جب میں آٹھویں جماعت میں تھا [1951ء] تو محترم والد صاحب [اللہ اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے] نے مجھے گھر کے کاموں کی ذمہ داری دے دی ۔ 1962ء میں جب میں ملازم ہوا تو گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری بھی مل گئی ۔ محترم والد صاحب 1987ء میں بیمار ہوئے اور میں گھربار چلانے کے علاوہ اُن کی تیمارداری بھی کرتا رہا ۔ اُن کی بیماری کے دوران اپنے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کا بندوبست بھی کیا ۔ اسلام آباد میں مکان جس میں اب ہم چاروں بھائی رہتے ہیں آدھا بنا تھا کہ والد صاحب بیمار پڑ گئے ۔ والد صاحب کے حُکم پر اُن کی بیماری کے دوران یہ مکان مکمل کرایا ۔ اس تمام عرصہ میں مجھے کوئی بوجھ محسوس نہ ہوا
جب 2 جولائی 1991ء کو محترم والد صاحب فوت ہو گئے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گیا ہوں ۔ وجہ یہ تھی کہ ہر کام کرنے سے قبل میں محترم والد صاحب کی منظوری یا خوشنودی حال کر لیتا تھا اور اُس کے بعد مجھے کوئی فکر نہ ہوتی تھی ۔ اُن کی وفات کے بعد ہر کام مجھے اپنی سوچ اور اپنی ذمہ داری پر کرنا تھا ۔ مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی اتنی مہربانی رہی کہ میں نے کبھی محترم والد صاحب کی حُکم عدولی نہ کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم کی کرم نوازی اور میرے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ محترم والد صاحب کی وفات کے بعد سے پچھلے 18 سال میں سب کچھ بخیر و خُوبی ہوتا رہا اور سب بہنوں اور بھائیوں کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں