میاں چنوں میں ایک شخص شوکت علی نے اپنی غربت کے باعث بچوں کے گلے میں برائے فروخت کے چارٹ لٹکا کر مظاہرہ کیا ۔ سننے میں آیا ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد حکومت ۔ مختلف این جی اوز ۔ مخیر حضرات اورخیراتی اداروں نے میاں چنوں کا رخ کر لیا ۔تفصیلات کے مطابق وزیراعظم سیکرٹریٹ نے میاں محمد امیر بودلہ چیئرمین پبلک سیفٹی کمیشن کے توسط سے شوکت علی کو بینک سکیورٹی گارڈ کی نوکری کی پیشکش کی ہے۔ ایک ٹیکسٹائل کے منیجر نے 6000 ہزار روپے تک کی نوکری، لاہور کے ایک شہری نے پاک پتن میں واقع اپنے بورڈنگ اسکول میں اس کے بچوں کی تعلیم رہائش اور مکمل اخراجات برداشت کرنے کی آفر دی ہے جبکہ کراچی چیمبر آف کامرس نے بھی شوکت علی کو مالی امداد کا عندیہ دیا ہے علاوہ ازیں بیرون ممالک ناروے، انگلینڈ، امریکا، و دیگر ممالک سے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں نے بھی رابطہ کر کے مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟ تيسری اور آخری قسط
دوسری قسط 9 فروری 2007 کو لکھی گئی
جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب حکمران بنے تو اُنہوں نے بھارت ميں اپنی موروثی جائداد واگذار کرانے کی خاطر بھارت نواز شملہ معاہدہ پر دستخط کردئيے ۔ جنگ بندی لائين کو لائين آف کنٹرول مانا اور مسئلہ کشمير کا فيصلہ صرف گفت و شنيد کے ذريعہ کرنے کا اقرار کيا اس کے علاوہ شمالی علاقہ ميں جان نثار فوجيوں کی قيمتی جانوں کی قربانی دے کر بھارت سے واپس ليا ہوا علاقہ بھارت کو دے ديا جس کے نتيجہ ميں سياچين کا مسئلہ پيدا ہوا ۔
جنرل ضياء الحق صاحب نے جموں کشمير کی بجائے افغانستان کی جنگ ميں دلچسپی لی ۔
بےنظیر بھٹو صاحبہ نے 1988 عیسوی میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988 عیسوی میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا گیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا ۔ مشترکہ پريس کانفرنس ميں جب ايک سوال کے جواب ميں راجيو گاندھی نے بڑے تلخ لہجہ ميں جموں کشمير کو بھارت کا حصہ کہا تو محترمہ منہ دوسری طرف کر کے ہنس ديں ۔ اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی گئی جن سے مقبوضہ علاقہ ميں بھارتی ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی ۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو پاکستان سے بھی مایوسی ملی ۔ پہلے بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ 1989 عيسوی ميں بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ بھارتی فوجيوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی ۔
موجودہ حکومت کی مہربانی سے بھارت نے جنگ بندی لائين پر کہيں ديوار بنا لی ہے اور کہيں خاردار تار لگا دی گئی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمير سے کوئی ظُلم کا مارا بھاگ کر آزاد جموں کشمير ميں پناہ بھی نہ لے سکے ۔ مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کا ايک پُرامن اور بے ضرر سياسی اتحاد تھا حُريّت کانفرنس جو جموں کشمير کے لوگوں کی آواز دنيا تک پہنچاتا تھا ۔ ہماری موجودہ حکومت بڑی محنت و کوشش سے اس کے دو ٹکڑے کرنے ميں کامياب ہو گئی ہے گويا مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کی زبان کے دو ٹکڑے کر دئیے ہیں ۔ اپنے ملک ميں حق کی آواز اُٹھانے والا غائب ہو جاتا ہے اور اعلٰی عدالتيں ان کی بازيابی کے حکم ديتے ديتے تھکتی جا رہی ہيں ۔
جہاد تو کيا دين اسلام پر عمل کرنے والوں کيلئے پاکستان کی زمين تنگ کی جا رہی ہے ۔ قرآن شريف کی آيات جو جہاد فی سبيل اللہ کے متعلق ہيں يا کفّار کے خصائل بيان کرتی ہيں کو نفرت انگيز [Hate literature] کہہ کر تعليمی نصاب سے نکالا جا رہا ہے ۔ دين اسلام کی پابندی کرنے والے ہر شخص کو مشکوک سمجھا جانے لگا ہے ۔
ذرائع ابلاغ اس معاملہ ميں اہم کردار ادا کرتے ہيں ۔ ہمارے ملک کے ايک دو اخبار چھوڑ کر باقی سارے جہاد کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔ یہاں انیل خان لُونی اور جلیل امر جیسے قلکاروں کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہیں جو پاکستان بننے کو ہی غلط کہتے ہیں اور قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ اليکٹرانک ميڈيا قوم کو ننگے فيشن اور ناچ گانا سکھانے کے علاوہ جہاد کے خلاف زہر اُگل رہا ہے ۔
پاکستان کے عوام ميں کچھ کو لُوٹ گھسُوٹ سے فرصت نہيں اور کچھ کو بے پناہ مہنگائی کے باعث نان نقفہ کی تگ و دو ميں گِرد و پيش کا ہوش نہيں ۔
ہماری قوم کے ڈھنڈورچی [big mouths] جو کہ اکثر اين جی اوز کی صورت ميں مجتمع ہيں اُنہيں جموں کشمير کے بے کس لوگوں پر ظلم ہوتا نظر نہيں آتا ۔ اُن کے ساتھ اگر يہ لوگ بہت رعائت کريں تو اُنہيں جہادی اور اِنتہاء پسند کہتے ہيں ورنہ دہشتگرد ۔ کچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو کہتے ہيں کہ پاکستان کو کشمير سے کيا ملے گا خواہ مخوا کشميريوں کی مدد کر کے بھارت سے لڑائی کا خطرہ مول ليا ہوا ہے ۔
اب ثاقب سعود صاحب ہی بتائيں کہ کہاں ہيں افراد ۔ بیرونی امداد ۔ اسلحہ اورچھُپنے کے لئے جگہ ؟
جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟ دوسری قسط
پہلی قسط 5 فروری 2007 کو لکھی گئی
آپریشن جبرالٹر 1965 کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے افسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر رقوم وصول کرتے کہ وہ جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔
متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے افسران کو باور کرایا کہ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ شايد پھر نومبر 1947 عیسوی کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے افسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند افسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان کی طرف سے توی کے کنارے رُک جانے کا حُکم تھا اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا ۔ کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک افسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے اور ان دنوں میں محاز پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔
پاکستان پولیس کے ايک سابق افسراپنی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” ميں لکھتے ہيں ۔ جب وسط 1965 عیسوی میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965 کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی گفت و شنید کی نسبت ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اور مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے شہريوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965 کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائین عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑاحملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستے پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھارتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی ۔ بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمان بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔
ريٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید حسین لکھتے ہيں ۔ جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965 عیسوی میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔
پڑھنے کے لائق
اسلام آباد میں 26 جنوری اور 6 فروری کو ہونے والے دھماکوں کے پسِ منظر کا یہ تجزیہ اسلام آباد کے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار طبقہ کے تأثرات کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر پاکستانی کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ نیچے دئیے رابطہ پر کلِک کر کے یا اسے براؤزر میں لکھ کر کھولئے ۔
جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا
انشاء اللہ العزيز
ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ * * * آزادی آزادی آزادی * * *
ثاقب سعود صاحب نے 23 اگست 2005 عيسوی کو ميرے انگريزی کے بلاگ حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے [پُرانا نام منافقت] پر يہ سوال کيا تھا ۔ مجھے یہ بتائیں کے اب تک کشمیر آزاد کیوں نہیں ہوا؟ آزادی حاصل کر نے کے لیے ہر طرح کی چیزیں تو میّسر ہیں۔ مثلا افراد،بیرونی امداد،اسلحہ،چھپنے کے لیے جگہ ۔ چیچنیا اور عراق والے تو ان سب کے بغیر بھی لڑ رھے ہیں۔
ميرا جواب تھا ۔ کاش ایسا ہوتا جیسا آپ نے لکھا ہے ۔ آپ نے سنا ہو گا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔ کچھ دن صبر کیجئے میں اس کے متعلق بھی انشاء اللہ لکھوں گا
گردشِ دوراں نے ذہن کو کچھ ايسا اُلجھائے رکھا کہ ڈيڑھ سال گذر گيا ۔ اس عرصہ ميں کئی بار لکھنا چاہا ليکن ذہن نے ساتھ نہ ديا ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ آج مجھے توفيق بخشی ۔ ميں جموں کشمير کی تحريکِ آزادی کی تفصيل اسی بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔ يہاں مختصر طور پر ثاقب سعود صاحب کے سوال کا جواب دينے کی کوشش کرتا ہوں ۔
اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے ۔
جمعہ 24 اکتوبر 1947 جب داعيانِ اسلام حج کی سعادت سے بہراور ہو رہے تھے جموں کشمیر کے مسلمان شہريوں نے جامِ شہادت نوش کرنے کا تہيّہ کر کے جہاد کا اعلان کر دیا ۔ ان لوگوں ميں زیادہ تر کے پاس پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں اور کچھ کے پاس المعروف تھری ناٹ تھری اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ مجاہدين کا مقابلہ شروع میں مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر دو ہفتے کے اندر ہی بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں گِلگِت ۔ بَلتِستان ۔ مُظفرآباد ۔ مِیرپور ۔ کوٹلی اور بھِمبَر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے کچھ لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے پہنچ گئے ۔ کچھ پاکستانی شہری اور فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔
پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی
جب بھارت نے تقسيمِ ہند کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ دراصل اس کی وفاداری بھارت کے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بيٹن کے ساتھ تھی ۔
بھارت کا واويلا
بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی اور يقين دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔
سمجھا تو رکشا والا سمجھا
کيا ہوتا ۔ ۔ ۔
اُنيس دن قبل جب رات کو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نيچے تھا سردی لگنے سے مجھے بخار ہو گيا ۔ ليٹے ليٹے ميرا دماغ چل پڑا اور ذہن سے جو شعر نکلے وہ نذرِ قارئين ہيں ۔ خيال رہے کہ ميں شاعر نہيں ہوں اسلئے کوئی غلطی ہو تو درگذر کيجئے
ميں دنيا ميں ہوں تو کيا ہوا ۔ گر نہ ہوتا تو کيا ہوتا
بچايا گناہوں سے اللہ نے ۔ مجھ پہ ہوتا تو کيا ہوتا
اپنائی نہ زمانے کی روِش کھائی ٹھوکريں زمانہ کی
چلتا گر ڈگر پر زمانے کی تو ترقی کر کے بھی تباہ ہوتا
لمبی تقريريں کرتے ہيں اوروں کو سبق دينے والے
خود کرتے بھلائی دوسروں کی تو اُن کا بھی بھلا ہوتا
کرو اعتراض تو کہتے ہيں تجھے پرائی کيا اپنی نبيڑ تو
اپنا بھلا سوچنے والے سوچتے دوسروں کا تو کيا ہوتا
کر کے بُرائی اکڑ کے چلتے ہيں ذرا ان سے پوچھو
نہ ہوتا اگر اللہ رحمٰن و رحيم و کريم تو کيا ہوتا
ياد رکھنا ميرے بچو ۔ ميرے مرنے کے بعد بھی
چلنے والا صراط المستقيم پر ہے کامياب ہوتا