جھوٹ چھپائے نہیں چھُپتا

پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے انکشاف کیا ہے کہ سال2002 عیسوی کے عام انتخابات اور صدارتی ریفرنڈم کے وقت تیار کردہ ووٹر فہرست میں شامل تقریباً 2 کروڑ ووٹرز جعلی تھے پاکستان کے الیکٹرول ایکٹ کے تحت کسی ایسے شخص کا نام انتخابی فہرست میں نہیں ہو سکتا جس کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہو۔

الیکشن کمیشن نے ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق گھر گھر جا کر جو نئی ووٹر فہرستیں مرتب کی گئی ہیں ان میں کل ووٹرز کی تعداد 52،102،428 ہے جب کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سال 2002 عیسوی میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم اور عام انتخابات میں کل ووٹرز کی تعداد 71،900،000 کے قریب تھی ۔ جس کا مطلب ہوا کہ 19،787،572 ایسے ووٹروں کا اندراج کیا گیا تھا جو موجود ہی نہ تھے ۔ پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو نئی ووٹر فہرست میں ووٹرز کی تعداد پہلے سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن صورتحال اس کے برعکس بنتی ہے۔

اس سے پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ پرویز مشرف نے ریفرنڈم کس طرح جیتا اور اس کے ساتھی 2002 کے الیکشن میں کیسے جیتے ۔ یہ ہے پرویز مشرف کا بنایا ہوا شفاف الیکشن ۔

دکھاتا ہے زمانہ رنگ کیسے کیسے

عوامی تحریک کے رہنماء رسول بخش پلیجو نے اپنے خطاب میں کا کہا “پاکستان ابھی تک غلام ہے۔ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر امریکہ کی غلامی میں چلے گئے ہیں، اس سے اچھی تو انگریزوں کی غلامی تھی جس میں ہمیں کم سے کم غلام کی حثیت تو دی گئی تھی۔ لیکن اب تو ظلم یہ ہے کہ ہمیں غلام بھی بنا رکھا ہے اور تسلیم بھی نہیں کرتے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم بھی امریکہ کے غلام ہیں، ہمیں بھی غلاموں کا درجہ دیا جائے۔ غلاموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، موجودہ حیثیت میں تو ہمیں وہ حقوق بھی نہیں مل رہے”۔

انہوں نے کہا “سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو آزاد کروانا ہے اور اس سلسلے میں وکلاء کی تحریک بہت خوش آئند ہے۔ چھوٹے صوبے ہمیشہ پنجاب کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، لیکن پنجاب کے عوام نے عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں جو کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے”۔

آج اور اے آر وائی کے بعد جیو نیوز کی نشریات بند

جیسا کہ میں 3 مئی کو لکھ چکا ہوں ٹی وی چینلز ” آج ” اور ” اے آر وائی ون ” اسلام آباد ۔ پشاور ۔ لاہور اور ان کے گرد و نواح شہروں کیلئے جمعہ یکم مئی سے بند ہیں ۔ سوائے ڈراموں اور ناچ گانے کے ۔ اتوار 3 مئی کو جیو نیوز چینل تقریباً تمام ملک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ جنگ گروپ اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے

ڈاکٹر شاہد مسعود کا مقبول پروگرام ”میرے مطابق“ دکھانے پر حکومت نے ”جیو نیوز“ کی نشریات ملک بھر میں بند کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ ریکارڈ شدہ یہ پروگرام نشر ہونے سے دو گھنٹے قبل اتھارٹیز نے ”جیو“ کی انتظامیہ کو پروگرام نشر نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پروگرام چلایا گیا تو ہم اسے خود بند کر دیں گے اور ایسا ہی کیا گیا جبکہ باقی ساری دُنیا امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ وغیرہ میں پروگرام نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کے نامور دانشوروں جسٹس [ریٹائرڈ] ناصر اسلم زاہد، ۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ اور حکمران مسلم لیگ کے رہنما کبیر علی واسطی نے ملک کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی تھی اور ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے گرانقدر تجاویز پیش کی تھیں۔

پروگرام نشر ہونے سے پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود کو دو فون بھی موصول ہوئے جن میں دھمکی دی گئی کہ ہم نے آپ کے لئے لٹھا تیار کرلیا ہے۔ آپ ویسے بھی لمبے چوڑے آدمی ہیں آپ کیلئے کتنا لٹھا چاہئے ہوگا بتا دیں۔ علاوہ ازیں چند روز قبل ”جیو“ کی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو چھٹی پر بھیج دیا جائے۔ یاد رہے کہ ٹی وی چینل ”آج“ کی پنڈی، اسلام آباد اور قریبی علاقوں میں نشریات بند ہیں۔ اسی طرح چینل اے آر وائی کی نشریات بھی پنڈی، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں روک دی گئی ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس پروگرام میں جو ریکارڈڈ تھا جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اور ہر شخص کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا آنے والا فیصلہ صدارتی ریفرنس کے متعلق ایک تاریخی فیصلہ ہوگا۔ آج ہمارے بار اور بنچ نے اور ان کے ساتھ ہمارے عوام نے مل کر اس تحریک کو جس مقام پر پہنچایا ہے اس سے حکومت خوفزدہ ہے اور یہ تمام نشانیاں ہیں اس کی خوف کی اور ڈر کی جب اقتداران کے ہاتھ سے جانے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج پہلی دفعہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آرمی ، چیف اپنے ماتحت فارمیشن کمانڈر سے اپنے اقتدار کی ضمانت مانگ رہا ہو یہ بڑے تعجب کی بات ہے یعنی میں تو اسے اعتراف شکست کہتا ہوں۔ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ، بھٹو صاحب جب وزیراعظم تھے تو ان سے فوج نے کہا کہ ہم اس حکومت کے ساتھ ہیں اور آخر وقت تک ساتھ رہیں گے لیکن چند دنوں بعد مارشل لاء لگا دیا ۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوگئی، آج کون کور کمانڈر یا فارمیشن کمانڈر یہ ہمت کر سکتا ہے کہ صدر کے سامنے کہہ دے کہ میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ کور کمانڈروں کا حالیہ بیان بے معنی ہے اور اعتراف شکست ہے کسی آرمی چیف کو اپنے فارمیشن کمانڈرز سے سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی

جب میں سنتا ہوں کہ حکمران جماعت کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ فوج کے خلاف بات کرنے والوں کو گولی مار دی جائے تو مجھے حیرت ہوتی ہے یہ پاگل پن ہے ۔ چوہدری شجاعت یہ بات کئی دفعہ کہہ چکے ہیں اسی طرح سے اگر کوئی عدلیہ کی بے عزتی کرتا ہے اس کو بھی کہنے کا
حق ہوگا کہ ہر اس شخص کو گولی مار دو جو عدلیہ کے ساتھ اور چیف جسٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتا ہے یہ بڑی خطرناک ذہنیت ہے ایسے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

حکمران مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر کبیر علی واسطی نے بتایا کہ اسلام آباد میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور بہت ابہام ہے۔ جب سے چیف جسٹس کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے حکومت بلاوجہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایوان صدر میں اس بات کا بہت زیادہ احساس کیا جا رہا ہے اور غلطیاں بھی ایوان صدر ہی کی ہیں کسی نے کوئی سازش نہیں کی ہے نہ ہی کوئی ایجنسی ، کوئی شخص یا ادارہ اس میں شامل ہے اس بحران کے ذمہ دار صدر مشرف ہیں جنہوں نے خود قبول کیا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے، ریفرنس میں نے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا یہ کہنا غلط ہے کہ چیف جسٹس پر الزامات تھے اس لئے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا۔ قوم ان باتوں کو قبول نہیں کر رہی ۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈروں کی طرف سے جو بیان دلوایا گیا وہ بلاضرورت تھا اگر اس کی ضرورت تھی تو صدر صاحب اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوج کا ادارہ قومی ادارہ ہے قوم اس کی عزت کرتی ہے اور جس طرح صدر نے اس ادارے کو اپنے معاملات میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے وہ بلاضرورت تھا۔ صدر صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا انہیں عوام کی حمایت دکھانی چاہئے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ کبیر واسطی نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کے سینئر عہدیدار ہونے کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ ساری صورتحال کے ذمہ دار صدر اور ان کے مشیر ہیں۔ وزیراعظم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جو اختیارات انہیں ڈکٹیٹ کرائے گئے ہیں ان ہی کے مطابق وہ چل رہے ہیں ان کو یہ اختیار بھی نہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیج سکیں۔ وزیراعظم ازخود کوئی ریفرنس نہیں بھیج سکتے ، چیف جسٹس کے بیان حلفی نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں،اس میں بہت کچھ آگیا ہے،یہ پڑھنے والوں پر ہے کہ وہ اسے کیسے پڑھتے ہیں۔ ذمہ داری ہر طرح سے صدر کی ہے۔ ہم صدر صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں ، بہت احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صدر صاحب اس ملک میں اپنا رول ادا کریں اور اگلے 5 سال بھی ان کو ملیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ وردی اتاردیں اور اگلی اسمبلی سے انتخاب لڑیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اگر صدر نے موجودہ اسمبلی سے انتخاب لڑا تو بہت تباہی ہوگی۔ ایسی تباہی جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

قانون ۔ پرویز مشرف مارکہ

جمہوریت کی اساس یہ ہے کہ قانون سب کیلئے یکساں ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جو حقیقی جمہوریت طاری کی ہوئی ہے اس کی چند مثالیں یہ ہیں ۔

Devolution

سارے ملکی نظام کو devalue ۔ اوہ معاف کیجئے گا ۔ devolve کیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کی اسامی ختم کر کے [اپنی مرضی سے] منتخب کردہ ناظم لگائے گئے مگر وہ بھی سارے ملک میں نہیں ۔ اسلام آباد میں ابھی بھی ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے اور حکومت کے کئی بار وعدوں کے باوجود آج تک ضلعی حکومت بنانے کیلئے الیکشن نہیں ہوئے ۔ اسلام آباد کے علاوہ پاکستان میں جتنی چھاؤنیاں [cantonments] ہیں جو کہ سو سے زیادہ ہی ہوں گی ان میں ابھی تک سٹیشن کمانڈر [Station Commander] کی حکومت ہے جو کہ کرنل یا بریگیڈیئر ہوتا ہے اور جی ایچ کیو کے ماتحت ہوتا ہے ۔


دفعہ 144

ڈپٹی کمشنر ۔ اسلام آباد کے حکم سے پورے ضلع اسلام آباد میں بدھ 30 مئی سے 2 ماہ تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جس کے تحت کسی جگہ 5 یا 5 سے زیادہ اشخاص کا اکٹھا ہونا یا اکٹھے چلنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔ عملی طور پر حکومتی پارٹی کے لوگ جب چاہیں جہاں چاہیں درجنوں اکٹھے ہوتے رہتے ہیں لیکن جمعہ یکم مئی کی سہ پہر سے رات گئے تک ہماری رہائش گاہ سے 500 میٹر کے فاصلہ پر فاطمہ جناح پارک میں اسلام آباد کی حکومت نے اگر ہزاروں نہیں تو ایک ہزار سے زیادہ اشخاص کا میلہ لگایا ہوا تھا ۔ ان حالات نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ چیف جسٹس صاحب کا قافلہ ہفتہ 2 جون کو صبح 9 بجے اسلام آباد میں ان کی سرکاری رہائش گاہ سے روانہ ہوا تو حکومتی مشینری حرکت میں نہ آسکی ۔۔


سیکیورٹی

اسلام آباد کی سیکیورٹی ویسے ہی سخت رہتی ہے کیونکہ حکمرانوں کی قیمتی جانوں کو خطرہ رہتا ہے ۔ جمعہ یکم مئی کو امامِ کعبہ جناب عبدالرحمٰن السّدیس تشریف لا رہے تھے اس لئے جمعرات 31 مئی سے ہی سیکیورٹی اور سخت کر دی گئی تھی ۔ وزیراعظم صاحب نے بھی فیصل مسجد میں جمعہ کی نماز پھنا تھی ۔ نماز جمعہ کے وقت سے کئی گھینٹے پہلے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ فیصل مسجد کے چاروں طرف پھیل گئے تھے ۔ فائر بریگیڈ بھی وہاں موجود تھا ۔ اس کے باوجود پارکنگ میں آگ لگی جس سے 17 گاڑیاں اور ایک موٹر سائیکل جل گئے ۔ اس خبر کو اخبار میں چھاپنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ڈان نے یہ خبر صرف اسلام آباد ایشو میں مع تصویر کے چھاپی ہے ۔


آزادیٔ صحافت

صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کئی بار کہہ چکے ہیں “میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حق میں ہوں اور میں نے انہیں پوری آزادی دے رکھی ہے”۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے پرانے اُردو اخبار نوائے وقت اور انگریزی اخبار دی نیشن کے اشتہارات کئی سالوں سے بند ہیں ۔ ان کی ویب سائٹ عام طور پر بلاک ہی رہتی ہے ۔ پاکستان کے سب سے پرانے انگریزی اخبار ڈان کے ساتھ موجودہ حکومت کی چپقلش چلتی ہی رہتی ہے ۔ جمعہ یکم مئی سے اسلام آباد ۔ اسلام آباد کے گرد و نواح اور پنجاب کے کئی شہروں میں ٹی وی چینلز آج اور اے آر  وائی ون کی نشریات جزوی طور پر بلاک کر دی گئی ہیں ۔ مزید لائیو کوریج [live coverage] ۔ ٹاک شوز [talk shows] اور تبصروں [commentaries] پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت نے کچھ قومی اور بین الاقوامی اداروں کو چند ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہ دینے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں ۔ یہ بھی حکم جاری کیا گیا ہے کہ تمام ٹی چینلز کو اپنی نشریات دکھانے کیلئے ہر شہر کیلئے علیحدہ علیحدہ لائیسنس لینا ہو گا ۔


ہَور چُوپَو

حکومتِ پاکستان کے دباؤ کے تحت ہفتہ 2 جون کو کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیرمین خالد شیخ نے اعلان کیا کہ جو ٹی وی چینل حکومت یا افواجِ پاکستان کے خلاف کچھ دکھائیں گے وہ بند کر دیئے جائیں گے ۔ خالد شیخ نے یہ بھی بتایا کہ کچھ سیاسی جماعتیں کیبل آپریٹرز کو دھمکیاں دے رہی ہیں کہ اگر اُن کی بات نہ مانی گئی تو تو کیبل آپریٹرز کے ٹرانسمشن سسٹم پر حملے کئے جائیں گے ۔

میکالے کا ایک اور فیصلہ

لارڈ میکالے کی تجویز نقل کی تھی جس پر چند قارئین نے اعتراض کیا تھا ۔ بزرگ کہتے تھے “اللہ مہربان سو کُل مہربان”۔ میرا سب سے بڑا لالچ سچائی کا حصول رہا ہے اور جب کبھی مجھے مشکل پیش آئی اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے میری مدد فرمائی ۔ اسی سلسلے میں 23 مئی کو ایک خط ڈان اخبار میں شائع ہوا جو اگرچہ مختلف تحریر ہے مگر میرے مؤقف کی تائید کرتی ہے ۔ متعلقہ اقتباس ۔ ۔ ۔ Macaulay’s children

The term Macaulay’s children is used to refer to people born of Indian ancestry who adopt western culture as a lifestyle, or display attitudes influenced by colonisers. Connotation of the term shows the specific behaviour of disloyalty to one’s country and one’s heritage. The passage to which the caption refers is taken from a minute Lord Macaulay wrote on Indian education. It reads:

“It is impossible for us, with our limited means, to attempt to educate the body of the people. We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern; a class of persons, Indian in blood and colour, but English in taste, in opinions, in morals, and in intellect. To that class we may leave it to refine the vernacular dialects of the country, to enrich those dialects with terms of science borrowed from the western nomenclature, and to render them by degrees fit vehicles for conveying knowledge to the great mass of the population.”

Should we mug up our state of affairs right from the independence, we find we have been governed till date by the class of people trained in accordance with the desired standards set out by the Macaulay theory.

Would the system that derives strength from the Macaulay doctrine bring any change in our lives? Civil society must strive hard and support those who are eligible to lead the masses. It appears that future is not so gloomy and we can see light at the end of the tunnel in the present struggle spearheaded by the chief justice. But we need hundreds of people like him who could guide the people to shun self-interest and be brave.

کانٹا صحيح جگہ ڈالئے

عصرِ حاضر میں ہر کوئی کانٹا ڈالنے کی فکر میں ہے کہ کسی طرح دنوں میں بادشاہ نہیں تو کم از کم سرمایہ دار بن جائے ۔ بُش اور مُش سے لے کر عام آدمی بھی اسی فکر میں مبتلاء ہے لیکن ایسے میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ کانٹا اگر صحیح جگہ نہ ڈالا جائے تو وہی ہوتا ہے جو اس خاکے میں دکھایا گیا ہے ۔ کیا بُش کیلئے عراق اور مُش کیلئے چیف جسٹس کچھ ایسے ہی ثابت نہیں ہو رہے ؟

چاچا وردی لاندا کیّوں نئیں

۔ ۔ ۔ ۔ پنجابی لوک گیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُردو ترجمہ

بن کے مرد وخاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بن کے مرد دکھاتے کیوں نہیں
اپنا قول نبھاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا وعدہ نبھاتے کیوں نہیں
لَے کے پِنشن جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لے کے پنشن جاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

تیری مدّت ہو گئی پوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری مدت تو ہو چکی پوری
ہُون تے جانا اے مجبوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جانا ہے اب تمہاری مجبوری
رجیا نئیں تُوں کھا کھا چُوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ نہیں بھرا کھا کھا چوری
تَوڑیاں نے حدّاں دستوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توڑی ہیں حدیں دستورکی
عزّت نال گھر جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت سے گھر جاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

آیاں اے کی چَن چڑھاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئے ہو تم نیا چاند چڑھانے
یورپ دا ماحول بناون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یورپ کا ماحول بنانے
دھیاں بھہناں نچرا پاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں بہنیں ناچ ناچیں
سڑکاں اُتے دَوڑاں لاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سڑکوں پر وہ دوڑیں لگاویں
ڈُب کے تُوں مر جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈوب کے تو مر جاتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

نَس کے تُوں واشنگٹن جاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاگ کے تم ہو واشنگٹن جاتے
بُش نوں جا جا مسکہ لاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُش کو جا جا مکھن لگاتے
پَیراں وِچ ڈِگ ڈِگ جاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں میں اس کے تم گِر گِر جاتے
مظلوماں نُوں تُوں تَڑیاں لاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظلوموں کو ہو تم دھمکیاں دیتے
ظالم نال ٹکراؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظالم سے ٹکراتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

باطل نے شطرنج وچھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باطل نے ہے چوپال بچھائی
مَوہرہ رکھ چال چلائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موہرہ رکھ کے ہے چال چلائی
مِلّت نُوں تُوں مات دوائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملت کو تو نے مات دلوائی
جا کے دُشمن نال نبھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جا کے دشمن سے دوستی نبھائی
جُرم تے شرماؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جرم کر کے تو شرماتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

اپنی قوم نُوں ضربا لائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی قوم کو ضربیں لگائیں
کوہ چھَڈیا اے وانگ قصائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذبح کرتا ہے جیسے قصائی
ہلّہ شیری پار بلایاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فخر کرتے ہو سرحد پار جا کے
دیندا اے کشمیر دُہائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کشمیر دے رہا ہے دہائیاں
اَوتھے ٹَور وخاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں اکڑ دیکھاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

قاتل نُوں دِلدار بنا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قاتل کو محبوب بنا کے
کی لَبیا اے ظُلم کما کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ملا تمہیں ظلم کما کے
افغاناں دا خُون بہا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افغانوں کا خُون بہا کے
ساری ملّت نُوں زخما کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساری ملت کو زخما کے
کِیتی تے پشتاندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کئے پہ تو پچھتاتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

اَکھیاں کھول کے تک بے دردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں کھول کے دیکھو بے دردی
امریکہ دی دہشت گردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ کی دہشت گردی
کِیڑَیاں وانگوں اُمت مردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکوڑوں کی طرح ہے امت مرتی
غیرت نُوں اپناؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیرت کو اپناتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

جو لُٹیرے لُٹ لُٹ رَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لٹیرے لوٹ لوٹ کے سیر نہ ہوں
قوم دے ڈاکو تیرے سَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ قوم کے ڈاکو ہیں تیرے ساجن
کھُلے ڈھُلے نَسّن بھَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھلے عام دندناتے وہ ہیں
مسجداں تے چھاپے وَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر مسجدوں پر چھاپے پڑتے ہیں
کھَسماں نُوں تُوں کھاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ [اکتاہٹ کے ساتھ] ہماری جان تو چھوڑتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں

یو ٹیوب پر لوک گیت کی ایک دلچسپ وڈیو دیکھی ۔ جس کے بول اوپر لکھے ہیں ۔ یہاں کلک کر کے وڈیو دیکھی جا سکتی ہے