بنک آف پنجاب کے قرض اسکینڈل کیس میں بڑے ملزم ، حارث اسٹیل ملز کے مالک شیخ افضل اور اس کے بیٹے حارث افضل کو آج سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ، شیخ افضل نے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں ۔ ملزم شیخ افضل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر ڈاکٹر بابراعوان نے مقدمہ کی پیروی کے لئے پچاس لاکھ روپے اور مقدمہ ختم کرانے کے لئے ساڑھے تین کروڑ مانگے تھے
طریقہ ۔ غیرتی اور حکومتی
این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر سعید مہدی مستعفی ہوگئے۔ ان پر پولو گراؤنڈ کیس ختم کروانے کا الزام ہے تاہم سعید مہدی نے کہا ہے کہ انہوں نے کیس ختم کرنے کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور استعفیٰ اپنی عزت بحال رکھنے اور پارٹی گائیڈ لائن کے مطابق دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی مقدمہ کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں۔این آر او سے استفادہ کرنے والے افراد کی جانب سے یہ پہلا استعفیٰ ہے۔ سعید مہدی نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف دور میں انہیں دو مقدمات میں ملوث کیا گیا تھا جس میں طیارہ کیس اور پولو گراؤنڈ کیس شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 7اپریل 2000ء کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک روز قبل وہ طیارہ سازش کیس میں بری ہوگئے تھے
Minister for Information and Broadcasting Qamar Zaman Kaira on Monday said the NRO beneficiary ministers will not resign, as they were accused and not convicted, terming the demand unjustified.
Talking to media persons here at the CDA Academy, the minister made it clear that the cabinet members, who had benefited from the NRO were accused and not convicted to be asked to step down as minister
زرداری اور ايک ارب ڈالر کا غبن
سوٹزرلینڈ اور دبئی کے بنکوں کے ذریعہ کس طرح اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ آصف علی زرداری نے ايک ارب امریکی ڈالر ناجائز کمیشن کے طور پر پاکستان کے عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے چرا کر سِٹی بنک میں دبئی کے ذريعہ منتقل کئے ۔ این آر او کی وجہ سے نامکمل رہ جانے والی انکوائری رپورٹ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے
سازشی نظریات ۔ ایک تجزیہ
سازشی نظریات [Conspiracy theories] ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے یا یوں کہنا چاہیئے کہ یہ عمل ہماری خصلت میں شامل ہو چکا ہے جن میں اَن پڑھ اور پڑھے لکھے برابر کے شریک ہیں ۔ چنانچہ تمام برائیوں کو کسی نہ کسی کی سازش یا ظُلم قرار دے کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ ہر خرابی کو غیرمُلکی سازش قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو کُشادہ ذہن اور باعِلم سمجھتے ہیں وہ ہر ظُلم کو مذہب یا مذہبی لوگوں کے سر منڈ کر اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں ذاتی سطح پر بھی سازشی نظریات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص عرصہ دراز بعد کسی کو ملنے آتا ہے اور کچھ دن اُن کے ہاں قیام بھی کر لیتا ہے ۔ اِسی پر جاننے والے رشتہ دار اور محلہ والے کئی سازشی نظریات قائم کر لیتے ہیں
ہماری قوم کی بھاری اکثریت تن آسانی میں یقین رکھتی ہے اور ترقی کیلئے کوشاں قوموں کی طرح محنت اور تحقیق کو اپنا شعار بنانے کی بجائے غلط قسم کے مختصر راستے [shortcuts] اختیار کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کو تحقیق سے ڈر لگتا ہے ۔ ہر منفی واقعہ اور نتیجہ جسے وہ پسند نہ کرتے ہوں اور جس سلسلے میں وہ کوئی مثبت تبدیلی لانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں اس کی وضاحت سازشی نظریات میں تلاش کرلی جاتی ہے ۔ سازشی نظریات فرار کی ایسی پناہ گاہ ہیں جو روح اور قلب کی تکلیف سے وقتی آرام اور تسکین فراہم کرتے ہیں اور مشقت سے بچاتے ہیں
سازشی نظریات میں پناہ ڈھونڈنے والے اپنی تمام غلطیوں اور ذمہ داریوں کے اسباب سازشیوں کو قرار دے دیتے ہیں اور خود کو سازش کا شکار تصور کرتے ۔ کبھی اس مفروضہ سازشی کا پس منظر دین بتایا جاتا ہے کبھی شیطان ۔ کبھی مُلا اور کبھی غیرملکی ہاتھ ۔ اس طرزِ عمل کا بنیادی سبب ہماری اکثریت کا آسانی پسند ہونا ہے ۔ تعلیم سے لے کر ملازمت یا تجارت تک صبر و تحمل کے ساتھ محنت کی بجائے سفارش ۔ رشوت ۔ متعلقہ فرد کی ذات کی خدمت وغیرہ میں ترقی تلاش کرتے ہیں
ہر طرزِ عمل یا طرزِ فکر کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ ہماری قوم کے اس رویّے کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں
پہلا سبب ۔ آمریت کی طویل تاریخ ۔ جس میں فوجی آمروں کے علاوہ جمہوری طریقہ سے منتخب حکمران بھی شامل ہیں کیونکہ اطلاعات کی کمی اور کمزوری ہی سازشی نظریات کے اصل محرک ہیں جس میں اپنے مسائل کی اصل وجوہ کا پتہ لگانے کی کوشش کم کی جاتی ہے اور فوری حل کی خاطر کسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے
دوسرا سبب ۔ غلط تعلیمی نظام ۔ جس میں طالبعلم کو کتابیں پڑھنے اور محنت و تحقیق کی تلقین کی بجائے خلاصوں اور ٹیوشن مراکز کا گرویدہ بنا دیا گیا ہے ۔ تعلیمی نظام کی تباہی کا آغاز 1972ء میں جدیدیت کے نام پر ہوا اور وقت کے ساتھ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ دورِ حاضر میں اکثریت سطحی علم تو بے شمار موضوعات کا رکھتی ہے لیکن گہرائی میں جائیں تو شاید ایک موضوع پر بھی عبور حاصل نہ ہو
تیسرا سبب ۔ مُلکی ذرائع ابلاغ ۔ جنہوں نے اپنی دکان چمکانے کی خاطر قوم کی غلط راستے کی طرف رہنمائی کی ۔ سیاہ کو سفيد اور سفید کو سیاہ بتاتے رہے ۔ بایں ہمہ علم و تحقیق کی طرف مائل کرنے کی بجائے بے ہنگم ناچ گانے اور جھوٹی اور برانگیختہ کرنے والی کہانیوں پر بنے ڈراموں پر لگا دیا جس کے نتیجہ میں لوگ احمقوں کی تخیلاتی جنت میں رہنے کے عادی ہو گئے
چوتھا سبب ۔ اشرافیہ ۔ جو اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس عوام کی ہڈیوں پر تعمیر کرتے رہے مگر اتنا بھی نہ کیا کہ ان ہڈیوں کی مضبوطی تو کُجا ان کی سلامتی ہی کیلئے کچھ کرتے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ انتظامیہ اور عدالتیں ایسے لوگوں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے
پانچواں سبب ۔ عوام ۔ جنہیں کسی پر یقین نہیں ۔ مُلک کا قانون ہو یا آئین یا اللہ کے احکامات وہ کسی کا احترام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ سب منتشر ہیں اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنی کمائی جوئے میں لگا کر کاریں حاصل کرنا ان کو مرغوب ہے ۔ جو تاریخ سے نابلد ہیں چنانچہ سالہا سال دہائی مچاتے ہیں اورانتخابات کے وقت ماضی کو بھول کر پھر اُسی کو مُنتخِب کرتے ہیں جو ان کے دُکھوں کا سبب تھا گویا اپنے آپ کو اذیت پہنچانے کو شوق ہو
چھٹا سبب ۔ غیروں کی امداد پر انحصار ۔ نمعلوم ہمارے کم از کم تعلیمیافتہ افراد کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارا ہمدرد صرف کوئی ہموطن ہی ہو سکتا ہے غیرمُلکی نہیں ۔ غیرمُلکی تو ہمارا اُس وقت تک یا ان عوامل کیلئے دوست ہو گا جو اُس کے مفاد میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہمارے مفاد میں بھی ہو سکتے ہیں ۔ کبھی “امریکا ہمارا دوست ہے” اور کبھی “امریکا ہمارا دُشمن ہے” کے نعرے بے عقلی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟
تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جو قومیں اپنی محنت پر بھروسہ کرتی ہیں وسائل کم بھی ہوں تو وہ ترقی کی معراج پا لیتی ہیں ۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ موجودہ چین کے بانی مَوذے تُنگ نے قوم کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ؟ ایک چھوٹی سی مثال ۔ میرا ایک دوست جو 4 دہائیاں قبل کسی تربیت کیلئے چین گیا تھا اُس نے واپس آ کر بتایا تھا کہ اُنہیں کھانے میں صرف 3 سبزیاں ملتی تھیں ۔ وہ بہت بیزار ہوئے اور وہاں کے مہتمم سے شکائت کی ۔ مہتمم نے جواب دیا کہ ہر کمیون میں جو لوگ رہتے ہیں وہی چیز کھاتے ہیں جو وہ اُگاتے ہیں ۔ اگر وہ کوئی چیز فاضل اُگائیں تو قریبی کمیون سے اُن کی فاضل پیداوار کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں ۔ ان کے کمیون میں دو سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک فاضل ہوتی ہے چنانچہ کبھی کبھی تیسری سبزی تبادلہ میں مل جاتی ہے ۔ ہمارا حال پنجابی کی ضرب المثل کی طرح ہے ۔ پلّے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ۔ جو قومیں دوسروں کی دستِ نگر ہوتی ہیں وہ ذلت کی زندگی گذارتی ہیں اور بسا اوقات اُن کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے
دو دہائیاں قبل تک پاکستان نہ صرف اناج میں خود کفیل تھا بلکہ اناج کا درآمد کنندہ بھی تھا مگر حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور عوام کی کاہلی اور آسان دولت کی ہوس نے قوم کو موجودہ دور کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پھر بھی بجائے اپنے اصل دُشمن کاہلی کو مارنے کے خرابیوں کی جڑ دوسروں کو قرار دیاجا رہا ہے ۔ خودمختاری، خوشحالی اور ترقی قوموں کو خیرات میں نہیں ملتے اور نہ امداد کے طور پر دستیاب ہیں بلکہ اس کیلئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پُروقار اور خوشحال قوموں کی ترقی کا راز مندرجہ ذیل عوامل ہیں
1 ۔ انصاف ۔ 2 ۔ دیانت ۔ 3 ۔ محنت ۔ 4 ۔ اتحاد ۔ 5 ۔ عِلم ۔ 6 ۔ اہلیت ۔ 7 ۔ اجتماعی کوشش ۔ 8 ۔ باہمی اعتماد ۔ 9 ۔ برداشت ۔ 10 ۔ قناعت
جس قوم میں یہ خوبیاں نہ ہوں اس کی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا زندہ رہنا بہت مُشکل ہے ۔ میں نے ایک بار لکھا کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں تو کسی مبصّر کا خیال تھا کہ معجزے صرف نبیوں کے زمانہ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ تمام وہ عوامل جو کسی قوم کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں وہ ہماری قوم میں کم از کم پچھلی 4 دہائیوں سے مفقود ہیں اور اُن کا اُلٹ بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ قوم ابھی بھی نعرے لگا رہی ہے ۔ عصرِ حاضر میں اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟
قوم کے ہیرو ؟؟؟
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کے تحت فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے حکومت نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کو کوئی تحفظ نہیں دیاجائیگا، اور اس حوالے سے عدالتی فیصلے کو من و عن تسلیم کیا جائیگا
کل تعداد ۔8041
سیاستدان ۔ 34
بیورو کریٹس ۔ 248
اہم ہستیاں
صدر آصف علی زرداری ۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین ۔ وزیرِ داخلہ رحمن ملک ۔ وزیر دفاع چوہدری احمد مختار ۔ وفاقی وزیر فاروق ستار ۔ بابرغوری ۔ نصرت بھٹو ۔ سراج درانی ۔ بریگیڈیئر(ر) امتیاز احمد ۔ جہانگیر بدر ۔ آفتاب شیر پاؤ ۔ امریکا میں سفیر حسین حقانی ۔ برطانیہ میں سفیر واجد شمس الحسن ۔ ایران میں سفیر ایم بی عباسی
حصہ دار سیاستدانوں کی صوبائی تقسیم
صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ۔ 1
صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ۔ 4
صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ۔ 17
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ۔ 7793
حصہ داروں میں سے کچھ اہم نام
صوبہ بلوچستان ۔ سابق وفاقی وزیر میر باز محمد خان کھیتران
صوبہ سرحد ۔ سابق وزیراعلیٰ سرحد آفتاب احمد خان شیرپاؤ ۔ سابق صوبائی وزیر غنی الرحمن ۔ سابق سینیٹر حاجی گل شیر خان ۔ سابق صوبائی وزیر حبیب اللہ خان کنڈی
صوبہ پنجاب ۔ سابق رکن قومی اسمبلی محترمہ نصرت بھٹو، سابق چیئرمین ضلع کونسل چوہدری شوکت علی، سابق رکن قومی اسمبلی حاجی کبیر خان، سابق ایم پی اے چوہدری ذوالقفار علی، سابق وفاقی وزیر محمد جہانگیر بدر، سابق ایم پی اے ملک مشتاق احمد اعوان، سابق وزیر رانا نذیر احمد، سابق ایم پی اے میاں محمد رشید، سابق ایم پی اے طارق انیس، سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق میئر سرگودھا چوہدری عبدالحمید گجرات سے سابق ایم پی اے میاں طارق محمود، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی محمد نواز کھوکھر، سابق ایم این اے آصف علی زرداری، سابق ایم این اے نواب ایم یوسف تالپور، سابق وزیر انور سیف اللہ خان، سابق وزیر تجارت چوہدری احمد مختار اور سابق ایم این اے سردار منصور لغاری، صادق علی خان اور آغا سراج درانی
صوبہ سندھ ۔ ایم کیو ایم کے الطاف حسین [72 مقدمات]۔ ڈاکٹر فاروق ستار [23 مقدمات]۔ بابر خان غوری [5 مقدمات]۔ ڈاکٹر عشرت العباد [ایک مقدمہ]۔ نعمان سہگل [ایک مقدمہ]۔ ڈاکٹر عمران فاروق [18 مقدمات]۔ شعیب بخاری [21 مقدمات]۔ وسیم اختر [7 مقدمات]۔ سلیم شہزاد [6 مقدمات]۔ کنور خالد یونس [12 مقدمات]اور ڈاکٹر صفدر باقری [16مقدمات]
مُستفید بیورو کریٹس
سابق پرنسپل سیکرٹری محمد احمد صادق ۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب جاوید احمد قریشی ۔ سعید مہدی ۔ رحمن ملک ۔ حسین حقانی ۔ بریگیڈیئر (ر) اسلم حیات قریشی ۔ اے آر صدیقی ۔ سلمان فاروقی ۔ پیر مکرم الحق ۔ بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد ۔ واجد شمس الحسن ۔ اے آر صدیقی
وزیر مملکت قانون و انصاف افضل سندھو نے بتایا کہ سندھ کی فہرست بہت طویل ہے۔ این آر او شق 2 کے تحت سندھ ریویو بورڈ سے جو مقدمات این آر او کے تحت استفادہ سے ختم ہوئے ان مقدمات کی تعداد 3230 ہے جس میں 7793 نامزد افراد نے این آر او کے تحت فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری، مملکت کے صدر ہیں ان کا احترام بطور صدر لازم ہے۔ ایک سوال پرا نہوں نے کہا کہ 28 نومبر کو این آر او کی میعاد ختم ہو جائے گی ۔ این آر او کے بارے میں روئیداد خان اور ڈاکٹر مبشر حسن کی درخواستیں سپریم کورٹ میں پہلے سے زیر سماعت ہیں ۔ عدالت عظمیٰ این آر او کے بارے میں جو بھی فیصلہ دے گی ہم اسے من و عن تسلیم کریں گے اور عدالتی فیصلہ کیخلاف ان لوگوں کو حکومت کوئی تحفظ نہیں دے گی
کیا دہشتگرد صرف داڑھی والا ہوتا ہے؟
کراچی کے مختلف علاقوں میں 3 دن کی بہدف ہلاکتیں [Target Killing]
جمعرات کے دن اورنگی ٹاؤن کے علاقے اقبال مارکیٹ میں مسجد کے پیش امام مولانا غلام محمد جو مغرب کی نماز پڑھنے مسجدجارہے تھے کہ گلی میں پہلے سے گھات لگاکر بیٹھے ہوئے ملزمان نے فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کردیا
جمعہ کی شب تین ہٹی کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے اہلسنت والجماعت کے جنرل سیکریٹری انجینئر الیاس زبیرکو ہلاک جبکہ ترجمان قاری شفیق الرحمان علوی کو شدید زخمی جو دوران علاج دم توڑ گئے
میٹھادر کاغذی بازار کے قریب مسلح افراد کی فائرنگ سے شاہنواز عرف شانو ہلاک اور فرید زخمی ہوگیا
آگرہ تاج کالونی میں 24 سالہ فیضان کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا
بہار کالونی میں علی عرف چیکو کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا
عثمان آباد کے علاقے چیل چوک گلی نمبر 1 میں 45 سالہ خلیل ولد اودے خان کو ہلاک کیاگیا
غَیرت کہاں گئی
آج ہمارے ملک اور قوم کو مادی وسائل ، مالی امداد، قرضوں اور زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں بڑھ کر جس چیز کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے وہ غیرت کا جذبہ ہے اسی جذبہ سے کام لے کر ہم انفرادی اور اجتماعی خرابیوں اور ذلتوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں
غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا شاید دنیا کی کسی زبان میں کوئی مترادف نہیں ۔ اردو میں بھی ہم یہ لفظ ایک محدود مفہوم ہی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس میں عزتِ نفس ۔ وقار ۔ بہادری اور اعلٰی ترین اقدار سے وابستگی اور ان اقدار کی خاطر ہر قربانی دینے کے تصورات شامل ہیں
غیرت وہ جذبہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے ۔ تعلیم و تربیت اور عملی مثالوں کے ذریعہ ہمارے بزرگ یہ جذبات اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں لیکن اگر کسی کو تعلیم یا ماحول سے یا اپنے خاندان سے یہ جذبہ نہ ملا ہو تو وہ محض عقلی دلائل سے اس کا قائل نہیں ہو سکتا ۔ یا تو کوئی فرد غیرت مند ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔ کچھ لوگ اس تحریر کو پڑھ کر شاید اس بات کی اہمیت کو سمجھنے میں مشکل محسوس کریں مگر بہت سے ایسے لوگ جن کی زندگی کی زندہ روایات ان اعلٰی اقدار کی حامل ہیں جو انہوں نے اپنے بڑوں سے ۔ اپنے اساتذہ سے اور مربیّوں سے اور دیگر قابلِ تقلید شخصیات سے حاصل کی ہیں ایسے لوگ یقینا اپنے قلب و روح میں ان خیالات کی صدائے بازگشت محسوس کریں گے
غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا جائے یا غصہ کے ردِعمل میں غصہ اور طیش کا اظہار کیا جائے بلکہ غیرت ایک مثبت اور تعمیری جذبہ کا نام ہے ۔ اسی جذبہ سے کام لے کر انسان اپنے سفلی جذبات پر قابو پاتا ہے اور اپنے اعلٰی اور ارفع جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اسی جذبہ کی مدد سے ہر انسان اور معاشرہ بیرونی خطرات کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جاتا ہے ۔ ایک معزز و باوقار اور ایک ذلیل و بے توقیر شخص کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک غیرت مند اور دوسرا بے غیرت ہوتا ہے ۔ ایک طوائف اور پاکباز عورت میں اگر کوئی فرق ہے تو غیرت اور بے غیرتی کا ۔ ایک آزاد آدمی کسی قیمت پر اپنی آزادی کو قربان نہیں کرتا ۔ غلامانہ ذہنیت کا حامل شخص چند ٹکوں کے عوض آزادی سے دستبردار ہو جاتا ہے
جب غیرت کا جذبہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو پورا معاشرہ ۔ قوم اور ریاست دنیا میں عزت اور عروج حاصل کر لیتے ہیں ۔ اس کام کو کرنے میں قوم کے قائدین ۔ رہنما ۔ اساتذہ ۔ شعراء ۔ مفکّرِین اور فلاسفہ اَن تھک محنت اور لا محدود کوشش کرتے ہیں لیکن بعض ناعاقبت اندیش رہنماؤں اور لالچی حکمرانوں کی بدولت معمولی لغزش اور غلطی برسوں کی قومی جدوجہد پر پانی پھیر دیتی ہے
پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے