چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ٹھکانہ ؟

تین دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ میری خالہ زاد بہن کی بیٹی جو میری بیوی کی بھانجی ہے ہمارے ہاں راولپنڈی آئی ہوئی تھی ۔ وہ اپنی خالہ سے کہنے لگی “خالہ دیکھیں نا ۔ ہم نے یہاں سے کراچی جانا ہو راستہ میں وزیرآباد کے سٹیشن پر اُتریں تو وہاں کیا ہم اپنا گھر بنا لیں گے اور وہیں رہنا شروع کر دیں گے ؟”
میری بیوی نے جواب دیا “نہیں” اور حیرانی سے بھانجی کی طرف دیکھنے لگی
وہ بولی “جب ہماری منزلِ مقصود وہ ہمیشہ رہنے والی دنیا ہے جہاں جنت بھی ہے تو پھر لوگ اس دنیا کو پکا ٹھکانہ کیوں سمجھ لیتے ہیں ؟”

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
کھول کر پڑھيئے کہ بھارت ميں دہشتگردی کون کرتا ہے جس کا الزام پاکستان يا مسلمانوں پر لگايا جاتا ہے

ہم سب دہشتگرد نہيں تو تماشبين ضرور ہيں

ہمارے ملک میں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ سیکورٹی ادارے جب کسی کو گرفتار کرنے نکلتے ہیں تو میڈیا کی ٹیموں کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں جس کے باعث جہاں ایک طرف ميڈيا کے اس ادارے کی شہرت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ان اہلکاروں کی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے جديديت پسند ہموطن ايسی خبر کو لے اُڑتے ہيں اور بڑھ چڑھ کر کسی خاص کميونٹی کی مذمت شروع ہو جاتی ہے يہاں تک کہ دين اسلام کو بھی نہيں بخشا جاتا۔ ہونا تو يہ چاہيئے کہ پڑھے لکھے لوگ “کُتا کان لے گيا” سُنتے ہی کُتے کے پيچھے بھاگنا شروع کرنے سے پہلے يہ تو ديکھ ليں کہ کان اپنے سر کے ساتھ ہی لگا ہے يا واقعی کُتا اُتار کر لے گيا ہے ؟

اشتياق بيگ کے مضمون سے اقتباس
دنیا بھر میں قانون کا یہ اصول ہے کہ آپ اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک آپ مجرم ثابت نہ ہوجائیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں آپ اس وقت تک مجرم تصور کئے جاتے ہیں جب تک آپ اپنی بے گناہی ثابت نہ کردیں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ 9 مئی بروز اتوار صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے فیض محمد کے ساتھ ہوا جو مسقط میں سول انجینئر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ سالانہ تعطیلات اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں گزارنے کے بعد وہ تھائی ایئر ویز کی ایک پرواز کے ذریعے مسقط جانے کے لئے کراچی ایئر پورٹ پہنچا ۔جسمانی تلاشی کے دوران جب وہ ا سکینرز سے گزرا تو ا سکینرز کے الارم بج اٹھے، فیض محمد کے جوتوں سے الیکٹرک سرکٹ برآمد ہوا۔

فیض محمد نے سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ اس نے یہ جوتے لائٹ ہاؤس میں واقع استعمال شدہ جوتوں کی ایک دکان سے خریدے تھے اور ان جوتوں کے اندر اور باہر وائبریٹرزتحریر تھا۔ دکاندار نے اسے بتایا تھا کہ انہیں پہننے سے آرام ملتا ہے چونکہ مسقط میں اسکا کام زیادہ تر کھڑے رہنے کا تھا اسلئے اس نے یہ جوتے خرید لئے اور اس سے پہلے بھی وہ ان جوتوں میں مسقط جا چکا ہے۔ مگر کسی نے اس کی باتوں پر یقین نہ کیا اور اسے ہتھکڑی لگاکر ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ۔ اے ایس ایف کا دعویٰ تھا کہ ملزم کے جوتوں میں چھپا سرکٹ دھماکہ خیز مواد میں نصب کرکے دھماکہ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ملک بھر کے ٹی وی چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے فیض محمد کو ایک ”دہشت گرد“ کے طور پر پیش کررہے تھے اور اس کا بھرپور میڈیا ٹرائل کیا جارہا تھا۔ ملکی اور غیر ملکی تمام ٹی وی چینلز اس کی گرفتاری کی خبریں نمایاں طور پر نشر کررہے تھے۔ پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرونک میڈیا سے پیچھے نہ تھا

اس واقعہ سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی اور ملک بھر میں موجود پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہوا جو پاکستانیوں اور دیگر مسلمانوں پر مسلسل دہشت گردی کے الزامات سے پہلے ہی پریشان تھے۔ فیض محمد کو مزید تفتیش کے لئے ایئر پورٹ پولیس کے حوالے کردیا گیا جہاں محکمہ داخلہ کے حساس اداروں، سی آئی ڈی، ایس آئی یو اور انویسٹی گیشن پولیس پر مشتمل ایک جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔ دو دن کی تفتیش کے دوران انویسٹی گیشن پولیس ٹیم شہر کی مختلف مارکیٹوں سے ویسے ہی جوتے خرید کر لے آئی جیسے فیض محمد نے پہن رکھے تھے اور ان جوتوں میں ویسا ہی سرکٹ نصب تھا

بعد میں اخباروں نے ایک چھوٹی سی خبر شائع کی جس میں تحریر تھا ”مشتبہ جوتے رکھنے والا زیر حراست نوجوان فیض محمد بے گناہ قرار پایا ہے اور اسے رہا کردیا گیا ہے۔“اخبارات میں شائع اس کی بے گناہی اور اس کے دہشت گرد سے متعلق ایک چھوٹی سی تردید اس پر لگا ہوا ”دہشت گرد“ کالیبل اور اس کی تکالیف و مشکلات کا ازالہ نہیں کرسکی۔ فیض محمد کی ”دہشت گرد“ کے طور پر گرفتاری کی خبریں مسقط میں اس کی کمپنی تک بھی پہنچ چکی تھیں جس کے باعث اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور وہ روزگار سے محروم ہوگیا۔

اس طرح بے گناہ شخص کو شدید ذہنی کوفت اور بے پناہ مشکلات سے دوچار کردیا اور اس کی سزا فیض محمد کے ساتھ اس کے والدین، بیوی اور بچوں کو بھگتنا پڑی۔اگر اس طرح کا واقعہ امریکہ اور یورپ میں پیش آتا تو متاثرہ شخص ان اداروں کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرکے کروڑ پتی بن سکتا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں اس طرح کی کوئی روایت یا قانون نہیں۔

بہترين خاوند

مغربی دنيا ميں عورتوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے مغربی دنيا کے ايک رسالے نے مقابلہ منعقد کيا اور کچھ نمائندہ تصاوير شائع کيں جو حاضر ہيں

برطانيہ

رياستہائے متحدہ امريکہ

پولينڈ

يونان

دوسرے نمبر پر آنے والا سربيا

بہترين خاوند آئر لينڈ ۔ جہاں خاوند اپنی محبت کے اظہار ميں اپنی بيوی کا ہاتھ تھامے رکھتے ہيں

ڈرامہ اور حقيقت

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاست ملک پر حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ عوام کی فلاح وبہبود وحکمرانی کے لئے ہے،انہوں نے عوام کوکہاکہ وہ ملک کولوٹنے والے چوروں اورلٹیروں کے خلاف متحدہوجائیں اورانقلاب کی تیاریاں کریں۔ڈرامہ ”جہد مسلسل“ عوام دیکھیں اور سبق سیکھیں اور پانی‘ بجلی کے بحرانوں‘ مہنگائی‘ بے روزگاری سمیت مسائل سے نمٹنے کے لئے ایم کیو ایم کے ساتھ متحد ہو کر انقلاب لائیں۔

الطاف حسين صاحب ۔ پہلے لُٹيری حکومت کی کابينہ کی کرسياں تو چھوڑيں ۔ صرف ڈرامے ہی نہ کرتے رہيں

کيا فرنگی بھی ايسا ہی کرتے ؟

اگر خدا نخواستہ کوئی پاکستانی يورپ يا امريکہ ميں کوئی معمولی سی ايسی حرکت کر بيٹھتا جو کسی عيسائی يا يہودی کو پسند نہ ہوتی تو اُس پاکستانی کو اگر دہشتگرد قرار دے کر قيد نہ کر ديا جاتا تو ناپسنديدہ شخص قرار دے کر دو تين گھنٹوں ميں مُلک بدر کر ديا جاتا

ايک فرنگی ملک کی صحافی عورت جو اُس گُستاخ اخبارکيلئے کام کرتی ہے جس ميں رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے جعلی خاکے چھپے تھے اور اُس نے معافی مانگنے سے بھی انکار کيا تھا پاکستان آئی ہوئی ہے اور متذکرہ مطعون خاکوں کی نقول تقسيم کرتے ہوئے پکڑی گئی ۔ متعلقہ پاکستانی حکام نے قانون کے مطابق اُس کا ويزہ منسوخ کر ديا اور اُسے فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کا حُکم ديا ۔ جمعہ 14 مئی 2010ء کو ايف آئی اے کے اہلکار اُسے ايئرپورٹ پہنچانے کيلئے اُس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے ليکن ۔ ۔ ۔

آخری لمحات ميں اسلام آباد پوليس کے ايک اعلٰی عہديدار کو کسی غيرملکی نے کہا کہ “صحافی عورت کو بے عزت نہ کيا جائے اور اُسے تين چار دن بعد باعزت طريقہ سے جانے ديا جائے”۔ اسلام آباد پوليس کے اُس اعلٰی عہديدار نے جو بڑا خوش اخلاق مشہور ہے اُس غيرمُلکی کی حُکم بجا آوری کرتے ہوئے اُس گُستاخ صحافی عورت کے خلاف کاروائی روک دی ۔ کيا خوش اخلاقی مُلکی قوانين سے زيادہ اہم ہے ؟
بشکريہ ۔ دی نيوز

مجھے 40 سال پرانا ايک واقعہ ياد آيا جب ميں پروڈکشن منيجر تھا ۔ ميں نے اپنے ماتحت ڈيزائن آفس کے فورمين کو ايک خاص تربيت کيلئے 3 ماہ کيلئے جرمنی بھجوايا ۔ 3 ہفتے گذرے تھے کہ ايک اعلٰی عہديدار نے بتايا کہ اُسے واپس بھيجا جا رہا ہے ۔ ميں نے فوری طور پر ايک خط جرمنی اپنے سفارتخانے کو تفصيل معلوم کرنے کيلئے بھيجا ۔ ہفتہ ميں ايک بار ڈپلوميٹک بيگ جاتا تھا جو کہ دو دن قبل جا چکا تھا اسلئے ميرا خط ايک ہفتہ بعد ملا اور اس وقت تک اُسے واپس بھيجا جا چکا تھا جو پيسے وہ خرچ کر چکا تھا واپس کرنا پڑے چنانچہ وہ مقروض ہو گيا

ہوا يوں کہ وہ فورمين اسلامی شرع کا پابند تھا ۔ وہ حرام سے بچنے کيلئے پھل انڈے مکھن ڈبل روٹی بند وغيرہ کھاتا تھا ۔ دفتری اوقات کے دوران ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت ختم ہو جاتا تھا ۔ يہ دونوں نمازيں وہ ڈيزائن آفس ميں پڑی ايک الماری کے پيچھے پڑھتا تھا تا کہ دوسرے ڈِسٹرب نہ ہوں ۔ اس کے باوجود اُس کو ناپسند کيا گيا اور اُسے پاکستان واپس بھيج ديا گيا ۔ بہانہ يہ بنايا گيا کہ وہ کچھ کھاتا پيتا نہيں ہے اسلئے مر جائے گا ۔ ميں اُس فورمين کا انچارج تھا اور ميں نے ہی اُسے حکومت سے منظوری لے کر بھجوايا تھا اور جس کمپنی ميں وہ تربيت لے رہا تھا وہ مجھے 4 سال سے جانتے تھے ۔ جرمنی ميں پاکستانی سفارتخانے ميں ايک ٹيکنيکل اتاشی بالخصوص ہمارے ادارے کے معاملات کو ديکھنے کيلئے موجود تھا ۔ کمال يہ ہے کہ نہ مجھ سے کسی نے بات کی اور نہ ٹيکنيکل اتاشی سے اور اُسے واپس بھيج ديا گيا

ہم کيا کر سکتے ہيں ؟

شگفتہ صاحبہ نے پوچھا ” کیا کوئی ہے جو پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہے ، اپنے لیے کچھ کرنا چاہے

سب سے پہلے تو ہر فرد کو يہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے ملک يا معاشرے کيلئے کچھ کرتے ہيں تو دراصل وہ ہم اپنے لئے اور اپنی اولاد کيلئے ہی کرتے ہيں اور اگر ملکی املاک کو کوئی نقصان پہنچاتے ہيں يا معاشرہ ميں کوئی گڑبڑ کرتے ہيں تو دراصل اپنا ہی نقصان يا بگاڑ کرتے ہيں

بہت کچھ ہے جو ہر فرد اپنی سطح پر بغير زيادہ مشقت اُٹھائے کر سکتا ہے ۔ مُشکل يہ ہے کہ ايک تو ہم لوگوں کی اکثريت باتوں کے شير اور عمل ميں ڈھير ہيں ۔ دوسرے ہم صرف حقوق کی بات کرتے ہيں جو خواہ ہوں يا نہ ہوں مگر ذمہ داری سے دُور بھاگتے ہيں حالانکہ جب تک ذمہ داری نہيں نبھائيں گے حق نہيں ملے گا بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو کسی کی حق تلفی ہو گی ہی نہيں

اوّل اور لازم عمل يہ ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی شہريت رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھے کہے اور لکھے ۔ اگر وہ پنجابی يا سندھی يا پٹھان يا بلوچ يا اُردو سپيکنگ يا حق پرست ہے تو اپنے گھر پر ہو گا ۔ يہ پہچان صرف اُس کے خاندان يا محلہ کيلئے ہے مُلک کيلئے نہيں

اپنے گھر کا کوڑا کباڑ گلی يا سڑک کے کنارے پھينکنے کی بجائے ايک تھيلے يا ٹوکری يا بالٹی ميں ڈال کر اس کيلئے رکھے گئے کنٹينر کے اندر ڈاليں ۔ کنٹينر کے باہر نہ پھينکيں ۔ گاڑی ميں جاتے ہوئے گاڑی سے باہر کچھ نہ پھينکيں ۔ اسے ايک تھيلے ميں ڈال کر رکھيں اور جہاں اسے ڈالنے کا ڈبہ ملے اس ميں ڈاليں

جب بھِيڑ ہو تو قطار بنائيں اور صبر سے اپنی باری کا انتظار کريں ۔ سڑک پر گاڑی پر جارہے ہوں تو ہر وقت آگے نکلنے کی کوشش نہ کريں بلکہ دوسروں کا حق پہچانيں ۔ بالخصوص پيدل سڑک پار کرنے والے کو راستہ ديں

کسی کا مذاق نہ اُڑائيں

اپنی بڑھائی دکھانے کيلئے بڑی بڑی گاڑياں خريدنا اور گھر کے گرد بيش قيمت اور بڑے بڑے قمقمے جلانا بند کر ديں

فضول ضيافتوں جيسے مہندی تيل وغيرہ کو خير باد کہيں اور اس طرح ہونے والی بچت کو قومی يا اپنے خاندان کی بہتری ميں لگائيں

ميکڈونلڈ ۔ کے ايف سی ۔ وِيليج ۔ سَب وے وغيرہ پر صرف اس وقت جائيں جب کسی مجبوری کے تحت گھر ميں کھانا نہ پکايا جا سکا ہو ۔ يہ بچت آپ کے ہی کام آئے گی ۔ گھر کے سادہ کھانے صحت کيلئے بھی مفيد ہوتے ہيں

اگر آپ کے پاس فالتو کھانا ہے تو اپنے گلی محلے پر نظر رکھيں کہ کوئی سفيد پوش بھوکا نہ رہے

اگر آپ کے پاس فالتو پيسے ہيں تو کسی ايسے بچے کی تعليم کا خرچ اپنے ذمہ لے ليں جس کے والدين يہ خرچ برداشت نہيں کر سکتے

رازق و مالک اللہ ہے فانی مخلوق کی بجائے پيدا کرنے اور مارنے والے مالک کُل پر بھروسہ رکھيں اور ہر قسم کی رشوت لينا اور دينا چھوڑ ديں

سب سے بڑی بات کہ جھوٹ کبھی نہ بوليں سوائے اس کے کہ کوئی گردن پر چھُری رکھ کر جھوٹ بولنے پر مجبور کرے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہميں دين کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

[ميں نے صرف وہ عوامل لکھے ہيں جن پر ميں اور ميرے بيوی بچے عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہيں اور اللہ کی دی ہوئی توفيق سے عمل کر رہے ہيں]

محلِ وقوع

جن صاحب نے ہیلو۔ہائے۔اےاواے ۔ A Pass By ۔ بھونچال ۔ ميرے نام اور ديگر ناموں سے پراگندہ تبصرے مختلف بلاگز پر کئے ہيں اُن کا محلِ وقوع دريافت ہو گيا ہے ۔ اگر ميں اسلام آباد ميں ہوتا تو شايد اُن تک پہنچ بھی جاتا ۔ محلِ وقوع کچھ اس طرح ہے

اسلام آباد ميں بنی گالہ کے جنوب ميں ۔ راول جھيل کے مشرق کی طرف ۔ لکھوال کے مشرق مشرق شمال کی طرف ۔ پارک روڈ بنی گالہ لِنک کے قريب مشرق کی طرف

موصوف ہائر ايجوکيشن کميشن اسلام آباد کا انٹرنيٹ استعمال کر رہے ہيں . آئی پِيز ہيں
111.68.99.198
111.68.99.208