسی اور مروّجہ قانون میں بدکاری کو باقاعدہ جُرم قرار نہیں دیا گیا ۔البتہ حدود آرڈیننس میں زبردستی بدکاری کرنے کے سلسلہ میں گواہوں کی شرط پر نظرِ ثانی اور مناسب ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ تفتیش کا نظام اور پولیس کی کارکردگی میں خامیوں کو دور کر کے فعال بنانا اشد ضروری ہے

ہمارے طرزِ عمل ۔ قرآن و سنّت کی وعید اور جرائم کی سزاؤں کے متعلق میں پچھلے ایک سال میں لکھتا رہا ہوں ۔ لکھنے سے پہلے میں وسیع مطالعہ اور اسلامی قانون کے ماہرین سے اِستفادہ حاصل کرتا رہا تھا پھر بھی میں نے اپنی تمام تحاریر کو یک جا کر کے پرنٹ کیا اور جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں اُس کے خطیب صاحب کو نظرِ ثانی کے لئے دیا ۔ وہ صاحبِ علمِ دین ہیں ۔ الحمد للہ اُنہوں نے تمام مضمون سے اتفاق کیا مگر کہا کہ مندرجہ ذیل فقرہ سے قاری کے ذہن ميں شک پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اسلئے اسے حذف کر دیا جائے یا وجہ جواز لکھی جائے ۔ “مگر مجھے قرآن شریف ۔ حدیث حتٰی کہ کتابُ الفِقَہ میں بھی نہیں ملا کہ زنا بالجبر کے لئے چار گواہوں کی شرط ہے ۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اُس کے مطابق یہ شرط زنا بالرضا کے لئے ہے ۔ زیادہ علم رکھنے والے اِس سِلسلہ میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں”۔ چنانچہ جس بنیاد پر میں نے یہ فقرہ لکھا تھا اُس میں سے موٹی موٹی وجوہ نیچے درج کر رہا ہوں

قرآن الحکیم
ابتدائی حُکم

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت ۔ 15 و 16 ۔ تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اِصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

سورت 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 25 ۔ اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے اسے چاہیئے کہ تمہاری اُن غلام عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں – – – – پھر وہ جب حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 2 ۔ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیات 5 تا 9 ۔ اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو

سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت ۔ 33 ۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [prostitution] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا

صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس”۔ اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی ۔نتیجہ

جیسا مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے واضح ہے اور تقریباً تمام فُقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ بدکاری کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضرورری ہیں ۔ لیکن اس میں زبردستی سے کی گئی بدکاری شامل نہیں کیونکہ کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہو اور وہ سزا بھی پائے یہ منطق اور فطرت کے خلاف ہے اور اِسلام دینِ فطرت ہے اور منطق کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے حدود و قیود بھی اُسی کے مطابق بنائی ہیں ۔

عورت کو اغواء کیا گیا ہو یا وہ پولیس کی قید میں ہو تو اُسکی حالت ایسی غلامی کی ہوتی ہے جہاں وہ بالکل بے بس ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں زنا عموماً بالجَبَر ہوتا ہے اس میں عورت پر چار گواہوں کی شرط عائد نہیں ہوسکتی اور وہ اس جُرم [گناہ] سے برّی ہوتی ہے اور چونکہ اُس کے پاس گواہ ہونا بعید از قیاس ہے اسلئے اگر وہ قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا کر کہہ دے کہ اس مرد نے میرے ساتھ زبردستی بدکاری کی ہے تو وہ مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے ۔ دیگر اگرکسی کیس میں مرد مانے کہ اُس نے بدکاری کی ہے مگر عورت کی مرضی سے لیکن عورت انکاری ہو اور قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا لے تو اس صورت میں بھی مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے

تقریباً تمام فُقہاء متفق ہیں کہ حَد قائم کرنا اور سزا کا اِطلاق قرآن شریف اور حدیث کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے عوام میں سے کوئی فرد یا گروہ نہ حد قائم کر سکتا ہے نہ سزا دے سکتا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح ہے کہ قتل کے معاملہ کے برعکس بدکاری کے معاملہ میں راضی نامہ تاوان دے کر بھی نہیں ہو سکتا ۔ اسلئے کار و کاری ۔ وانی یا سوارا کی رسوم دین اسلام کے احکام کی صریح خلاف ورزی
ہے

اکیسویں صدی

بات پانچ سال پُرانی ہو گئی مگر آج بھی مزے دار ہے

جائیں گے قافلے بھی بہرطور اس طرف
اور ان کے ساتھ ساتھ لٹیرے بھی جائیں گے
انور خدا کرے کہ یہ سچی نہ ہو خبر
اکیسویں صدی میں وڈیرے بھی جائیں گے

انور مسعود