ظالم کون ؟

ظالم کون ہے مدرسہ حفصہ کی طالبات یا روشن خیال آنٹی شمیم ؟ اور دیکھئے کہ مینجمنٹ سائنس میں بھی کیسا کمال حاصل کر لیا ہے لوگوں نے ۔ شکیل انجم کی تحقیقاتی رپورٹ کا مکمل متن یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔

This unusual sex business was open to all and sundry in G-6/1 Sector from 9am to 2pm sharp. “I searched for a job for more than seven months after the death of my husband, who worked as a supervisor in a private firm. I failed to get a suitable job, as wherever I went I was overtly or covertly asked for sexual favours,” a young widow, ‘N’, told this correspondent in an interview. “In the beginning, I fell into the hands of a dirty old man,” the widow in her late twenties said. “The old man had employed me as a personal secretary in his office in Blue Area but later exploited me sexually.” Later, she was somehow introduced to Aunty Shamim, who received her affectionately and behaved like a “mother”. She was thus forced by circumstances to accept her offer. She agreed to sell her body to earn money as starvation loomed over her family. She had to feed her children as well as old parents. She told her in-laws and parents that she was working with a semi-governmental organisation.

“The aunty got 70 per cent of the total earned money because she paid as much as 35 per cent to the area police,” she alleged. “It is a dirty but very lucrative job,” she said and maintained, “In this trade in Islamabad one can make millions within a few months.”

”Dozens of women were involved in this trade”, she said, adding that most of them were educated and had told their families that they were employed in some private organisations. “The women spent five hours in the brothel during the ‘office timings’ and left an hour before the office hours,” she revealed.

“The police provided complete protection to the business and the business centre,” ‘T’, who used to be second-in-command of Aunty Shamim alleged. “The police used to inform us well before time if there was to be any raid. In fact, the area police were running the sex trade,” she said and asserted, “No one could dare take on us because of the police shelter.”

Besides the young widow ‘N’, three other women, on Saturday met this correspondent in The News Bureau Office and claimed that they had been associated with Aunty Shamim and wanted to “expose” her. Aunty Shamim was said to be so highly connected that she was never touched by any law-enforcement agency despite several complaints lodged by the neighbours and others. However, recently after she was kidnapped by the Jamia Hafsa students and made to announce that she would stop this business, Aunty Shamim left for some unknown destination.

گُڈ گورننس ۔ ۔ ۔ ہور چُوپو

کل یعنی جمعرات 26 اپریل کو عدالتِ عظمٰی میں ایک کیس پیش ہوا جس سے عدالتِ عظمٰی کے تمام جج صاحبان کے خلاف پریزڈینشل ریفرنس کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ سن 2004 عیسوی میں پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن بورڈ نے فتح شیر جویا صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کی بطور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ترقی کی سفارش کی ۔ وزیرِ اعظم شوکت عزیز صاحب نے فتح شیر جویا صاحب کا نام نکال کر اس کی بجائے ظفر اقبال لکھ اور ظفر اقبال قریشی صاحبان جن کے نام ترقی والی فہرست میں موجود ہی نہ تھے کو ترقی دے کر ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس بنا دیا تھا ۔ بعد میں ظفر اقبال قریشی صاحب کا نام واپس لے لیا گیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ظفر اقبال لکھ [جسے قانون قاعدے کے خلاف ترقی دی گئی] کے خلاف کرپشن کے الزامات تھے جو کہ اس کی اپنی وزارت کے ریکارڈ میں تھے ۔ فیصل آباد کے مشہور لینڈ سکینڈل میں اس کے خلاف کاروائی نیشنل اکاؤنٹی بیلیٹی بیورو [NAB] میں ہو رہی تھی ۔

فتح شیر جویا صاحب کی درخواست عدالتِ عظمٰی کے بنچ کے سامنے ہے جس میں جسٹس صاحبان خلیل الرحمٰن رمدے ۔ فلک شیر اور محمد جاوید بُٹر شامل ہیں ۔ جسٹس فلک شیر صاحب نے کہا کہ یہ کیسی گُڈ گورننس ہے ؟ اور کیا کرپشن اس حکومت کی ترجیح ہے ؟

عدالتِ عظمٰی کے چیف جسٹس نے وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کی سربراہی میں پرائیویٹائز ہونے والی پاکستان سٹیل مل کی فروخت پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا تو سب نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ۔ مندرجہ بالا واقعہ سے تو پوری عدالتِ عظمٰی کی عزت اور وقار خطرے میں نظر آتا ہے ۔

رہائی اور انوکھا واقع

رہائی

حکومت پاکستان نے رواں سال ماہ فروری میں ملک بھر میں الرشید ٹرسٹ کے اٹھائیس دفاتر سیل کر دیے تھے اور حکومت کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی اقوام متحدہ کی ہدایت پر کی گئی ہے۔ الرشید ٹرسٹ کے چیئرمین محمد سلیمان نے پابندی کے اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس مقدمے کی گزشتہ سماعت کے موقع پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کیےگئے تھے۔ جمعرات کو سماعت کے موقع پر سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد اور جسٹس علی سائیں ڈنو میتلو پر مشتمل بینچ نے سرکاری وکیل سے معلوم کیا کہ ٹرسٹ پر پابندی کا کیا کوئی حکم نامہ یا نوٹیفیکیشن ہے ؟ جس پر حکومت پابندی کا کوئی بھی نوٹیفیکیشن پیش نہ کرسکی۔ اس پر عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملک بھر میں ٹرسٹ کے تمام دفاتر کھول دیے جائیں ۔ چیف جسٹس نے حکومت سے یہ بھی سوال کیا کہ کیا اقوام متحدہ کا قانون بلاواسطہ پاکستان کے عوام پر لاگو ہوتا ہے ؟


انوکھا واقعہ

قانونی ماہرین کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کا کہنا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ جو کچھ آرمی ہاؤس میں ہوا اس کی مثال مہذب معاشرے میں نہیں ملتی۔ یہ بات پاکستان میں موجودہ قانونی بحران کا جائزہ لینے کے لیے آنے والے’ آئی سی جے‘ کے ایک مشن کے سربراہ داتو پرام کمارا سوامی نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کیرئیر میں اس طرح کا ’انوکھا واقعہ‘ پہلے نہیں دیکھا۔داتو پرام کمارا سوامی نے کہا’اگرچہ میں اس روز یہاں نہیں تھا لیکن میں نے جو دیکھا اور جو سنا، اس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کسی مہذب معاشرے میں اس طرح ہو سکتا ہے‘۔

ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے داتو پرام آئی سی جے کے نائب صدر ہونے کے علاوہ اقوام متحدہ کے ججوں اور وکلاء کی آذادی سے متعلق خصوصی نمائندے بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اس مشن کی سربراہی کر رہے تھے جس نے پاکستان کے ایک ہفتے کے دورے کے دوران موجودہ قانونی بحران کا جائزہ لیا۔ اس سلسلے میں وہ اسلام آباد کے علاوہ کراچی، پشاور اور لاہور بھی گئے اور مقامی وکلاء اور حکومتی اہلکاروں سے بات کی۔

مشن نے اپنے ابتدائی مشاہدات میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ماضی میں انتظامیہ کی عدلیہ میں مداخلت کے واقعات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ نو مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی یونیفارم میں ملبوس صدر جنرل پرویز مشرف سے آرمی ہاوس میں ملاقات اور استعفی کے مطالبے کی مثال دنیا کی قانونی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ داتو پرام کماراسوامی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں تقریباً پانچ گھنٹے تک رکھا گیا جس کے دوران ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ کٹا رہا۔ ’اس دوران کافی عجلت میں قائم مقام چیف جسٹس کا حلف دلوایا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے لیے ججوں کو کراچی اور لاہور سے خصوصی طیاروں میں اسلام آباد لایا گیا‘۔ مشن کے مطابق آرمی ہاؤس سے واپسی پر چیف جسٹس کا تمام پروٹوکول واپس لے لیا گیا یہاں تک کہ ان کی گاڑی سے پرچم بھی ہٹا دیا گیا۔ انہیں واپس دفتر نہیں جانے دیا گیا بلکہ پولیس انہیں ان کی رہائش گاہ لے گئی۔ ’جب چیف جسٹس گھر پہنچے تو اٹھارہ خفیہ اداروں کے اہلکار وہاں موجود تھے‘۔

داتو پرام کماراسوامی کے خیال میں چیف جسٹس کو بظاہر بدنام کرنے کی کوشش میں ریفرنس میں شامل الزامات پر مشتمل ایک خط تمام ملک میں پھیلایا گیا۔ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ انتظامیہ کی طرف سے چیف جسٹس کی بڑھتی ہوئی عدالتی فعالیت کا ردعمل تھا۔’سٹیل مل کیس اور لاپتہ افراد کے مقدمات میں چیف جسٹس کی کارروائی سے انتظامیہ کے ادارے ناراض ہوئے۔’

پابندياں صرف مسلمانوں کيلئے

بدھ مت پر عمل کرنے والی خواتين اپنا جسم اور بال ڈھانپتی ہيں مگر ان کا يہ عمل اپنے عقيدہ سے خلوص کہا جاتا ہے ۔ ان کے سر ڈھانپنے کو کوئی عليحدگی کا مظہر قرار نہيں ديتا ۔

 

 

 

 

عيسائی راہبائيں [نَنّز] بھی اپنا جسم اور بال ڈھانپتی ہيں مگر ان کا بھی يہ عمل اپنے عقيدہ سے خلوص کہا جاتا ہے ۔ ان کے سر ڈھانپنے کو کوئی عليحدگی کا مظہر قرار نہيں ديتا ۔

 

 چونکہ مسلم خواتين اپنے دين کی پيروی کرتے ہوئے سر ڈھانپتی ہيں اسلئے مغربی ملکوں ميں ان کا سر ڈھانپنا ممنوع قرار ديا گيا ہے ۔ حال ہی ميں برطانيہ کے ايک وزير جيک سٹرا نے مسلم خواتين کے سر ڈھانپنے کو عليحدگی کا مظہر قرار ديا اور اُنہيں بے پردہ ہونے کی تلقين کی پھر اس کی تائيد کرتے ہوئے برطانيہ کے وزيرِاعظم ٹونی بليئر نے بھی اسے عليحدگی کا مظہر قرار ديا ۔

آخر کيوں مسلم خواتين کے جسم اچھی طرح ڈھانپنے کو بغاوت ۔ تنگدلی ۔ انتہاء پسندی ۔ جہالت ۔ جنسياتی وغيرہ سب کچھ کہا جاتا ہے ليکن حقيقت يعنی پيدا کرنے والے کی فرماں برداری ماننے سے انکار کيا جاتا ہے ؟

پھر دعوٰی ہے کہ مغربی دنيا والے کشادہ دل اور روشن خيال ہيں جبکہ ان کا قول و فعل انہيں منافق ثابت کرتا ہے ۔

بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی

انقلاب کا بیج ؟؟؟

اظہرالحق صاحب کی تحریر “انقلاب کا بیج بویا جا چکا ہے ” پر تبصررہ کچھ تفصیل طلب تھا اور اس میں نوجوان نسل کیلئے اپنا علم اور تجربہ پیش کرنا بھی قومی فریضہ ہے ۔ اسلئے یہ تحریر نذرِ قارئین کر رہا ہوں ۔ لیکن پہلے اسلام آباد کی آج کی صورتِ حال ۔ آج صبح سویرے سے ہی شاہراہِ دستور [Constitution Avenue] کی طرف جانے والے تمام راستے شاہراہِ دستور سے 500 سے 1000 میٹر دور ہی مکمل طور پر بند کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں بسنے والوں کو انتہائی پریشانی کا سامنا ہے ۔ سینکڑوں سیاسی لیڈر اور کارکن پچھلے دو تین دنوں میں گرفتار کئے جا چکے ہیں ۔

جب انصاف مٹ جائے یا اس کا حصول بہت مشکل ہو جائے تو سرد راکھ میں ایک ننھی سی چنگاری جنم لیتی ہے ۔ یہ بے ضرر سی چنگاری ہی دراصل انقلاب کا بیج ہوتی ہے ۔

حالات کی بے راہ روی یعنی ظلم یا نا انصافی قائم رہے تو اس چنگاری کو آکسیجن پہنچتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ اس چنگاری کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن یہ ابھی بھی راکھ کے نیچے دبی ہوتی ہے ۔

ظُلم یا بے انصافی جب برداشت سے باہر ہونے لگے اور متوسط طبقہ بھی اس کی زد میں آ جائے تو یہ ہوا کا ایسا تیز جھونکا ثابت ہوتا ہے جو اس چنگاری کو قوت بخشتا ہے اور ایک شعلہ بھڑک اُٹھتا ہے ۔ ایسے وقت میں اگر طاقت کے پُجاری اپنی من مانیاں ہی کرتے چلے جائیں اور طاقت کے زعم میں اس شعلے کو نحیف سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے راکھ کے کسی دوسرے حصہ پر چڑھ دوڑیں تو یہ ننھا شعلہ بڑھک اُٹھتا ہے اور اسی کو انقلاب کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس علاقہ کے انسان دو گروہوں میں کھُلم کھُلا بٹ چکے ہوتے ہیں ۔ ایک قلیل ظالم اور عیّاش حکمران اور ان کے درباری اور دوسرا اکثریتی پسماندہ عوام ۔

ظُلم یا بے انصافی کے خلاف خلوص کی بنیاد پر اُٹھنے والا انقلاب کامیاب ہوتا ہے بشرطیکہ ان میں کا کوئی راہبر یا گروہ ظالم کے پیش کئے گئے لالچ میں آ کر اکثریت سے غدّاری نہ کرے ۔ اپنے ملک پاکستان سے محبت کرنے والے سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں اپنی گذشتہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور دعا کریں کہ فتح سچ اور انصاف کی ہو ۔

میری دعا ۔ یا میرے پیدا کرنے والے میرے رازق و حازق صرف اور صرف آپ ہی ہو ۔ مجھے سب کچھ آپ ہی نے دیا ہے اور میں جو کچھ بھی ہوں آپ کی ہی دی ہوئی توفیق سے ہوں ۔ آپ نے مجھ پر میرا عمل چھوڑا اور میں بھٹکتا رہا اور نافرمانیاں مجھ سے سرزد ہوتی رہیں گویا میں اپنے آپ پر ظُلم کرتا رہا ۔ آپ تو حلیم ہو ۔رحمٰن ہو ۔ رحیم ہو ۔ کریم ہو اور عفّو پسند فرماتے ہو اور آپ قادر بھی ہو ۔ آپ نے ہمیشہ مجھ پر رحم کیا اور ہر مشکل میں میری مدد فرمائی اور میرا حوصلہ بڑھایا ۔ مجھ پر اور میری قوم پر رحم فرمائیے اور ہماری غلطیاں معاف فرمائیے اور ہمیں حق کیلئے اور ظُلم و بے انصافی کے خلاف مضبوط بنائیے ۔ بے شک سب طاقت آپ ہی کے پاس ہے اور آپ ہی جسے چاہیں طاقت بخش دیتے ہیں ۔

رنگِ زماں ۔ آدھی صدی پہلے

ایک ماہ قبل اپنی بيگم کی چُنيدہ قرآنی دعاؤں والی فائل ڈھونڈ رہا تھا کہ مُجھے اپنی بہت پُرانی ايک نوٹ بُک کے کُچھ اوراق ملے ۔ یہ نوٹ بُک حوادثِ زمانہ سہتے سہتے ورق ورق ہو کر منتشر ہو چکی تھی ۔ ان اوراق سے اپنی پچپن سال قبل لکھی ہوئی ايک نظم نقل کر رہا ہوں جب ميں نويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ اُس زمانہ میں فيشن نے اچانک کروٹ لی اور جوان لڑکے لڑکيوں نے مغرب کی تقليد میں بہت چُست کپڑے پہننے شروع کر ديئے ايسے کہ بعض پہ شک ہوتا شائد جسم پر رکھ کر سِیئے گئے ہيں ۔ اس لباس کو ٹَيڈی لباس کہا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی ميک اَپ اور فلم بينی کا رواج بھی بڑھا ۔

ہر موڑ پہ تم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ
خاموش يہ سيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھيئٹر کو جاتے ہيں مسجِد سے نکل کر
اِسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
نازک جو ہوئی دخترِ ملت کی طبيعت
پردہ بھی ہوا اس پہ گِراں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک رُخسار پہ پاؤڈر
يہ دُخترِ ملت ہے رواں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے
انساں سے بنے ٹيڈی انہيں ديکھتے جاؤ
ہے اوجِ ترقی کی طرف رواں يہ زمانہ
اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ