کسے سچ سمجھیں یہ بتائے کوئی ؟

Updated at 1820 PST Jang 23-5-2009
اسلام آباد… وزیراطلاعات قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے کہ بے گھر ہونے والوں کیلئے پورا پاکستان کھلا ہے ۔کئی افراد صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ منتقل ہوچکے ہیں ۔ انہیں صرف رجسٹریشن کرانی ہوگی

Updated at 1830 PST Jang 23-5-2009
اسلام آباد…وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ سوات آپریشن کے متاثرین کو صوبہ سرحد تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ صوبہ سرحد سے باہر جانے والوں کو نہ 25 ہزار روپے امداد ملے گی نہ وہ بحالی کے منصوبے میں شامل ہوں گے

جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور امن پسند بستے ہیں

کراچی کے مختلف علاقوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات میں خاتون سمیت3افراد ہلاک اور رینجرز اہلکار سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے،جبکہ نا معلوم افراد کی جانب سے11 مسافر بسوں ایک ٹریکٹر اور لوڈنگ ٹرک کو بھی کو آگ لگادی گئی۔ ہنگامہ آرائی کا آغاز گارڈن میں واقع شو مارکیٹ کے قریب روٹ نمبر پی ون کی مسافر بس کو آگ لگاکر جلانے کی کوشش کے ساتھ ہوا،جس کے نتیجے میں بس میں سوار11بچوں کی والدہ آمنہ زوجہ حاجی رزاق جھلس کر ہلاک اور ایک بچے اور خاتون سمیت دو افراد ذخمی ہوگئے۔ کھارادر کے علاقے مچھی میانی میں ماشا اللہ کوچ، گلستان جوہر میں محکمہ موسمیا ت کے دفتر کے قریب مسافر ،شاہ فیصل کالونی میں ایک ٹریکٹر دو بسوں،صفورا گوٹھ ،طارق روڈ ،مومن آباد ،عید گاہ،نارتھ کراچی،میں بسوں کوآگ لگادی ۔گلستان جوہر میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے باعث ہوٹل کامالک44 سالہ ناظر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے بعد جمشید کوارٹرز کا رہائشی25 سالہ نعمان ولد حبیب ،،لانڈھی سیکٹر36 بی کے علاقے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے22سالہ عمران،تین ہٹی کے علاقے میں26سالہ ایمان اللہ کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے زخمی کردیا۔ نارتھ کراچی کے علاقے میں نامعلوم سمت سے چلنے والی گولی لگنے سے رینجرز اہلکار40 سالہ مہر علی زخمی ہوگیا، ناظم آباد نمبر1،پٹیل پاڑہ اور بڑا بورڈ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور گاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا، جس کے بعد دکانیں بند اور ٹریفک معطل ہوگیا ۔ ہنگامہ آرائی کے واقعات صبح کے اوقات میں بھی جاری ہیں جس کے باعث مختلف علاقوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے،جبکہ متاثرہ علاقوں میں سٹرکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم ہے اور امتحانات دینے والے طالبات کو ٹرانسپورٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
بشکریہ ۔ جنگ

مشقِ لاحاصل

قومی کانفرنس تمام ہوگئی ۔ 43 چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ سب کو اظہار خیال کا موقع ملا ۔گھنٹوں مباحثہ ہوا ۔ حکومت کی تیار کردہ قرارداد میں ترامیم ہوئیں ۔ ایک متفقہ قرارداد کا متن تیار ہوا ۔ اس پر تمام جماعتوں کے عمائدین نے دستخط ثبت فرمائے ۔ اس 16نکاتی اعلامیے میں سب کچھ ہے لیکن کہیں ”فوجی آپریشن“ کے الفاظ استعمال نہ ہوئے اور نہ ہی زعمائے ملت نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ باجوڑ کے شدت پسندوں کو زبردست فوجی قوت کے ساتھ کچل دیا جائے ۔ منظور کردہ قرارداد میں ”طالبان“ کا لفظ بھی موجود نہیں ۔ عمومی اندازوعظ و تلقین اور دعوت و ارشاد کا سا ہے ۔ کوئی ایک بھی ٹھوس، جامع اور متعین بات نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا میکانزم تجویزکیا گیا ہے جو اس کانفرنس کی منظور کردہ قراردادکو عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کرے گا ۔ سب کچھ ایک بار پھر اسی حکومت پر چھوڑدیا گیا ہے جس کی ناک میں امریکہ کی نکیل پڑی ہے اور جو مشرف کے اس فلسفے کو ایمان کا درجہ دیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے

کانفرنس نے اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں کی حمایت کی ۔ آئین اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کا عہد کیا ۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ریاستی رٹ پر زور دیا ۔ آئین اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی مسلح کوششوں کی مذمت کی ۔ فوجیوں اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ۔ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کہا ۔ بے گھر ہوجانے والے افراد کی ہرممکن امداد اور بحالی کا عزم ظاہر کیا ۔ قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑی ہو ۔ ایک متحرک اور فعال جمہوری نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ پورے یقین کے ساتھ دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایک موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں ۔ زور دے کر کہا کہ اہم قومی دفاعی معاملات اور فوج کی مختلف مقامات پر تعیناتی صرف پاکستان کا کام ہے ۔ کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اقتصادی ، سیاسی اور جانی قربانیاں دی ہیں ان کی نظیر کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور علاقائی خودمختاری کے خلاف کارروائیوں بالخصوص ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی گئی اور قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے اور اسے دی جانے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو شرائط میں جکڑنے کے منفی اثرات برآمد ہوں گے

یہ ایک لحاظ سے وعظ و نصیحت کا وہ پرچہ ہے جو آپ کو کبھی کبھار ڈاک میں موصول ہوتا ہے اور جس کے کنارے پہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر تم نے اس کی مزید دس کاپیاں تیار کرکے تقسیم نہ کیں تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ ممکن ہے یہ تاثر مبنی برحقیقت نہ ہو لیکن قیاس یہی ہے کہ قومی کانفرنس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ فوجی آپریشن اسی انداز میں چلتا رہے گا، گناہ گاروں اور بے گناہوں کی تمیز کے بغیر لاشیں گرتی رہیں گی ۔ بے خانماں ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہے گی

عرفان صدیقی کے مضمون کا بقیہ یہاں کلک کر کے پڑھیئے
بشکریہ ۔ جنگ

بھیک مانگنے میں کامیابی پر مبارک

اِسے حالات کی ستم ظریفی کہئے یا اعتقادکی ضعیفی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہماری شناخت ”بھک منگوں“ کے سوا کچھ نہیں رہی ہے… ہم وہ بھکاری اور ڈھیٹ منگتے ہیں جوڈالر اور پاؤنڈ کے لئے اپنے ہی گراؤنڈ خانماں بربادوں سے بھر کر ”انسانی گراؤنڈ“ پر یہود و نصاریٰ سے بھیک مانگتے ہیں…کئی دہائیوں سے بدچلن حکمرانوں کا یہی چلن ہے کہ دنیا پرستوں سے دنیا سازی کی باتیں کر کے چھلنی دامن کو ”امداد کے نوٹوں“ سے بھر لیں…یہ اور بات ہے کہ دل اور دامن میں سوراخ کے سبب گرنے والے نوٹوں کا اِس لئے حساب نہیں ہوتا کیونکہ اُن گِرے ہوؤں کو ”گِرے ہوئے“ اُٹھالیتے ہیں اور جو الجھ کر جھولی ہی میں رہ جاتے ہیں وہی ”قومی خزانے کا حصہ “قرارپاتے ہیں…افسوس ہوتا ہے اپنے حکمرانوں پر کہ جن کے نزدیک بھرے کشکول کے ساتھ کامران لوٹنا ہی عظیم سفارت کاری ہے …نویں جماعت کے لازمی مضمون ”مطالعہ پاکستان“میں کبھی پڑھا تھا کہ سربراہِ مملکت جب کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو معاہدے کرتا ہے ، مختلف شعبوں میں تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کئے جاتے ہیں،مشترکہ امور پر متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اور پھر وطن واپسی پر قوم کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو فلاں معاملے پر مقدم رکھا، اُس کی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہم نے ایسی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جس سے ہماری خودی پر آنچ آتی ہو اور ہم نے برابری کی بنیاد پر باہمی تعلق کو فروغ دیا لیکن ”نواں آیا سوہنیا“کیا جانے کہ ”نویں جماعت“ کا سبق کیا ہے؟اُنہیں تو ڈالروں کی خوشبو ملک سے باہر کھینچے رکھتی ہے ، پاؤنڈ اور فرینک کے حصول میں وہ اتنے Frank ہیں کہ دل کی بات فوراً ہی زبان پر لے آتے ہیں، کوئی پس و پیش اور نہ ملال بس دولت، روپیہ اور مال…اپنے فن میں بلا کے ماہر ہیں کہ”مانگنے“ میں کوئی جھجھک ہی محسوس نہیں ہوتی،

بقیہ مضمون پڑھیئے یہاں کلِک کر کے

طویل المعیاد امریکی حکمتِ عملی

افغانستان میں امریکی موجودگی دراصل ایک طویل المعیاد امریکی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ اپنی دیرینہ معاشی اور حُکمرانی کے خواب پورا کرنا چاہتا ہے ۔ پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر دی ہوئی ترتیب سے باری باری کلِک کر کے
1 ۔ ذرخیز مشرق پر امریکی قبضہ کا منصوبہ
2 ۔ عزائم کی تکمیل میں امریکی خوش قسمتی ۔ پاکستان میں تابعدار فوجی آمر کی موجودگی
3 ۔ دراصل امریکہ طالبان کی مالی امداد کر رہا ہے
4 ۔ امریکہ کا منصوبہ طالبان کو فتح کرنا نہیں بلکہ اس سے بہت بڑا مقصد ہے

یادگار سفر اور خوبصورت شیر

میں نے ڈائری کے سلسلے میں اپنے جموں سے سرینگر جس سفر کا ذکر کیا تھا وہ حادثاتی طور پر میرے لئے بہت دلچسپ بن گیا تھا مجھے شیروں کے ساتھ کھیلنے نہ دیا گیا ۔ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرتے ؟ معلوم نہ ہو سکا ۔ بہر حال وہ میرا ایک یادگار سفر ہے

ہمیں 1946ء میں سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ۔ ہمارے والدین فلسطین میں تھے میں اور میری دونوں بہنیں جو مجھ سے بڑی ہیں چھٹیاں شروع ہونے پر اپنی پھوپھی اور دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک دن صبح سویرے گھر سے نکلے اور ٹانگے پر بیٹھ کر بس کے اڈا پر پہنچ گئے ۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی بس روانہ ہوئی ۔ بس میں کُل 6 سواریاں بیٹھنے کی اور پیچھے سامان رکھنے کی جگہ تھی ۔ میں کچھ تنگی محسوس کر رہا تھا ۔ پوچھ کر پیچھے سامان کے اُوپر چڑھ کے کبھی بیٹھتا اور کبھی لیٹتا رہا ۔ سورج چڑھنے کے بعد ہم اُودھم پور پہنچے ۔ وہاں پُوڑے بن رہے تھے سب نے گرم گرم پُوڑوں سے ناشتہ کیا ۔ ہم لوگ آجکل والی انگریزی چائے نہیں پیتے تھے ۔ نمکین چائے جسے آجکل کشمیری چائے کہتے ہیں یا قہوہ جسے آجکل چائنیز ٹی [Chinese Tea] کہتے ہیں پیتے تھے ۔ پوڑوں کے ساتھ سب نے قہوہ پیا

اُودھم پور سے بس روانہ ہوئی تو اُونچے پہاڑوں پر چڑھنے لگی ۔ بس پہاڑ کے ساتھ ایک سمت کو جاتی پھر گھوم کر واپس آتی پھر واپس اُدھر جاتی پھر اِدھر آتی ۔ اُوپر چڑھنے پر ہم جس سڑک سے آئے تھے نیچے ایک رسی کی مانند دائیں بائیں بَل کھاتی نظر آنے لگی۔ بس کی رفتار اتنی تھی کہ کوئی شخص اس کے ساتھ بھاگ کر آگے نکل سکتا تھا ۔ ایک طرف سے پہاڑ پر چڑھ کر بس دوسری طرف اُترنا شروع ہو گئی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ عمل کتنی بار دوہرایا گیا

عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بس آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکی تھی کہ رام بن کے علاقہ میں دریائے چناب کا پُل گذر کر بس کوئی 20 میل آگے گئی تھی کہ کھڑی ہو گئی ۔ معلوم ہوا کہ بس کے پچھلے ایک پہیئے کی نابھ یا دھُرا [hub] ٹوٹ گیا ہے جو کہ جموں یا سرینگر سے لایا جائے گا ۔ مغرب کے وقت ڈرائیور گزرنے والی بس میں بیٹھ کر سرینگر چلا گیا بس میں باقی ایک مرد ۔ دو عورتیں اور ہم تین بچے رہ گئے ۔ قصہ کوتاہ بس وہاں دو راتیں اور ایک دن کھڑی رہی

جو کچھ ہمارے پاس تھا ہم نے پہلی رات کو کھا لیا ۔ رات کو سب بس میں بیٹھے اُونگ رہے تھے ۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور بس سے باہر نکلنے کیلئے بے چین تھا ۔ آخر موقع پا کر بغیر آواز پیدا کئے بس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ چاندنی رات تھی ۔ اُونچے اُونچے پہاڑ اور سڑک کے ساتھ گہری وادی جس میں چناب دریا کا شفاف پانی بہہ رہا تھا ۔ خاموشی اتنی کہ بہتے پانی کا ارتعاش عجب موسیقی پیدا کر رہا تھا ۔ فضا انتہائی خوشگوار تھی ۔ پہلے میں ٹہلتے ہوئے بلند پہاڑوں پر غور کر کے لُطف اندوز ہوا پھر نیچے وادی اور اس میں بہتے پانی کا نظارہ کیا ۔ وادی بہت گہری تھی پھر بھی نیچے پانی تک جانے کی خواہش نے دل میں چُٹکی لی ۔ وادی میں اُترنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک مجھے نیچے پانی کے قریب کچھ نظر آیا ۔ یہ دو شیر تھے ۔ وہ مجھے اتنے خُوبصورت لگے کہ جی چاہا جلدی سے ان کے پاس جا کر اُن سے کھیلوں ۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے اُترنے کا عادی تھا مگر سڑک کے ساتھ ایکدم گہرائی ہونے کی وجہ سے نیچے اُترنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اچانک بڑی خاموشی کے ساتھ کوئی پیچھے سے مجھے دبوچ کر بس میں لے گیا ۔ وہ میری پھوپھی تھیں جنہوں نے نیند کھُلتے ہی مجھے ڈھونڈا اور بس سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اُن کی نظر شیروں پر پڑی تھی

دوسرے دن صبح سویرے ہی کھانے کی فکر ہوئی ۔ ایک رشتہ دار مرد جو ہمارے ساتھ تھے سڑک پر پیدل چلتے ہوئے گئے اور دو گھنٹے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں رام سُو سے ساگ ۔ گھی اور کچھ نمک مرچ وغیرہ لے آئے ۔ پتھروں کا چولہا بنایا ۔ اِدھر اُدھر سے سوکھی لکڑیاں چُن کر آگ چلائی گئی ۔ چاول ہمارے پاس تھے ۔ چاول اور ساگ پکائے گئے ۔ ہم نے وہ ساگ نہ پہلے کھایا تھا نہ بعد میں کبھی کھایا ۔ رات کو ڈرائیور نابھ لے کر پہنچ گیا ۔ ساتھ ایک مستری بھی لایا اور نابھ تبدیل کیا گیا ۔ اُس سڑک پر رات کو سفر نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسلئے اگلی صبح سرینگر روانہ ہوئے ۔ جب بس راستہ میں قاضی کُنڈ پہنچی تو مجھے چھوٹی چھوٹی پیاری سی ٹوکریوں میں خوبصورت چھوٹی چھوٹی ناشپاتیاں دکانوں پر نظر آئیں اور میں بھاگ کر ناشپاتیاں لے آیا اور سب نے کھائیں ۔ ناشپاتیاں خوبصورت اور بہت لذیذ تھیں

سرینگر میں ہم نے جہلم دریا میں مِیرا قدل [قدل پُل کو کہتے ہیں] کے قریب کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں قیام کیا ۔ اس میں دو کافی بڑے سونے کے کمرے دو غسلخانے اور بہت بڑا بیٹھنے اور کھانے کا کمرہ تھا ۔ اس بڑی کشتی کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی تھی جس میں باورچی خانہ اور نوکروں کے رہنے کا بندوبست تھا ۔ نوکر ہاؤس بوٹ والا ہی مہیا کرتا تھا ۔ سبزی پھل خریدنے کہیں نہیں جانا پڑتا تھا ۔ سبزی پھل اور مچھلی سب کچھ کشتیوں میں بیچنے آ جاتے تھے ۔ چھوٹی مچھلیاں لینا ہوں تو اسی وقت دریا میں جال ڈال کر پکڑ دیتے تھے

سرینگر میں ہم حضرت بَل ۔ نسیم باغ ۔ نشاط باغ اور جھیل ڈَل ۔ وغیرہ کی سیر کو گئے ۔ پھلوں کے باغات میں بھی گئے ۔ ایک باغ میں گلاس [Cherry] کے درخت تھے جو اس طرح لگائے گئے تھے کہ چاروں طرف سے بالکل سیدھی قطاروں میں تھے ۔ ان پر لگے گلاس بہت خُوبصورت منظر پیش کر رہے تھے ۔ گلاس دو قسم کے تھے ۔ مالی نے ہمیں دونوں چکھائے ۔ کالے بہت میٹھے تھے جبکہ سُرخ کچھ تُرش تھے ۔ ہم نے کالے والے ایک سیر خریدے جو اُس نے درخت سے اُتار کر دیئے ۔ ہم آلو بخارے ۔ بگو گوشے اور بادام کے باغات میں بھی گئے ۔ قریبی پہاڑوں پر گلمرگ ۔ ٹن مرگ ۔ کُلگام ۔ پہلگام ۔ وغیرہ بھی دیکھے ۔ وہاں بہت سردی تھی کئی جگہ برف پڑی ہوئی تھی ۔ ایک ماہ رہ کر ہم واپس جموں لوٹے ۔ ایک رات راستہ میں ہوٹل میں گذاری اور دوسرے دن گھر واپس پہنچے ۔ واپسی کا سفر بغیر کسی اہم واقعہ کے گذرا