بہترین تصویر

نیشنل جیوگرافک کے مطابق صحرا میں اُونٹوں کے ایک قافلہ کی سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اُوپر سے لی گئی اس تصویر کو سال 2005 کی بہترین تصویر قرار دیا گیا تھا ۔

اس تصویر کی خوبی کیا ہے ؟ اگر قارئین نہ بتا سکے تو جواب انشاء اللہ کل تحریر کیا جائے گا ۔

ہماری غلامی کے مزید ثبوت

میں اپنے ملک کی غلامی کا ایک ثبوت 25 اگست کو پیش کیا تھا ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ بھی غلام بنائی جا چکی ہے اس پر صدر جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں “میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا”۔ فوج اور پارلیمنٹ دونوں کو امریکہ کا غلام بنایا جا چکا ہے تو پھر ڈکٹیشن کیسی ؟ اب مجھے ایک شخص کی اس بات میں وزن محسوس ہونے لگا ہے کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کا آپریشن امریکی کنٹرول کر رہے تھے ۔

دوسرا ثبوت

ہفتہ 25 اگست کو سینیٹ کی سپورٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزیر مملکت طارق عظیم نے یو ایس ایڈ کی ڈائریکٹر ایلے نور ویلنٹائن کا خط پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ یو ایس ایڈ پارلیمانی انٹرن شپ پروگرام کے تحت پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں میں ان کا ایک نمائندہ موجود ہوا کرے گا جو کمیٹیوں کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس [minutes] لے گا اور کمیٹیوں کی رپورٹس تیار کیا کرے گا۔ طارق عظیم نے اس معاملے کو پارلیمانی معاملات میں کھُلی غیر ملکی مداخلت قرار دیا اور کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس بند کمرے میں منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ اراکین کھُل کر متعلقہ امور پر بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ دفاع اور دفاعی کمیٹی اور دیگر کمیٹیاں نہایت حسّاس معاملات پر غور کرتی ہیں جن کا افشا یا متعلقہ حسّاس دستاویزات کی کسی غیر ملکی ایجنسی تک رسائی قومی مفادات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹیوں میں غیر ملکی ایجنسیوں کی شرکت کو ممنوع قرار دیا جائے۔ علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں غیر ملکی سرمائے سے چلنے والی تین این جی اوز کام کررہی ہیں جبکہ ایک این جی او پلڈاٹ کو پارلیمنٹ بلڈنگ میں دفتر بھی دے دیا گیا ہے۔ یو ایس ایڈ کے علاوہ امریکی نیشنل ڈیمو کریٹک انسٹی ٹیوٹ (این ڈی آئی) بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تیسرا ثبوت

کابل میں اتحادی افواج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اتحادی افواج نے گولہ باری کے دوران سرحد کے دونوں اطراف واقع طالبان جنگجووٴں کے چھ ٹھکانے تباہ کردیئے جن میں تین افغانستان اور تین پاکستانی حدود میں تھے کارروائی میں 15 طالبان جنگجو ہلاک ہوئے ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے افغان سکیورٹی فورس کو پاکستانی علاقے میں موجود طالبان جنگجووٴں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دی گئی۔ دریں اثناء پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے اتحادی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو ہماری طرف سے کوئی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی افغان فورسز نے پاکستانی حدود میں کوئی کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں نہ تو کسی نے اجازت مانگی ہے اور نہ کوئی اجازت دی گئی ۔

پچھلے 8 سال میں ہوشرُبا ترقی

صدر جنرل پرویز مشرف نے پچھلے سال کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت بہت ترقی کر گئی ہے جس کا ثبوت موبائل فون کے 5 ملین کنکشن بتا تھا ۔ میرے خیال کے مطابق ایسا سرکاری ادارے پی ٹی سی ایل کی عوام کو سستے اور آسان طریقہ سے کنکشن مہیاء مین ناکامی کے باعث ہوا تھا ۔ ہاں حکومتی اخراجات کے لحاظ سے پاکستان نے پچھلے 7 سال میں بہت ترقی کی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔

جب سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی غیرآئینی حکومت کو نظریہ ضرورت کا جواز مہیا کیا تو ساتھ ہی الیکشن کروانے کی شرط لگا دی تھی ۔ پرویز مشرف نے تمام سیاسی لوٹوں کو لُڑھکنے میں مدد دی جس کے عوض انہیں لُوٹ مار کی کھُلی اجازت دے دی ۔ خود بھی دونوں ہاتھوں سے مال لُوٹا مگر پارسائی کے نعرے لگاتے رہے ۔ کچھ اعداد و شمار یہ ہیں

اخراجات کی مد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 1999 تا جون 2000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 2006 تا جون 2007 ۔ ۔ اضافہ
ایوانِ صدر [پرزیڈنٹ ہاؤس] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7 کروڑ 50 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 30 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 412 فیصد
ایوانِ وزیر اعظم [پرائم منسٹر ہاؤس] ۔ ۔ ۔ 9 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36 کروڑ 70 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 375 فیصد
قومی اسمبلی [نیشنل اسمبلی] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 کروڑ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ارب 60 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 403 فیصد
سینٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 کروڑ 10 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 کروڑ 70 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ 520 فیصد
وزراء اور مشیر وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 کروڑ 40 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 کروڑ 50 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ 646 فیصد

کل اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 55 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ارب 41 کروڑ 30 لاکھ روپے ۔ ۔ 433 فیصد 

ہماری قومی اسمبلی کا ایک رُکن قوم کو اوسطاً 30 لاکھ روپے سالانہ اور ایک سینیٹر 60 لاکھ روپے سالانہ میں پڑتا ہے ۔

اس کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمشن نے غیر ملکی دوروں پر 18 کروڑ روپے خرچ کئے اور ان دوروں کا پاکستان یا اس کے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ اگر یہی روپیہ پاکستان میں تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جاتا تو 70 ہزار سکولوں میں پینے کے پانی اور ٹائلٹس کا بندوبست کیا جا سکتا تھا جو کہ اب تک موجود نہیں ہے اسی رقم کے اندر اساتذہ کی وہ ہزاروں اسامیاں بھی پُر کی جا سکتی تھیں جو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے خالی پڑی ہیں ۔

صوبائی اخراجات کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔

ربّا سوہنیا ۔ میں کِتھے جاواں

ربّاسوہنیا ۔ میں کِتھے جاواں
کِنوں جا دل دا حال سُناواں
تیریاں نعمتاں نیں سجے کھبے
تیریاں برکتاں نیں اُتے تھلے
پر اساں کی ظلم کمایا اے
چور لفنگیاں نوں اُتے بٹھایا اے
اِک چڑھدی مہنگائی ستایا اے
اُتوں گرمی نے پرسیو وگایا اے
وڈیریاں دی واپڈا واہ وا موج بنائی اے
ساڈی بجلی تے لوڈ شیڈنگ لائی اے
پانی کدی غیب کدی آوے قطرہ قطرہ
بُڈھا کی ۔ جوان بھی ہو جاوے سترہ بہترہ
بِِل لَیوَن تِن مہینیاں دا ۔ روپیّہ سولاں سو
پانی نہ چھڈدے ۔ کہندے ٹینکر لَے لو

اُردو ترجمہ
میرے اچھے اللہ میں کہاں جاؤں
کسے جا کے دل کا حال سناؤں
تیری نعمتیں ہیں دائیں بائیں
تیری برکتیں ہیں اُوپر نیچے
لیکن ہم نے کیا گناہ کیا ہے
چور بدمعاشوں کو حاکم بنایا ہے
ایک روزافزوں مہنگائی نے ستایا ہے
اس پر گرمی نے بھی پسینہ نکالا ہے
بڑے لوگوں کو واپڈا نے آرام پہنچایا ہے
ہماری بجلی پر لوڈ شیڈنگ لگائی ہے
پانی کبھی نہ آئے اور کبھی آئے قطرہ قطرہ
بوڑھے کیا جوانوں کے بھی سر گھوم جاتے ہیں
بِل یہ لیتے ہیں تین ماہ کا روپے سولہ سو
پانی نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں ٹینکر لے لو

کہتا ہوں سچ

کہتا ہوں ميں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہيں مُجھے ۔ سچ بولنے والے کو نہ صرف آخرت ميں بلکہ اس دنيا ميں بھی فائدہ ہے ۔ جھوٹ بولنے والا گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور اگر پکڑا نہ بھی جائے قابلِ اعتماد نہيں رہتا ۔ ميری زندگی کے کئی واقعات ميں سے صرف تين دلچسپ واقعات جن سے ميری حوصلہ افضائی ہوئی ۔ سبحان اللہ ۔

آدھی صدی سے زائد قبل ميں شايد ساتويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ایک دن گھر سے سودا لينے نکلا ۔ ميرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا بارش شروع ہو گئی تو ميں نے بھيگنے سے بچانے کيلئے نوٹ اپنی شلوار کے نيفے ميں دبا ديا اور بھاگنے لگا ۔ دکان پر پہنچ کر ديکھا تو نوٹ غائب ۔ واپس ہو کر تلاش کيا اور آس پاس کے دکانداروں سے بھی پوچھتا گيا لیکن نہ ملا ۔ میں گھر سے مزید پيسے لا کر جب واپس آ رہا تھا تو ميں نے سڑک پر ايک دس روپے کا نوٹ ديکھا ۔ مجھے قريبی دکاندار نے کہا “يہ نوٹ اُٹھا لو تم بھول گئے ہو گے تمہارے پاس دس کا نوٹ ہو گا” ليکن ميں نے نہ ليا تو دکاندار نے مجھے کہا “يہ پانچ روپے جو تمہارے گم ہوئے تھے اور پانچ روپے تمہارا انعام ۔ دیکھو اب یہ واپس نہیں کرنا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا”۔ اور دس کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیا ۔ شائد وہ دس کا نوٹ اس دکاندار ہی نے میرا امتحان لینے کیلئے سڑک پر رکھا تھا ۔

ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں سيکنڈ ايئر ميں تھا ۔ چٹھيوں میں گھر آیا تھا اور چھٹیاں ختم ہونے پر کالج جانے لگا تو والدہ نے کہا يہ دس کلو چاول لے جاؤ ہوسٹل ميں معلوم نہيں کيسے چاول پکتے ہوں گے ۔ ميں بس پر لاہور جا رہا تھا تو گجرات کے قريب پوليس نے بس روک کر چيکنگ شروع کی ۔ ايک آدمی نے اپنی چادر ميں دو کلو چاول باندھے ہوئے تھے اسے بس سے نيچے اتار ليا گيا ۔ ميرا کنستر دروازے کے پاس ہی پڑا تھا ۔ پوليس والے نے پوچھا “يہ کس کا کنستر ہے ؟” ميں نے کہا “ميرا”۔ تو کہنے لگا “اس ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول”۔ تو وہ بس سے نيچے اُتر گيا ۔ چند منٹ بعد بس چل پڑی تو کنڈکٹر نے مجھے پوچھا “بابو جی ۔ اس کنستر ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول ہيں کھول کر ديکھ لو دس کلو ہيں”۔ اس پر پوری بس ميں زور دار قہقہہ پڑا اور ڈرائيور کہنے لگا “اس بابو کو اس کے سچ نے بچا ديا” ۔

ميں واہ کينٹ ميں رہتا تھا کہ دسمبر 1964 ميں ميرے ايک دوست حيدرآباد سے اور ایک راولپنڈی سے صبح سويرے آئے اور کہنے لگے طورخم چلنا ہے ۔ طورخم سے واپسی پر ہم لنڈی کوتل ٹھہرے اور دوپہر کا کھانا دنبے کی چربی ميں تلے ہوئے تکے اور نان کھايا ۔ قہوہ پيا اور لنڈی کوتل بازار ميں گھومنے لگے ۔ اس زمانہ ميں وہاں سمگل شدہ اشياء بہت سستی ملتی تھيں ۔ ميرے دوستوں نے ايک پريشر کُکر ۔ ايک ڈنر سيٹ ۔ ايک چھوٹا فرج اور کچھ ديگر چيزيں خريديں ۔ ميں نے ايک ڈبہ چين کی سبز چائے ۔ 3 جرابيں اور ايک درجن چاول کھانے کے چمچے خريدے ۔ یہ اشیاء قبائلی علاقہ سے باہر ليجانے پر پابندی تھی اور کبھی کبھی سخت چيکنگ ہوتی اور سارا سامان ضبط کر ليا جاتا ۔ ہماری جيپ جب اُس علاقہ سے باہر نکلی تو سڑک پر کسٹم پوليس نے تمام گاڑياں روکی ہوئی تھيں اور سواريوں کو اُتار اُتار کے چيکنگ ہو رہی تھی ۔ ہماری باری آنے ميں کافی دير کی اُميد تھی اور سردی تھی ميں جا کر گرم گرم چائے لے آيا اور ہم جيپ ميں بيٹھ کر پينے لگے ۔ ميں فرنٹ سيٹ پر بيٹھا تھا ۔ کسٹم پوليس والے نے مجھ سے پوچھا “کوئی سامان ہے ؟” ميں نے کہا “ہاں ہے”۔ تو اس نے پوچھا “کيا ہے ؟” ميں نے چيزوں کا نام لينا شروع کر ديا ۔ وہ پوری بات سُنے بغیر چلا گیا اور پتہ نہيں جا کر اپنے آفيسر سے کيا کہا کہ اس نے آ کر کہا ” آپ جا سکتے ہيں”۔ اٹک پُل [دریائے سندھ کا پل] کے قريب پہنچے تو گاڑيوں کی لمبی قطار ديکھ کر ميرا راولپنڈی والا دوست کہنے لگا “خدا کيلئے اب چُپ رہنا” ۔ ميں نے کہا “اگر مجھ سے پوچھا تو ميں جھوٹ نہيں بولوں گا” ۔ کوئی دس منٹ بعد انسپکٹر نے کہا کہ آپ اور پيچھے کی گاڑياں پُل کے پار چلے جائيں وہاں چيکنگ ہو گی ۔ پُل کے پار پہنچنے تک مغرب کی اذان ہو گئی تھی ميں نے کسٹم والے سے کہا “آپ گاڑی چيک کرو ميں نماز پڑھ کے ابھی آتا ہوں” ۔ ميں واپس آيا تو اس نے ہاتھ ملا کر مجھے اللہ حافظ کہا ۔ ميرے دوستوں نے بتايا کہ اس نے جيپ کے اندر ديکھا تھا مگر کچھ نہ کہا ۔

ہميشہ سچ بولئے اور مزے اُڑائيے ۔