خبر جو خبر نہیں

عنوانات ۔ محفوظ کون ؟ ۔ انتظامیہ کی مجبوری ۔ کرائسِز سینٹر ۔ اُڑتی گولی ۔ باغیچہ میں لاشیں ۔
وہ خبر ہمارے ملک میں خبر نہیں ہوتی جو اخبار میں نہ چھپے یا اندر کے صفحہ پر چھوٹی سی ہو یا اصلیت کے مطابق نہ چھپے ۔ آج کچھ ایسی ہی خبریں


محفوظ کون ؟

میں ایف 8 میں رہتا ہوں ۔ ایک ہی پلاٹ کی چاردیواری کے اندر چار ملحقہ گھر بنے ہوئے ہیں جن میں ہم چاروں بھائی رہتے ہیں ۔ ہمارا سیکٹر اسلام آباد کے غیر سرکاری علاقہ میں محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ بھرم پچھلے ماہ ٹوٹ گیا جب میرے چھوٹے بھائی کے گھر اور پچھلی سڑک پر ایک گھر میں نقب لگائی گئیں ۔ لوگ تو پہلے سے کہتے ہیں کہ سوائے صدر صاحب اور اُن کے خاص آدمیوں کے کوئی محفوظ نہیں ۔


انتظامیہ کی مجبوری

معلوم ہوا ہے کہ حکومت کو لال مسجد کی انتظامیہ کے سامنے اسلئے جھُکنا پڑ گیا ہے کہ اسلام آباد میں روزافزوں فحاشی کے اڈے بہت لوگوں کے علم میں ہیں ۔ حکومت نے ان اڈوں کو بند کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ دیکھتے ہیں اس وعدہ کا کیا ہوتا ہے ۔ قوم کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں میں سے تو کوئی پورا نہیں ہوا ۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لال مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ بھی پچھلے سالوں میں کئی وعدے کئے گئے جن کو پورا کرنے کی بجائے مسجدوں اور مدرسوں پر چڑھائی کر دی گئی ۔


کرائسِز سینٹر

اسلام آباد میں ایک کرائسز سینٹر ہے جس کی انتظامیہ کا دعوٰی ہے کہ وہاں بےکس اور مظلوم عورتوں کی دیکھ بال کی جاتی ہے بالخصوص جو مردوں کی بدکاری کا شکار ہوں ۔ ایک 16 سالہ لڑکی جسے ایک پولیس والے نے اغواء کر کے قبائلی علاقہ میں پہنچا دیا تھا حال ہی میں باز یاب ہوئی تو اُسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد لڑکی کی ماں کی درخواست پر کرائسز سینٹر میں داخل کرا دیا گیا ۔ وہ لڑکی حاملہ ہے ۔ 31 مارچ کو اس لڑکی کو کرائسز سینٹر والوں نے زبردستی نکال دیا تو اسکی ماں اُسے اپنے ساتھ لے گئی ۔ لڑکی کی ماں نے لڑکی کو کرائسز سینٹر سے نکالنے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ کرائسز سینٹر والے کہتے تھے کہ بچہ پیدا ہونے پر اُن کو دے دیا جائے ۔ جب لڑکی نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُسے زبردستی کرائسز سینٹر سے نکال دیا گیا ۔


اُڑتی گولی

پیر 6 مارچ کو ہمارے گھر سے کوئی 500 میٹر کے فاصلہ پر ایک 75 سالہ ریٹائرڈ ائریکموڈور بڑی سڑک کے کنارے پیدل چلتے ہوئے جا رہے تھے کہ کہیں سے اُڑتی ہوئی ایک گولی آ کر اُن کے جبڑے میں گھُس گئی ۔ ہمت کر کے وہ اپنی رہاش گاہ پہنچے جو کہ قریب ہی تھی اور اُنہیں فوراً گاڑی میں ڈال کر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچا دیا گیا ۔ جہاں اُن کی جراحی ہونا تھی ۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ اُن کا خاندان بحرین میں ہے۔ وہ اکیلے کسی کام سے آئے ہوئے تھے ۔ جائے واردات سے تھانہ مارگلہ 100میٹر ہو گا ۔ اور قُرب و جوار میں کوئی شادی یا جشن نہیں ہو رہا تھا کہ کہا جائے کسی نے خوشی کے اظہار کیلئے پستول چلایا ہو گا گو یہ عمل بھی ممنوع ہے


باغیچہ میں لاشیں

ہمارے گھر سے ایک سو میٹر کے فاصلہ پر بچوں کیلئے ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس میں جھُولے وغیرہ لگے ہوئے ہیں ۔پیر 6 مارچ کو دن کے گیارہ بجے قریبی مکان میں رہنے والی ایک خاتون گولی چلنے کی آواز سُن کر کچھ دیر بعد باہر نکلی تو اُس نے اپنے گھر کے قریب باغیچہ میں ایک بنچ پر ایک جوان لڑکی اور زمین پر ایک جوان لڑکا خون میں لت پت پڑے دیکھے ۔ اس نے گھر جا کر پولیس کو ٹیلیفون کیا جو کچھ دیر میں پہنچ گئی کیونکہ وہاں سے تھانہ مارگلہ کوئی 250 میٹر ہو گا ۔ لڑکے کے بائیں ہاتھ میں پستول تھا ۔ لڑکا لڑکی دونوں ہمارے سیکٹر سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔ حسبِ معمول اسے محبت کا شاخسانہ کہا جائے گا اور اس بنیاد پر کہ عاشق نے محبوبہ کے انکار پر اُسے قتل کر کے خودکُشی کر لی معاملہ داخل دفتر کر دیا جائے گا ۔ میرا ذہن اسے قبول نہیں کرتا اور کہتا نہ کہ یہ دوہرا قتل ہے ۔ لڑکے کے بائیں ہاتھ میں پستول جبکہ لڑکی کو گولی بائیں کنپٹی پر اور لڑکے کو داہنی کنپٹی پر لگی ہے ۔ جائے واردات سے دو خول [Cases] ملے اور لڑکے کی جیب میں سے باقی کارتوس [Cartridges] ملے ۔

محبت کو دنیا میں ہوّس کے ساتھ مخلّط کر کے اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ ہر جرم محبت پر عائد ہو جاتا ہے حالانکہ محبت ایک پاکیزہ جذبے کا نام ہے جو کہ خالق نے مخلوق میں رکھا ہے ۔ صرف انسان میں نہیں چرند پرند میں بھی ۔ محبت کرنے والے کا جذبہ تو یہ ہوتا ہے

تم اگر بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میرا کیا ہے میں نے تو محبت کی ہے
تم اگر تیر بھی چلاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میں مر کر بھی میری جاں تمہیں چاہوں گا

میری ظاہری ہیئت

گیارہویں جماعت 1954  سن 1954 میں

عرصہ ایک سال سے کچھ محترم قارئین تقاضہ کر رہے ہیں کہ میں اپنی تصویر شائع کروں اور میں اُنہیں ٹہلاتا رہا ہوں جس کیلئے میں ان سے معذرت خواہ ہوں ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جو قارئین مجھے مُلا ۔ انتہاء پسند اور جاہل سمجھتے اور لکھتے رہتے ہیں اُنہیں میری ہیئت دیکھ کر کسی قسم کی پریشانی ہو ۔ لیکن کسی نے کہا ہے سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔ سو قبل اس کے کہ کوئی واقفِ حال مہربان میرا تاریخ و جغرافیہ بیان کر دیں میں نے سوچا کہ پردا اُٹھا دیا جائے ۔

 انجنئرنگ کالج 1959 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاہور 1964 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شادی نومبر 1967

 

 

 

 

 

طرابلس ۔ لبیا 1979 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واہ چھاؤنی 1990 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتھیا گلی 2004

کہا “کُوچ کرو” اور کُوچ کر گئے

سولہ ماہ قبل میں نے جو لکھا تھا مشیّت نے مجھے اس میں ایک اضافہ کے ساتھ دوبارہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔

اور اب دوسرا گانے والا اسد امانت علی بھی چل بسا ۔ گویا وہ پوری طرح باپ کے نقشِ قدم پر چلا ۔

انشاء جی اُٹھو ۔ اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کا لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب
جوگی کا ڈگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں
دیکھو توسہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوۓ
اس جھولی کو پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا
زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو
سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں
کیوں بن میں نہ جا بسرا ہم کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے
تو اور کرے دیوانہ کیا

بلا تبصرہ

ڈان سے اقتباس


سی ڈیز اور وڈیو کیسٹس کو آگ

Armed with sticks, a group of religious activists set on fire thousands of video and audio cassettes and computer compact discs, ‘given up’ voluntarily by a shopowner who, according to them, had announced to abandon ‘this business’.

MARRIAGE PROPOSAL:

Maulana Aziz said that a ‘special centre’ had been set up in Madressah Hafsa titled ‘Taibaat Abidaat Centre’ to provide shelter to women who would voluntarily give up their ‘immoral activities’. He said these women would be provided ‘security and protection’ through ‘marriages’. Maulana Aziz announced that he would marry any woman who repented and gave up her immoral life. “I am now 46 years old and am ready to marry a woman who is between 35 to 40 years of age. If she promises to live a life of piety, I promise that I will never refer about her past life,” Maulana Aziz announced.

QAZI COURT:

Maulana Ghazi Abdul Rasheed, deputy in-charge of the mosque and a younger brother of Maulana Abdul Aziz, told reporters if Jirga and Panchayat system were not considered parallel judicial systems why was Qazi court being called a parallel system. “We will see whether people will come to the Qazi court or prefer going to courts of the state for seeking justice,” he said.

Describing the functions of the ‘Qazi court’, Maulana Ghazi said it would be mandatory for rival parties to submit an affidavit that they would accept the court’s decision. “They will have to obey the court’s verdicts,” he replied when some reporters asked him what action would the administration of Lal Masjid take against ‘disobedient people’. He said they would launch a campaign to ‘persuade’ people to bring their disputes and social problems to the ‘Qazi court’.


جنگ سے اقتباس

لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں نفاذ شریعت کا اعلان کردیا ہے ۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اب ہر فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ حکومت ایک ماہ کے اندر ملک سے پانچ لاکھ فحاشی کے اڈے بند اور شراب پر پابندی لگائے ۔ ہماری طرف سے مکمل امن اور سلامتی کا پیغام ہے ،حکومت کی طر ف سے طاقت کے زور پر آپریشن کا پیغام دیا جارہا ہے تو ہمارا بھی آخری راستہ فدائی حملے ہوسکتے ہیں۔ ہم ٹکراوٴ نہیں چاہتے لیکن نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ برداشت نہیں کرینگے۔ حکومت نے اللہ کی حکومت میں ساٹھ سال سے حکومت بنائی ہوئی ہے۔ اسلامی نظام کے ذریعے اس کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ سب کچھ اس [اللہ] نے بنایا ہے اسٹیٹ بھی اللہ کی ہے ۔ ان لوگوں نے پوری قوم کا جینا حرام کررکھا ہے ۔غریب ،صنعت کار، تاجر چیخ رہے ہیں، جن لوگوں کی بہنوں کی عصمتیں لُٹ رہی ہیں۔ کشمیر، بلوچستان ،وانا والے چیخ رہے ہیں ۔ ان سب مسائل کا حل یہ ہے کہ اللہ کی حکومت میں جو حکومت بنائی گئی ہے اسے ختم کیا جائے اور اللہ کی حکومت اور نظام کو بحال کیا جائے کیونکہ ساری پریشانیوں کا حل حکومت الٰیہہ میں ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے ملک میں عصت فروشی اور بدکاری کے پانچ لاکھ ادارے قائم ہیں۔ ان اڈوں میں بیشمار بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں لیکن اس گھناؤنے جرم پر کوئی فرد جرم عائد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں ایک خاتون پولیس اہلکار کا خط موصول ہوا ہے اس خط میں اس بہن نے پولیس کے محکمے میں عصمت فروشی کے دھندے کا انکشاف کیا ہے اور کہا ہے کہ کافی عرصے سے یہ گھناؤنا سلسلہ پھیلتا چلا جارہا ہے۔ اعلیٰ افسران سے شکایت بھی کی گئی ہے لیکن کچھ اثر نہیں ہورہا لہذا اب آپ حضرات تعاون کریں اور اس سلسلے کو بند کروائیں۔

ایسی سنگین صورت حال میں ہم نے نفاذ اسلام کی اس تحریک کا آغاز کیا سب سے پہلے لائبریری پر قبضہ کیا گیا تاکہ اللہ کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کی رٹ کو چیلنج کیا جاسکے۔ جامعہ حفصہ کی طالبات اللہ کے دین کے تحفظ کیلئے نکل کھڑی ہوئیں اور ان کے مسلمان بھائی بھی ان کے تحفظ کیلئے آ پہنچے۔ اس وقت پورے ملک میں نوجوان نفاذ شریعت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علمائے کرام طلباء و طالبات سے متعلق کسی واقعہ کی خبر پر تحقیق کرسکتے ہیں ۔مختلف این جی اوز اور میڈیا کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے طرح طرح کی من گھڑت افواہیں پھیلا کر عوام کو متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مختلف ذرائع سے ہمارے خلاف طرح طرح کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے مثلاً کہا جارہا ہے کہ ہماری طالبات نے کہا ہے کہ وہ بے پردہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب ڈالیں گی اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبات ڈنڈے لیکر دکانوں پر گئیں یہ سب باتیں جھوٹی اور الزامات ہیں ہم انکی تردید کرتے ہیں۔ تحریک طلباء وطالبات کے خلاف غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ مہم فوراً بند کی جائے۔

نعمان صاحب کے خلاف ریفرنس

جب ایک نیا حاکم گدی پر بیٹھا تو اسے ترکیب سوجھی کہ علماء کو امورِ سلطنت میں شامل کیا جائے ۔ چنانچہ ملک بھر کے علماء کو اکٹھا کیا گیا کہ دین کی باتیں ہوں گی ۔ اجلاس کے دوران اچانک حاکم نے علماء سے پوچھا “آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ نے جو مجھے حکومت دی ہے میں اس کا اہل ہوں ؟”
کئی علماء نے کہا ” بالکل آپ سے بہتر اس کا اہل ہماری نظر میں کوئی نہیں” ۔
ایک معروف عالم خاموش بیٹھے رہے ۔
حاکم نے پوچھا “نعمان ۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟”
نعمان صاحب نے کہا “تم اپنے ضمیر سے پوچھو ۔ تم چاہتے ہو کہ علماء تمہارے ہر جائز و ناجائز فعل کی حمائت کریں تاکہ عوام سمجھیں کہ تمہارا ہر فعل دین اسلام کے مطابق ہے حالانکہ تمہارے حاکم بننے پر دو اہلِ فتوٰی کا اجماع نہیں ہوا “۔

اجلاس کے بعد حاکم نے کافی نقدی دے کر اپنے ایلچی کو بھیجا کہ اگر نعمان اسے قبول کرے تو اسے قتل کر دینا اور قبول نہ کرے تو واپس آ جانا ۔
نعمان صاحب نے نقدی نہ لی ۔
پھر حاکم نے نعمان صاحب کو بلا کر کہا “آپ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیں کیونکہ ہمیں آپ کے علاوہ کوئی اس کا اہل نظر نہیں آتا “۔
نعمان صاحب نے کہا “میں اس کا اہل نہیں ہوں کیونکہ موجودہ حالات میں میرے لئے صحیح فیصلہ مشکل ہو گا “۔
حاکم نے بہت اصرار کیا اور ترغیبات بھی دیں مگر نعمان اپنے فیصلہ پر قائم رہے ۔ حاکم نے انہیں قید میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ نعمان کو روزانہ دس کوڑے اس دن تک لگائے جائیں جب تک وہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہ کر لے ۔
روزانہ کوڑے لگتے رہے لیکن نعمان صاحب نے اپنا مؤقف نہ بدلا ۔ آخر ایک دن حاکم نے بلا کر کہا ” نعمان ۔ اپنے اوپر ترس کھاؤ اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لو اس سے تمہاری عزت بھی بڑھے گی اور زندگی بھی آسائش سے گذرے گی”۔
نعمان صاحب نے جواب دیا “الله آپ کا بھلا کرے لیکن میں اس عہدہ کا اہل نہیں”۔

حکمران نے غصے میں کہا “تم جھوٹ بولتے ہو”۔
تو نعمان صاحب نے کہا “آپ نے خود ہی میری تصدیق کر دی ۔ بھلا جھوٹ بولنے والے کو کوئی چیف جسٹس بناتا ہے ؟”
حاکم نے پھر نعمان صاحب کو قید میں ڈال دیا ۔ تقریباً چھ سال بعد نعمان صاحب نے قید ہی میں وفات پائی ۔

یہ شخص نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمة الله عليه المعروف امام اعظم تھے جنہوں نے 767 ء میں وفات پائی اور حاکم تھے ابو جعفر منصور عباسی

بارہ سو سال سے حاکم اس کہانی کو دہراتے چلے آ رہے ہیں لیکن جابر حاکم کے سامنے نعرۂِ حق بلند کرنے والے اللہ کے بندے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں ۔ اب تو یہ حال ہے ۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں ۔ ۔ ۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

طاغوت کیا ہوتا ہے ؟

سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 256 ۔ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

ترجمہ ۔ دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 257 ۔ اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

ترجمہ ۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے ۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی اور مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لیجاتے ہیں ۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

طاغوت سے مراد ہے حد سے بڑھ جانے والی سرکش ۔ ظالم اور راہِ حق سے ہٹانے والی قوت ۔ طاغوت فرد بھی ہو سکتا ہے ۔ قوم بھی ۔ شیطان یا ابلیس بھی ۔ نظریہ یا نظام بھی ۔ کوئی چیز بھی یا کام بھی ۔ حتٰی کہ عِلم بھی

کافروں کا ہدف ۔ نصب العین اور وہ خاص نعرہ بھی طاغوت ہے جس کے تحت وہ جنگ لڑتے ہیں جیسے بھارت ماتا ۔ اکھنڈ بھارت ۔ آزاد خیالی (Liberalism)۔ نئی ترکیبِ دنیا (New World Order)۔ نسل پرستی ۔ قوم پرستی ۔ صیہونیت (Zionism)۔ بے جا رواداری (Excessive compromising)۔ اشتراکیت (Communism)۔ سرمایہ داری نظام (Capitalism)۔ کیونکہ یہ تمام نظام وحیِٔ الٰہی پر مشتمل نظام کے مدِمقابل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ قرآن و سنّت پر مَبنی قوانین کی مخالفت کرتے ہیں اور اِسلامی ممالک میں اِسلامی قوانین کے نفاذ کے خلاف ایڑھی چَوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور اپنا باطل نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں

توہّمات بھی طاغوت ہیں ۔ ان میں جادو ۔ جیوتش ۔ فال گیری ۔ ٹُونے ٹَوٹَکے ۔ شگُون ۔ جَنَم پَتری (Horoscope)۔ ستاروں سے فال ۔ وغیرہ شامل ہیں
کچھ جدید ایجادات جو عصرِ حاضر میں انسانی استعمال کیلئے لازم سمجھی جاتی ہیں جیسے T.V., Computer ۔ یہ بھی بعض اوقات طاغوت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ۔ انسان ان میں گم ہو کر دینی فرائض ہی بھول جاتا ہے ۔ میں نماز کی بات نہیں کر رہا ۔ حقوق العباد کی بات کر رہا ہوں

شاید یہ بات لَغَو یا کم اَز کم تعجب خیز محسوس ہو کہ عِلمِ دین بھی طاغُوت بَن سکتا ہے ۔ اِسے سمجھنے کیلئے نیچے دِیئے مکالمہ پر نطر ڈالیئے

”کیا عِلم طاغوت بن سکتا ہے ؟“
”جی ۔ ہاں“۔
”وہ کیسے ؟“
”حضرت ۔ میں بہت زیادہ عِلم حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ بہت زیادہ“۔
” تو حاصل کرلو ۔ کس نے روکا ہے ؟“
”جناب مسئلہ یہ ہے کہ عِلم بعض اوقات تکبّر پیدا کرتا ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہی سب کچھ نہ ہو جو شیطان کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنے عِلم کے زعم میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوگیا؟“
”دو ہدایات پر عمل کرو ۔ پہلی یہ کہ جو علم حاصل کرو ۔ اس کی تمام اچھائیوں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ ہر اچھی Quote, Article یا کتاب لکھو تو اس کے اچھے پہلووں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ اس کا سارا Credit اللہ کے Account میں ڈال دو۔ اس سے ملنے والی تعریفوں پر یوں سمجھو کہ لوگ تمہاری نہیں بلکہ اس توفیق کی تعریف کررہے ہیں جو اللہ نے تمہیں عطا کی“۔
”بہت عمدہ بات کہی آپ نے حضرت ۔ دوسری ہدایت کیا ہے؟“
” دوسری ہدایت یہ کہ جب کسی کو عِلم سکھاؤ تو استاذ نہیں طالب عِلم بن کر سکھاؤ ۔ اس کو سمجھانے کی بجائے اس سے طالب عِلم بن کر سوال کرو ۔ اس کے سوالوں کے جواب ایک طالب عِلم کی حیثیت سے دو ۔ اپنی کم عِلمی اور غلطیوں کا کھُل کر اعتراف کرو ۔ اس طرح تم خود کو عالِم نہیں طالب عِلم سمجھو گے اور تکبّر پیدا نہیں ہوگا“۔
”بہت شکریہ حضرت ۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے بات کو سمجھایا”۔

یاد رکھو ۔ عِلم وہ ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال خود کو ہی ہلاک کرنے کا سبَب بَن سکتا ہے ۔ شیطان سب سے زیادہ آسانی سے عالِم ہی کو پھانستا ہے ۔ پہلے اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ ” تُم تو عالِم ہو ۔ تُمہیں سب پَتا ہے“۔
جب سب پتا ہے تو یہ کل کے بچے تمہارے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ اس کے بعد لوگوں کو حقِیر دِکھاتا ہے ۔ لوگوں کے واہ واہ (Likes) کو استعمال کرکے انسان میں ” تکبّر “ اور ” اَنا “ کو مضبوط کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ پھر اپنی اور دنیا والوں کی نظر میں عالِم اور مُتّقی نظر آتا ہے لیکن اللہ کی کتاب میں اسے ” ابوجہل“ لکھ دیا جاتا اور فرشتوں کی محفل میں اسے شیطان کا ساتھی گردانا جاتا ہے لیکن اسے خبر تک نہیں ہوتی

مزید لوریاں

میں نے دو دن قبل کچھ لوریاں لکھی تھیں اب مجھے کچھ لوریاں موصول ہوئی ہیں جو پیشِ خدمت ہیں

ابو حلیمہ صاحب نے بھیجیں

عربی

حسبی ربّی جل اللہ
معافی قلبی غیر اللہ
نور محمّد صلی اللہ
حق لا الٰہ الا اللہ

ملایو

Nina bobo,
oh, nina bobo,
kalau tidak bobo,
digigit nyamuk.
Adik sayang,
adikku sayang
tidurlah tidur
dalam buaian.

ترجمہ
پیارے سے بچے سو جا
سو جا نہیں تو مچھر کاٹ لے گا
میرے پیارے بچے
میری جان سے پیارے بچے
سو جا سو جا۔

صبا سیّد صاحبہ نے بھیجی


سندھی 

امڑ ڈی دعا آؤن سندھڑی تان سِر ڈیان
غیر پھنجی انکھین سان
ھن دھرتی تی کین ڈسان
وڈو تھی دشمن سان وڑان
پھنجی سندھو دیش میں
سمڑ واری ڈی تہ لولی
کیھن امڑ مان سُمان
مھنجی سندھ، منھنجی جند
آھی سورن مہ ایان
سمڑ واری ڈی تہ لولی
کیھن امڑ مان سُمان

ترجمہ
ماں دعا کرو کہ میں سندھ پر اپنی جان دے دوں
اپنی آنکھوں سے اپنے وطن میں غیروں کی حکمرانی نہ دیکھوں
بڑا ہوکر دشمن سے جہاد کروں، اپنے وطن سندھ کے لیے
لیکن ابھی مجھے سونا ہے، مگر مجھے نیند نہیں آرہی
سونے والی لوری دو ماں تاکہ میں سو سکوں
کیونکہ میرا سندھ، میری جان بڑی مشکلوں میں ہے،
میں کیسے سو سکتا ہوں
اسلئے سونے والی لوری دو مان تاکہ میں سو سکوں

پاکستان بننے سے پہلے کی پنجابی لوری

اَلّڑ بَلّڑ باوے دا
باوا کنک لیاوے گا
بی بی بہہ کے چھَٹے گی
پریموں پونی کتے گی

ترجمہ
الڑ بلڑ مُنّے کا
مُنّا گندم لائے گا
مُنّے کی ماں بیٹھ صاف کرے گی
اس وقت ملازمہ روئی کاتے گی