اندرونِ خانہ

میں کسی شخص کے گھر کے اندر کی بات نہیں کرنے جا رہا بلکہ یہ ایک محاورہ ہے ۔ “اندروں خانہ” کی بجائے کچھ لوگ “اندر کھاتے” کہتے ہیں ۔ پنجابی میں “وِچلی گَل” یعنی اندر کی بات کہا جاتا ہے

پس منظر
لانگ کی مارچ 12 مارچ 2009ء کو ابتداء ہوئی تو پنجاب کی سلمان تاثیری حکومت نے تمام پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاز کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا تھا بلکہ مختلف قسم کی دیواریں کھڑی کر کے پنجاب کے تمام شہریوں کو اپنے اپنے شہروں میں محسور کر دیا پھر 14 مارچ کو شہر لاہور میں رائیونڈ ۔ ماڈل ٹاؤن اور مال روڈ بالخصوص جی پی اور چوک کی طرف جانے والے تمام راستوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاج کیلئے اکٹھے ہونے کو اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل بنا دیا ۔ لاہور کا رہائشی ہوتے ہوئے سلمان تاثیر یہ بھول گئے کہ لاہوریئے جو کام کرنے پر تُل جائیں وہ جان پر کھیل کے کر ڈالتے ہیں

معرکہ جی پی او
جو کچھ 15 مارچ کو لاہور جی پی او چوک پر ہوا مستقبل میں لوگ اسے یاد رکھیں گے ۔ وہاں موجود مظاہرین سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھنے والوں نے فیصلہ کیا کہ 15 مارچ کو صبح سویرے دو دو تین تین کر کے مختلف راستوں سے جی پی او چوک پہنچا جائے گا ۔ ان میں بھاری تعداد اسلام جمیعت طلباء کی تھی ۔ باقی زیادہ تحریکِ انصاف کے تھے ۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ ن کے جوان بھی تھے ۔ ابھی کوئی 150 کے قریب لوگ جی پی اور چوک پہنچے تھے کہ پولیس نے اُن پر اشک آور گیس کے گولے بے تحاشہ پھینکنے شروع کر دیئے ۔ اس اچانگ یلغار سے پریشان ہو کر مظاہرین بھاگے تو وہاں موجود ایک ستر بہتر سالہ شخص نے بآواز بلند کہا “کہاں بھاگ رہے ہو ۔ یہ وقت مُلک کیلئے قربان ہونے کا ہے ۔ ڈٹ جاؤ”۔ اُس بزرگ کی آواز نے سب بھاگتے پاؤں روک دیئے اور مظاہرین اب کی بار نہائت جوش سے پولیس پر پل پڑے کسی نے پتھر مارے کسی نے اشک آور گیس کا شیل واپس پولیس پر پھینکا ۔ اسلامی جمیعت طلباء کے لڑکے جی پی اور کی چھت پر بھی موجود تھے اُن کی سنگ باری اور اشک آور گولوں کی واپسی نے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ آدھے گھنٹے کے اندر مسلم لیگ ن ۔ تحریک انصاف ۔ جماعت اسلامی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی کافی تعداد وہاں پہنچ گئی ۔ یہ مظاہرین گروہوں میں بٹ کر چاروں طرف پھیل گئے اور پولیس پر سامنے کے علاوہ پیچھے سے بھی سنگ باری شروع ہو گئی ۔ یہ جنگ مغرب کے بعد تک جاری رہی ۔ بالآخر پولیس پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی

معرکہ ایوانِ صدر
صدر صاحب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے خائف تھے ۔ فاروق حمید نائیک نے آئین کی غلط تشریح کر کے حوصلہ افزائی کی اور صدر سے غلط حرکات کرواتے رہے ۔ باقی کسر رحمان ملک اور سلمان تاثیر نے پوری کی بمِصداق “چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا”۔ اس بنا پر کہ شریف برادران کے سیاست سے باہر ہوتے ہی مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی پی پی پی کی گود میں آ گریں گے ان کو نااہل قرار دلوا کر غیر آئینی طور پر پنجاب اسملبی کا اجلاس نہ ہونے دیا پھر جو چھوٹا موٹا احتجاج ہو گا اُسے سنبھال لیا جائے گا ۔ جب 25 فروری کو ناگہانی احتجاج ہوا اور 15 مارچ کو جمِ غفیر کی صورت اختیار کر گیا تو رحمان ملک کی ایف آئی اے نے صدر صاحب کو بتایا کہ صرف چند ہزار لوگ ہیں جن سے آسانی سے نبٹا جا سکتا ہے ۔ صورتِ حال کی خبروں نے باہر کی دنیا پر اتنا اثر کیا کہ امریکہ اور برطانیہ سے ٹیلیفون آنے شروع ہو گئے اور ان کے سفیروں کے علاوہ سعودی عرب کے سفیر بھی متحرک ہو گئے ۔ وزیر اعظم جو دو دن قبل تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے فوج کے سربراہ کی حوصلہ افزائی سے 15 مارچ کو پھر کو متحرک ہو گئے ۔ امریکہ نے بہت کوشش کی کہ نواز شریف لانگ مارچ سے علیحدہ ہو جائے لیکن نوازشریف ججوں کی بحالی کے بغیر لانگ مارچ سے علیحدہ ہونے پر راضی نہ ہوا ۔ ان مذاکرات کے دوران صدر کو بین الاقوامی طور پر شریف برادران کی نااہلی ختم کرنے کا وعدہ بھی کرنا پڑا ۔ رحمان ملک کی ایف آئی اے نے صدر کو بتایا تھا کہ صرف چند ہزار لوگ احتجاج کر رہے ہی جن پر بآسانی قابو پایا جا سکتا ہے ۔ یہی بات جب صدر نے فوج کے سربراہ اور وزیرِ اعظم کے سامنے کہی تو دوسرے خفیہ اداروں سے صورتِ حال کا پتہ کیا گیا جنہوں نے لانگ مارچ میں شامل ہونے والوں کی تعداد لاکھ سے اوپر بتائی اور کہا کہ جوں جوں وقت گذر رہا ہے تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور راولپنڈی پہنچنے سے بہت پہلے ہی قافلہ قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ جب اس پر بھی صدر صاحب راضی نہ ہوئے تو بات دھمکی تک پہنچی جو پورے زور دار طریقہ سے اُس نے دی جس کے پاس ہمارے مُلک کی اصل صاقت ہے ۔ اپنی کرسی جاتے اور جیل کی کوٹھری سامنے آتے دیکھ کر صدر صاحب کی “نہ” بمُشکل “ہاں” میں تبدیل ہوئی اور وزیرِ اعظم صاحب اعلان کا مسؤدہ تیار کرنے میں مصروف ہو گئے جو بار بار درست کیا گیا یہاں تک کہ تقریر ریکارڈ ہو جانے کے بعد دوبارا ریکارڈ کی گئی

معرکہ ڈوگر جو کامیاب نہ ہو سکا
جج صاحبان کی بحالی کا نوٹیفیکیشن ہوتے ہی صدر صاحب کے کاسہ لیسوں [نام نہاد مولوی اقبال حیدر اور شاہد اورکزئی] نے ججوں کی بحالی کے نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کو روکنے کیلئے عدالتِ عظمٰی میں دو درخواستیں دائر کر دیں جن میں فوری حُکمِ امتناعی جاری کرنے کی بھی درخواست کی تھی ۔ یہ دونوں درخواستیں عدالتِ عُظمٰی کے اس بینچ کے سامنے بروز جمعہ بتاریخ 20 مارچ 2009ء فیصلہ کیلئے رکھی گئیں جس کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر تھے ۔ 20 مارچ کو اس بینچ کے سامنے 6 یا 7 کیس آنا تھے ۔ احمد رضا قصوری نے حکومتی سفارش سے اپنی 6 یا 7 درخواستیں ان میں شامل کروا دیں ۔ سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے اپنی 24 درخواستیں بھی اسی بینچ کے سامنے 20 مارچ کیلئے لگوا دیں یعنی کل 36 درخواستیں ہو گئیں جن میں 30 سے زائد کے متعلق خدشہ تھا کہ عبدالحمید ڈوگر کے جانے کے بعد ان پر دائر کرنے والوں کی پسند کا فیصلہ نہیں آئے گا ۔ عدالت بیٹھی تو بینچ میں شامل ایک بہت سینیئر جج نے بنچ کے سربراہ عبدالحمید ڈوگر سے کہا “ایک دن میں تین چار درخواستیں درست طریقہ سے نمٹائی جا سکتی ہیں اور یہ ؟” عبدالحمید ڈوگر جنہوں نے عدالتِ عظمٰی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے جمعرات 19 مارچ کو 19 درخواستیں نمٹائیں تھیں کہنے لگے انہیں آج نمٹانا ہے ۔ اس پر وہ جج یہ کہہ کر اُٹھ گئے کہ “میں تو یہ نہیں کر سکتا ۔ آپ میری جگہ کسی اور کو بُلا لیجئے”۔ باقی تمام جج اپنی اپنی عدالتوں میں مصروف تھے اسلئے تمام 36 درخواستیں التوء میں چلی گئیں اور عبدالحمید ڈوگر صاحب نے ایک دن قبل ہی آخری ملاقاتیں شروع کر دیں

یومِ پاکستان۔حقائق

flag-1بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 55 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2009ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map
اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

۔

۔

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں

seconding-reson-march-1940

۔

۔

۔

quaid-liaquat-mamdot 
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ

پڑھنا کب بہتر

شعیب سعید شوبی صاحب نے لکھا تھا “امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں”

امریکی ماہرین نفسیات نے درست کہا ہے لیکن شاید ایک صدی یا زیادہ تاخیر سے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کئی اساتذہ نے یہ ہدائت ہمیں سکول کے زمانہ میں کی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد سو جایا کریں اور صبح سویرے اُٹھ کر تھوڑی سی سیر کریں اور پھر نہا کر پڑھا کریں ۔ دوپہر کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کریں پھر بیٹھ کر پڑھیں ۔ میرے اساتذہ کے مطابق رات آرام کرنے کے بعد صبح آدمی تازہ دم ہوتا ہے ۔ دوسرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دن رات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ صبح سویرے تازہ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کو تازگی بخشتی ہے ۔ اسلئے جو سبق یاد کرنے میں رات کو تین گھنٹے لگتے ہیں وہ صبح ایک گھنٹہ میں یاد ہو جاتا ہے ۔ میں نے مَیٹرک 1953ء میں پاس کیا تھا

ہماری پہلی یا دوسری جماعت کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سادہ اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا “دن بنایا محنت کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو ۔

میرے والد صاحب[اللہ بخشے] کہا کرتے تھے

Early to bed, early to rise
healthy wealthy and wise

سردیاں ہوں یا گرمیاں میرے والد صاحب سورج طلوع ہونے سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اُٹھ جاتے اور نہا کر اپنا کاروباری لکھنے پڑھنے کا کام کر کے پھر ناشتہ کرتے ۔ میں اور میرے چند ہم جماعت اندھیرے منہ اُٹھ کر اکٹھے دو کلو میٹر دور شہر سے باہر کی طرف جاتے وہاں سے پھلائی کی ٹہنی کاٹ کر واپسی پر داتن کرتے آتے ۔ گھروں میں پہنچ کر نہا کر پڑھنے بیٹھ جاتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ہے لیکن میں ایف ایس سی پاس کرنے تک کبھی عشاء کی نماز کے بعد جاگتا نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اللہ کی مہربانی سے میرا شمار اچھے طلباء میں رہا ۔ آٹھویں جماعت کے دوران صرف ایک دن صبح نہیں اُٹھ سکا تھا تو میری والدہ [اللہ جنت نصیب کرے] نے کہا “مسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہیں اُٹھتا”۔ یہ جُملہ میں کبھی نہیں بھُلا سکتا

رات کو پڑھنے والے صبح سویرے پڑھنے کی افادیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اُنہیں مختلف وجوہ نے رات دیر تک جاگنے کا عادی بنا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں موجودہ جوان نسل کی نسبت اُن کے والدین کا زیادہ قصور ہے جو فطری نظام کے خلاف رات گئے تک فلمیں یا ڈرامے دیکھنے اور محفلیں سجانے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی

صرف چار دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام سکول اور دکانیں گرمیوں میں صبح 7 بجے اور سردیوں میں صبح 8 بجے کھُلتے تھے ۔ دکانیں شام 7 بجے بند ہونا شروع ہو جاتیں اور سب دکانیں 8 بجے تک بند ہو جاتیں ۔ رات کا کھانا سب لوگ سورج چھُپنے کے بعد جلد کھا لیتے ۔ گرمیوں میں صبح ناشتہ دوپہر اور رات کو کھانا کھاتے جبکہ سردیوں میں لوگ صبح اور رات کو کھانا اوربعد دوپر کچھ ہلکا پھُلکا کھا لیتے جسے ناشتہ یا چائے کا نام دیا جاتا ۔ اب کیا ہے ۔ کوّا گیا تھا مور بننے ۔ نہ مور بنا اور نہ کوّا ہی رہا

جن لوگوں کو رات کو جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ پہلے صبح سویرے اُٹھ کر نہانے اور فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ نماز کے بعد صبح ناشتہ کرنے تک جو سب سے مشکل سبق سمجھیں اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جب عادت ہو جائے پھر مزید جلدی اُٹھنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ صبح سویرے نہانے سے آدمی سارا دن تازہ دم رہتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

پرچی پھر چل پڑی

میں نے گھر کا سودا سلف لانے کیلئے ہفتہ میں ایک دن مقرر کیا ہوتا ہے جو کہ سال بھر سے منگل کا دن ہے ۔ سبزی پھل میں ہفتہ وار بازار سے لاتا ہوں جو آجکل پشاور موڑ کے قریب سیکٹر ایچ 9 کے کونے میں واقع ہے ۔ آٹا چاول وغیرہ میں جی 9 مرکز المعروف کراچی کمپنی میں ایک پرانی دکان سے لیتا ہوں کیونکہ سودا ستھرا ہوتا ہے اور قیمتیں بھی مناسب ہوتی ہیں ۔ اس دکان پر عام طور پر گاہکوں کی بھیڑ ہوتی ہے ۔ منگل 10 مارچ کو میں سودا لینے گیا تو شائد میلادالنبیۖ کی چھُٹی کی وجہ سے ہفتہ وار بازار میں گاہکوں کی بھیڑ نہ تھی سو سبزی پھل خرید کر میں ساڑھے نو بجے جی 9 مرکز پہنچ گیا ۔ وہاں بھی صرف چار پانچ گاہک تھے ۔ دکاندار کو فارغ دیکھ کر سلام اور حال پوچھنے کے بعد کہہ دیا “اور کیا خبر ہے ؟” دکاندار نے مجھے قریب ہونے کا اشارہ کیا

میں اس کے قریب کاؤنٹر پر ہی بیٹھ گیا ۔ وہ بولا “دس باہ دن سے آٹا نہیں مل رہا تھا ۔پرسوں ایک پی پی پی کے کھڑپینچ سے شکائت کی تو کہنے لگا کہ ‘پرچی دِلا دوں گا فی تھیلا 5 روپے ہوں گے’ ۔ میں نے اُسے 500 روپے دیئے ۔ کل وہ مجھے ساتھ لے گیا ۔ وہاں اُنہوں نے پرچیاں تیار رکھی ہوئی تھیں ۔ اُنہوں نے مجھے دس کلو کے 100 تھیلوں کی پرچی دے دی ۔ میں نے مِل میں جاکر وہ پرچی اور آٹے کی قیمت ادا کی اور 10 کلو والے 100 تھیلے لے آیا۔ کیا کریں ۔ ہم آٹے میں منافع نہیں کمائیں گے لیکن آٹے کی وجہ سے باقی سامان بکے گا تو ہماری دکان چلتی رہے گی”

اس واقع نے مجھے ایک پرانا دلچسپ واقعہ یاد دلا دیا ۔ 1973ء میں جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دوسرا سال تھا ہمارے خاندان میں شادی تھی ۔ لڑکے کے والد ہمارے گھر آئے اور میرے والد صاحب سے کہا “شادی کی تاریخ مقرر کروا دیں بیٹا مُلک سے باہر جانا چاہتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ شادی کر لے اور بیوی کو ساتھ لے جائے”۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے “آپ بھی میری سفارش کر دیں”۔ میں نے مسکرا کر کہا “بازار میں گھی ناپید ہے لڑکی والے بارات کا اور آپ ولیمہ کا کھانا کیسے پکائیں گے ؟” لڑکے کے والد بڑے اعتماد سے بولے “اُس نے کب کام آنا ہے ۔ کتنے کام اُس کے کئے ہوئے ہیں ۔ گھی کا بندوبست تین دن میں ہو جائے گا”۔ پی پی پی کا ایک رہنما اُن کا ہمسایہ تھا اور وہ رُکن صوبائی اسمبلی بھی تھا

اُن دنوں حال یہ تھا کہ دیسی گھی تو بالکل غائب تھا ۔ بناسپتی گھی بیچنے کیلئے راولپنڈی میں صرف چند دکانیں مقرر تھیں جن پر فی شخص ایک پاؤ بناسپتی گھی ملتا تھا اور ہر دکان پر ڈیڑھ دو سو گاہک قطار لگائے ہوتے تھے

دو دن بعد ہونے والا دُولہا آیا کہ چلیں گھی لے آئیں ۔ میں اُسی کی کار میں بیٹھ گیا اور ہم چل دیئے ۔ مری روڈ پر ایک جگہ پہنچے ۔ وہاں میرے ساتھی نے ایک پرچی جیب سے نکال کر دی ۔ وہ پرچی رکھ لی گئی اور اُسے ایک اور پرچی دے دی گئی اور کہا گیا کہ نیا محلہ کے چوک میں ایک کھوکھا ہے وہاں جائیں ۔ وہاں پہنچے تو کھوکھے والا ہم سے پرچی لے کر چلا گیا اور 10 منٹ بعد واپس آ کر کہا “وہ جو گیٹ نظر آ رہا ہے وہاں جا کر گیٹ کھٹکھٹاؤ”۔ ہم نے اُس کی ہدائت پر عمل کیا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی نے باہر نکل کر کھوکھے کی طرف دیکھا اور ہمیں کہا “اندر آ جاؤ”۔ جونہی ہی ہم اندر داخل ہوئے ہم پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ یہ بہت بڑا گودام تھا جہاں ڈالڈا اور تلو بناسپتی گھی کے 5 کلو والے ہزاروں ڈبے پڑے تھے ۔ جو شخص ہمیں اندر لے گیا تھا بولا “فی ڈبہ اتنے روپے دے دو اور جتنے ڈبے چاہئیں اُٹھا لو”۔

اُس وقت ہمیں یہ خیال نہیں آیا کہ ہم سے سرکاری نرخ سے زیادہ نرخ وصول کیا جا رہا ہے بلکہ یہ افسوس ہوا کہ ہم اس فیئٹ 600 کار میں آنے کی بجائے بڑی گاڑی لے آتے تو دُگنی تعداد میں ڈبے لے جاتے اور عزیز و اقارب سے دعائیں لیتے

یہی وجہ ہے شاید کہ جو پیپلز پارٹی میں جاتا ہے پھر باہر نہیں نکلتا

کیسی دنیا

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
تیری دنیا میں ایسا کیوں ہے ؟
پیسے والے ہیں سارے عقلمند
میرے جیسے بیوقوف کیوں ہیں ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
امیروں کا ایسا خیال کیوں ہے ؟
کہ وہ سب تو ہیں پڑھے لکھے
ہر میرے جیسا اَن پڑھ کیوں ہے ؟

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
یہاں ایسی باتیں کیوں ہوتی ہیں ؟
میں نہ بنوا سکا ایک بھی مکان
ساتھیوں کی ہے ہر شہر میں کوٹھی

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
دنیا میں یہ کیسی جمہوریت ہے ؟
ملک کے لئے غریب جانیں گنوائیں
امیروں کبیروں کو کرسی سے اُلفت ہے

میرے پیارے سوہنے اللہ میاں
جمہور پر ٹیکس سے خزانہ بھرتے ہیں
پر جمہور کیلئے بس محنت کی  سوکھی روٹی
وزیروں مشیروں کے لئے ہر شے مُفت ہے

ہمتِ کرے انسان

سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔

الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر   آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی

پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔

یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے

سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن

عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے

پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا

پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا

پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا

میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے

وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے

میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں