پھر نتھی کر دیا گیا

میں راشد کامران صاحب کے بلاگ پر کسی اور کام سے گیا تھا اور وہاں اپنے آپ کو بندھا ہوا پایا
سوال ۔ 1 ۔ انٹرنیٹ پر آپ روزانہ کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟
جواب ۔ کچھ مقرر نہیں ۔ صفر سے لے کر 8 گھنٹے تک لیکن لگاتار نہیں اور اس کا انحصار مہیاء وقت اور ضرورت پر ہے ۔ مطلب ہے کہ کوئی اور کام ہو تو پھر کمپیوٹر میرے انتظار میں چلتا رہتا ہے ۔ اسی لئے کئی حضرات کو شکائت ہے کہ میں ان کی بات کا جواب نہیں دیتا

سوال ۔2 ۔ انٹرنیٹ آپ کے رہن سہن میں کیا تبدیلی لایا ہے؟
جواب ۔ وہی چالِ بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ بقول کچھ جوانوں کے میں جدید دنیا میں نہ آ سکا ہوں نہ اسے سمجھ سکا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب میں نے کپيوٹر پر کام شروع کیا اور میراتھان قسم کے پروگرام ڈویلوپ کئے [1985ء تا 1988ء] اس وقت وہ لوگ بوتل میں دودھ پیتے ہوں گے یا پرائمری سکول میں پڑھتے ہوں گے ۔ جو جوان امریکہ کینڈا یا یورپ میں ہیں ان کی بات نہیں کر رہا کیونکہ وہ مجھے عرصہ سے جانتے ہیں ۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے اسلام آباد میں انٹر نیٹ شروع ہوا تھا اور میں پہلے چند دنوں میں یہ سہولت حاصل کرنے والوں میں تھا ۔ مین ان سب سے پہلے چند پاکستانیوں میں تھا جنہوں نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ صوتی پیغام بھیجے
فائدے یہ ہوئے
میرا بڑا بیٹا زکریا اعلٰی تعلیم کیلئے ستمبر 1997ء میں امریکا چلا گیا ۔ تو ای میل کے ذریعہ جلد خیر خیریت معلوم ہو جاتے تھی ۔ لیکن تسلی نہ ہوتی تھی ۔ اسلئے ٹیلیفون کرتے تھے اور فی کال 700 سے 1050 روپے ادا کرتے تھے جس میں کبھی کبھار آٹھ نو منٹ بات ہوتی تھی عام طور پر آپریٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے تین منٹ بات ہوتی تھی ۔ اب تو مسئلہ نہیں رہا ۔ کمپیوٹر پر ٹیلیفون سے بہتر آواز میں بات ہوتی ہے پہلے خط لکھ کر ڈاکخانے کے ذریعہ بھیجتے اور پھر ہفتوں انتظار کرتے جواب کا ۔ اب فٹا فٹ ہو جاتا ہے ۔
پہلے کتابیں ڈھونے اور صفحے اُلٹنے میں کافی وقت ضائع ہوتا تھا ۔ پھر ہاتھ سے لکھنا پڑتا تھا ۔ اب چند منٹوں میں سب کچھ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ عِلم حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ بلاگر اور قاری مجھ سے پریشان رہتے ہیں

سوال ۔ 3 ۔ کیا انٹرنیٹ نے آپ کی سوشل یا فیملی لائف کو متاثر کیا ہے اور کس طرح؟
جواب ۔ میری سماجی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ سماجی سرگرمیاں جاری ہیں البتہ چند سالوں سے باہر کا ماحول بدلنے کی وجہ سے کم ہو گئی ہوئی ہیں ۔ میں بم دھماکوں کی نہیں قوم کے افراد کے رویے کی بات کر رہا ہوں جو میرے جیسے انسان کو پسند نہیں کرتے
گھر میں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ میری بیگم مجھے اور عزیز و اقارب کو کہتی رہتی ہیں ” ہر وقت کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے ہیں “۔ میں کہتا ہوں ” مجھ سے قسم کرا لو جو میں کبھی کمپیوٹر پر بیٹھا ہوں ”

سوال ۔ 4 ۔ اس علت سے جان چھڑانے کی کبھی کوشش کی اور کیسے؟
جواب ۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک علت پالی تھی ” چائے ” اور اُس سے میں نے اُس وقت پیچھا چھُڑا لیا جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا

سوال ۔ 5 ۔ کیا انٹرنیٹ آپ کی آؤٹ ڈور کھیلوں میں رکاوٹ بن چکا ہے؟
جواب ۔ کھیلیں تو میری انٹر نیٹ پاکستان میں آنے سے بہت پہلے بند ہو گئی تھیں کیونکہ کھیلنے کی بجائے کھلانے کے دن شروع ہو گئے تھے

پاکستان امریکی گیم پلان کے شکنجے میں

ڈاکٹر شیریں مزاری کا یہ مضمون اُن گھمبیر حقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے جو عوام کے عِلم میں نہیں ہیں اور جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے حکام کس قدر قوم دُشمن واقع ہوئے ہیں

پاکستان کے اندر اور اردگرد جس تواتر کے ساتھ واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں جب تک ہم اس وسیع تر منظر کو دیکھیں گے نہیں ۔ ہم اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور امریکہ جیسے ہمارے بدخواہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے اس ملک کیخلاف اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اس امریکی ایجنڈے کی جڑیں مشرف کی جانب سے امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ کو انتہائی جلد بازی میں گلے لگانے سے جا ملتی ہیں

اُس وقت جس بات کا ادراک نہیں کیاگیا وہ یہ تھی کہ نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ نفسیاتی ٹراما میں جاچکا تھا جس نے عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے پہلے سے شُبہات پر مبنی امریکی نقطہ نظر کو مزید تقویت دی تھی۔ بلاشبہ بعض نرم خُو مسلم رہنمائوں کو قدرے پس و پیش کے بعد اتحادی بننا پڑا لیکن قوم پرست مسلم رہنماؤں اور ملکوں کے ساتھ تعلقات کو امریکیوں نے کبھی اطمینان بخش محسوس نہیں کیا۔ اگر یہ قومیں فوجی اور اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط نہیں تو امریکہ نے ان کے ساتھ تعلقات میں کہیں زیادہ بے اطمینانی محسوس کی

اس حوالے سے مہاتیر کا ملائیشیا انقلابی ایران اور ایٹمی پاکستان یقینی طور پر کسی ایک یا دوسری طرح امریکی راستے میں رکاوٹ بنے
رہے ہیں لہٰذا جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اگرچہ اس واقعہ میں سعودی شہری ملوث تھے لیکن پاکستان کو مرکزی طور پر نشانہ بنایا گیا اور امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان کو توڑنے اور بالآخر اس کے ایٹمی اثاثوں پر تنقید کرنے کا سنہری موقع ہے ۔ مشرف نے ابتداء میں ہی جس طرح بڑھ چڑھ کر امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا وہ خود بُش انتظامیہ کیلئے حیران کن بات تھی تاہم انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ حربی سطح پر مطالبات ماننے کے حوالے سے مشرف کی بعض حدود ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج عموماً پاکستان کیلئے امریکی ایجنڈے کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی ہے لہٰذا پاک فوج اور اسکے انٹیلی جنس ادارے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں خصوصاً ایک بار تو سی آئی اے دو سال قبل آئی ایس آئی سے اس بات پر الجھ پڑی کہ فاٹا میں کس کو نشانہ بنایا جائے

آخر پاکستان کیلئے بدشگونی پر مبنی امریکی ایجنڈا ہے کیا؟ امریکی فوج کے جریدے میں ’’بلڈ بارڈوز‘‘ کے عنوان سے چند سال قبل ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اس کا وسیع خاکہ پیش کیاگیا تھا اس میں شامل اہم عناصر کی اب اس طرح نشاندہی کی جاسکتی ہے

1۔ پاکستان اور اسکے ریاستی اداروں کی امریکی خواہشات کے مطابق تشکیل نو کی جائے
2 ۔ ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کیاجائے تا وقتیکہ یہ یقینی طور پر باہرنہ لے جائے جا سکیں
3 ۔ پاکستان کو خطے میں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے اور چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ ختم کرنے پر مجبور کیا جائے

اس ایجنڈے پر عملدرآمد کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ کہ پاکستان میں اسقدر تشدد اور افراتفری پھیلائی جائے کہ پاکستان میں آنے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول کا جواز پیدا ہوسکے ۔ ملک کیلئے ایک نئے ٹیسٹ ماڈل کی تشکیل کی جائے جس میں اسے بھارتی بالادستی کے تحت لانا بھی شامل ہے ۔ اس امریکی ایجنڈے پر کس طرح عملدرآمد کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جنگ کا مرکز افغانستان سے پاکستان منتقل کیاجائے گا ۔ یہ مختلف دلچسپ حربوں کے ذریعے بالآخر مکمل کرلیا گیا ہے ۔ اس کا آغاز تورا بورا پربمباری کے دوران القاعدہ اور طالبان کو بچ نکلنے کا راستہ دے کر کیا گیا اس کے بعد پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کیلئے ڈرون حملے شروع کئے گئے ۔ ان حملوں کے باعث فاٹا کی انتہائی محب وطن آبادی بتدریج سٹیٹ کیخلاف ہوتی گئی خصوصی طور پر ایسا اس وقت ہوا جب امریکہ نے دباؤ ڈال کر فوج کو اس علاقے میں جانے پر مجبور کیا ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو افغانستان میں آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح افغانستان سے دہشت گردوں کیلئے بلوچستان فاٹا اور صوبہ سرحد میں سرمائے اور ہتھیاروں کی آمد شروع ہوگئی

مزید برآں اپنے پُرتشدد ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نئی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے نام سے وجود میں آئی جسے واضح طور پر سرحد پار سے بڑی تعداد میں ہتھیار فراہم کئے گئے اوران میں سے بعض امریکی ساختہ تھے ۔ اس دوران امریکہ پاکستان میں اپنی خفیہ موجودگی میں بتدریج اضافہ کرتارہا جس کا آغاز اس نے تربیلامیں نام نہاد ٹرینرز اور پرائیویٹ امریکی سکیورٹی ایجنسیوں سے کیا جو عراق جیسے علاقوں میں امریکی حکومت کیلئے کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں

بلوچستان میں بھی امریکی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے خصوصاً جبکہ امریکہ اس صوبے کے ذریعے ایران کیخلاف اپنے خفیہ آپریشنز پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے جبکہ مشرف نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اڈے امریکہ کے حوالے کردیئے تھے ۔ ان میں بغداد میں ایئربیس بھی شامل ہے جو خاران سے 78 کلو میٹر کے علاقے میں ہے اسے شَمسی نہیں شِمسی ایئربیس کہا جاتا ہے اور بدوالبندین کے قریب ایرانی سرحد پر واقع ہے جہاں سے ڈرون پروازیں کر رہے ہیں یہ واحد ہوائی اڈہ ہے جو سول ایوی ایشن کے زیرکنٹرول فہرست میں شامل نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ امریکہ سفارتی اور سیاسی سطح پر ” ڈو مور” کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے اور فوج کی ساکھ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف لڑنے کے اسکے عزم کے حوالے سے نقصان پہنچا رہا ہے۔ آئی ایس آئی کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کیلئے چنا گیا ہے جبکہ امریکی میڈیا کے ذریعے ایٹمی اثاثوں کو وقتاً فوقتاً نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کو جس قدر ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے کہ کسی قدر وہ اپنی ناکامیوں کو پاکستان کے سر تھونپنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ یہ وجہ تھی جس نے امریکہ کو یہ جنگ پاکستان منتقل کرنے پر مجبور کردیا ہے

مشرف امریکہ اتحاد جاری رہتا لیکن انصاف اور آزادی کیلئے پاکستانی عوام کی خواہش نے مشرف کی جانب سے عدلیہ کا ہاتھ مروڑنے پر جوڈیشل تحریک کو متحرک کیا لیکن قوم ایک بار پھر کسی تبدیلی سے محروم رہی کیونکہ امریکہ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ این آر او کے ذریعے اپنا ایک نیا پارٹنر تلاش کرلیا ۔ زرداری کی صورت میں انہیں ایک زیادہ تعاون کرنے والا رہنما مل گیا جس کے پاس جمہوری سند بھی ہے ۔ اگر مشرف نے امریکہ کو کھُلی رسائی دینے کا آغاز کیا تھا تو دوسری طرف زرداری حکومت تمام حدود کو پار کر گئی ہے

اب امریکی حکمت عملی پر عملدرآمد کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جو یہ ہے کہ انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں کے ذریعے پاکستانی شہروں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کیا جائے جبکہ کیری لوگر بل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ فوج کو پہلے سوات اوراب جنوبی وزیرستان میں آپریشنوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہمسایہ ملکوں سے الگ تھلک کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کیلئے پاکستانی بلوچوں سے ملحقہ ایرانی صوبے تفتان میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرائے گئے تاکہ ایران پاکستان تعلقات تباہ کئے جائیں ۔ چین کے بعد ایران پاکستان کا واحد ہمسایہ دوست ہے

پاکستان میں امریکہ کی پوشیدہ موجودگی اب ایک جال کی شکل اختیار کر گئی ہے جو جنوب میں سندھ اور بلوچستان اور جنوب مغرب میں پنجاب سے اسلام آباد اور پشاور تک پھیلا ہوا ہے ۔ اب امریکہ کے خفیہ مسلح لوگ امریکی میرینز کے ساتھ مل کر پاکستانیوں اور ان کے ایٹمی اثاثوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ کیری لوگر ایکٹ اس بات کو محض رسمی طور پر تسلیم کرنا ہے جو عملی طور پر پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی ہے یعنی امریکی حُکم کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اب امریکی ایجنڈے کے آخری مرحلے پر عملدرآمد ہونا ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا ۔ اس مرحلے میں کوئٹہ جنوبی پنجاب اور مریدکے کو ہدف بنانے کی دھمکیوں سے ملک کو خانہ جنگی جیسی صورتحال میں دھکیلنا ہے

پہلے فوج پر سوات میں آپریشن کیلئے دبائو ڈالا گیا اور اب فوج جنوبی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے جبکہ نئے اقدام کیلئے فوج نے جنوبی پنجاب کی جانب پہلے ہی پیشقدمی شروع کردی ہے ۔ مقصود فوج کو پھیلا کر اور سول، ملٹری اختلافات پیدا کرکے ملک کومکمل طور پر غیر مستحکم کرنا ہے ۔ جب ملک میں مکمل افراتفری پھیل جائے گی تو امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر دبائو ڈالے گا کہ اسے پاکستان کے ایٹمی اثاثے کنٹرول میں لینے کی اجازت دی جائے جسے شائستہ زبان میں ” بین الاقوامی کنٹرول‘‘ میں دینا کہا جاتا ہے لیکن اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدارکی راہداریوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے روشنی کو دیکھنا شروع کردیا ہے جبکہ اس مہلک امریکی ایجنڈے کیخلاف پاکستانی عوام بھی بیدار ہوگئے ہیں جب تک ہم امریکہ کی اس پوری گیم پلان کو نہیں دیکھیں گے اور تمام نقطوں کونہیں ملائیں گے ہمارے اس تباہ کن منصوبے کا شکار بننے کا سلسلہ جاری رہے گا

ڈاکٹر شیریں مزاری جو سابق سربراہ ۔ انسٹیٹیوٹ کا ڈیفَینس اینڈ سٹریٹیجِک پلاننگ ۔ قائد اعظم يونیورسٹی ہیں اپنے مضمون کی ماہر ترین پاکستانی سمجھی جاتی ہیں ۔ ان کا یہ مضمون جمعہ 23 اکتوبر 2009ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا

احسان تیرا ہو گا

احسان تیرا ہو گا مجھ پر
دِل چاہتا ہے جو کہنے دے
اپنے دیس سے محبت ہے مجھ کو
مجھے اس کی چھاؤں میں رہنے دے

صورت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ اپنے ہی وطن میں ہمارا رہنا بھی لوگوں کو بھاری محسوس ہونے لگا ہے ۔ خود کو اس مُلک کا مالک سمجھنے والے ہمیں دھتکارنے لگے ہیں [یعنی اُن لوگوں کو جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنا مال و متاع گنوایا اور اپنے عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا] مگر وہ نہیں جانتے کہ اب بھی ہمارا جذبہ مرا نہیں ہے گو جسم کمزور ہو گئے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیت جاں نثاروں کی ہوتی ہے مالداروں کی نہیں ۔ ہم سے اپنے بھائی بہن اپنے بچے بلکتے نہیں دیکھے جاتے ۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ ہم آج بھی اپنا سب کچھ اس وطن کی ناموس پر قربان کرنے کو تيار ہیں

نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

ایک طرف میرے وطن کے دیرینہ دُشمنوں کی چالیں زوروں پر ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر بیٹھے حقوق اور ترقی کے نام نہاد ٹھیکیدار اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہیں ۔ تیسری طرف دیکھیں تو دُشمن کے پروردہ کرائے کے قاتل میرے وطن کی زمین میرے ہی بھائي بہنوں اور بچوں کے خون سے رنگ رہے ہیں اور اس میں کامیابی کا سہرا میرے ہی وطن کی کالی بھیڑوں کے سر ہے ۔ چوتھی طرف دیکھیں تو جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت نہیں

اُٹھ اے پاکستانی ۔ اپنی نیند اور نشے سے کہ دُشمن ہے چال قیامت کی چل گیا اور تو نجانے کونسا نشہ پی کر مدہوش پڑا ہے ۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ۔ تیرا نام اس مُلک سے ہے اور اسی مُلک کے ساتھ تُو یا تیرا نام زندہ رہ سکتا ہے ۔ سُنا نہیں کہ اپنی گلی میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے ۔ تُو تَو انسان ہے ۔ اشرف المخلوقات ۔ پر تیرے کرتوت کیا ہیں؟ بھائی کی بات تجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ اُس کا منہ نوچنے کو پھرتا ہے اور دُشمن تُجھے چمک دھمک دکھا کر تیرے اُوپر سے گذرنے کو ہے اور تیرے کپڑے اُتارنے اور تجھے ایک وقت کی روٹی کا محتاج بنانے کی تدبیر کر رہا ہے

کب ہوش میں آئے گا تُو جب ہوش میں آنا بیکار ہو گا ؟

درُست کہ چاروں طرف دہشتگردی کے واقعات اور غیریقینی صورتِ حال پریشان کُن ہے ۔ لیکن اس سب سے تقریر سے نہیں تدبیر اور عمل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔کچھ لوگ شور مچاتے ہیں اور کچھ خاموشی سے برداشت کرتے ہیں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے موجودہ دہشتگردی اور پریشانی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو میرے جیسوں نے اور ہمارے بزرگوں نے دیکھی تھی ۔ میں مختصر طور پر صرف اپنی حالت بیان کرتا ہوں ۔ پاکستان بنا تو میری عمر 10 سال تھی ۔ میری دو بہنیں مجھ سے 3 اور 5 سال بڑی تھیں ۔ جب بھارت میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے تو لاشیں گرنے لگیں اور جوان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اغواء ہونے لگیں ۔ کسی کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ کب اور کس جگہ بلوائی حملہ کریں گے اور ہمارا کیا حشر کریں گے ۔ اشیاء خوردنی کم تھیں ۔ گھر سے باہر نکلنا محال تھا ۔کئی کئی دن فاقے کئے اور کچھ دن ایسے بھی تھے کہ پینے کو پانی بھی نہ ملا ۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام ۔ یہی کچھ کم نہ تھا کہ ایک ماہ بعد میں میری دونوں بہنیں اور تین نابالغ ساتھی [میرے والد کی چچازاد بہن اور چچازاد بھائی کی بیٹی اور بیٹا] اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ ستمبر سے دسمبر 1947ء کے تین ماہ اور بھی زیادہ بھیانک تھے ۔ سردی تھی اور رات کو ہم چھ لوگ ایک لحاف [رضائی] میں ایک 5 فٹ لمبے 4 فٹ چوڑے نمدے پر سمٹے رہتے ۔ سونا کس نے تھا ۔ رات کے وقت بلوائیوں کے جَتھے ست سِری اکال ۔ جئے مہا بھارت اور مُسلوں کا خون بہائیں گے کے نعرے لگاتے کہیں قریب ہی سے گذرتے تھے ۔ اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ تھا ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کا کرم تھا کہ ہم 18 دسمبر 1947ء کو بخیریت پاکستان آ گئے

وہی اللہ آج بھی ہماری مدد کرے گا ۔ یہ وطن بھی تو اُسی نے دیا ہے ۔ اس کی حفاظت بھی وہ کرے گا لیکن اللہ نے کہہ رکھا ہے

لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی [سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39]

قوم کیلئے لمحہ فکریہ

تحریر ۔ مشتاق احمد قریشی ۔ بشکریہ جنگ
سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جب کبھی قوم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور قوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے لگتی ہے تو قوم کسی نئے حادثے کسی نئی دہشت گردی سے دوچار کردی جاتی ہے۔ کیا صرف اس لئے یہ دہشت گردی ہورہی ہے کہ قوم یکجہت نہ ہوسکے‘ کسی بھی مسئلے پر زبان نہ کھول سکے‘ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف اپنے سچے جذبات کا اظہار نہ کرسکے۔ جب جب ملک کسی قسم کے بحران سے دوچار ہوا یا کیا گیا‘ عوام کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرکے جہاں ان کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیا گیا وہیں انہیں ایک ان دیکھے‘ ان چاہے خوف کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟

ذرا سوچئے! جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی من چاہی قیمتوں کا نفاذ تھا جس میں مل مالکان اور حکمران دونوں کی ملی بھگت تھی اس وقت جب عوام سڑکوں پر نکلنا شروع ہی ہوئے تھے کہ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف حکومت کررہی ہے کو بے چین کرنے کے لئے پے درپے دہشت گردی کے واقعات رونما کئے گئے۔ جواب میں عوام خوفزدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔

بجلی کا بحران جس پر عوامی ردعمل جگہ جگہ سر ابھار رہا تھا وہ بھی اسی طرح نمٹایا گیا۔ اس کے پس پشت بھی بجلی مہنگی کرنا اور من چاہے دام وصول کرنا ہی ہے ۔ عوام بے چارے مجبور و بے بس جو ہوئے۔ اب جب کہ قوم کو ایک نیا مسئلہ کیری لوگر بِل (Bill) نہیں بلکہ بُل (Bull) سے واسطہ پڑا ہے اور قوم یک زبان ہوکر واویلا کرنے لگی تو اس بُل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر GHQ کو نشانہ بنا کر انہیں بھی زبان بندی کا پیغام دے دیا گیا ہے کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی بار افواج پاکستان کی جانب سے کسی امداد کی کڑی شرائط کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا تھا جو نہ تو حکومت کو اور نہ ہی حکومتی افراد کے سرپرستوں کو پسند آیا۔ عوام بے چارے تو ویسے ہی خوف کے مارے ہوئے ہیں لیکن افواج پاکستان کی جانب سے ردعمل کے اظہار نے انہیں تقویت دی ہی تھی کہ ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔

دوسرا مرحلہ جو قوم کو درپیش تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم بھی جاری کردیا تھا ‘ این آر او کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے کا‘ وہ بھی حکومت نے بصد مجبوری قومی اسمبلی میں پیش تو کردیا لیکن ساتھ ہی کیری لوگر بُل اور این آر او پر کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تاکہ کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ہوجائے اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہے۔ کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہو۔ رات گئی بات گئی۔ اس سے پہلے کہ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے ملک میں کوئی نیا بحران آسکتا ہے‘ کوئی نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی نئی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور یوں این آر او ہو یا کیری لوگر بُل ازخود سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔

آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اس ساری کارروائیوں کے پیچھے امریکہ کی مضبوط منصوبہ بندی موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض سے لے کر خود دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے لوگ حکومت پاکستان کی بجائے اپنی رٹ قائم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاروک ٹوک جب چاہتے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے کیری لوگر بل کا چرچا ہوا ہے اس وقت سے امریکی سی آئی اے بذات خود ناصرف اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے بلکہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی حلیفوں، مددگاروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پوری طرح دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کو تہس نہس کردیں۔

پاکستانی افواج کو خارجی جنگ کی جگہ داخلی جنگ میں الجھادیا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی امریکہ کا ہی مفاد ہے کہ افواج پاکستان جو اسلحہ استعمال کرے گی اس کا بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازوں سے ہی خریدا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جو قرضے بھاری سود کے بدلے ان سے لیتا ہے وہ پاکستان کو لوز ڈالروں میں نہیں ملتے بلکہ اس قیمت کا سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے یعنی اصل کے ساتھ دہرا منافع بھی ان کو ہی جاتا ہے اور وہ سامان بھی پاکستان کی مرضی و منشا کا نہیں، اپنی پسند کے مطابق سپلائی کرتے ہیں۔ پہلی بار ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو غیر فوجی امداد سے نوازا جارہا ہے لیکن اس میں بھی ایسی شرائط عائد کی گئیں کہ فوجی قیادت جس پر صحیح بول پڑی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی منصوبہ سازوں اور ان کے پاکستان دشمن حلیفوں کے پاکستان پر دو اعتراض ہیں۔ ایک تو پاکستان اسلامی مملکت ہے دوسرا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی قوت والا ملک بن گیا ہے جو نہ تو بھارت سے برداشت ہورہا ہے اور نہ اسرائیل سے برداشت ہورہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح جلد از جلد پاکستان، جسے وہ اپنی سازشوں سے پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں‘ اب تک کیسے اپنے قدموں پر قائم ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے چکر میں جو اپنے لوگوں پر فوج کشی پر ناصرف مجبور کردیا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے ملک میں خانہ جنگی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو توڑنے مروڑنے کی کسی بیرونی قوت کو ضرورت ہی نہ پڑے اور پاکستان کے دائیں بائیں کے پڑوسی بھارت اور افغانستان اطمینان سے محفوظ و مامون رہ سکیں اور وہ جو چاہے اپنی من مانی کارروائیوں سے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات نہ تو دوستانہ ہیں نہ برادرانہ بلکہ خالص کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم چاہے انہیں کوئی نام کیوں نہ دیتے رہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام اہل سیاست کے لئے یہ بڑا ہی نازک لمحہٴ فکر ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم انگریز کی غلامی سے نکلنے کی سزا کے طور پر امریکہ کے دام غلامی کا شکار بنایا جارہا ہے۔

اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمیں کسی شکوے کا بھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ امریکی گھیرا جو پہلے بھی تنگ تھا اب مزید تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ خالص عوامی حکومت کے دورمیں ہورہا ہے۔ عوامی حکمران بہ رضا ورغبت اپنی گردنوں میں امریکی پھندے ڈلوانا اپنے لئے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن جب یہ پھندے سخت ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں بچا سکے گا۔اب بھی وقت ہے گوکہ کمر کمر دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو امریکی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے حب الوطنی‘ اخلاص اور ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جو فی الحال اہل سیاست چاہے وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ناپید نظر آرہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں نظر آرہا جو قوم کی درست رہنمائی پورے خلوص نیت سے کرسکے۔ سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

رنگ رنگیلی دُنیا

رنگ رنگیلی دُنیا میں ہیں رنگ رنگ کے دھوکے
سوچ کے قدم اُٹھانا ۔ بعد میں نہ پچھتانا دل والے

پچھلے سال جب پہلی بار مناواں میں قائم پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ طالبان کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے لٹکا دیا گیا ہے اور اس پر جو فلم چلائی جاتی ہے ہم اُسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کوئی ہولناک ڈرامہ چل رہا ہے ۔ میں نے اپنے ہموطنوں کی توجہ اس خطرے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ بہت کم کو میری بات سمجھ آئی ۔ وجہ واضح تھی کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ہاتھی کس بلا کا نام ہے ۔ حیرت یہ ہے کچھ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے اور بڑے ہوشیار تھے نامعلوم کیوں اس طرف نہ صرف طائرانہ نظر ڈالنے سے گریز کرتے رہے بلکہ شدت سے اس خیال کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ مدعا بیان کرنے سے قبل میں ماضی کے کچھ واقعات کا مختصر حوالہ دینا چاہتا ہوں

لاہور کے قریب جو بی آر بی نہر ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان بننے سے قبل ہوئی تھی اور اس کی تمام تفصیل بھارت کے پاس موجود تھی ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پہلے ہی ہلّے میں بھارت کی فوج اور ٹینک بی آر بی نہر کے کنارے پہنچ گئے تھے وہ ٹینکوں سمیت بی آر بی نہر پار کر کے لاہور پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن بی آر بی نہر کو پار کرنے کی جرآت نہ کی اور پاکستانی فوج کو ان کے مقابلہ کیلئے پہنچنے کا وقت مل گیا ۔ ظاہر ہے کہ نہر کی گہرائی کے متعلق وہ شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا شک دور کرنے والا نہ تھا

ستمبر 1965ء کی جنگ جب بھارت نے شروع کی تو بھارتی فوج واہگہ چوکی پر بارڈر ملیشا کے جوانوں کو شہید کرتے ہوئے جلّو سے آگے نکل کر نہ صرف رُک گئی بلکہ کچھ پسپائی اختیار کی اس خیال سے کہ اُن کا کسی مضبوط فوج سے ٹکراؤ نہیں ہوا کہیں پاکستانی فوج نے اُنہیں گھیرے میں لینے کیلئے چال تو نہیں چلی ۔ اگر انہیں کوئی بتا دیتا کہ پاکستانی فوج تو موجود ہی نہیں تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوتا

کوئی 40 سال پیچھے کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر جو مینٹننس کا انچارج تھا کو سیکیورٹی کیموفلاج کورس کیلئے بھیجا ۔ واپس آنے پر اس نے مجھے حیرت کے ساتھ بتایا کہ اسے کہا گیا کہ جب آپ کو اپنی فیکٹری نظر آئے تو آپ نے بتانا ہے پھر ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی سے حسن ابدال اور درمیانی علاقہ کے چکر لگوائے گئے ۔ سفر ختم ہو گیا مگر اسے اتنے بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی فیکٹری نظر نہ آئی حالانہ فیکٹری کا “لے آؤٹ” [layout] اس کے دفتر میں دیوار پر لٹکا رہتا تھا ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو وہ فوراً بتا دیتے یہ ہے میری فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران دن کے وقت بھارتی ہوائی فوج کا ایک سکوارڈن نیچی پرواز کرتا ہوا پاکستان آرڈننس فیکٹری کے کافی بڑے حصے کے اُوپر سے گذرا ۔ اُسی شام بھارتی ٹی وی اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ بھارتی ہوائی فوج نے پاکستان آرڈننس فیکٹری پر بم گرائے ۔ یہ بم پاکستان آرڈننس فیکٹری سے ہی نہیں ٹيکسلا سے بھی راولپنڈی کی طرف مرگلہ کی پہاڑیوں سے کچھ پہلے گرے تھے ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو گئی تھی فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران رات کے وقت بھارتی ہوائی فوج نے بالائی سندھ میں صادق آباد کے قریب مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا ۔ رات اندھیری تھی اور ٹرین کی بجلیاں بند تھیں ۔ اس میں دو عمل توجہ طلب تھے ۔ ایک ۔ ریلوے حکام کی ہدائت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روہڑی سٹیشن پر ایک ٹرین روکے رکھی گئی اور دوسری ٹرین آنے پر مزید حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ٹرینوں کو جوڑ کر روانہ کیا گیا ۔ اور دوسرا ۔ جس علاقہ میں ٹرین پر حملہ ہوا اُس کے قریب ایک چاردیواری کے اندر سے طاقتور ٹارچ کے ذریعہ اشارے [signal] دیئے گئے جس کے بعد ہوائی جہاز ٹرین کی سیدھ میں آیا اور حملہ کیا ۔ اس چاردیواری میں کچھ سالوں سے ایک شخص رہتا تھا جسے علاقہ کے لوگ سائیں بابا کہتے تھے ۔ گذری شام تک وہ وہیں تھا لیکن اُس رات کے بعد وہ نظر نہیں آیا

ان واقعات کے مختصر بیان سے غرض یہ تھی کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں متعدد دوسرے اہم حملوں کے علاوہ مناواں اور لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر پر دو دو حملے ۔ بیدیاں روڈ پر ايلیٹ فورس کے تربیتی مرکز پر ایک اور جی ایچ کیو پر ایک حملہ ہو چکا ہے ۔ ان سب حملوں کے طریقہ کار سے ایک تو فوجی کمانڈوز جیسی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔ طالبان کا طریقہ کار بالخصوص شہروں میں ایسا ماہرانہ نہیں ہے ۔ دوسرے ۔ یہ کہ ان علاقوں کے اندر کے حالات طالبان کو کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ حملہ آوروں کو ایسے اشخاص کا تعاون حاصل تھا جو متعلقہ اداروں کے اندرونی حالات سے واقف ہیں یا تھے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی خطرناک کھچڑی پک رہی ہے اور قوم سوئی ہوئی ہے

ایک اور بات جو دماغ کو کُریدے جا رہی ہے ۔ عقیل عُرف ڈاکٹر عثمان تين سال سے زائد قبل فوج سے بھگوڑا [absconder] ہو گیا تھا ۔ پچھلے سال میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں وہ اتفاق سے اکتوبر 2008ء میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں اُسے چھوڑ دیا گیا ۔ اگر اس کا تعلق میریئٹ ہوٹل پر حملہ سے نہیں بھی تھا تو اُسے قید میں رکھنے اور تفتیش کرنے کیلئے اُس کا فوج سے بھگوڑا ہونا ہی کافی تھا ۔ اُسے کیوں اور کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ؟؟؟ صاف ظاہر ہے کہ کوئی سرکار کا بارسوخ آدمی ہو گا جس کی ایماء پر چھوڑا گیا

اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے غیرملکی چِپ [chip] نکال کر اپنے اصل دماغ سے سوچنا شروع کرنا ہو گا
اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے خود محنت سے کام کرنا ہو گا ۔ اپنے دماغ سے سوچنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا

کیا یہی بارود خود کش دھماکوں میں استعمال ہو رہا ہے ؟

کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ناصر خان درانی کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو بھیجے گئے میمورنڈم نمبر 12981 میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے بیورو آف ڈپلومیٹک سکیوٹی نے پولیس کالج سہالہ میں انسداد دہشتگردی ریسپانس ٹیمز کی تربیت کیلئے 2003ء میں انسداد دہشتگردی کی مدد کا دفتر قائم کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے19جولائی 2003ء کو ایک میمورنڈم نمبر 1/41/2003 کے ذریعے اس آفس کے قیام میں اپنی رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ امریکی سفارتخانہ کو مذکورہ تربیتی مقاصد کیلئے پولیس کالج سہالہ کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں فائرنگ رینج ، آرمری اور دیگر متعلقہ سہولیات و انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی اجازت دی گئی تھی ۔ اس علاقے کو نہ صرف پولیس کالج سہالہ کی انتظامیہ بلکہ زیر تربیت اہلکاروں کیلئے بھی نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے ۔

اس خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کالج کی حدود میں بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد بھی ذخیرہ کیا گیا ہے جو کہ اس تربیتی ادارے کیلئے بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے ۔

کمانڈنٹ سہالہ پولیس نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) کو اس معاملے میں ملوث کریں تاکہ مناسب حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں

بشکریہ ۔ جنگ

منافقت کا انجام

وار آن ٹیرر کی بنیادی طور پر دو متحارب قوتیں ہیں
ایک ۔ امریکہ (نیٹو )، پاکستان اورافغان حکومت
دوسرا ۔ القاعدہ ، افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور پاکستان کی کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ۔ القاعدہ میں عرب، افریقی، ازبک، چیچن اور پاکستانیوں سمیت کئی دیگر ایشیائی ممالک کے جنگجو شامل ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب یہ لوگ گلبدین حکمتیار اور دیگر جہادی کمانڈروں کے ساتھی تھے اور ان کی صفوں میں شامل رہ کرطالبان کے خلاف لڑ رہے تھے
طالبان کٹر حنفی اور القاعدہ کے بیشتر رہنما وہابی تھے لیکن امریکہ دشمنی بنیاد بنی اور کچھ قوتوں نے ان کو ملا کر ایسا شیروشکر کردیا کہ طالبان نے القاعدہ کی خاطر اپنی حکومت تک قربان کردی
پاکستانی طالبان کسی ایک مسلک یا ایک پس منظر کے لوگ نہیں۔ سوات کے طالبان پر ایک رنگ، باجوڑ کے طالبان پر دوسرارنگ، مہند ایجنسی کے طالبان پر کوئی اور رنگ اور وزیرستان کے طالبان پر کوئی اور رنگ غالب رہا۔ مسلکی حوالو ں سے بھی فرق موجود تھا۔ لیکن القاعدہ اورافغان طالبان نے ان کو امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع کیا۔ پاکستان کی کالعدم جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کی امریکہ دشمنی کے جذبے کو ایکسپلائٹ کراکر انہیں بھی پاکستانی طالبان سے منسلک کردیا گیا۔
ان چار عناصر کا آپس میں بھرپور کوآرڈینیشن ہے ۔ نعرہ ایک ،جذبہ ایک اور طریق کار ایک ۔ یہ باقاعدہ اور منظم فوج ہر گز نہیں۔ ہر جگہ سرگرمیوں میں مقامی رنگ بھی غالب نظر آتا ہے ۔ گاہے بگاہے سٹریٹجی بھی مختلف ہوتی ہے لیکن بنیادی طور پر سوچ اور فکر ایک ہی ہے ۔
افغان طالبان ، پاکستانی فورسز کے ساتھ لڑنے کے مخالف ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہ اس وجہ سے پاکستانی طالبان سے دشمنی مول لیں۔ جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر بھی پاکستان میں کاروائیوں کے مخالف ہیں لیکن اسامہ بن لادن کو ہیرو اور ملا محمد عمر کو امیرالمومنین سب ایک جیسا مانتے ہیں ۔ نسلی اور قبائلی اختلاف بھی گاہے گاہے نظر آتاہے ۔ احمد زئی وزیروں اورمحسود وں کا تناؤ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے کا عسکریت پسند اپنی ہی قوم یا اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کمانڈر کے زیرکمانڈ لڑتا ہے ۔ وسائل اور اختیارات بھی بسااوقات اختلاف اورجھگڑے کا موجب بن جاتے ہیں ، لیکن مشترکہ مقاصد، القاعدہ کی سرپرستی اور حکومتی اداروں کی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے غیرمعمولی صورت اختیار نہیں کرتے ۔

اب دوسرے فریق کا جائزہ لے لیجئے ۔پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو اس التجا کے ساتھ دیا کہ ماڈریٹ طالبان کو ٹھکانے نہیں لگایا جائے گا لیکن امریکہ نے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا۔
پھر مطالبہ کیا کہ پاکستان مخالف شمالی اتحاد کو کابل میں نہ آنے دیاجائے، لیکن اسے آنے دیا گیا۔
پھرانہوں نے امریکیوں سے درخواست کی گئی کہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ گھسنے دو لیکن اسے گھسنے دیا گیا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کی کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔ بلوچستان کی آگ کو وہاں سے بھڑکایا جارہا ہے ۔
خوف کے مارے پاکستان امریکہ کا نام نہیں لے سکتا اور شکایت کرتے ہوئے حامد کرزئی کی حکومت کا نام لیتا ہے لیکن اسے بخوبی علم ہے کہ ہندوستان کی سازشیں امریکی شہہ پر ہی گرم ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا حکومت سے فراغت کے بعد تو ہر کوئی بول دیتا ہے لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ذمہ داروں کو بھی یقین ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہنوز افغان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے ۔ امریکہ کی نظروں میں پاکستان کا کردار کس قدر مشکوک ہے ، اس کا اندازہ کیری لوگر بل کی شرائط سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو اتحادی ہو کر بھی دشمنوں جیسے تعلقات کا یہ ایک منفرد نمونہ ہے ۔ طورخم کے اس پارچلے جائیں تو عام افغانی سے لے کر دانشوروں ، سیاستدانوں اور حکمرانوں تک ہر افغانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کے ملک میں جو بدامنی ہے ، اس کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ اسی طرح پاکستانیوں کو یقین ہے کہ افغان حکومت کا اس کے ساتھ رویہ دوستوں کا نہیں بلکہ دشمنوں والا ہے ۔ سرحدی علاقوں میں پاکستانی حکام جس قدر ہندوستانی اینٹیلی جنس سے شاکی رہتے ہیں ، اسی طرح وہ افغان اینٹیلی جنس کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پریشان رہتے ہیں ۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی وہ حیثیت ہے جو دہلی میں اس کی ہے اور پاکستان میں افغانستان کے سفارتخانے کی وہی حیثیت ہے جو یہاں ہندوستان کے سفارتخانے کی ہے ۔ اسلام آباد میں میں کبھی کسی ضرورت کے تحت افغان سفارتخانے جاتا ہوں تو پاکستانی اینٹیلی جنس کے لوگ اس طرح پیچھا کرتے ہیں جیسا کہ میں کسی دشمن ملک کے سفارت خانے میں گیا ہوں اور اسی طرح کابل میں جب میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف چل پڑتا ہوں تو میرے افغانی دوست مجھ سے اجازت لے کر دور بھاگنے لگتے ہیں ، کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے میں جانے سے ان کی حب الوطنی مشکوک ہوگی ۔
اب تو حامد کرزئی اورامریکی بھی ایک دوسرے سے کھیلنے لگے ہیں۔ امریکیوں نے کرزئی کو ہروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اب بھی بھرپور کوشش کررہاہے کہ یا تو انتخابات کالعدم قرار دلوادے یا پھر کم ازکم نئے سیٹ اپ میں عبداللہ عبداللہ کوجگہ دلوا دے۔ گویا اس اتحاد میں شامل عناصر کے مقاصد مشترک ہیں اور نہ کوئی کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔وہ بیک وقت دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔

پاکستانی طالبان ، اپنی حکومت کے ساتھ ، دشمنی کی بنیاد، ہمارا ثانی الذکر اتحاد میں شمولیت بتاتے ہیں ۔ میری گذارش فقط یہ ہے کہ معاہدوں اور آپریشنوں کی بجائے ، ثانی الذکر اتحاد کو حقیقی معنوں میں اتحاد بنادیجئے ۔ امریکہ اور افغانستان کو مجبور کر دیجئے کہ وہ دشمنوں والا رویہ چھوڑ دے اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو پھر اس اتحاد کو اللہ حافظ کہہ دیجئے ۔امریکہ سے دشمنی شاید زیادہ خسارے کا سودہ ہے تو دشمنی نہ کیجئے لیکن کم از کم اس کے اتحاد سے تو نکل جائیے۔ یہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ، اپنے بھی خفا ہم سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش ، والی صورت حال سے دوچار کردیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ منافقت کررہے تھے ، جو ان کے گلے پڑگئی ہے اور ہم نے جواب میں گذشتہ سالوں کے دوران منافقت سے کام لیا ،جو ہمارے لئے مصیبت بن گئی۔
اللہ کا قانون تو اٹل ہے اور اللہ نے منافقین کی سزا کافروں سے بھی بڑھ کر بیان کی ہے۔ منافقت کا وقتی نتیجہ تو فائدے والا نظر آتا ہے لیکن منطقی نتیجے کے طور پر اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔شاید اس وقت امریکی اپنی منافقت کی سزا بھگت رہے ہیں اور ہم اپنی منافقت کی۔

تحریر ۔ سلیم صافی ۔ بشکریہ جنگ