شراب نوشی ۔ اسلام اور ہماری حکومت

آج کل قومی اسمبلی ۔ اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں پر شراب نوشی زیرِ بحث ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے شراب نوشی کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ۔ عجب استدال اور مافوق الفطرت دلائل دیئے جا رہے ہیں ۔ اس سے قبل بدکاری کیلئے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف تحفظِ حقوق نسواں کے نام سے قانون بنا کر بدکاروں کو کھُلی چھٹی دی جا چُکی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہماری قوم کو بے دین بنانے میں کوشاں ہیں ۔

اسلام سے قبل شراب ایک عام مشروب تھا ۔ لوگ اس کے عادی تھے پھر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شراب پینے کو بُرا سمجھتے ہوئے شراب نوشی نہیں کرتے تھے ۔ مدینہ منوّرہ کو ہجرت کر جانے کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شراب نوشی نہ کرنے والوں کا ایک وفد شراب نوشی کی ممانعت کی سفارش کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد یہ آیت اُتری ۔

سُورت 2 ۔ الْبَقَرَہ ۔ آیت 219 ۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيھِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُھُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِھِمَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّہُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ ۔ آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیاوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو

مسلمانوں میں سے کئی نے بڑا گناہ قرار دیئے جانے کے بعد شراب نوشی ترک کر دی ۔ چونکہ کھُلے الفاظ میں شراب نوشی کی ممانعت نہ کی گئی تھی اسلئے کچھ مسلمان شراب نوشی کرتے رہے اور نشہ میں مسجد جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں غالباً 4 ہجری کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت اُتری ۔

سُورت 4 النِّسَآء ۔ آیت 43 ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّی تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُون

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو

مندرجہ بالا حُکم کے نتیجہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے شراب نوشی ترک کر دی لیکن کچھ اس طرح اوقات بدل کر شراب نوشی کرتے رہے تا کہ نماز کے وقت تک نشہ ختم ہو جائے ۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی کو شراب سخت ناپسند ہے ۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حُکم آجائےلہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں ۔ اس کے کچھ مدت بعد مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی

يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور [عبادت کے لئے] نصب کئے گئے بُت اور [قسمت معلوم کرنے کے لئے] فال کے تیر [سب] ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے [کلیتاً] پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ

اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں چنانچہ اُسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی ۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے ۔کچھ نے پوچھا کہ ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حُکم دیا کہ اسے بہا دو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا دوا کے طور پر استعمال کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے ۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روائت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لیجانے والے پر اور اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کر لیجائی گئی ہو” ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں جو شراب پینے والا گرفتار ہو کر آتا اسے جوتے ۔ لات ۔ مُکے ۔ بل دی ہوئی چادر کے سونٹے ۔ یا کھجور کے سونٹے مارے جاتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں لگائی جاتیں ۔

انٹر نیٹ پر تلوار چل گئی

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے کے بہانے سے آئی ٹی آئی کو کچھ ویب سائٹس بلاک کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں اب تک کی معلومات کے مطابق مندرجہ ذیل ویب سائٹس اور ان پر بنے ہوئے بلاگز یا تو کھُلتے نہیں یا بہت سُست رفتار سے کھُلتے ہیں یا مکمل طور پر نہیں کھُلتے ۔

Yahoo
Microsoft
Download.com
Symantec
PC World
MTV
Best Buy
Logitech

لگتا ہے ہماری حکومت ہماری قوم کو تیزی سے جہالت کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے

مسلمان ؟

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔

[تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے]

میں عالمِ دین نہیں اگر کچھ ہوں تو انجنیئر اور سائنسدان ہوں ۔ ساری عمر میں میں نے جو کچھ پڑھا ۔ دین کا جو علم میں نے حاصل کیا ہے اس کی بنیاد پر اپنا نظریا پیش کر رہا ہوں ۔ ہر وہ شخص جو شہادہ پڑھ لے وہ مسلمان کہلاتا ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔ جس طرح ایک شخص ایم بی بی ایس یا ایم ڈی کی سند حاصل کر لے اور جو کچھ اُس نے پڑھا ہے اس کے مطابق عمل نہ کرے ۔ یا تو اس کی سند پر شک کیا جائے گا یا اسے نالائق کہا جائے گا ۔ اسی طرح شہادہ پڑھ لینے کے بعد شہادہ کا مقصد پورا کیا جائے تب ہی اسے مسلمان کہا جائے گا ۔

اول ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے ۔ اللہ کے تمام احکام کی بجا آوری کی پوری کوشش کرتا ہے اور احکام کی بجا آوری میں اُسے اپنے مال و جان کے چلے جانے کی بھی پرواہ نہیں ۔ یہ شخص بہترین مسلمان ہے ۔

دوسرا ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے موٹے موٹے ارکان کی پابندی کرتا ہے لیکن ہر بات میں اللہ کے حکم کے مطابق نہیں چل پاتا ۔ اس کی ایک زندہ مثال جو میں نے دیکھی یہ ہے کہ کوئی آٹھ سال قبل سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک آدمی کا باقی سارا خاندان کہیں گیا ہوا تھا اور وہ گھر پر اکیلا تھا ۔ وہ بہت پرہیزگار نہ تھا ۔ آدھی رات کو ڈاکو اس کے گھر میں گھس آئے اور اسے جگا کر مال متاع کی چابیاں حوالے کرنے کو کہا ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ڈاکوؤں کا سرغنہ اس پر پستول تان کر کھڑا ہو گیا اور باقی ڈاکو گھر سے قیمتی اشیاء اکٹھی کرنے لگے ۔ ڈاکو وقفہ وقفہ سے اس کے سر پر پستول کی نالی مار کر کہتا چابیاں کہاں ہیں ؟ مال کہاں ہے ؟ مگر وہ کچھ نہ بولا ۔ آخر ڈاکو نے کہا اب نہیں بتاؤ گے تو میں تمہیں جان سے مار دونگا ۔ وہ بولا جان اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر یہ وقت میری موت کا ہے تو چابیاں لے کر بھی تم مجھے مار دو گے اور اگر میں نے زندہ رہنا ہے تو تم مجھے نہیں مار سکتے ۔ اتنی دیر میں باقی ڈاکو سامان اکٹھا کر کے آ گئے ۔ سرغنہ نے انہیں سامان وہیں چھوڑنے کا اشارہ کیا اور ڈاکو بغیر کچھ لئے چلے گئے ۔ بس کئی دن وہ سر کی ٹکور کرتا رہا ۔ اس کو کہتے ہیں اللہ پر یقین اور اس کا تعلق براہِ راست دل و دماغ کے ساتھ ہے ۔

تیسرا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان یعنی نماز ۔ روزہ ۔ زکات ۔ حج وغیرہ پورے کرتا ہے لیکن اللہ پر یقین اتنا کامل نہیں کہ اس کے سہارے سمندر یا آگ میں کود پڑے ۔ مگر اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔

چوتھا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان کی بھی پابندی نہیں کرتا لیکن دل و دماغ اسکے یہی کہتے ہیں کہ اسلام کے تمام اصول صحیح ہیں اور اسے پابندی کرنا چاہئیے اور وہ اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔ یہ قسم ایمان کی انتہائی کمزوری سے متعلق ہے ۔

ایسا شخص جو اللہ یا اس کے رسول پر یقین نہیں رکھتا ۔ اسے تو سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم ہے ۔

ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو ۔ کلمہ پڑھتا ہو اور دوسرے ارکان بھی بظاہر ادا کرتا ہو لیکن اللہ یا اس کے رسول یا دین اسلام کے احکام کی مخالفت کرتا ہو یا ان کو بُرا کہتا ہو یا ان کا مذاق اُڑاتا ہو یا اگر کوئی ان میں سے کسی کو بُرا کہے یا ان میں سے کسی کا مذاق اُڑائے اور وہ طاقت رکھتے ہوئے اس کا سدِباب نہ کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل سے بُرا نہ جانے اور ایسے لوگوں کو بُرا نہ جانے یا ایسے لوگوں سے قطع تعلق نہ کرے تو کیا اُسے مسلمان کہا جائے گا ؟

سيکولرزم

حضرت عيسٰی عليہ السلام کے اس دنيا سے اُٹھائے جانے کے بعد کی تاريخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رفتہ رفتہ کليسا کے محافظ دنياوی لذتوں ميں پڑ کر حضرت عيسٰی عليہ السلام کی تعليمات سے روگردانی کرنے لگے پھر عيسائی حکمران اپنے مفاد کی خاطر دولت اور طاقت کے زور پر کليسا سے الہامی کُتب ميں تبديلياں کرا کے مذہب کے نام پر اپنی من مانی چلاتے رہے ۔ يہاں تک کہ حضرت عيسٰی عليہ السلام کو کچھ نے خدا کا بيٹا اور کچھ نے خدا ہی کہنا شروع کر ديا ۔ بدن سے بدن لگانے کو گناہ کی فہرست سے نکال ديا گيا ۔ لوگ دوسری خرافات کے ساتھ جنسی بے راہروی کا شکار ہو گئے اور کليسا بارسوخ لوگوں کی پردہ پوشی ميں مصروف رہا ۔ لين دين کی انتہائی ہيرا پھيری کے نتيجہ ميں دو صدياں قبل اس برائے نام مذہب کے خلاف بغاوت کے طور پر بیداری کی تحريک اُٹھی جو سيکولرزم کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس کے نتيجہ ميں رياست سے مذہب کو الگ کر کے کليسا ميں بند کر ديا گيا مگر يہ علاج انسان کيلئے مفيد ثابت نہ ہوا

آج کے دور ميں جن حکومتوں پر سيکولر کی چھاپ ہے ان کا عمل کسی طرح بھی سيکولر نہيں بلکہ انتہائی تعصبانہ ہے ۔ منافقت آج کے دور کی ريت بن چکی ہے

سيکولرزم کا مفروضہ ہے کہ دین ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اسلئے رياست کے نظام سے دين کو نکال ديا جائے اور سب فيصلے دين سے مبرّا کئے جائيں ۔ مُختصر اور عام فہم بات کی جائے تو سيکولرزم تھيوری کے مطابق حکومت کے کاروبار کے علاوہ کھانا ۔ پينا ۔ کھيلنا ۔ نہانا ۔ تيرنا۔ مِلنا جُلنا ۔ لکھنا ۔ پڑھنا – وغيرہ سيکولر عمل ہيں اور ان کے ساتھ دين کا کوئی تعلق نہيں اور نان سيکولر عمل ہيں عبادت کرنا اور عبادت گاہ ميں جانا اسلئے انہيں فرد تک محدود رہنا چاہئيے

سب سے اہم مثال ارتکابِ زنا کی ہے ۔ دين حُکم ديتا ہے کہ زنا اگر باہمی رضامندی سے بھی کيا جائے تو بھی جُرم ہے اور قابلِ سزا ہے جبکہ سيکولرزم کہتا ہے چونکہ زنا کاروں نےاگر اپنی خوشی اور لُطف کی خاطر بند کمرے ميں زنا کيا اور اس سے کسی تيسرے شخص کا کچھ نہيں بگڑا چنانچہ يہ جُرم نہيں ۔ اسی طرح جس فعلِ بد کی وجہ سے قوم لوط کو اللہ تعالٰی نے تباہ کر ديا سيکولرزم باہمی رضا ہونے پر اس غير فطری فعل کی اجازت ديتا ہے

کاروبار ميں بھی بہت سی قباحتيں ہيں جو سيکولرزم کے تحت جائز ہيں ليکن دين ان کی اجازت نہيں ديتا ۔ ايک عام فہم سی چيز رشوت ہے جو سيکولرزم کے تحت کميشن بن کر جائز ہو جاتی ہے جس کا جواز قوم کی يا کمپنی کی يا کسی فرد کی بہتری کہا جا سکتا ہے ليکن دين اس کی اجازت نہيں ديتا

دين اسلام ايک مکمل ضابطۂ حيات ہے اور نظامِ حکومت مع قانون اور عدالتی نظام اس ميں شامل ہے ۔ شرعِ اسلام ميں کھانا ۔ پينا ۔ ملنا ملانا ۔ کھيلنا ۔ نہانا ۔ تيرنا۔ ملازمت ۔ تجارت ۔ رياستی امور ۔ لکھنا ۔ پڑھنا ۔ وغيرہ سب کے قوائد موجود ہيں چنانچہ مسلمان رياست ميں ان افعال کو دين سے عليحدہ نہيں کيا جا سکتا

اگر سيکولرزم کا مطلب يہ ہے کہ بلا امتياز مذہب و ذات پات سب کے ساتھ يکساں سلوک کيا جائے تو پھر سيکولرزم کی ضرورت ہی کيا ہے ؟ اللہ کا دين اسلام اس کی تاکيد کرتا ہے ۔ دنيا کے کسی بھی نظام کے مقابلہ ميں دين اسلام سب سے زيادہ حقوق العباد پر زور ديتا ہے يہاں تک کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرمايا ہے کہ جس زيادتی کا تعلق کسی انسان سے ہو گا وہ اس وقت تک معاف نہيں کی جائے گی جب تک کہ متعلقہ انسان خود معاف نہ کر دے

جب مدينہ منوّرہ ميں اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی تو ايک علاقہ کے غير مسلم قبيلہ کے متعلق رسول اکرم صلّی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے حکم ديا کہ اُنہيں اپنے طور طريقے جاری رکھنے دئيے جائيں اور ان کے ساتھ ويسا ہی سلوک کيا جائے جيسا مسلمانوں کے ساتھ کيا جاتا ہے ۔ يہی اسلامی سلطنت کا اصول ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گذرنے پر اس قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کے کردار سے متأثر ہو کر مسلمان ہو گئے

ماہرِ مذاہب اور سیکولرزم سے کما حقہ آگاہ کارن آرمسٹرانگ [Karen Armstrong] نے اپنی کتاب خدا کی تاریخ [A History of God] میں لکھا ہے کہ سیکولرزم ایک منکرِ خدا فرقہ ہے [secularism is a godless cult] ۔ سیکولرزم کی آزادی اور دوسرے اوصاف کا جہاں تک تعلق ہے مغربی دنیا کی نومسلم نکاتا خولہ [Nakata Khaula] نے اپنے مسلمان ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ “میں نے سیکولرزم کی پُرفریب آزادی کی بجائے اسلام کا انتخاب کیا ۔ ۔ ۔ آخر کیوں تعلیم یافتہ عورتیں ساری دنیا میں آزادی اور خودمختاری کو چھوڑ کر اسلام قبول کر رہی ہیں ؟”۔[I chose Islam rather than the illusory freedom of secular life… why are so many educated young women all over the world abandoning ‘liberty’ and ‘independence’ and embracing Islam?]

اگر یہ صحیح ہے کہ سیکولرزم میں ہر قسم کی آزادی ہے اور ترقی کا موجب ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بقول نیشنل جیوگرافک ۔ دی اِکانومسٹ ۔ سی این این اور بی بی سی آج کی دنیا میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے ؟

اصل مسئلہ يہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جب اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے اختراعات پر چلتے ہيں تو دين کی شکل گھناؤنی ہو جاتی ہے اور بجائے اپنی جہت درست کرنے کے سيکولرزم کا سہارا لينے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سيکولرزم کے حامی کچھ حضرات کہتے ہيں کہ سيکولر ہونے کا مطلب دين سے دوری نہيں ہے ۔ ديکھتے ہيں کہ ڈکشنرياں جو کہ غير مُسلموں نے لکھی ہيں کيا کہتی ہيں

Word Reference.com English Dictionary
Secularism a doctrine that rejects religion and religious considerations

Merriam-Webster’s Online Dictionary, 10th Edition
Indifference to or rejection or exclusion of religion and religious considerations

Cambridge International Dictionary of English
The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country

Encarta® World English Dictionary, North American Edition
1. exclusion of religion from public affairs: the belief that religion and religious bodies should have no part in political or civic affairs or in running public institutions, especially schools
2. rejection of religion: the rejection of religion or its exclusion from a philosophical or moral system

Wiktionary
1. A position that religious belief and practice should be kept in the private sphere
2. The related political belief in the separation of church and state

The American Heritage® Dictionary of the English Language
1. Religious skepticism or indifference.
2. The view that religious considerations should be excluded from civil affairs or public education.

علامہ اقبال کو يورپ کے معروف مفکّروں نے بھی فلسفی مانا ہے ۔ ميں نے ان کی شان ميں جرمن زبان ميں لکھا ہوا مقالہ 1967 عیسوی میں ميونخ يونيورسٹی ميں ديکھا تھا ۔ جب يونيورسٹی کے ريکٹر کو پتہ چلا کہ ميں پاکستانی مسلم ہوں تو اس نے علامہ اقبال سے عقيدت کی وجہ سے ميری آؤ بھگت کی علامہ اقبال کا کہنا ہے
جُدا ہو ديں سياست سے تو رہ جاتی ہے چنگيزی

مُحبت اور ہوّس

کسی کا خود بخود دل میں سما جانے کا نام مُحبت ہے
کسی سے محبت جتانےکی خواہش ہوّس کے تابع ہوتی ہے

مُحبت میں عاشق کو بے بسی کا احساس ہوتا ہے
ہوّس میں دوسرے کو بے بس کرنے کی خواہش ہوتی ہے

مُحبت میں خود کسی کا ہو جانے کا ارمان ہوتا ہے
ہوّس میں کسی کو اپنانے کا پسِ منظر ہوتا ہے

مُحبت کا آغاز محبوب کے دل سے ہوتا ہے گو عاشق سمجھتا ہے کہ اُسے محبوب سے عشق ہو گیا ہے
جب کسی پر محبت مسلّط کی جائے تو اس کی بنیاد ہوّس ہوتی ہے

مُحبت میں عاشق نفع نقصان سے لاتعلق ہوتا ہے
فایدہ یا حصول کی طلب ہوّس کا نتیجہ ہوتی ہے

محبت جنسی خواہش سے مبرّا اور پاکیزہ ہوتی ہے
ہوّس جنسی تعلق یا خواہش بیدار کرتی ہے

قرآن شریف محبت کا سبق دیتا ہے اور شیطان ہوّس کا

ایک طرف غربت ۔ دوسری طرف بے حِسی


غربت سے تنگ آ کر خود کُشی

نواب شاہ (بیورو رپورٹ) کنڈیارو میں بیروزگاری سے تنگ آ کر نوجوان نے خود کو آگ لگا لی، اسے تشویشناک حالت میں نواب شاہ کے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ متاثرہ نوجوان 9 بہن اور بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو کنڈیارو کے گاؤں غازی خان گوپانگ میں 24 سالہ سجاد حسین ولد میر محمد گوپانگ نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خود پر مٹی کا تیل چھڑکنے کے بعد آگ لگا لی۔ اس نے یہ کارروائی اپنے گھر کے غسل خانے میں کی۔ شور کی آواز سن کر گھر والے پہنچ گئے اور انہوں نے آگ بجھا کر سجاد کو کنڈیارو کے اسپتال پہنچایا جہاں سے اسے حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے نواب شاہ میڈیکل کالج و اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس سلسلے میں سجاد گوپانگ کے والد اور ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر میر محمد گوپانگ نے بتایا کہ ان کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اور سجاد سب سے بڑا ہے۔ وہ آٹھویں جماعت پاس ہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد خاندان کی ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آ گئی تھی کیونکہ پنشن کی رقم سے گزارہ کرنا مشکل ہوگیا، فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔

Man sells daughter to pay for surgery

KARACHI, Feb 16: A man sold his 10-year-old daughter for $500 to pay for his eye operation, a police official said on Friday.

The father, Noor Mohammad, had agreed to hand his daughter over to a fellow villager, Gul Mohammad Kalohi, once she reached puberty, said Abdul Hadi, District Police Officer for Badin, some 250km east of Karachi.

?It is a shameful incident,’ Hadi said, adding: ‘We were informed about it through a complaint made by a relative of the father.’

Police have completed their investigation of the case, but no charges have been framed yet due to a jurisdiction dispute as Kolai village, near Tando Bagho town, lay on a boundary.

Under the children’s protection law in Sindh, the man could be sentenced to a year in prison, said Zia Awan advocate. ‘Reuters’