اِس کا ديرپا حل کيا ہے؟

ميں جانتا ہوں کہ مندرجہ ذيل خبر پڑھنے پر انٹرنيٹ صارف اس عمل کو جاہليت بھی قرار دے سکتے ہيں ليکن ميرا صرف ايک سوال ہے کہ اِس کا حل کيا ہے ؟ کيا اپنے دين کی توہين اور قرآن شريف ميں تحريف برداشت کر لی جائے ؟

لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ نے گستاخانہ مواد کی اشاعت اور قرآن پاک میں تحریف کے الزامات پر 9 ویب سائٹس یاہو، ایم ایس این، ہاٹ میل، یو ٹیوب ، گوگل ، اسلام ایکسپوزڈ، ان دا نیم آف اللہ ، امیزون اور بنگ کو فوری طور پر بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ بہاولپور بنچ نے بہاولپور کے ایک شہری محمد صدیق کی طرف سے دائر کردہ رٹ پٹیشن نمبر3246/2010 پر چیئرمین پی ٹی اے کو ہدایت جاری کی اور 28 جون کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ وفاق کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بھی رٹ پٹیشنر کے مؤقف کی تائید کی۔ جسٹس مظہر اقبال کی عدالت میں مدعی کے وکیل لطیف الرحمن ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِن ویب سائٹس پر توہین آمیز موادموجود ہے، عدالت کو اس حوالے سے سی ڈی اور ریکارڈ بھی پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے مذکورہ ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد حسین آزاد نے بتایا کہ انہوں نے پٹیشنر کی پٹیشن اور اس کا مطالبہ دیکھتے ہوئے عدالت میں خود استدعا کی کہ ان ویب سائٹس جن پر گستاخانہ مواد شائع کیا جارہا ہے کو فوری بلاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ویب سائٹس پر اس قسم کے مواد کا شائع ہونا نہایت قابل مذمت ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی جتنی مذمت کریں اتنا کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پٹیشنر اور میری استدعا پر ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں صدر ہائیکورٹ بار اسلم دھکڑ نے کہا کہ عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ بہاو لپور کے وکلا آج مکمل ہڑتال کریں گے اوراس سلسلہ میں خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

عسکريت پسندی ۔ وجہ ۔ مدرسے يا پبلک سکول ؟

امریکی تھنک ٹینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دینی مدرسے نہیں بلکہ سرکاری تعلیم کا ناقص نظام عسکریت پسندی کے فروغ کی وجہ بن رہا ہے ۔ بروکنگز انسٹيٹیوٹ کی رپورٹ جو آج جاری کی جارہی ہے میں عسکریت پسندی اور تعلیم کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکولوں ميں اندراج کی کم شرح تشدد کا رجحان بڑھانے کا خطرہ پیدا کررہی ہے جبکہ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے بارے میں پاکستان کی صلاحیت طلب سے بہت کم ہے

پاکستان کا سرکاری تعلیمی نظام بہت زیادہ کرپٹ ہے اور محکمے میں عہدے سیاسی بنیادوں پر دیئے جاتے ہیں جبکہ اساتذہ چاہے کلاسیں لیں یا نہ لیں انہیں تنخواہ ملتی رہتی ہے ۔ پاکستان میں ہر آنے والی حکومت تعلیم کو اپنے سیاسی عزائم پورا کرنے کیلئے آلے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں کا نصاب اور طریقہ تدریس عدم برداشت کو جنم دینے کا سبب بننے کے علاوہ طلباء کو لیبر مارکیٹ کے مطابق تیار کرنے میں بھی ناکام ثابت ہورہا ہے ۔ جس سے نوجوان مایوسی کا شکارہورہے ہیں اور نتیجتاً عسکریت پسندوں کی بھرتی کا دائرہ بڑھ رہا ہے

بروکنگز کے ماہرین کے مطابق دینی مدارس کے بارے مغرب میں پایا جانے والا یہ تصور غلط ہے کہ وہ عسکریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ صرف اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا 10 فیصد سے بھی کم مدرسوں میں جاتا ہے ۔ اس لئے انہیں اچھی تعلیم اور استحکام میں رکاوٹ سمجھنا غلط ہے جبکہ سیکیورٹی کیلئے چیلنج سمجھتے ہوئے صرف مدرسوں پر توجہ مرکوز کرنے کی غلطی کی بھی تصحیح ہونی چاہیئے ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں صرف 54 فیصد آبادی پڑھ سکتی ہے اور 5 سے 9 سال کی عمر کے 68 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ ایک چوتھائی سے بھی کم لڑکیاں ابتدائی اسکول کی تعلیم مکمل کرپاتی ہیں ۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسکولوں تک رسائی کی کمی تنازعات اور عسکریت پسندی کے فروغ کا سبب بنتی ہے

رائٹرز کی رپورٹ

لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے

شعيب صفدر صاحب نے وکالت کا لطيفہ لکھ کر سب کو صلاح دی ہے کہ اپنے اپنے پيشہ سے متعلق لطيفہ لکھيں ۔ مجھے تين واقعات ياد آئے ہيں جو لطيفے کی مد ميں آتے ہيں ۔ ايک انجنيئرنگ کالج ميں تعليم کے زمانہ کا ۔ ايک ملازمت کے زمانہ کا اور ايک اُن کا جو سب کچھ جانتے ہيں

ڈاکٹر مبشر حسن جو ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور ميں وزير ماليات تھے نے پڑھاتے ہوئے بتايا کہ “نہر ميں مٹی يا ريت پانی کی سطحی تہہ ميں سب سے کم اور سب سے نچلی تہہ ميں سب سے زيادہ ہوتی ہے ۔ يہ مٹی يا ريت نہر ميں بيٹھ جاتی ہے جس سے بہنے والے پانی کا راستہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے” ۔ [In canal, silt is minimum in the upper most layer of water and maximum in the lowest layer. This silt settles down at bottom of the channel thus reducing flow channelاچانک اُنہوں نے پوچھا کہ “اس کا حل کيا ہونا چاہيئے ؟” ايک طالب علم بولا “سب سے نچلی تہہ کو ہٹا ديا جائے” [Lowest layer of water should be removed]

پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں نئے چيئرمين آئے فيکٹری کے دورے کے بعد اُنہوں نے سٹورز کا بھی دورہ کيا ۔ ايک سٹور ميں انہوں نے ديکھا کہ کچھ ميٹيريل[material] زنگ آلود [rusty] ہے ۔ وجہ پوچھی تو بتايا گيا کہ گريس [greese] نہيں لگائی اسلئے زنگ لگ گيا ۔ چيئرمين صاحب نے حکم ديا کہ “سب ميٹيريل کو گريس لگائی جائے”۔ اگلے ماہ چيئرمين صاحب کے پاس گرائنڈنگ وہيلز [grinding wheels] کی درآمد کی منظوری کيلئے ايک بہت بڑا مطالبہ پہنچا ۔ چيئرمين صاحب نے پريشان ہو کر پوچھا کہ “سٹور ميں اتنے زيادہ گرائنڈنگ وہيلز ميں نے خود ديکھے تھے ۔ وہ کيا ہوئے ؟” جواب ملا کہ “ان کو گريس لگی ہوئی ہے اسلئے وہ گرائندنگ کا کام نہيں کرتے”

واہ کے دورہ پر آئے ہوئے کراچی کے ايک وفد کو اُن کی خواہش پر پاکستان آرڈننس فيکٹريز فيکٹری کی سير کرائی گئی جس ميں اُنہيں صرف بندوق کے کارتوسوں کے خول [cartridge cases] بنتے دکھائے گئے تھے ۔ ميں کراچی گيا اور اپنے ماموں کے پاس قيام کيا جو اُن دنوں پی ای سی ايچ ايس ميں رہتے تھا ۔ شام کو اُن کے ساتھ سنٹرل ہوٹل کے مالک اپنے ايک عزيز بزرگ مرحوم عبدالکريم صاحب سے ملنے گئے ۔ اُنہيں ميں چچا کہتا تھا ۔ چچا کے پاس کچھ اُن کے مقامی دوست بيٹھے تھے ۔ جب چچا نے ميرا تعارف کرايا تو ايک صاحب بولے “آپ کی فيکٹری لِپ سٹِک پاؤڈر کے علاوہ اور تو کچھ بنا نہ سکی”۔ ميں نے پہلے اُن کی طرف پھر چچا کی طرف ديکھا تو چچا مُسکرا کر بولے “ہاں ۔ ان کے سوال کا جواب دو”۔ ميں نے کہا “جناب پی او ايف اسلحہ بنانے کا کارخانہ ہے آپ کو کس نے بتايا ہے کہ وہاں لِپ سٹِک پاؤڈر بنتا ہے ؟” بولے “ميرے گھر پر ثبوت موجود ہے ۔ ميں وہاں گيا تھا اور لِپ سٹِک کا ايک خول اُٹھا لايا تھا”۔ اُس زمانہ ميں لِپ سٹِک کا خول بھی پيتل کا ہوتا تھا ۔ موصوف نے کارتوس کے خول کو لِپ سٹِک کا خول سمجھ ليا تھا

خونخوار رشوت خور کون ؟

آج کے اخبارات ميں مندرجہ ذيل خبر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا حکمران ہے جو رشوت نہ ملے تو بندے مروا ديتا ہے

فرانس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان کو اگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔گزشتہ سال فرانس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 1995ء میں پاکستان کو آگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں غیر قانونی طور پر کمیشن دیا گیا تھا اور 2002ء میں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینئروں پر خود کش بم حملہ پاکستان اور فرانس کے اعلیٰ حکام کے درمیان کمیشن کی ادائیگی پر اختلافات کے بعد کیا گیا تھا ۔ پیرس کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وکیل صفائی اولیور مورس نے کہا کہ جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آبدوزوں کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آبدوزوں کی خریداری میں رشوت کی 8کروڑ ڈالر سے زائد رقم مبینہ طور پرپاکستانی سیاستدانوں اور فوجی افسروں کو اداکی گئی

مسئلہ ويزے کا

پاکستان کے ايک چڑيا گھر ميں ايک شير کو روزانہ صرف 2 کلوگرام گوشت کھانے کو ديا جاتا تھا ۔ وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا ۔ حالات سے تنگ وہ دعا کرتا کہ مجھے کسی اور ملک بھيج ديا جائے ۔ ايک دن دبئی کا پاکستان کے دورے پر آيا ہوا ايک شیخ چڑيا گھر آيا اور ايک شير دبئی بھيجنے کی درخواست کی ۔ شير خوش ہوا کہ قسمت جاگ گئی دبئی ميں ايئرکنڈيشنڈ چڑيا گھر ميں رہوں گا اور کھانے ميں بھی دو نہيں تو ايک بکرا روزانہ ملے گا

دبئی کے چڑيا گھر پہنچنے پر پہلے دن ايک خوبصورت تھيلے ميں نفاست سے بند کی ہوئی اس کی خوراک آئی ۔ اُس نے تھلا کھولا تو اس ميں کيلے تھے مگر تھے بڑے بڑے اور عمدہ معيار کے ۔ شير نے خيال کيا کہ ہو سکتا ہے کہ چڑيا گھر کے مہتمم نے سوچا ہو کہ پاکستان سے آنے کے بعد ميرا پيٹ خراب نہ ہو جائے اور صبر شکر کر کے کيلے کھا لئے ۔ دوسرے دن تھيلا آيا تو اس ميں بھی کيلے نکلے ۔ غصہ آيا مگر کھا ليا ۔ جب تيسرے دن بھی کيلے آئے تو شير نے کيلوں کا تھيلا لانے والے ملازم کو روک کر کہا “تمہيں نظر نہيں آتا کہ ميں شير ہوں ؟ جا کر مہتمم کو بتاؤ کہ ميں شير ہوں”۔ ملازم جا کر واپس آيا اور بولا “تم ہو تو شير مگر سرکاری ريکارڈ ميں بندر لکھا ہے کيونکہ تم بندر کے ويزہ پر آئے تھے”

ہماری تاريخ کمزور ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے باوجود یہ رسائی عملی طور پر حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مثلاً جب یہ دعویٰ داغا گیا کہ قائد اعظم نے9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا تو مجاورین قائد اعظم کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس بہتان کی تحقیق کرتے اور ریکارڈ کھنگال کر اس کی تصدیق یا تردید کرتے۔ آپ پوچھیں گے کہ مجاورین قائداعظم کون ہیں؟ میں قائد اعظم کے مجاور ان اداروں کوکہتا ہوں جو قائد اعظم کے نام پرغریب قوم کے ”تنگ دست“ خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کہنے کو قائد اعظم اکادمی بھی موجود ہے جہاں معروف سکالرز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ قائد اعظم پیپرز سیل بھی قائم ہے جہاں ملازمت پیشہ حضرات کسی جذبے سے تہی دامن محض نوکری اور تنخواہ کے لئے بیٹھے عیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس سرکاری ریکارڈ بھی موجود ہے اور قائد اعظم کے کاغذات بھی۔ لاہور میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں بھی عاشقان قائد اعظم خطابت کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔ تحقیق قدرے مشکل اور صبر آزما کام ہے اس میں وقت بھی لگتا ہے اور پیسہ بھی اس لئے میرے نزدیک یہ ان اداروں کا کام تھا کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرتے اور وضاحت کرتے کیونکہ یہ بالکل ایک انہونی بات تھی جس نے طالبعلموں اور نوجوانوں کو قائد اعظم کے حوالے سے گمراہ کرکے رکھ دیا

پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے مجھے فون کیا اور غصے سے کہا ”اگر قائداعظم کو جگن ناتھ آزاد سے ہی قومی ترانہ لکھوانا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟“ میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آزاد پاکستان کا شہری تھا اس سے ترانہ لکھوانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ ساری کہانی فرضی اور خیالی پلاؤ لگتی ہے کیونکہ جگن ناتھ آزاد نے خودکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ یہ شوشہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات نے چھوڑا ہے۔ہاں مجھے یاد آیا جگن ناتھ آزاد پاکستان اکثر آتا رہا۔ ڈاکٹر انور سدید اور محترم رفیع الدین ہاشمی سے کئی بار ملا ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی قائد اعظم سے ملاقات یا قومی ترانہ لکھوانے کا ذکر نہیں کیا اگر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تو وہ اس کا ہر بار ذکر کرتا بلکہ بقول شخصے اچھل اچھل کر ذکرکرتا۔ ان دعویداروں کے مطابق جسے یہ اعزاز حاصل تھا اس نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے دو تین لکھاریوں نے یہ ہوائی اڑا دی جس کی کسی ریکارڈ یا قائد اعظم کے سٹاف سے تصدیق نہیں ہوتی

میں جن دنوں حقائق جاننے کے لئے مضطرب تھا اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا تو مجھے بعض دلچسپ تجربات ہوئے۔ مثلاً مجھے ریڈیو پروگراموں کی تفصیلات پڑھنے کے لئے اگست 1947ء کے اخبارات ڈھونڈھنے میں خاصی ”کھجل خواری“ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے کن مصائب کا شکار ہیں۔ 1964۔65 میں جب میں مسلم لیگ کے دور حکومت 1947۔54 پر ریسرچ کررہا تھا تو پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں اخبار کامکمل ریکارڈ موجود تھا جہاں میں نے ان سات برسوں کا ایک ایک اخبار پڑھا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں اردو اخبارات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ آج یہ سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہم کس قدر علم دوست قوم ہیں؟؟

سچ کی تلاش کے اس سفر میں بعض مقامات پر عزت نفس بھی مجروح ہوئی اور ”جھڑکیاں“ بھی کھانی پڑیں لیکن میں نے قائد اعظم کی خاطر سب کچھ برداشت کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز اور ریکارڈ دیکھناچاہتا تھا۔ ایک عزیزی نے کہا تم سیکرٹری انفارمیشن رہے ہو تمہارے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ میں مسکرایا اور عرض کیا کہ یہ قوم بڑی کرسی پرست ہے ریٹائرڈ لوگوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ سمجھتی ہے۔ ایک بار پھرمیرے تجربے کی تصدیق ہوگئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے نو وارد ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور انہوں نے مجھے گھاس ڈالنا مناسب نہ سمجھا

مروت، اخلاق اور بزرگوں کا ادب والدین اور سکول کی تربیت کی دین ہوتا ہے نہ کہ عہددوں اور کرسی کی عطا، مدت ہوئی انور محمود مشرف کے سیکرٹری انفارمیشن تھے وہ میرے جونیئر رفیق کار اور چھوٹا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں مشرف کے دور میں زیر عتاب اوایس ڈی تھا چنانچہ انور صاحب نے میرا فون سننے سے انکار کردیا۔ بہرحال میں ریڈیو پاکستان(پی بی سی)کے کنٹرولر ہوم سروس علی منشا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے آرکائیوز اور تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے میری مدد کی اور علیحدہ سے ایک تصدیقی بیان بھی بھجوایا کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے ہرگز نشر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ میری تحقیق کا دائرہ 1949تک محدود تھا کیونکہ اس کے بعد تو کمیٹی بنی اور بالآخر 1954میں حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ پاکستان کا ترانہ بن گیا

دوران سفر بات یہاں آکر رک گئی کہ کس طرح قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ کیا کبھی جگن ناتھ آزاد قائد اعظم سے ملے تھے کیونکہ اس سطح پر ملاقاتیں بہرحال اے ڈی سی کے ذریعہ ہی ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں سے محترم عطاربانی صاحب کے صاحبزادے سینیٹر رضا ربانی کا سیل نمبر لیا ۔کئی کوششوں کے بعد ان تک پہنچا۔ اپنا تعارف کرایا اور التجا کی کہ قومی خدمت کے حوالے سے اور ریکارڈ کی تصحیح کے لئے مجھے یہ بات اپنے والد گرامی سے پوچھ دیں یا مجھے ان کا رابطہ عطا فرمادیں۔ انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں نے قائد اعظم کی خاطر وہ جھڑک بھی برداشت کرلی۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے نظامی صاحب کے ذریعے محترم عطا ربانی صاحب سابق اے ڈی سی ٹُو قائد اعظم تک رسائی حاصل ہوئی اور میں نے ان سے براہ راست بات کرکے اپنی تسلی و تشفی کی کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم سے ملے اور نہ کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان کا ذکر سنا

اس کے باوجود اگر ہمارے مہربان نہ مانیں اور اپنی ضد پہ قائم رہیں تو اسے ضد ہی کہا جاسکتا ہے اور ضد کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیابی کا راستہ

ہونا کیا چاہیئے
اپنا عِلم دوسروں میں بانٹيئے تو لافانی ہو جائيں گے
اپنی کامیابی کا اندازہ اس سے لگائيے کہ اسے حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ چھوڑا
محبت اور کھانا پکانے کی طرف پورے اِنہماک سے بڑھيئے

عصرِ حاضر کی صورتِ حال
محنت کرو مگر دوسروں کو صرف اس وقت بتاؤ جب باس [Boss] سُن رہا ہو
باس پر توجہ رکھو کہ اُسے کیا پسند ہے ۔ وہی کرو
باس پر خُفیہ نظر رکھو اور پتہ چلاؤ کہ اُسے کس چیز کی ضرورت ہے ۔ وہ اُسے مہیا کرو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے