گھٹا ٹوپ اندھیرا

جن ٹی وی چینلز کو پاکستان میں بند کر دیا گیا تھا کچھ ہمدرد لوگوں نے انٹرنیٹ پر یہ چینلز دکھانے شروع کئے تھے ۔ کل سے ان ویب سائیٹس کو بھی بے اثر بنانا شروع کر دیا گیا ہے ۔ آج یہ خبر ملی ہے کہ انتر نیٹ پر پابندی کی تیاری زور شور سے جاری ہے ۔ مگر

نورِ خُدا ہے کُفر کی حرکت پر خندہ زن
پھُونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

عوام کے حقوق کی جنگ اسلام کے عین مطابق ہے

ایک وڈیو

ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟

نعمان صاحب نے میرے بلاگ پر فرمائش کی تھی کہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ لکھوں ۔ حالات گواہ ہیں کہ ہماری قوم کی اکثریت نے کبھی اس پر توجہ دینے کی شائد ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہم نماز میں پڑھتے کیا ہیں ؟ اور کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ وجہ وہ طاغوت کی تابعداری کا رویّہ ہے جسے لوگوں نے رواداری یا دنیاداری کا نام دے رکھا ہے ۔ یہ وہ پنجرہ ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کی اکثریت نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے انجانے خوف میں اِس قدر مبتلا ہیں کہ بڑے بڑے قوی لوگوں کے اعضاء حرکت کی سعی سے محروم ہیں ۔

میرا مفروضہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت نماز پڑھتی ہے ۔ پانچ وقتی نہ سہی ۔ جمعہ کے جمعہ سہی یا کم از کم عیدین کی نمازیں ۔ ملاحظہ ہو کہ ہم نماز میں کہتے کیا ہیں اور عمل زندگی میں کرتے کیا ہیں


اللہ سب سے بڑا ہے
۔ یہ نماز شروع کرتے ہوئے اور بیچ میں سوائے رکوع سے کھڑے ہونے کے ہر عمل سے پہلے کہا جاتا ہے ۔


عمل
۔ عام زندگی میں جسے لوگ سب سے بڑا کہیں اس کی اطاعت نہ کرنے کی جراءت کم ہی کی جاتی ہے لیکن اللہ جو حقیت میں سب سے بڑا ہے اس کے معاملہ میں یہ اصول نہیں اپنایا جاتا ۔


کہتے ہیں
۔ اے اللہ تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان اُونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔


عمل
۔ یہ ساری خوبیاں کسی ایک انسان میں ہونا ممکن نہیں البتہ اگر ان میں سے ایک خوبی کسی انسان میں ہو تو لوگ اُس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جبکہ ان اور ان سے اور بہت زیادہ خوبیوں کا مالک جو پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق ہے اس کی طرف اُس وقت رجوع کرتے ہیں جب انسانوں سے نا اُمیدی ہو جاتی ہے ۔

کہتے ہیں

۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہو شیطان مردود سے ۔

عمل ۔ اور عام طور پر ظاہری کشش اور وقتی فائدہ کی خاطر شیطان ہی کے نرغے میں رہتے ہیں ۔


کہتے ہیں
۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ مہربان ہے رحم والا ۔ مالک ہے روزِ قیامت کا ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تم نے انعام کیا نہ کہ اُن لوگوں کا جو تیرے غضب میں مبتلا ہوئے اور نہ گمراہوں کا ۔ الٰہی ہماری دعا قبول فرما ۔


عمل
۔ اللہ دعا کیسے قبول فرمائے گا جب مندجہ بالا الفاظ ہم صرف ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں [Lip service] نہ یہ الفاظ دل سے نکلتے ہیں اور نہ دماغ کے بہترین حصہ سے ؟ اور دل و دماغ کی قبولیت کے ساتھ نکلیں بھی کیسے جب لوگ شکلوں کے گرویدا ہیں نہ کہ سیرت اورعمل کے ؟ جسے دیکھو کسی افسر یا وزیر ی جرنیل سے اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے اور وہ باری تعالٰی جو افسروں ۔ وزیروں اور جرنیلوں سمیت سب کو دیتا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں بس اتنا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ نماز پڑھ لی ۔ روزہ رکھ لیا اور زکوٰت دے دی ۔

میں اللہ وحدہُ لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو آدمی اللہ میں یقین رکھتے ہوئے اللہ سے کچھ مانگتا ہے اگر وہ اس آدمی کیلئے بہتر ہے تو اُسے ضرور ملتا ہے ۔ یہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں ۔

میرا خیال ہے کہ اتنا ہی کافی ہے ۔ ہر قاری جب سونے کیلئے بستر پر دراز ہو تو آنکھیں بند کر کے اپنے پورے دن کے عمل کو ذہن میں لا کر صرف نماز میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کے ساتھ موازنہ کرے ۔ اگر یہ عمل ایک ماہ تک روزانہ کرے تو انشاء اللہ صحیح عمل کی طرف راغب ہونے میں مدد ملے گی ۔

وما علینا الالبلاغ

قصوروار کون ؟

سوات کے آخری ولی عہد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سرحد اور بلوچستان کے گورنر رہنے والے اسّی سالہ میاں گل اورنگزیب سے ان کی سابق ریاست میں آج کل کے حالات کے بارے میں دریافت کریں تو وہ غصے میں کہتے ہیں “یہ ان سے پوچھیں جنہوں نے یہ حالات خراب کئے ہیں”۔ “یہ حالات خراب کئے ہیں مرکزی حکومت نے۔ میں تو برائے نام والیِٔ سوات ہوں”۔

میاں گل اورنگزیب کا کہنا ہے کہ سوات میں جو بھی ہو رہا ہے جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ کہنے لگے “یہاں لال مسجد کا قصہ بتاؤں میں آپ کو ۔ لال مسجد کا معاملہ ایک تھانیدار بھی حل کر سکتا تھا لیکن اسے حل نہیں کیا گیا۔ ایک سال تک تاخیر کے بعد معلوم نہیں کتنے سو لوگوں کو مار دیا ۔ جان لینے کی ان کو کوئی پروا نہیں ہے”۔

میاں گل اورنگزیب سے دریافت کیا کہ حکومت کیونکر حالات خراب کرے گی تو ان کا جواب وہی تھا جو پاکستان کی اکثر عوام سمجھتی ہے۔ “جتنے زیادہ حالات خراب ہوں گے اتنا زیادہ بُش ڈرے گا۔ یہ ان کو بتاتے ہیں کہ اگر ہمیں ہٹاتے ہو تو یہ اور بڑھے گا”۔

میرے اس سوال کا جواب انہوں نے براہ راست تو نہیں دیا کہ سوات میں شدت پسند کون ہیں ؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کافی مقامی لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ “سنتے ہیں کہ یہ افغانستان کا اثر ہے ۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کا اثر ہے ۔ یہ ہونا تھا ۔ اس لئے ہونا تھا کہ طالبان کس نے بنائے؟ آئی ایس آئی نے ۔ پھر 11ستبمر آیا اور طالبان کو بھی آپ نے اپنا دشمن بنا لیا۔ اس سے قبل تو یہاں کچھ نہیں تھا”۔

پوچھا کہ بات صرف القاعدہ تک کی ہے تو ان کا مسکراتے ہوئے جواب تھا “جب حالات خراب ہوتے ہیں تو سب بدمعاشی شروع کر دیتے ہیں۔ ’کہتے ہیں کہ مولانا فضل اللہ متوازی حکومت چلا رہا ہے۔ کوئی ایسی حکومت وہ نہیں چلا رہا۔ جب تم اپنی حکومت نہیں چلا سکتے تو کوئی تو چلائے گا۔ دوسرا یہ کہتے ہیں کہ وہ (پولیو کی) دوا کے خلاف ہے۔ ادویات کی کمپنیاں بھی کئی برسوں تک اپنا دوائیں مارکٹ کرنے کے بعد بند کردیتی ہیں کہ ان کے زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تو ہوسکتا ہے کل کو پولیو کے بارے میں بھی یہ خبر آ جائے”۔

پرامن تصور کئے جانے والے سوات میں یکایک شدت پسندی میں اضافے کے بارے میں سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مذہبی عناصر اور شدت پسندی شروع سے موجود تھی۔ “سرتور (سیاہ سر والا) فقیر نامی شخص نے برطانوی فوج کے خلاف ملاکنڈ کے مقام پر بیس ہزار مسلح افراد اکٹھے کرکے مزاحمت کی تھی تاہم وہ ہار گیا تھا “۔

ان کے بقول اصل بات ہوتی ہے کہ انہیں کیسے محدود رکھا جائے۔ “یہ حالات دوبارہ خراب موجودہ حکمرانوں کی نالائقی سے ہوئے ہیں۔ جب یہ سوات سٹیٹ تھی تو تب آپ نے سُنا ہو گا کہ رات کو بارہ بجے بھی اگر کوئی شخص اپنے گھر سے کہیں جانا چاہتا تھا تو کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ لیکن اب ہر شخص کو خود اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے”۔

جب پوچھا کہ کیا اضافی فوجی مسئلے کا حل ہیں تو ان کہنا تھا کہ اب یہ فوج وہاں گئی ہے اور کافی مہینے ہوگئے ہیں۔ “میں نے لوگوں سے پوچھا کہ فوج وہاں کیا کر رہی ہے ؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ بس پہاڑوں میں بیٹھی ہے”۔

اگر ان کا الزام درست ہے تو حکومت نے حالات خراب کرنے کے لئے سوات کو ہی کیوں چنا۔ میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ تمام ملک میں تو اسے شروع نہیں کرسکتے تھے۔ “پہلے وزیرستان، پھر باجوڑ اور اب سوات”۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت کو جلد اقدام اُٹھانا چاہیے۔ “جب بھی آپ کسی مسئلے کے خلاف ابتداء میں اقدام نہیں کرتے تو وہ بڑھ جاتا ہے”۔

دلکش وادی سوات میں سیاحت ایک بڑا ذریعہ روزگار رہا ہے لیکن اب نہیں۔ انہوں نے اس بات پر خصوصی طور پر افسوس کیا کہ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب حکومت نے اس سال کو سیاحت کا برس قرار دیا تھا۔ “جو کسی جاہل ملک کو دیکھنا چاہیں گے وہ یہاں آئیں گے”۔

چائے لانے والے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی سوات سے ہے اور ڈبل ایم اے ہے لیکن بے روزگار ہے۔ “ایسے حالات میں کیا بہتری آئے گی”۔ سیاست سے تقریباً ریٹائر زندگی گزارنے والے میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ حالات کی بہتری میں اب کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ “اگر وہ مجھے کسی کمیٹی کے لیے بھی نامزد کریں گے تو میں نہیں جاؤں گا۔ حالات مزید خراب ہوں گے۔‘ ’اگر مجھے ریاست سوات واپس بھی کر دی جائے تو میں اسے درست نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی فیکٹری مجھ سے آپ لے لیں اور تباہ برباد کرنے کے بعد لوٹا دیں تو میں کیا کرسکتا ہوں؟”