اندر کیا ہوتا رہا

لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے گرد ونواح میں 3 جولائی سے 13 جولائی تک کیا ہوتا رہا انسانوں میں سے سوائے آپریشن سائلنس یا سن رائز پر معمور فوجی افسران کے کسی کو معلوم نہیں کیونکہ صحافیوں سمیت کسی کو 2 جولائی کے بعد آپریشن والے علاقہ میں نہیں جانے دیا گیا تھا حتٰی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولنسز کو بھی نہیں جانے دیا گیا تھا ۔

لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے اندر محصور انسانوں پر کیا گذری وہ مکمل تو شائد کبھی معلوم نہ ہو سکے کیونکہ اندر محصور انسانوں کی اکثریت اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ عدالتِ عظمٰی کے حکم کے بعد زخمیوں تک ان کے چند قریبی عزیز پہنچے ہیں تو کچھ اندر کی خبر آنا شروع ہوئی ہے ۔

ایک زخمی نے بتایا کہ پہلی شدید فائرنگ اور گولہ باری [3 یا 4 جولائی کو] اس وقت ہوئی جب سب مرد لال مسجد کے صحن میں فجر کی نماز کے سلسلہ میں موجود تھے ۔ پھر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ۔ طلباء و طالبات زخمی ہوتے رہے اور مرتے رہے ۔
دوسری بار شدید فائرنگ اور گولہ باری اس وقت ہوئی جب تیس طالبات جو فوج کی گولہ باری سے شہید ہو گئی تھیں ان کی نمازٍ جنازہ پڑھی جا رہی تھی ۔ ان طالبات کو لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے احاطہ میں دفن کیا گیا ۔

غالباً 4 جولائی کو بجلی اور پانی بند کر دیئے گئے اور دو دن بعد گیس بھی بند کر دی گئی ۔ شروع کے چند دن کچھ کھانے کو تھا ۔ باقی دن درختوں کے پتے حوض کے پانی کے ساتھ کھاتے رہے ۔ پانی بند کر دینے کی وجہ سے ٹائیلٹس کی بدبُو باہر تک پھیل گئی تھی ۔

آخری شدید فائرنگ اور گولہ باری جس کو حکومت نے آپریشن کا نام دیا وہ بھی فجر کی نماز کے وقت شروع ہوئی اور اس میں کافی لوگ زخمی اور شہید ہوئے ۔ ان زخمیوں میں وہ خود بھی شامل تھا ۔ جامعہ حفصہ پر بہت زیادہ گولے پھینکے جاتے رہے جن سے عمارت کو بھی نقصان پہنچا اور آگ نے پوری عمارت کو گھیر لیا ۔ جامعہ میں سے جو طالبات اور معلمات آگ اور دھوئیں کی وجہ سے جلدی باہر نکل آئی تھیں انہیں فوجی گرفتار کر کے لے گئے ۔ باقی تمام طالبات ۔ کچھ معلمات اور کچھ طلباء جو ان کی حفاظت کر رہے تھے سب جل گئے ۔

اسلام آباد ایف 8 کا دھماکہ خود کُش نہیں تھا

حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ منگل کی رات ڈسٹرکٹ بار کورٹ کے باہر ہونے والے دھماکہ کو خودکش حملہ قرار دے رہی ہے جبکہ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ خیز مواد سڑک کے کنارے پڑی ہوئی ریت کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔ ریت کا یہ ڈھیر اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کی جانب سے ضلع کچہری کی طرف جانے والی سڑک کی تعمیر کے لیے پھینکا گیا تھا۔

محمد حنیف نے، جو کہ ضلع کچہری ایک ہوٹل کے مالک ہیں، بتایا کہ وہ اپنے ہوٹل پر موجود تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا جس سے ان کے ہوٹل کے شیشے اور برتن ٹوٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی خودکش حملہ آور کو نہیں دیکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد ریت کے اس ڈھیر میں چھپایا گیا تھا۔

آپریشن سن رائز کیسا سورج چڑھائے گا ؟

منگل 2 جولائی بعد دوپہر شروع ہونے والی لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس پر فوج کشی جسے پہلے آپریشن سائلنس [Operation Silence ] کہا گیا تھا 11 جولائی کو آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل وحید ارشد نے بتایا کہ اس کا نام آپریشن سن رائز [Operation Sunrise ] تھا ۔


ماضی قریب

جو کچھ 2 جولائی سے 11 جولائی 2007 تک ہوا اسے حکومتی شعبدہ بازوں نے مخمل میں لپیٹنے کی کوشش کی لیکن اس مخمل میں سے ٹپکتا ہوا خون ان کو نظر نہیں آیا یا وہ جان بوجھ کر اس سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔

جامعہ حفصہ کو مسمار کرنے کا حکم صادر ہو چکا ہے ۔ اس میں پڑھنے والی طالبات جو زندہ بچ گئی ہیں وہ اب اپنی تعلیم کہاں مکمل کریں گی ؟ ان طالبات میں بہت سی یتیم اور بے سہارا ہیں جنہیں تعلیم کے ساتھ کھانا اورکپڑے بھی جامعہ حفصہ کی طرف سے ملتے تھے ۔ ایسی طالبات کا کیا بنے گا ؟ وہ کہاں جائیں گی ؟ جامعہ حفصہ پر حملہ کے وقت طالبات کی تعداد 2000 سے کچھ اُوپر تھی ۔ یہی صورتِ حال جامعہ فریدیہ کی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں طلباء تھے ۔کیونکہ جامعہ فریدیہ کی دو ایکڑ زمین اور عمارت جو کہ غیر قانونی نہیں ہے پھر بھی اسے سیکیورٹی ایجنسیز کے حوالے کرنے کا حکم صادر ہو چکا ہے ۔ پہلے ہی اسلام آباد کے بہترین سیکٹروں کا ایک تہائی حصہ سیکیورٹی ایجنسیز کے قبضہ میں ہے ۔


حال

موجودہ حکومت کی منصوبہ بندی کھُل کر سامنے آ چکی ہے اور حکومت کی “دہشتگردی کے خلاف جنگ” بھی واضح ہو چکی ہے ۔ یہی کچھ اسلام دشمن طاقتیں چاہتی ہیں اور موجودہ حکومت ان کی تابعداری میں اپنے آپ کو بھی بھُول چکی ہے ۔ ابھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں خون خرابہ جاری تھا کہ حکومتی مُہروں نے مدرسوں کی جدید روشن خیال خطوط پر اصلاح کی باتیں شروع کر دی تھیں اور یہ بھی زور دار الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ جو نہیں مانے گا اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ۔

آپریشن سن رائز شروع کرنے سے قبل حکومتی اہلکاروں نے لال مسجد اور جاممعہ حفصہ کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا عندیہ دیا تھا اور سب نے دیکھ لیا کہ اس قانونی کاروائی کا مطلب کیا تھا ۔ چنانچہ یا تو مدرسوں میں مسلمانوں کے بچوں کو اسلام دشمنوں سے دوستی اور روشن خیالی جس میں ناچ گانا شراب سب جائز ہو پڑھائی جائے گی یا پھر یکے بعد دیگرے تمام دینی مدرسے آپریشن سن رائز جیسی قانونی کاروائی سے گذر کر ملیامیٹ ہو جائیں گے ۔


مستقبل ؟ ؟ ؟

آج ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارے بچے [میرے بچوں کے بچے] دین اسلام کا کیا سبق حاصل کریں گے ؟
وہ جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ ہم تک پہنچایا ؟
یا وہ جو جارج واکر بُش اور دیگر اسلام کے دُشمن ہمیں پڑھانا چاہتے ہیں ؟
یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اگر عالِم دین ختم کر دیئے گئے تو پاکستان کی آئندہ نسل کو دین کا صحیح عِلم کون سکھائے گا ؟
اور کیا ہماری آنے والی نسلیں مسلمان ہی ہوں گی ؟

ایف ۔ 8 مرکز میں دھماکہ

اسلام آباد کی ضلع کچہری ایف 8 مرکز میں ہے جو ہمارے گھر سے 350 میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ آج اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر چیف جسٹس صاحب نے وکلاء کنوینشن سے خطاب کرنا تھا ۔ ہزاروں لوگ مرکز میں پہنچ چکے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی ۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لوگ اور عام شہری بھی تھے ۔ رات آٹھ بجے کے بعد سیاسی جماعتوں کے پنڈال میں زور دار دھماکہ ہوا جس کی دھمک ہمار ے گھر میں بھی محسوس ہوئی ۔ چیف جسٹس صاحب کا جلوس ابھی دور تھا ۔

اس دھماکہ کے نتیجہ میں 11 افراد ہلاک اور  50 زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 20 کی حالت تشویشناک ہے ۔ مرنے والوں میں ایک خاتون اور دو بچیاں بھی شامل ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کیلئے سیکیورٹی کا اتنا ناقص انتظام تھا جبکہ کے علاقے کا تھانہ اسی مرکز میں ہے اور پولیس اور سیکیورٹی کے بڑے افسران کے دفاتر بھی اسی مرکز میں ہیں ۔

عینی شاہد کیا کہتا ہے ؟

جہاں تک مجھے حقائق کا علم ہے تو عبدالرشید غازی نے آخری وقت تک مذاکرات کامیاب بنانے کی پوری کوشش کی۔ وہ اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بچانا چاہتے تھے لیکن عزت کے ساتھ۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ حکومت کے ساتھ ساتھ ان علماء کا رویہ بھی ہے جو آخری وقت میں چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ لال مسجد کے باہر موجود تھے۔ بعض علماء کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ تھا۔ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمان خلیل موبائل فون پر عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے اور ان کے ساتھ موجود بعض علماء آپس میں قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ علماء کے قہقہے روکنے کیلئے چوہدری شجاعت حسین کے کچھ ساتھیوں کو ان سے باقاعدہ درخواست کرنی پڑی۔ شام چھ بجے شروع ہونے والی بات چیت رات کے پچھلے پہر میں داخل ہوئی تو ان علماء نے اسلام آباد کے بلیو ایریا سے کھانا منگوا کر کھانا شروع کردیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین اور فضل الرحمان خلیل بسکٹوں اور پانی پر گزارا کر رہے تھے۔ ان دونوں نے عبدالرشید غازی سے پوچھا کہ کیا آپ نے کچھ کھایا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ اگر آپ چند سو افراد کا کھانا بھجوا دیں تو ہم سمجھیں گے کہ آپ واقعی ہمارے خیر خواہ ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے فوری طور پر تین سو آدمیوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کیلئے اپنے آدمی دوڑائے۔

اس دوران عبدالرشید غازی اپنے چند مبینہ غیر ملکی ساتھیوں کو حکومت کے حوالے کرنے پر راضی ہو چکے تھے کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی عمروں کے طلباء تھے۔ وہ لال مسجد اور جامعہ فریدیہ بھی چھوڑنے والے تھے۔ موقع پر موجود علماء جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرانا چاہتے تھے لیکن حکومت راضی نہ تھی۔ یہ اتنا اہم مسئلہ نہ تھا۔ اصل مسئلہ لال مسجد اور محصور سیکڑوں طلباء و طالبات کی زندگیاں بچانا تھا لیکن مولانا حنیف جالندھری اور ان کے ساتھی علماء اس مسئلے پر مذاکرات کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف مولانا فضل الرحمان خلیل وہاں رہ گئے۔ انہوں نے آخر میں عبدالرشید غازی کو 20 عورتیں اور مرد باہر بھیجنے پر راضی کر لیا لیکن اس دوران عبدالرشید غازی کے موبائل فون کی بیٹری ڈاؤن ہوگئی اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمان خلیل اور چوہدری صاحب رابطہ دوبارہ بحال کرنے کا راستہ نکال ہی رہے تھے کہ آپریشن شروع ہو گیا۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود بھوکے پیاسے مردوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اور مجبور عورتوں نے خاموشی سے موت کے منہ میں جانا قبول کر لیا۔ کتنی عورتیں اور بچیاں شہید ہوئیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ عبدالرشید غازی کی شہادت سے اگلے دن حکومت نے صحافیوں کو لال مسجد کا دورہ کروایا اور بہت سا اسلحہ دکھایا جس میں راکٹ لانچر بھی موجود تھے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھیوں نے یہ راکٹ لانچر کیوں نہ چلائے ؟

اس آپریشن سے اگلے روز اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین تھری میں ایک خاتون وزیر مملکت نے ایک ڈانسنگ کلب کا افتتاح کیا۔ اس علاقے میں شراب فروخت کرنے کی دکان بھی قائم ہوچکی ہے۔ کیا ڈانسنگ کلب اور شراب خانے قائم کر کے پاکستان میں انتہاء پسندی کم ہو جائے گی ؟ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی دراصل لبرل اور سیکولر انتہا پسندی کا ردعمل ہے۔ جب تک مغرب پسند لبرل اور سیکولر حکمران طبقہ اپنی انتہاء پسندی ختم نہیں کرتا معاشرے میں اعتدال پسندی فروغ نہ پائے گی۔ ذرا سوچئے اگر برطانوی حکومت کی پالیسیاں وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں کو انتہا پسند بنا سکتی ہیں تو ہمارے حکمرانوں کی انتہا پسندی ہمارے نیم پڑھے لکھے مذہبی نوجوانوں کو کدھر لیکر جائے گی ؟

تحریر ۔ حامد میر

ان کا کیا قصور ؟

ایک نیک باعمل مسلمان خاندان سے ہماری علیک سلیک ہے ۔ ان میں ایک جوان انجنیئر ہے جس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں ۔ اس کی بیوی چھ ماہ کیلئے اپنے میکے گئی جو ملک سے باہر ہیں ۔ ان کی ایک ملازمہ ہیں ۔ انجنیئر صاحب نے سوچا کہ ملازمہ فارغ کیا کرے گی اس کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں ۔ لکھنا پڑھنا اور دین کا کچھ سیکھ لے گی ۔ یکم جولائی کو وہ اسے جامعہ حفصہ میں داخل کرا آیا ۔ دوسرے دن بعد دوپہر اچانک آپریشن شروع ہو گیا ۔ ملازمہ نے گھر پر ٹیلیفون کیا اور کہا “یہاں گولیاں چل رہی ہیں ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے آ کر لے جائیں”۔

انجنیئر صاحب ملازمہ کو لینے گئے تو اسے جامعہ حفصہ سے ایک کلو میٹر دور ہی روک دیا گیا ۔ واپس گھر جا کر اس نے ٹیلیفون پر جامعہ حفصہ سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں جونہی گولیاں چلنی بند ہوں گی ان کی ملازمہ کو باہر نکال دیا جائے گا ۔ دوسرے دن ملازمہ چار طالبات کے ساتھ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے بھائی کے گھر جا کر انجنیئر صاحب کو اپنی خیریت کا ٹیلیفون کر دیا ۔

انجیئر صاحب نے جو اپنی ملازمہ کے متعلق مدرسہ حفصہ میں ٹیلیفون کیا تھا اس کے نتیجہ میں دوسرے دن ان کے گھر کچھ لوگ سادے کپڑوں میں آئے اور انہیں گرفتار کر کے لے گئے اور وہ ابھی تک اڈیالہ جیل میں بند ہیں ۔ ان کی بیٹیاں محلہ داروں نے ان کے رشتہ داروں کے گھر پہنچادی تھیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی طرح کے 80 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

جو مّلّا نہیں وہ کیا کہتے ہیں ؟

جنگ آن لائین کے مطابق عبدالستار ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی صاحبہ نے کہا کہ لال مسجد کے سانحے میں بے دریغ طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا ہے، اگر یہ معاملہ پہلے ہی ہمارے سپرد کردیا جاتا تو ہم بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے یہ معاملہ حل کرسکتے تھے، لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوت تصفیے کی تمام کوششیں ناکام بنا رہی تھی۔ مذاکرات سے قبل بہت بڑے آپریشن کی تیاریاں کرلی گئی تھیں اور فوج نے بڑے پیمانے پر مورچے بنا رکھے تھے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ تمام تیاریاں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ لال مسجد کے اندر موجود عبدالرشید غازی سمیت کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ۔ ہمیں اعجاز الحق سمیت وزراء بتا رہے تھے کہ یہ پیغام آیا ہے اور یہ دھمکی دی گئی ہے ، جب بھی کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی تھی وہ برق رفتاری سے فون سننے دور فاصلے پر چلا جاتا تھا۔ سانحہ لال مسجد اسلامی تاریخ کا بدترین سیاہ باب ہے جس میں ایک طرف تو لچک کا مظاہرہ کیا گیا دوسری طرف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایدھی صاحب تو بعد میں پہنچے مگر میں نے فوج اور لال مسجد کے اندر موجود افراد سے چیخ چیخ کر اپیل کی کہ نرمی اختیار کی جائے مگر میری کسی نے بھی نہیں سنی ۔ ایک سوال کے جواب میں بلقیس ایدھی نے کہا کہ مجھے مولانا عبدالرشید دہشت گرد نہیں لگتے۔ دہشت گردوں کی تو صورت ہی علیحدہ ہوتی ہے

عبدالستار ایدھی نے کہا کہ مجھے لگتا تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی شاید بے بس ہوں اور یرغمال ہوں مگر یہ محض ہمارا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزیں پراسرار تھیں، مذاکرات ہورہے تھے اور اخبار نویسوں پر وہاں جانے پر مکمل پابندی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ آپریشن کرنا ہے اور یہ سب کچھ ختم کردینا ہے اور پھروہی ہوا آپریشن ہوا سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں نے میگا فون پر اعلان کیا تھا کہ عبدالرشید غازی اگر سرینڈر کردیں تو ایدھی فاؤنڈیشن کروڑوں روپے خرچ کرکے لال مسجد کا انتظام سنبھالے گی، مگر باہر بھی خوف کی فضا تھی اور ہر طرف مورچے تھے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔