پاکستان کیوں بنا ؟

فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟”
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
رہی سہی کسر رَیڈ کلِف ایوارڈ نے ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے پوری کر دی اور بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا ۔ رَیڈ کلِف نے مزید عیّاری یہ کی کہ ایوارڈ کا اعلان پاکستان بننے کے 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یومِ آزادی مبارک

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

منزلِ مقصود

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

کلام ۔ علامہ محمد اقبال

خودی

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام

عیدالاضحٰے مبارک

کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر

سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں جہاں کہیں بھی ہوں عیدالاضحٰے مبارک
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار يہ کہنا چاہیئے
البتہ عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر يہ ورد رکھنا چاہیئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا
اللّھم صلی علٰی سیّدنا محمد و علٰی آل سیّدنا محمد و علٰی اصحاب سیّدنا محمد و علٰی ازواج سیّدنا محمد و سلمو تسلیماً کثیراً کثیرا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے اللہ کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

سایہ دار درخت

میں جس سے ہر پل مشورہ کرتا تھا ۔ بغیر مشورہ کے 30 سال ہو گئے ہیں
میرے والد صاحب 2 جولائی 1991ء کو اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے تھے
الله سُبحانُهُ و تعالٰی میرے پیارے والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور مجھے اُن کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
مجھے پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہیں باپ کے چہرے کی جھُریاں میں نے
ان کے ہونے سے بَخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں
مجھے چھاؤں میں رکھا ۔ خود دھوپ میں جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
یہ سوچ کے والدین کی خدمت میں لگا رہا
اس پیڑ کا سایہ میرے بچوں کو ملے گا
گھر کی ایک بار مکمل تلاشی لی تھی میں نے
غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے تھے
باپ کو تھکنے نہیں دیتا ضرورت کا پہاڑ
باپ کو بچے کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے
باپ ہے تو روٹی ہے کپڑا ہے مکان ہے
باپ ننھے سے پرندے کا بڑا آسمان ہے
باپ سے ماں کی چُوڑی ۔ بِندیا اور مان ہے
باپ ہے تو گھر ہے اور گھرانے کا سامان ہے
باپ ہے تو بچوں کے سارے سَپنے اپنے ہیں
باپ ہے تو بازار کے سارے کھلونے اپنے ہیں
باپ ہے تو نہ کسی کو فکر نہ کوئی پریشان ہے
باپ کے سہارے ہی گھر میں امن و امان ہے

میری امّی

میں سوچتا تھا جس کے بغیر اِک پَل نہ جی سکوں گا ۔ آج اُس سے بِچھڑے 41 برس گزر گئے ہیں
الله سُبحانُهُ و تعالٰی میری پیاری امّی جی کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور مجھے اُن کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
میری امی میری جنت ۔ (تحریر ۔ 20 جولائی 1980ء)
میں اِک ننھا سا بچہ تھا میں کچھ بھی کر نہ سکتا تھا
مگر میں تجھ کو پیارا تھا تیری آنکھوں کا تارہ تھا
خود جاگتی مجھے سلاتی تھی میری امّی میری امّی
سوچا تھا ۔ ۔ ۔
نہ ہو گی تجھ میں جب طاقت رکھوں گا تجھ سے میں اُلفت
دوں گا تجھ کو بڑی راحت اٹھاؤں گا میں تیری خدمت
جو خدمت تو اٹھاتی تھی میری امّی میری امّی
مگر ۔ ۔ ۔
یک دم روٹھ کے تو چلی گئی اس فانی دنیا سے جاوداں دنیا
نہ خدمت تو نے مجھ سے لی نہ میں کندھا دے سکا تجھ کو
کہاں ڈھونڈوں تیری ممتا میری امّی میری امّی
مقام آخرت ہے تیرا جنت اس دنیا میں تھی تو میری جنت
جو نہ دے سکا میں تجھ کو وہ پھول تیری لحد پہ برساتا ہوں
آنسو بیچارگی پر اپنی بہاتا ہوں میری امّی میری امّی
تیری قبر کے سرہانے تھا بیٹھا تیری روح آ کے گذر گئی
پھیلی چار سُو مہک گلاب کی میری روح معطّر ہو گئی
نہ تجھے دیکھ سکا نہ بول سکا میری امّی میری امّی
تیری دعاؤں سے جیتا تھا تیری دعاؤں سے پھَلتا تھا
تیری دعاؤں کے بل بوتے میں کسی سے نہ ڈرتا تھا
اب بز دل بن گیا ہوں میں میری امّی میری امّی
اب تڑکے کون جگائے گا ۔ آیات قرآنی مجھے کون سنائے گا
تحمل و سادگی کون سکھائے گا تجھ بِن کچھ بھی نہ بھائے گا
وللہ مجھے اپنے پاس لے جاؤ میری امّی میری امّی