حسبِ حال

علامہ محمد اقبال نے لگ بھگ ایک صدی قبل جو ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق اللہ کی طرف سے جوابِ شکوہ لکھا تھا وہ آج بھی درست ہے ۔ چند اقتباسات

ہم تو مائل بہ کرم ہيں ۔ کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے ۔ رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی ۔ يہ وہ گل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں ۔ الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی ءِ پيغمبر ہيں
بُت شِکن اُٹھ گئے ۔ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر ۔ اور پسر آزر ہيں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں تم بھی نہيں
جذبِ باہم جو نہيں ۔ محفل انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تُم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تُم ہو

رہ گئی رسم اذاں ۔ روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ۔ تلقينِ غزالی نہ رہی

وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو ۔ مرزا بھی ہو ۔ افغان بھی ہو
تم سبھیي کچھ ہو ۔ بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟ يہ انداز مسلمانی ہے ؟

چاہتے سب ہيں کہ ہوں اَوج ثريا پہ مُقِيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلبِ سليم

جگ والا میلہ

یہ کہانی نہیں ۔ آپ بیتی ہے ایک خاتون کی جس کی پیدائش کے ساتھ ہی تقدیر سے مُڈبھیڑ شروع ہو گئی ۔ 2 سال کی تھی تو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ ضلع فیروز پور طے شدہ اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ ہونا تھا مگر بھارت کو جموں کشمیر کی طرف راستہ دینے کیلئے ضلع کو تقسیم کر دیا گیا جس کی خبر گورداسپور کے رہنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد ہوئی جب ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مار دھاڑ شروع کر دی ۔ اس کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ والدہ شہید ہو گئیں ۔ وہ اور اس کا 11 سالہ بھائی والد کے ساتھ پاکستان پہنچے ۔ ابھی 4 سال کی تھی کہ والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا ۔ بھائی بہن کو اُن کے ماموں اپنے ساتھ لے گئے ۔ بھائی نے کسی طرح ایف ایس سی پاس کی اور شپ یارڈ کراچی میں ملازمت کے ساتھ فاؤنڈری کا ڈپلومہ شروع کیا ۔ بھائی نے بہن کو اپنے ساتھ رکھا ۔ ڈپلومہ کرنے کے بعد بھائی کو پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو بھائی بہن واہ چھاؤنی منتقل ہو گئے

وہ محنتی اور شاکرہ لڑکی تھی ۔ کسی طرح ایم ایس سی میتھے میٹکس پاس کر لیا اور سرکاری سکول میں پڑھانا شروع کیا ۔ 1971ء میں بھائی نے اس کا نکاح ایک فوجی افسر سے کر دیا جو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا اور اور دو تین سال بعد معلوم ہوا کہ وہ وہاں شہید ہو گیا تھا ۔ اُس نے مزید شادی کی بجائے اپنی ساری توجہ دوسروں کی تعلیم پر لگا دی ۔ واہ میں جس لڑکی نے بھی اس سے پڑھا وہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ۔ اُس نے بہت سی بچیوں کو بغیر معاوضہ بھی پڑھایا ۔ اپنی محبت اس نے طالبات کے علاوہ اپنی ایک بھتیجی اور 2 بھتیجوں پر وقف کر دی ۔ کہا کرتی تھیں “میں نے ماں باپ نہیں دیکھے ۔ خاوند نہیں دیکھا ۔ میرا سب کچھ میرا بھائی ہے ۔ بھتیجی اور 2 بھتیجے ہی میرے بچے ہیں”

ریٹارئرمنٹ کے وقت سے کچھ سال قبل اُنہوں نے واہ میں اپنا مکان بنوایا اور اُس میں رہنے لگیں ۔ بہت سال ہیڈ مسٹریس رہنے کے بعد 2005ء میں ریٹائر ہوئیں تو وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایک اور صدمہ سے دوچار ہونے والی ہیں ۔ تین سال قبل عیدالاضحٰے کے دن اچانک ان کے بھائی راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ انہوں نے عام خواتین کی طرح واویلا نہ کیا مگر اس دن سے ان کے چہرے کی بشاشت اُن کا ساتھ چھوڑ گئی ۔ بھتیجے اور بھابھی اُن کے پاس جاتے رہتے تھے لیکن چند ماہ قبل انہوں نے اپنے دونوں بھتیجوں کو بالخصوص اکٹھے بُلایا اور انہیں کچھ کاغذات دے کر کہنے لگیں “میرا سب کچھ تم ہو ۔ یہ مکان میں نے تم دونوں کے نام کر دیا ہے ۔ تمہاری بہن کا نام نہیں لکھا کہ وہ تو امریکہ میں ہے”

ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تو ہم اتوار 5 اپریل 2009ء کو اسے ملنے گئے ۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ اپنے کمرے سے چل کر آئیں اور بیٹھک میں ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور ہم سے باتیں کرتی رہیں ۔ شام کو ہم واپس آ گئے ۔ آج فجر کی نماز سے قبل ان کے چھوٹے بھتیجے کا ٹیلیفون آیا کہ وہ راہی مُلکِ عدم ہو گئیں ہیں ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ مسلمان ہونے کی تمام صفات کی حامل خاتون پوری منصوبہ بندی کے ساتھ رخصت ہوئیں ۔ یہ ہماری عزیز اور ہردل عزیز خاتون میری بڑی بہو بیٹی کی پھوپھی تھیں ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا کرے ۔ آمین ثم آمین

جگ والا میلہ اے یارو ۔ تھوڑی دیر دا
ہسدیاں رات لنگے ۔ پتہ نئیں سویر دا

یہ ذرائع ابلاغ ۔ The Media

ذرائع ابلاغ کا لفظ اس وقت میں صرف اخبار ۔ رسالہ اور ٹی وی چینل کیلئے استعمال کر رہا ہوں ۔ دورِ حاضر میں ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد صرف پیسہ کمانا ہے جس کیلئے سنسی خیز خبریں اور انکشافات ان کا خاصہ ہے ۔ اس مادی دوڑ میں کئی ذرائع ابلاغ مخصوص مالدار اداروں کے مقاصد کو بھی پروان چڑھاتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے کارندے ماسوائے چند کے اپنے کمروں میں بیٹھ کر اِدھر اُدھر سے کوئی بات پکڑتے ہیں اور پھر اس پر ایک کہانی تیار کر لیتے ہیں ۔ یہ کہانی محفوظ کر لی جاتی ہے اور مناسب وقت آنے پر شائع یا نشر کر دی جاتی ہے ۔ انسان جو فطری طور پر جدت پسند واقع ہوا ہے سنسی خیز باتوں کی طرف کھنچتا ہے اور یہی ان ذرائع ابلاغ کی کامیابی کا سبب ہے

اکثر غیرملکی صحافی محنت کر کے کچھ حقائق اکٹھے کرتے ہیں اور ان پر کہانی تیار کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز کے صحافی ماسوائے کچھ سنجیدہ صحافیوں کے اتنے ماہرِ فن ہیں کہ پوری کہانی ہی ازخود تیار کر لیتے ہیں اور ملک میں سازگار ماحول ہونے کی وجہ سے ان کی کہانی وقتی طور پر تہلکا مچا دیتی ہے ۔ انہیں کچھ کہانیاں مخصوص مقاصد براری کیلئے پہنچائی بھی جاتی ہیں جن سے اُن کی جیب گرم ہوتی اسلئے انہیں وہ اپنے نام سے پیش کر دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ ان سب کہانیوں کی کامیابی کی وجہ میرے ہموطنوں کی اکثریت کے دو اہم خوائص ہیں ۔ ایک ۔ تاریخ میں دلچسپی نہیں اسلئے کل کی بات بھی بھول جاتی ہے یا بھُلا دی جاتی ہے ۔ دو ۔ بات آگے بڑھانے کی عادت ہے اس کی تصدیق کی تکلیف گوارا نہیں کرتے

زیرِ نظر حالیہ چند واقعات ہیں ۔ 17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے والا واقعہ چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا سچ انشاء اللہ عدالتِ عظمٰی جلد سامنے لے آئے گی اور سب جان جائیں گے کہ شور غوغا انسانیت پرستی تھی یا اس کا کوئی اور سبب تھا

مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔ صبح سویرے حملے کی خبر ملتے ہی ٹی وی چالو کر دیا ۔ جب ایک چینل پر اشتہار آتے تو دوسرا چینل لگا لیتے ۔ تمام چینلز کی مجموعی خبر یہ تھی کہ چار دہشتگرد پکڑے گئے ۔ ایک زخمی ہو کر بھاگ نکلا اور اس کی تلاش جاری ہے ۔ واقعہ میں 28 افراد جاں بحق ہوئے ۔ بات واضح ہونے پر معلوم ہوا کہ صرف ایک دہشتگرد پکڑا گیا تھا ۔ 8 پولیس والے اور 4 شہری کل بارہ جاں بحق ہوئے ۔ دہشتگر زخمی ہو کر فرار نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا

اسلام آباد ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر کے فاصلہ پر قائم رینجرز کیمپ پر حملہ ہوا ۔ ٹی وی چینلز نے بتایا ۔ دھماکہ کے بعد پولیس اور دہشتگردوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے ۔ 2 دہشتگرد گرفتار ہو گئے ہیں ۔ دہشتگرد ایک مکان میں چھپے ہوئے ہیں ۔ پھر بتایا کہ 11 دہشتگرد گرفتار ہو گئے ہیں ۔ بعد میں واضح ہوا کہ صرف ایک دہشتگرد تھا اور اس نے خودکُش دھماکہ کیا تھا ۔ گولیاں رینجرز نے ردِ عمل کے طور پر چلائی تھیں ۔ ایک آدمی پکڑا تھا اور وہ ایک غریب درزی تھا جو دھماکہ اور گولیوں کی آواز سن کر کہیں چھپ گیا تھا ۔ جب نکلا تو پولیس نے پکڑ لیا

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے

سوات میں نوجوان لڑکی کو کوڑوں کی سزا کی ویڈیو پر جو بحث چل نکلی ہے اس کھیل کی منصوبہ بندی کرنے والے یا والوں کا مدعا کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

مباحثہ اب شاید جلد ٹھنڈا نہ پڑے اور اس کے نتائج بھی شاید بہت دور رس برآمد ہوں لیکن اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کیلئے ہمیں چند برس پیچھے اور پاکستان سے کچھ دور ایک اور مسلم مُلک عراق میں جانا ہوگا اور پھر شاید یہ تسلیم کرنا پڑے کہ یہ ویڈیو پاکستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں

سال 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے قبل اس ملک کے لوگ عشروں سے صدام حسین کی مطلق العنان حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے ۔ صدام کی حکومت قائم کرنے کے وقت کی خون ریزی کے بعد عراق میں مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان خونریزی کا سبب بننے والے اختلافات سامنے نہیں آئے تھے ۔ صدام حسین خود اور اس کی حکومت کے بیشتر عہدیدار اگرچہ سُنی تھے لیکن اس کی حکومت کے دوران عراق میں اہل تشیع کو آزادی رہی اور مُلک میں تعلیمی اور معاشرتی ترقی جاری رہی

امریکی حملے کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی خبررساں اداروں نے یہاں کی آبادیوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرکے پکارنا شروع کردیا۔ لکھا جاتا کہ فلاں جگہ اتنے شیعہ جنگجو مارے گئے اور وہاں سنی عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ یہ دونوں ہی امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہوتے تھے ۔ ان مفروضہ واقعات کی کچھ وڈیو بھی ٹی وی چینلز پر چلائی گئیں ۔ اس صورتحال میں شیعہ سنی کی تقسیم عام لوگوں کو بے معنی اور غیر ضروری لگتی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے رنگ دکھایا ۔ عراق میں شیعہ اور سنی ملیشیا بنیں ۔ پھر ان میں تصادم شروع ہوا ۔ لوگ مسلک کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوگئے اور نوگو زونز [No-go Zones] بن گئے ۔ آئے دن خبر دی جاتی کہ بظاہر مسلکی اختلاف پر قتل کیے جانے والے درجنوں افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ۔ ایسے واقعات ہونا شروع ہوئے کہ ایک جگہ مسلح افراد نے مسافر بس روکی ۔ لوگوں کی شناختی دستاویزات دیکھیں اور پھر ایک فرقے کے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو مار ڈالا ۔ ان واقعات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں امریکی فوج کیخلاف براہ راست مزاحمت میں کمی آ گئی ۔ تیل کی پائپ لائنیں اڑانے کے واقعات بھی کم ہوگئے جو امریکہ کے مفادات پر کاری ضرب لگا رہے تھے

عراق سے بہت قبل غیرمُلکی منصوبہ بندی کے تحت اس وقت کے مشرقی پاکستان میں یہ وڈیو کا عمل بڑے کامیاب طریقہ سے کیا گیا تھا پھر مئی 2007ء میں کراچی میں ایک تنظیم نے وڈیو کھیل کھیلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔ اب کوڑوں کی سزا کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ باتیں اہم ہیں ۔ اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی کی ابتدائی خبر جمعرات کی شام آئی جو تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں پہنچی ۔ اخبارات نے اسے مناسب اہمیت دی ۔ اس پر بس نہ کیا گیا اور اگلے روز منظم طریقے سے اس ویڈیو کی نقول مختلف ٹی وی چینلز کو پہنچائی گئیں اور پھر اس کے بار بار نشر ہونے کا سلسلہ چل پڑا۔ باوجود اس کے کہ یہ ویڈیو منقش مواد [Graphic Content] کے زمرے میں آتی ہے اور اس کی اصلیت [Authenticity] پر سوالیہ نشانات موجود ہیں ۔

نوعمر لڑکی کو کوڑے مارنے کے دومنٹ کی یہ وڈیوبلاشبہ نہایت دلدوز ہے مگر اس حقیقت کو بھی ماننا چاہئے کہ پاکستان میں مختلف رحجانات رکھنے والے لوگ اس ملک کے قیام کے وقت سے بستے آرہے ہیں جو ایک دوسرے سے سو فیصد متفق کبھی نہیں ہوسکتے لیکن ماضی میں ان کے درمیان ایک دوسرے کے احترام کا رشتہ رہا ہے ۔ جمعہ کو ٹی وی چینلز سے نشر کی گئی ویڈیو نے اس رشتے میں بچا رہا سہا احترام ختم کردیا ۔ اب دونوں طرف کے پڑھے لکھے لوگ بھی بحث کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

ان حالات کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ویڈیو کے ذریعے پاکستانیوں کو صف آراء کرنے والوں نے اس ملک کے عوام میں موجود اصل خطِ نقص [fault line] کو خوب پرکھا ہے ۔ وقت ہے کام لینے کا ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں جذبات کی رو میں بہہ جانے سے بچائے اور درست راستہ کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمیں ثم آمین یا رب العالمین

سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 8 ۔ ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّہِ شُھَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی [بھی] تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم [اس] سے عدل نہ کرو ۔ عدل کیا کرو [کہ] وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے ۔ اور اﷲ سے ڈرا کرو ۔ بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے

بشکریہ ۔ ضمیمہ ۔ مزید قابلِ فہم بنانے کیلئے عبارت میں کچھ رد و بدل کیا گیا

یہ پہلا واقعہ نہیں

سوات کے طالبان پچھلے 2 سال میں اپنی عدالتیں قائم کرنے کے بعد برسرِ عام کوڑے لگانے کی سزا 25 بار مردوں کو 2 بار عورتوں کو دے چکے ہیں ۔ یہ تمام واقعات جن میں ایک عورت کی وڈیو عام دکھائی گئی ہے سوات کے طالبان سے معاہدہ سے پہلے کے ہیں ۔ خبر یہ ہے

The videotape shown on television and displayed on websites Friday wasn’t the only time that a woman was publicly canned by the Swati Taliban. However, no videotape of the other incident, which took place on October 20, 2008, is available in which a woman and her father-in-law were flogged in Ser-Taligram village near Manglawar in Charbagh tehsil. The woman had been divorced by her husband but her father-in-law kept her in his house. The two were accused by the Taliban of having illicit relations. Villagers said the man was whipped 50 times while the woman was given 30 lashes.

The canning of the 17-year-old girl, who according to certain accounts was 16, shown by television channels on Friday was reportedly filmed by someone with a mobile phone. A reporter of a private TV channel in Swat said the two-minute footage was in their possession for sometime and was being transferred to a large number of people through cell phones. “To be honest, we didn’t want to send it to our TV channels for use due to fear of Taliban and also on account of concern that this would bring a bad name to Swat and endanger the peace accord,” he said while requesting anonymity.

The girl who was publicly canned in Kala Killay village in Kabal tehsil was reportedly named Chand. An Indian TV channel coined a couplet while reporting the incident on Friday by figuratively referring to Chand, which is the Urdu word for the moon. The boy, who like the girl was also lashed 30 times, was named Adalat Khan, son of Muslim Khan.

Incidentally, the Taliban spokesman in Swat who defended the public flogging in several interviews on Friday is also named Muslim Khan. He apparently mixed up the two incidents of public lashing of women in Swat on Taliban orders by saying that the girl videotaped during her canning was convicted of having illicit relations with her father-in-law. That incident happened in Ser-Taligram village in Charbagh tehsil while the videotape is of the girl belonging to Kala Killay in Kabal area.

One of the stories making the rounds in Swat was that a Talib saw the accused, Adalat Khan, who was an electrician by profession, leaving the home of the girl, Chand. He called other Taliban and accused the two of committing adultery. The boy defended himself by arguing that he was asked to fix some electrical appliances in the girl’s house. The Taliban then went ahead with the punishment of 30 lashes awarded to both the boy and the girl. Subsequently, as the story goes the Taliban got the two to marry and even cooked rice to hold a feast for celebrating the occasion.

It is possible that this story is cooked up or is one of the many being told and retold. But it is a fact that Taliban courts punished the two women and about 25 men by lashing them in public. Besides, drug addicts were routinely canned wherever they were found taking drugs.

Among the widely quoted cases, Taliban publicly canned two butchers in Ningolay village for selling meat of dead animals. They also awarded lashes to two men in the same village for committing unnatural sexual offences.

Two Taliban fighters were also publicly whipped 40 times each in Bar Thana village in Matta tehsil after being found guilty by a Shariah court for extorting Rs 360,000 from a goldsmith hailing from Chupriyal village. A Taliban commander known as Khairo was also involved in the same crime as he was the one who imposed the Rs 360,000 fine on the goldsmith after accusing him of running a propaganda campaign against the Taliban. When the Taliban leadership came to know about the incident, they asked the goldsmith to identify the three Taliban who had extorted the money from him. Subsequently, the two Taliban foots-soldiers were lashed in public and their commander, Khairo, was publicly executed in Sinpoora, the village of former provincial minister and JUI-F leader Qari Mahmood, near Matta.

This was Taliban justice, quick and brutal and publicly awarded.

بشکریہ ۔ دی نیوز

لڑکی۔کوڑے؟

بہت پرانی بات ہے کچھ بزرگ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ ایک بزرگ جو برمحل اور سچی بات کہنے میں معروف تھے بولے “ہماری قوم کا تو یہ حال ہے کہ کسی نے کہا کُتا کان لے گیا اور کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا ۔ دیکھا ہی نہیں کہ ہے یا نہیں”۔ اللہ اُنہیں جنت نصیب کرے مجھے اُن کی یہ بات کل پھر یاد آئی جب ساری دنیا کُتے کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور کوئی سوچ نہیں رہا تھا کہ کُتا کان لے بھی گیا ہے یا نہیں ۔

کل کے غُوغا کا شاید فائدہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود کاروائی کا اعلان کر دیا ۔ ویسے اگر ثمر من اللہ واقعی ثمر مِن اللہ ہوتی تو متعلقہ وڈیو چیف جسٹس کے نام اپنی درخواست کے ساتھ لگا کر عدالتِ عُظمٰی کے رجسٹرار کے پاس جمع کروا دیتیں پھر بھی یہی کچھ ہوتا اور اُن کی مشہوری بھی ہو جاتی البتہ ایک غیر مُلکی طاقت کا ایجنڈا ادھورا رہ جاتا ۔ اب کچھ سُنیئے اُن کی زبانی جن کے ذرائع ابلاغ نے اس وڈیو اُچھالا

مقامی افراد کے مطابق 17 سالہ اس شادی شدہ خاتون کو بدکاری کے الزام میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور یہ واقعہ 6 ماہ پہلے کبل کے علاقے کالا کلے میں پیش آیا۔ ویڈیو میں خاتون کو تین افراد نے پکڑ رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق سر کی طرف بیٹھا ہوا شخص خاتون کا چھوٹا بھائی ہے

صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگرچہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم اس پرانے واقعے کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ایک این جی او کی رُکن ثمر من اللہ کی سازش ہے، جس کا بھائی مشرف کابینہ میں وزیر تھا اور یہ لوگ امن معاہدہ سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ہمیں سزا کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تاہم یہ سزا ہمارے کارکنوں نے ناجائز تعلقات کا اقرار جرم کرنے کے بعد مجرموں کو دی

مولانا صوفی محمد کے ترجمان امیر عزت خان نے کہا ہے کہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایک منظم مہم کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو کو طالبان کیساتھ منسوب کرنا درست نہیں، یہ ویڈیو سوات کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام معاشرے میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے

چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ 6 اپریل کو لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے اس سلسلے میں 8 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا جسکی سربراہی وہ خود کرینگے۔ چیف جسٹس نے 6 اپریل کو سرحد کے آئی جی، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ کو بھی عدالت میں طلب کیا ہے اور سیکرٹری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو بھی 6 اپریل کو پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جیو ٹی وی کو حکم دیا ہے کہ وہ واقعہ کی سی ڈی پیش کریں جبکہ جیو اور دیگر ٹی وی چینلز مشترکہ طور پر ویڈیو مواد ترتیب دیکر سماعت کے دوران عدالت میں دکھانے کا انتظام کریں

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

دبئی کیسا لگا

میں پہلی بار مارچ یا اپریل 1975ء میں متحدہ امارات گیا تھا ۔ میں امارات کی حکومت کی دعوت پر ایک خاص کام کیلئے جس کا مجھے ماہر تصوّر کیا جاتا تھا وطنِ عزیز کی نمائیندگی کر رہا تھا ۔ ہم ایک جماعت کی شکل میں گئے تھے جس میں میرے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری ڈیفنس پروڈکشن ۔ ایک لیفٹننٹ کرنل ۔ 2 میجر ۔ ایک اسسٹنٹ ورکس منیجر اور 9 صوبیدار سے حوالدار تک کے عہدوں کے فوجی تھے ۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب انتظامی امور کیلئے گئے تھے لیکن ان کا کوئی عملی کردار نہ تھا کیونکہ سارا بندوبست امارات میں متعیّن پاکستانی سفارتخانہ کے کونسلر صاحب نے کیا ۔ مجھے جماعت کا فنی سربراہ [Technical Head] مقرر کیا گیا تھا ۔ شیخ راشد جن کا بیٹا محمد اب دبئی کا حکمران ہے نے مہمانوں والی کار کے ساتھ ایک باوردی کپتان میرے ساتھ لگا رکھا تھا جس کی وجہ سے آزادانہ گھومنا آداب کے خلاف تھا ۔ مختصر قصہ بیان کر دیا ہے کہ صورتِ حال سمجھ میں آ سکے ۔

اُس زمانہ میں دبئی شہر اتنا چھوٹا تھا کہ سارا ایک دن میں پیدل گھوما جا سکتا تھا ۔ دبئی شہر وطنِ عزیز کے کسی چھوٹے شہر کا مقابلہ کرتا تھا ۔ دکانوں کی ترپالیں اور چھپّر مجھے اب بھی یاد ہیں ۔ شہر سے باہر کچھ نئی عمارات بن رہی تھیں ۔ دبئی سے العین اور ابوظہبی کی سڑک آدھی کے قریب بن چکی تھی ۔ اب وہ سڑک نئی سڑکوں کے جال میں گم ہو چکی ہے ۔ میں نے الشارقہ [Sharjah] ۔ العین اور ابوظہبی بھی دیکھا تھا ۔ اُن کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ابوظہبی کا شہر کافی بڑا تھا ۔ اُس کے بعد دبئی پھر الشارقہ ۔

اب میں دبئی سے باہر نہیں جا سکا لیکن دبئی تو وہ دبئی رہا ہی نہیں جو میں نے 33 سال قبل دیکھا تھا ۔ اُس زمانہ میں صرف العین میں کچھ درخت دیکھے تھے ۔ دبئی میں ایک درخت بھی نظر نہ آیا تھا ۔ اب تو ہر طرف درخت اور ہریالی ہے ۔ اُس زمانہ کی مجھے ایک عمارت یا سڑک نظر نہیں پڑی ۔ ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ اُس زمانہ کے دبئی میں اشیاء صرف وطنِ عزیز کی نسبت سستی تھیں اب سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سب کچھ وطنِ عزیز کی موجودہ قیمتوں سے زیادہ پر بِک رہا ہے سوائے اسکے کہ کسی دکان پر مُک مُکا فروخت [clearance sale] لگی ہو ۔

دبئی میں شاید پوری دنیا کی قوموں کی نمائندگی موجود ہے ۔ دبئی کے باشندے 20 فیصد اور غیر مُلکی 80 فیصد ہیں ۔ جسے دیکھو بھاگا جا رہا ہے ۔ اگر کسی کو آرام سے چلتا دیکھا تو وہ مقامی تھا یا مقامی کے لباس میں پاکستانی ۔ ہر ملک کے وہاں ریستوراں یا ہوٹل بھی ہیں سو جیسا کھانا دِل چاہے کھایا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پاکستانی ۔ مصری ۔ لبنانی ۔ سعودی ۔ ہندوستانی [تھالی] ۔ چینی ۔ فلپینی ۔ ملیشیائی ۔ کانٹیننٹل ۔ امریکی سب کھانے کھائے ۔ پاکستانی میں راوی کا کھانا مشہور ہے ۔ راوی کی ایک شاخ پر ہم تکہ کباب کا کہہ کر انتظار میں تھے اور دیکھ رہے تھے کہ پلاسٹک کے لفافوں میں دھڑا دھڑ ایک ہی قسم کے سادہ کھانے کے اجزاء رکھے جا رہے ہیں ۔ جب دو سو کے قریب ہو گئے تو ہمارا کھانا آیا پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لفافے دو گاڑیوں پر سوار ہو کے کسی سمت چل دیئے ۔ ہم نے کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ راوی والے روزانہ کم آمدن والے لوگوں بالخصوص پاکستانیوں کو مفت کھانا مہیا کرتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔

ایک دن ہم نے دیرہ جا کر کشتی کا سفر کیا اور اس میں کھانا بھی کھایا ۔ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا جو پُرلُطف رہا ۔ کھانا جو بھی کھائیں اچھا تھا ۔ جس کی وجہ سے میں کچھ زیادہ ہی کھاتا رہا ۔ ہم پرانی دبئی بھی گئے لیکن وہاں گاڑی کھڑی کرنے کو کوئی جگہ نہ ملی ۔ سارے بازار میں بیٹا آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا رہا اور ہم نظارہ کرتے رہے ۔ تنگ سڑکیں اور انسانوں سے بھری ہوئی ۔ وہاں سے نکلے تو عصر کا وقت ہو رہا تھا ۔ بیٹے نے ایک مسجد کے پاس جا گاڑی روکی اور ہمیں کہا آپ نماز شروع کریں میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہوں ۔ ہم نماز ختم کر چکے لیکن بیٹا نہ پہنچا ۔ پارکنگ میں تلاش کیا تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی ہی میں بیٹھا تھا ۔ مزید 5 منٹ بعد ایک گاڑی نکلی تو وہاں گاڑی کھڑی کر کے کہنے لگا آپ لوگ اُدھر چلیں میں آتا ہوں ۔ چند منٹ چلنے پر ایک بازار نظر آیا جہاں لوگ دکانوں کے باہر کھڑے آنے والوں کو دکانوں میں خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ یہ علاقہ مرکز الکرامہ تھا

دبئی میں جو خاص باتیں مشاہدے میں آئیں یہ تھیں ۔ لوگ کسی کو پریشان نہیں کرتے نہ کسی پر آواز کستے ہیں نہ کسی پر ہنستے ہیں ۔ نہ کوئی اپنا رونا روتا ہے اور نہ کوئی بڑائی جتاتا ہے ۔ سب مشینوں کی طرح کام میں لگے ہیں یا بھاگے جا رہے ہیں ۔ آپ نے کیا پہن رکھا ہے ؟ یا کیا کھا رہے ہیں ؟ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کسی کو کوئی غلط کام کرتے نہیں دیکھا ۔ شراب کی فروخت کھُلے عام ہے لیکں کھُلے عام شراب پینا جُرم ہے ۔ عورتیں بازاروں میں نیم عُریاں اور سمندر پر تقریباً ننگی ہوتی ہیں لیکن پیار محبت جتانا جُرم ہے ۔ ہر جگہ پولیس افسر موجود ہوتے ہیں جو شاید انہی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ گھروں میں یا ہوٹلوں کے کمروں میں کیا ہوتا اور ساتھ ساتھ چلنے والے میاں بیوی یا کچھ اور ہوتے ہیں اس سے کسی کو غرض نہیں کیونکہ وہاں کی پولیس وطن عزیز کی پولیس کی طرح نکاح نامہ نہیں دیکھتی

سب سے زیادہ قابلِ ذکر لوگوں کا سڑکوں پر کردار ہے ۔ کوئی گاڑی والا زبردستی ایک قطار سے دوسری قطار میں جانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ سڑک پر ٹریفک آہستہ آہستہ چل رہی ہے تو کوئی نہ قطار توڑنے کی کوشش کرتا ہے نہ ہارن بجاتا ہے ۔ ہر ڈرائیور قانون یا اصول کے مطابق دوسرے کا حق پہچانتا ہے اور اُسے راستہ دیتا ہے ۔ کوئی پیدل شخص زیبرا کراسنگ کے قریب فٹ پاتھ پر کھڑا ہو تو آنے والی گاڑیاں رُک جاتی ہیں تا کہ پیدل شخص سڑک پار کر لے ۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں رہنے والوں کی اکثریت قانون کی خلاف ورزی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ میرے وطن میں غیر مُلکیوں کی اکثریت بھی ایسا ہی کرتی ہے

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے