ہمارے ملک میں بسنے والوں کی بھاری اکثریت کو مسلمان ہونے کا دعوٰی ہے ۔ ہمارا دین اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں قتل روزانہ کا معمول ہے ۔ کہیں ڈاکو قتل کرتے ہیں ۔ کہیں طاقتور یا بارسوخ لوگ قتل کراتے ہیں ۔ کہیں قتل باہمی رنجشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور باقی کوٹہ پولیس اور خُفیہ ایجنسیاں پورا کر دیتی ہیں ۔ کیا یہ سب مسلمان ہیں ؟
حماد نے کوئی چودہ پندرہ سال پہلے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلیمی کامیابی پر سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا ۔ وہ ذہین ۔ محنتی اور حاضر جواب آدمی تھا ۔ سی ایس ایس کے امتحان میں پہلے دس کامیاب اُمیدواروں میں ہونے کی وجہ سے اسے ڈی ایم جی گروپ میں رکھا گیا تھا ۔ حماد والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود نخرے والا نہیں تھا بلکہ خوش مزاج تھا ۔ اس کے کام سے متأثر ہونے کی وجہ سے عدالتِ عظمٰی کے موجودہ چیف جسٹس اُسے بحیثیت ایڈیشنل رجسٹرار اسلام آباد لائے تھے اور وہ یہاں پر اُن کے سٹاف آفیسر کی طرح بھی کام کرتا رہا ۔ 9 مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے بعد خفیہ ایجنسیز والے 4 دن حماد سے تفتیش کرتے رہے مگر انہیں نا اُمیدی ہوئی ۔
سپریم کورٹ کے مقتول ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کے والد سید امجد حسین نے کہا ہے کہ ان کے گھر سے نقدی یا زیورات لوٹنا تو دور کی بات ہے قاتلوں نے تو ان کے بارے میں پوچھا تک نہیں ۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سید امجد حسین نے کہا کہ قاتلوں نے حماد کے ماتھے پر گولی ماری تھی اور جب حمادگرگئے تو حملہ آور چلے گئے۔ ان کے بقول وہ صرف حماد کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے۔ ستر سالہ سید امجد حسین زمیندار ہیں اور ان کا تعلق لاہور کے نواحی علاقے شرقپور کے قصبہ مترد ہ سے ہے۔ حماد کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ مقتول علاقے کے پہلے شخص تھے جنہوں نے سول سروس میں کامیابی حاصل کی اور ڈسٹرکٹ مینجمینٹ گروپ میں گئے۔ حماد کے والد کا کہنا تھا کہ جب ان کے بیٹے کا قتل ہوا تو پولیس کی ایک گاڑی گھر کے باہر کھڑی تھی اس گاڑی میں پانچ مسلح اہلکار تھے جن میں سے تین گاڑی کے باہر کھڑے تھے۔
ان کے بقول ان کے بیٹے کے قاتل گھر سے باہر کھڑی پولیس کی موجودگی میں فرار ہوئے لیکن پولیس کچھ نہ کرسکی ۔’وہ کیسے پولیس والے تھے جن کے سامنے قاتل فرار ہوگئے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں وہ پولیس کے بیان کردہ موقف پر کس طرح مطمئن ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والوں کے پاس اسلحہ تھا اور وہ فائرنگ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا حالانکہ پولیس اہلکار تعاقب کرکے ان کو (قاتلوں کو) گرفتار کرسکتے تھے۔ مقتول کے والد نے سوالیہ انداز میں کہا کہ پولیس ڈیوٹی دے رہی تھی یا پھر قاتلوں کو بچانے کے لیے وہاں موجود تھے۔ ان کے بقول جب حملہ آور نےگولی چلائی تو حماد کا ایک ہمسایہ دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور اس نے پولیس والوں کو اندر آنے کو کہا لیکن پولیس والے اپنی جگہ کھڑے رہے۔ حماد رضا کے والد نے کہا کہ ان کے بیٹے نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے یہ معلوم ہو کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ حماد ہمیشہ حوصلہ کی باتیں کرتا تھا۔
پاکستان بار کونسل کی فری لیگل ایڈ کمیٹی کے سربراہ رمضان چودھری کے بقول انسانی حقوق کے معاملات پر چیف جسٹس پاکستان کے احکامات کی روشنی میں حماد رضا ہی کمیٹی سے رابطہ کرتے تھے۔
سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کی بیوی نے کہا ہے کہ ان کے شوہر کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔ شبانہ حماد نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ رات وہ لوگ سیکٹر جی ٹین ٹو میں واقع ان کے گھر میں داخل ہوئے اور وہ حماد کی تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا گھر میں داخل ہونے والے لوگ ڈکیتی کی غرض سے نہیں بلکہ حماد کو ڈھونڈ رہے تھے اور انہوں نے بیڈ روم کے دروازے پر دستک دی اور جب دروازہ کھولا گیا تو وہ حماد رضا کو ہلاک کر کے ایک دو منٹ میں غائب ہو گئے۔
حماد رضا ڈی ایم جی گروپ کے افسر تھے اور وہ کافی عرصہ تک صوبہ بلوچستان میں تعینات رہے تھے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حماد رضا کو ڈیپیوٹیشن پر سپریم کورٹ میں بطور ایڈیشنل رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ حماد رضا سپریم کورٹ کے ان اہلکاروں میں شامل تھے جن سے چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد حکومتی اداروں نے پوچھ گچھ کی تھی۔ شبانہ حماد نے کہا کہ ان کی کسی شخص سے کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی انہیں پہلے کبھی کسی نے کوئی دھمکی دی تھی ۔
Supreme Court officer murdered
ISLAMABAD, May 14: Supreme Court’s additional registrar Syed Hammad Amjad Raza was shot dead by four men who broke into his house before dawn on Monday. Talking to Dawn, a police officer claimed that the murder had been committed by robbers, but Mr Amjad Raza’s widow Shabana, a witness to the killing, said it was a target killing. She alleged that the government and agencies were involved in the murder. She said that she saw several policemen lurking around in the lawn of her house when she ran out crying for help, but they did nothing to catch the culprits. She vowed to do everything possible to bring those responsible to justice. Her brother, Abid Hussain Shah, also insisted that it was not a case of robbery, because nothing had been found missing from the house, except two cellphones. “It’s a target killing and a message to judges,” he said.
According to the family, four people broke into Mr Raza’s official residence through the kitchen window at around 4.15 am. They overpowered his parents who lived on the ground floor, tied them up and asked them about Mr Raza. Syed Amjad Ali Mashedi Rizvi, father of Mr Raza, said the intruders held the teenage housemaid Ashee at gunpoint and forced her to take them upstairs to Mr Raza’s bedroom.
“As my husband responded to the knocks and opened the door, we saw four clean-shaven men in trousers and shalwar kameez. They were aged between 28 and 35. One of them was holding a pistol and another carried a knife. On seeing Hammad, the gunman shot him in the head and fled,” Ms Shabana said. She said she ran downstairs crying for help and was surprised to see some policemen in the lawn. They did not do anything. However, police officer Shaukat Pervaiz, a neighbour, responded to her screams. SP Pervaiz, who is detailed with the prime minister’s security squad, shouted at a police patrol, standing about 100 feet away from his house, to catch the culprits but by the time the patrol moved the attackers had disappeared.
Security agencies had questioned Mr Raza for four days after the removal of Chief Justice Iftikhar.
Talking to Dawn, Intizar Mehdi, a cousin of the deceased, alleged that it was a target killing. “The moment Hammad opened the door, the intruders shot him in the head without having any argument,” he said, adding that the robbers would not act the way the killers had. There was a lot of jewellery and cash in the house but the gunmen had not touched anything, he said.
The deceased is survived by the wife and three children.
Pakistan supreme court official slain over links to CJ Chaudhry:
ISLAMABAD, May 15 (AFP) – Supreme Court deputy registrar Syed Hamad Raza shot dead at his home on Monday morning was targeted because of his ties to suspended chief justice Iftikhar Muhammad Chaudhry and had come under pressure from the government, lawyers for the judge said Tuesday. The claim came as Justice Chaudhry appeared at the Supreme Court to challenge his removal by President Pervez Musharraf in a row that has triggered deadly protests. “Raza’s murder was a targeted killing. It appears to be linked to the case,” Chaudhry’s main lawyer Aitzaz Ahsan told the court. “He was under pressure from various government agencies,” he said. Justice Khalilur Rehman Ramday, the presiding judge of the 13-member full bench hearing Chaudhry’s appeal against misconduct charges, said the court had already taken notice of the murder. “He (Hamad) was a wonderful boy… It is our belief that such an atrocity will not go unpunished. We shall do what can possibly be done by us,” Justice Ramday said. (Posted @ 16:38 PST)