حکومتی دعوے جھوٹ اور فریب نکلے

مولوی عبد العزیز نے گرفتار ہونے کے بعد کہا تھا کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے اندر ان لوگوں کے پاس 14 بندوقیں یا کلاشنکوفیں [Klashinkov] ہیں اور مولوی عبدالرشید غازی مرحوم نے بھی کئی بار یہی کہا تھا ۔ جبکہ حکومت کا دعوٰی تھا جو کہ بار بار دہرایا جاتا رہا کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے اندر جنگجو [Militants] مسلح ہیں اور ان کے پاس راکٹ لانچرز [Rocket Launchers] اور دوسرا بڑا اسلحہ [Heavy Weapons like Mortar] بھی ہے ۔ وہاں خود کُش بمبار [Suicide Bombers] موجود ہیں اور بارودی سرنگیں [Land Mines] بچھائی گئی ہیں ۔ اور یہ کہ انہوں نے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کیلئے عورتوں اور بچوں کو یر غمال بنا رکھا ہے ۔ مزید یہ کہغیرملکی دہشتگرد اندر چھپے ہوئے ہیں ۔

حکومت کے سارے دعوے اس وقت جھوٹے اور فریب ثابت ہوئے جب فرض شناس فوجی افسران [جنرل یا بریگیڈیئر نہیں] لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس میں داخل ہوئے ۔ انہیں نہ تو بندوقوں یا کلاشنکوفوں کے سوا کوئی اور اسلحہ ملا ۔ نہ انہوں نے کوئی بارودی سرنگ دیکھی اور نہ ہی انہوں نے کوئی طالبہ یرغمال بنی ہوئی دیکھی ۔ اور نہ ہی حکومت غیرملکی دہشتگردوں کی موجودگی ثابت کر سکی ۔

اب واضح ہو گیا ہے کہ میڈیا کو آپریشن ایریا [Operation Area] سے اتنا دور اسلئے رکھا گیا تھا کہ حکومت کے حکم پر کئے گئے ناحق قتلِ عام کا کسی کو علم نہ ہو جائے ۔ خیال رہے کہ آپریشن کے پہلے ہی دن ایک صحافی جو آپریشن ایریا کے قریب آیا تھا رینجرز کی گولی سے ہلاک ہو گیا تھا ۔ اسی لئے کسی اور صحافی نے پھر قریب جانے کی جرأت نہ کی اور زیادہ تر حکومت کی مہیّا کردہ اطلاعات ہی نشر کرتے رہے ۔

مولوی عبدالرشید غازی مرحوم کی جانب سے بار بار کی ان درخواستوں کے باوجود کہ میڈیا کو کمپلیکس کے اندر آنے کی اجازت دیجائے تاکہ وہ صورتحال کو خود اپنی نگاہوں سے دیکھ سکے ۔ حکام نے نہ صرف میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہ دی بلکہ ارکان پارلیمنٹ ۔ علماء اور چوہدری شجاعت حسین سمیت حکومتی نمائندوں کو بھی کمپلیکس کے اندر جانے کی اجازت نہ دی ۔

حکا م کے دعوے کے مطابق منگل کو 27 خواتین آزاد کرائی گئی تھیں ۔ ان میں سے کسی نے اپنے یر غمالی بنائے جانے کی تصدیق نہیں کی ۔ بجائے اس کے یہ خواتین حکام سے درخواست کرتی رہیں کہ انہیں جامعہ حفصہ میں واپس جانے دیا جائے تاکہ وہ شہادت حاصل کر سکیں اور جب انہوں نے مولوی عبدا لرشید غازی کی شہادت کی خبر سنی تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ۔

جامعہ حفصہ کی کئی طالبات کے والدین نے رابطہ پر بتایا تھا کہ ان کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود طالبات اپنے گھروں کو واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔

ذریعہ آج اور جیو ٹی وی چینلز ۔ جنگ ۔ دی نیوز

پہلے خبریں پھر قیافے


کل یعنی 10 جولائی 2007

قبل دوپہر اعلان کیا گیا تھا کہ مولوی عبدالرشید غازی ایک تہہ خان میں چھُپے ہوئے ہیں ۔

بعد دوپہر کئی زبردست دھماکے ہوئے ۔

بعد دوپہر بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو حوالے نہ کیا اور گولیوں کے تبادلہ میں ہلاک ہو گئے ۔ ان کی لاش آپریشن کے مکمل طور پر ختم ہو جانے کے بعد نکالی جائے گی ۔

فوجی حکمرانوں کی طرف سے بار بار یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ کوئی طالبہ آپریش میں ہلاک نہیں ہوئی ۔

دوپہر تک آپریشن سائلنس کا وہ حصہ مکمل ہو گیا تھا جس میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر قبضہ کرنا اور وہاں موجود لوگوں کو ہلاک یا قید کرنا شامل تھا جس کے بعد متعلقہ علاقہ میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی اور بہت ساری ایمبولنسز اور بسیں منگوائی گئی تھیں ۔

فوجی حکام نے ایدھی سے 200 کفن مانگے جو اس نے بھجوا دئیے ۔

شام تک یہ خبر پھیل گئی کہ لاشیں دھڑادھڑ گاڑیوں میں بھر کر کہیں بھیجی جا رہی ہیں ۔


آج یعنی 11 جولائی

صبح 800 مزید کفن ایدھی سے مانگے جانے کی خبر نشر کی گئی مگر ٹی وی پر یہ خبر نشر ہونے کے کچھ دیر بعد کہہ دیا گیا کہ مزید 800 کفن نہیں چاہئیں ۔

پھر خبر نشر ہوئی کہ ایدھی کی ایمبولنسز کو علاقہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ہے ۔

دوپہر کو بتایا گیا کہ مولوی عبدالرشید کی لاش کا ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے ۔

بعد دوپہر ایک بجے کے قریب اعلان کیا گیا کہ مولوی عبدالرشید کی لاش ڈیرہ غازی خان میں اسکے آبائی گاؤں روجھان روانہ کر دی گئی ہے اور اسکی والدہ کو جامعہ فریدیہ کے پاس دفن کیا جا رہا ہے ۔

بعد دوپہر سوا دو بجے اعلان ہوا کہ مولوی عبدالرشید کی لاش اس وقت تک نہیں بھیجی جائے گی جب تک اسکی والدہ کی لاش نہیں مل جاتی ۔

گذشتہ رات یعنی 10 اور 11 جولائی کی درمیانی رات لال مسجد سے کئی زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں ۔ پھر 11 جولائی کو قبل دوپہر بھی زوردار دھماکے سنے گئے ۔

دوپہر 12 بجے کے قریب اعلان کیا گیا کہ آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور بعد دوپہر ایک بجے صحافیوں کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا دورہ کرایا جائے گا ۔ مگر ایسا ابھی ہوا نہیں جبکہ بعد دوپہر کے 3 بج چکے ہیں ۔

بعد دوپہر اعلان کیا گیا کہ آپریش میں مرنے والوں کی تعداد 150 سے 250 تک ہے لیکن اصل تعدار آپریشن مکمل ہونے کے بعد معلوم ہو گی ۔

فوجی حکام کی طرف سے پھر کہا جا رہا ہے کہ آپریشن ابھی ختم نہیں ہوا ۔


قیافے

ایدھی سے مانگے ہوئے مزید 800 کفنوں سے اسلئے انکار کر دیا گیا کہ مرنے والوں کی اصل تعداد عوام کو معلوم ہو گئی تو کہرام مچ جائے گا ۔

بقول فوجی حکام مولوی عبدارشید ایک تہہ خانے میں تھا اور سخت مقابلہ ہو رہا تھا ۔ پھر زوردار دھماکے ہوئے ۔پھر ان کی میت کو بھیجنے کے متعلق متضاد بیانات ۔ کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس کمرے میں مولوی عبدالرشید تھے اسے دھماکے سے اُڑادیا گیا جس کے نتیجہ میں مولوی عبدالرشید اور اس کے خاندان کے دوسرے لوگ جاں بحق ہو گئے ؟ اور چونکہ مولوی عبدالرشید اور اس کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں یا ان کے چہرے دھماکے کی وجہ سے مسخ ہو گئے ہیں اسلئے تاخیر کی اصل وجہ یہ ہے کہ وارثوں کے حوالے کیا جائے یا پھر اسے بھی اکبر بگٹی کی طرح دفن کر دیا جائے ۔ مولوی عبدالرشید کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا تھا یا جراحی کے ذریعہ ان کی شکل بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی جیسا کہ صدام حسین کے بیٹوں کے ساتھ امریکیوں نے کیا تھا ؟

آج جو دھماکے ہوئے ان کا مقصد شیطانی ہو سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر خفیہ کھوہ بنا کر اس میں اسلحہ یا بارود کا انبار لگا کر بعد میں صحافیوں کو دکھا دیا جائے کہ دیکھو لال مسجد کے جنگجوؤں کا ذخیرہ ۔ یا غار نما بنا کر دکھایا جائے کہ یہ دیکھو جنگجوؤں نے لڑائی کی لمبی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی ۔ وغیرہ

صحافیوں کو بعد دوپہر ایک بجے کے دورہ کا کہہ کر اسے مؤخر کر دینا بھی شیطانی ہو سکتا ہے جس میں مولوی عبدالعزیز اور مولوی عبدالرشید کے خاندان کو مزید کسی طریقہ سے بدنام کرنے کی منصوبہ بندی شامل ہو سکتی ہے ۔

آپریشن سائلنس یا خاموش سازش

ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل راحت لطیف نے کہا کہ جذباتیت کی ابتداء لال مسجد والوں نے کی اور انتہا حکومت نے کر دی۔انہوں نے کہا کہ حکومت چند لوگوں کو معافی دیکر اس خوں خرابے سے بچ سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے ہندوستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے تین سو مسافروں کی جان بچانے کے لیے مولانا مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا تھا حالانکہ وہ لوگ ہندوستان کی نظر میں بہت بڑے مجرم تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اپنے لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو معاف کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد نے لال مسجد آپریشن کو قتلِ عام اور ایک سانحہ قرار دیا اور کہا کہ پوری فوج کو ضمیر کا مجرم بنا دیا گیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ متعدد گواہیاں آ گئی ہیں کہ ’مذاکرات ایوان صدر نے ناکام بنائے اور مسجد اور خواتین کا تقدس خاک میں ملا دیا گیا‘۔انہوں نے الزام لگایا کہ مذاکرات کے عین دوران حکومتی مذاکراتی ٹیم کی موجودگی میں حملے کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لال مسجد میں قتل عام کر کے قوم اور فوج کے درمیان ایک خونی لکیر کھینچ دی گئی ہے اور جنرل مشرف کی سربراہی نے پوری قوم کو فوج کے روبرو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ جب مذاکرات کامیاب ہوچکے تھے عین اس وقت نادیدہ قوت نےاپنا کام دکھایا اور نتیجے کے طور پر اسلام آباد کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مشرف پاکستان میں امریکی رٹ قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسے خوش کرنے کے لیے ملک کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے۔انہوں نے صدر مشرف کو مشورہ دیا کہ وہ امریکی رٹ قائم کرنےکی بجائے اللہ کی رٹ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ لال مسجد کے واقعہ کے بعد ملک کے انتشار میں اضافہ ہوگا۔

جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید نے کہا کہ مسلم لیگ( ق) کے سربراہ شجاعت حسین، علماء کمیٹی اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو ایک سازش کےتحت سبوتاژ کر کے پورے اسلام آباد کو خاک و خوں میں نہلا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عدم استحکام بڑھے گا۔

دُعا

میں مندرجہ ذیل دعا مانگتا ہوں اور دیکھتا ہوں کتنے قارئین ہیں جو اس پر آمین لکھتے ہیں ۔

اے خالق و مالکِ حقیقی ۔ رحمٰن و رحیم ۔ قادر و کریم ۔ یومِ جزا کے مالک آپ ہمشہ انصاف کرتے ہیں ۔ آپ یومِ جزا کو تو انصاف کریں گے ہی ۔ میری آپ سے انتہائی انکساری سے استدعا ہے کہ جھُوٹوں اور ظالموں کو خواہ وہ حکومت میں ہیں یا نہیں ہیں اس سزا کا کچھ حصہ اس دنیا میں بھی دے دے تا کہ وہ بے قصور لوگوں پر ظلم کرنے سے ڈرنے لگیں ۔

اگر یہ صحیح ہے تو ۔ ۔ ۔

حکومت پاکستان اور لال مسجد کی انتظامیہ کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرنے والاسرکاری افسر کو گرفتار کرلیا گیا ہے تاہم ابھی اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جارہا اورمزید تحقیقات کی جارہی ۔ذرائع کے مطابق جب بھی حکومت اورلال مسجد کے درمیان مفاہمت ہوتی نظر آتی تو یہ سرکاری افسر دونوں طرف غلط فہمیاں پیداکردیتا اورمعاملات پھر تعطل کا شکار ہوجاتے ۔ یہ بھی بتایا گیاہے کہ اسی سرکاری افسر نے لال مسجد کے مہتمم اعلی مولانا عبدالعزیز غازی کو برقعہ پہن کر باہر آنے کامشورہ دیا اور کہا کہ حکومت اور آپ کے درمیان ڈائیلاگ کروا دوں گا جس پر مولانا عبدالعزیز برقعہ پہن کر باہر نکل آئے اور گرفتار ہوگئے ۔ذرائع کے مطابق حکمران جماعت کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اوروفاقی وزیر اعجاز الحق جب بھی لال مسجد کی انتظامیہ سے معاملات طے پاکر باہر نکلتے تو یہ افسر لال مسجد جا کر حکومت کی غلط پلاننگ بتاکر دونوں بھائیوں کو مشتعل کردیتا لیکن ابھی حکومت اس گرفتار شخص کانام بتانے سے گریز اں ہے جبکہ لال مسجد کی انتظامیہ بھی اس شخص کا نام نہیں بتا رہی ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور لال مسجد کی درمیان تنائو پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ موجود تھا جسکے مذموم ارادے کامیاب ہوئے اور پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد آج میدان جنگ بناہوااور پاکستان کے مدارس دنیا بھر میں اپنا مقام کھو چکے ہیں