پچھلے 8 سال میں ہوشرُبا ترقی

صدر جنرل پرویز مشرف نے پچھلے سال کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت بہت ترقی کر گئی ہے جس کا ثبوت موبائل فون کے 5 ملین کنکشن بتا تھا ۔ میرے خیال کے مطابق ایسا سرکاری ادارے پی ٹی سی ایل کی عوام کو سستے اور آسان طریقہ سے کنکشن مہیاء مین ناکامی کے باعث ہوا تھا ۔ ہاں حکومتی اخراجات کے لحاظ سے پاکستان نے پچھلے 7 سال میں بہت ترقی کی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔

جب سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی غیرآئینی حکومت کو نظریہ ضرورت کا جواز مہیا کیا تو ساتھ ہی الیکشن کروانے کی شرط لگا دی تھی ۔ پرویز مشرف نے تمام سیاسی لوٹوں کو لُڑھکنے میں مدد دی جس کے عوض انہیں لُوٹ مار کی کھُلی اجازت دے دی ۔ خود بھی دونوں ہاتھوں سے مال لُوٹا مگر پارسائی کے نعرے لگاتے رہے ۔ کچھ اعداد و شمار یہ ہیں

اخراجات کی مد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 1999 تا جون 2000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 2006 تا جون 2007 ۔ ۔ اضافہ
ایوانِ صدر [پرزیڈنٹ ہاؤس] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7 کروڑ 50 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 30 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 412 فیصد
ایوانِ وزیر اعظم [پرائم منسٹر ہاؤس] ۔ ۔ ۔ 9 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36 کروڑ 70 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 375 فیصد
قومی اسمبلی [نیشنل اسمبلی] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 کروڑ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ارب 60 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ 403 فیصد
سینٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 کروڑ 10 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 کروڑ 70 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ 520 فیصد
وزراء اور مشیر وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 کروڑ 40 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 کروڑ 50 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ 646 فیصد

کل اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 55 کروڑ 80 لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ارب 41 کروڑ 30 لاکھ روپے ۔ ۔ 433 فیصد 

ہماری قومی اسمبلی کا ایک رُکن قوم کو اوسطاً 30 لاکھ روپے سالانہ اور ایک سینیٹر 60 لاکھ روپے سالانہ میں پڑتا ہے ۔

اس کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمشن نے غیر ملکی دوروں پر 18 کروڑ روپے خرچ کئے اور ان دوروں کا پاکستان یا اس کے عوام کو کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ اگر یہی روپیہ پاکستان میں تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جاتا تو 70 ہزار سکولوں میں پینے کے پانی اور ٹائلٹس کا بندوبست کیا جا سکتا تھا جو کہ اب تک موجود نہیں ہے اسی رقم کے اندر اساتذہ کی وہ ہزاروں اسامیاں بھی پُر کی جا سکتی تھیں جو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے خالی پڑی ہیں ۔

صوبائی اخراجات کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔

ربّا سوہنیا ۔ میں کِتھے جاواں

ربّاسوہنیا ۔ میں کِتھے جاواں
کِنوں جا دل دا حال سُناواں
تیریاں نعمتاں نیں سجے کھبے
تیریاں برکتاں نیں اُتے تھلے
پر اساں کی ظلم کمایا اے
چور لفنگیاں نوں اُتے بٹھایا اے
اِک چڑھدی مہنگائی ستایا اے
اُتوں گرمی نے پرسیو وگایا اے
وڈیریاں دی واپڈا واہ وا موج بنائی اے
ساڈی بجلی تے لوڈ شیڈنگ لائی اے
پانی کدی غیب کدی آوے قطرہ قطرہ
بُڈھا کی ۔ جوان بھی ہو جاوے سترہ بہترہ
بِِل لَیوَن تِن مہینیاں دا ۔ روپیّہ سولاں سو
پانی نہ چھڈدے ۔ کہندے ٹینکر لَے لو

اُردو ترجمہ
میرے اچھے اللہ میں کہاں جاؤں
کسے جا کے دل کا حال سناؤں
تیری نعمتیں ہیں دائیں بائیں
تیری برکتیں ہیں اُوپر نیچے
لیکن ہم نے کیا گناہ کیا ہے
چور بدمعاشوں کو حاکم بنایا ہے
ایک روزافزوں مہنگائی نے ستایا ہے
اس پر گرمی نے بھی پسینہ نکالا ہے
بڑے لوگوں کو واپڈا نے آرام پہنچایا ہے
ہماری بجلی پر لوڈ شیڈنگ لگائی ہے
پانی کبھی نہ آئے اور کبھی آئے قطرہ قطرہ
بوڑھے کیا جوانوں کے بھی سر گھوم جاتے ہیں
بِل یہ لیتے ہیں تین ماہ کا روپے سولہ سو
پانی نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں ٹینکر لے لو

کہتا ہوں سچ

کہتا ہوں ميں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہيں مُجھے ۔ سچ بولنے والے کو نہ صرف آخرت ميں بلکہ اس دنيا ميں بھی فائدہ ہے ۔ جھوٹ بولنے والا گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور اگر پکڑا نہ بھی جائے قابلِ اعتماد نہيں رہتا ۔ ميری زندگی کے کئی واقعات ميں سے صرف تين دلچسپ واقعات جن سے ميری حوصلہ افضائی ہوئی ۔ سبحان اللہ ۔

آدھی صدی سے زائد قبل ميں شايد ساتويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ایک دن گھر سے سودا لينے نکلا ۔ ميرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا بارش شروع ہو گئی تو ميں نے بھيگنے سے بچانے کيلئے نوٹ اپنی شلوار کے نيفے ميں دبا ديا اور بھاگنے لگا ۔ دکان پر پہنچ کر ديکھا تو نوٹ غائب ۔ واپس ہو کر تلاش کيا اور آس پاس کے دکانداروں سے بھی پوچھتا گيا لیکن نہ ملا ۔ میں گھر سے مزید پيسے لا کر جب واپس آ رہا تھا تو ميں نے سڑک پر ايک دس روپے کا نوٹ ديکھا ۔ مجھے قريبی دکاندار نے کہا “يہ نوٹ اُٹھا لو تم بھول گئے ہو گے تمہارے پاس دس کا نوٹ ہو گا” ليکن ميں نے نہ ليا تو دکاندار نے مجھے کہا “يہ پانچ روپے جو تمہارے گم ہوئے تھے اور پانچ روپے تمہارا انعام ۔ دیکھو اب یہ واپس نہیں کرنا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا”۔ اور دس کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیا ۔ شائد وہ دس کا نوٹ اس دکاندار ہی نے میرا امتحان لینے کیلئے سڑک پر رکھا تھا ۔

ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں سيکنڈ ايئر ميں تھا ۔ چٹھيوں میں گھر آیا تھا اور چھٹیاں ختم ہونے پر کالج جانے لگا تو والدہ نے کہا يہ دس کلو چاول لے جاؤ ہوسٹل ميں معلوم نہيں کيسے چاول پکتے ہوں گے ۔ ميں بس پر لاہور جا رہا تھا تو گجرات کے قريب پوليس نے بس روک کر چيکنگ شروع کی ۔ ايک آدمی نے اپنی چادر ميں دو کلو چاول باندھے ہوئے تھے اسے بس سے نيچے اتار ليا گيا ۔ ميرا کنستر دروازے کے پاس ہی پڑا تھا ۔ پوليس والے نے پوچھا “يہ کس کا کنستر ہے ؟” ميں نے کہا “ميرا”۔ تو کہنے لگا “اس ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول”۔ تو وہ بس سے نيچے اُتر گيا ۔ چند منٹ بعد بس چل پڑی تو کنڈکٹر نے مجھے پوچھا “بابو جی ۔ اس کنستر ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول ہيں کھول کر ديکھ لو دس کلو ہيں”۔ اس پر پوری بس ميں زور دار قہقہہ پڑا اور ڈرائيور کہنے لگا “اس بابو کو اس کے سچ نے بچا ديا” ۔

ميں واہ کينٹ ميں رہتا تھا کہ دسمبر 1964 ميں ميرے ايک دوست حيدرآباد سے اور ایک راولپنڈی سے صبح سويرے آئے اور کہنے لگے طورخم چلنا ہے ۔ طورخم سے واپسی پر ہم لنڈی کوتل ٹھہرے اور دوپہر کا کھانا دنبے کی چربی ميں تلے ہوئے تکے اور نان کھايا ۔ قہوہ پيا اور لنڈی کوتل بازار ميں گھومنے لگے ۔ اس زمانہ ميں وہاں سمگل شدہ اشياء بہت سستی ملتی تھيں ۔ ميرے دوستوں نے ايک پريشر کُکر ۔ ايک ڈنر سيٹ ۔ ايک چھوٹا فرج اور کچھ ديگر چيزيں خريديں ۔ ميں نے ايک ڈبہ چين کی سبز چائے ۔ 3 جرابيں اور ايک درجن چاول کھانے کے چمچے خريدے ۔ یہ اشیاء قبائلی علاقہ سے باہر ليجانے پر پابندی تھی اور کبھی کبھی سخت چيکنگ ہوتی اور سارا سامان ضبط کر ليا جاتا ۔ ہماری جيپ جب اُس علاقہ سے باہر نکلی تو سڑک پر کسٹم پوليس نے تمام گاڑياں روکی ہوئی تھيں اور سواريوں کو اُتار اُتار کے چيکنگ ہو رہی تھی ۔ ہماری باری آنے ميں کافی دير کی اُميد تھی اور سردی تھی ميں جا کر گرم گرم چائے لے آيا اور ہم جيپ ميں بيٹھ کر پينے لگے ۔ ميں فرنٹ سيٹ پر بيٹھا تھا ۔ کسٹم پوليس والے نے مجھ سے پوچھا “کوئی سامان ہے ؟” ميں نے کہا “ہاں ہے”۔ تو اس نے پوچھا “کيا ہے ؟” ميں نے چيزوں کا نام لينا شروع کر ديا ۔ وہ پوری بات سُنے بغیر چلا گیا اور پتہ نہيں جا کر اپنے آفيسر سے کيا کہا کہ اس نے آ کر کہا ” آپ جا سکتے ہيں”۔ اٹک پُل [دریائے سندھ کا پل] کے قريب پہنچے تو گاڑيوں کی لمبی قطار ديکھ کر ميرا راولپنڈی والا دوست کہنے لگا “خدا کيلئے اب چُپ رہنا” ۔ ميں نے کہا “اگر مجھ سے پوچھا تو ميں جھوٹ نہيں بولوں گا” ۔ کوئی دس منٹ بعد انسپکٹر نے کہا کہ آپ اور پيچھے کی گاڑياں پُل کے پار چلے جائيں وہاں چيکنگ ہو گی ۔ پُل کے پار پہنچنے تک مغرب کی اذان ہو گئی تھی ميں نے کسٹم والے سے کہا “آپ گاڑی چيک کرو ميں نماز پڑھ کے ابھی آتا ہوں” ۔ ميں واپس آيا تو اس نے ہاتھ ملا کر مجھے اللہ حافظ کہا ۔ ميرے دوستوں نے بتايا کہ اس نے جيپ کے اندر ديکھا تھا مگر کچھ نہ کہا ۔

ہميشہ سچ بولئے اور مزے اُڑائيے ۔

کیا مدرسوں میں پڑھے جاہل اور دہشتگرد ہوتے ہیں ؟

نام نہاد روشن خیال کہتے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات سائنسی دنیا کے لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں اور مدرسے ان کو دہشت گرد بناتے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان میں لڑکیوں کا سب سے بڑا مدرسہ ۔ جامعہ حفصہ اسلام آباد تباہ کر دیا ہے اور پاکستان میں لڑکوں کے چند بڑے مدرسوں میں سے ایک ۔ جامعہ فریدیہ کو حکومت نے ختم کر دیا ہے ۔ سینکڑوں طالبات و طلباء مار دیئے جو باقی بچے وہ قید میں ہیں اسلئے اُن میں پڑھنے والے طالبات اور طلباء کے بارے معلومات حاصل کرنا بہت مشکل ہے ۔ البتہ اسلام آباد میں 1999 میں قائم ہونے والے ایک چھوٹے سے مدرسہ ۔ ادارہ علومِ اسلامیہ ۔ کے فیڈرل بورڈ کے چند نتائج نمونہ کے طور پر نقل کر رہا ہوں ۔ عمدہ کارکردگی اس مدرسے کا اول روز سے معمول ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان مدرسوں میں لڑکے لڑکیاں اپنے شوق سے پڑھتے ہیں بڑا افسر بننے کیلئے نہیں ۔

اس سال یعنی 2007ء میں 25 طلباء نے ا انٹرمیڈیٹ [بارہویں جماعت] کا امتحان دیا جن میں سے 3 نے گریڈ اے وَن ۔ 18 نے گریڈ اے اور 4 نے گریڈ بی حاصل کیا ۔
سن 2006ء میں ا انٹرمیڈیٹ جنرل گروپ میں پہلی اور تیسری سے دسویں پوزیشنیں اسی مدرسہ کے طالب علموں نے حاصل کیں ۔
سن 2005 میں میٹرک کے امتحان میں لڑکوں میں پہلی گیارہ پوزیشنیں اس مدرسہ کے طلباء نے حاصل کیں ۔
سن 2004 میں میٹرک کے امتحان میں لڑکوں میں پہلی چودہ پوزیشنیں اس مدرسہ کے طلباء نے حاصل کیں اور حافظ حارث سلیم نے جنرل سائنس میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے ۔ اس مدرسہ کا کوئی طالب علم آج تک فیڈرل بورڈ کے امتحان میں فیل نہیں ہوا ۔

قبائلی علاقہ کے دہشت گرد ؟

کنور ادریس صاحب جو کہ روشن خیال شخص ہیں اور سابق بیوروکریٹ ہیں لکھتے ہیں کہ کسی زمانہ میں وہ قبائلی علاقہ میں تعینات تھے ۔ اس قیام کے دوران وہ قبائلیوں کی قانون کی پاسداری سے بہت متأثر ہوئے ۔ میں خود 1964 سے 1975 تک قبائلی علاقوں میں دور تک اندر جاتا رہا ہوں اور اس کے بعد مختلف سرکاری اور غیر سرکاری معاملات میں قبائلیوں سے واسطہ پڑتا رہا ۔ میں نے جتنا ان لوگوں کو انسانیت کے قریب پایا اتنا پاکستان کے کسی اور علاقہ میں بسنے والوں کو نہیں پایا ۔ ان جیسا حسنِ سلوک بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کم کم ہی ملتا ہے ۔ پچھلے چند سال سے ہمارے حکمران اپنے آقا کو خوش کرنے کیلئے ۔ ان محبِ وطن غریب لوگوں کو بم برسا کر مار رہے ہیں ۔ پچھلے ماہ میں کسی کام سے اسلام آباد کے ایک سرکاری دفتر گیا وہاں ایک آفیسر قبائلی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگے “خیریت کیا ؟ ظلم ہو رہا ہے ۔ ہماری حکومت امریکا کی خوشنودی کیلئے محبِ وطن اور پاکستان کے محافظ لوگوں کو بیوی بچوں سمیت مار مار کر ختم کر رہی ہے ۔ آج تک انہی لوگوں نے بغیر حکومت کی مدد کے ملک کی حفاظت کی ہے”۔ میں نے کہا “حکومت کہتی ہے وہ تاجک ہیں”۔ اس پر اس نے کہا ” اس سال کے شروع میں جب سی ڈی اے والے بُلڈوزر لے کر جامعہ حفصہ کو گرانے آئے تھے تو طالبات ایک دو دن ڈنڈے لے کر سڑک پر کھڑی ہوئی تھیں ۔ اس کی فلم کئی ماہ ٹی وی پر چلتی رہی ۔ اگر ایک بھی تاجک مارا گیا ہوتا تو اس کی تصویر حکمران ٹی وی پر نہ دکھاتے ؟”