پبلک اکاؤنٹس کميٹی کا اجلاس قائم مقام چیئرپرسن یاسمین رحمن کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ
2 سال کے دوران 30 کھرب [3000000000000] روپے کے قرضوں کا اضافہ ہوا
اور اب ملک پر قرضوں کا مجموعی حجم 90 کھرب [9000000000000] روپے ہو گیا ہے
90 کھرب کے قرضوں میں سے 45 کھرب روپے غیر ملکی جبکہ 45 کھرب روپے قومی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں
3 کھرب کے اندرونی قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں
حکومت فاٹا کے بجلی کے بلوں کا 10 ارب [10000000000] روپے قومی بجٹ سے ادا کررہی ہے
اسٹیل ملز میں 2 کھرب 25 کروڑ روپے کا خسارہ ہے
سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے مزيد بتايا کہ
بینظیر ٹریکٹر اسکیم پر 4 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی
توانائی شعبے کو 183 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے
سیلاب کی وجہ سے 2 کھرب 80 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 2 کھرب روپے کر دیا گیا ہے
جانچ پڑتال کے دوران وزارت خزانہ کے کھاتوں میں 14 کروڑ [140000000] روپے کے سِیکرٹ فنڈ کا انکشاف ہوا جو 10 نومبر 2007ء سے 17 دسمبر 2007ء کے 43 دنوں میں ایک خفیہ ایجنسی کو فراہم کئے گئے تھے
خواجہ آصف نے کہا کہ پی آئی اے اور دیگر ناکارہ اداروں کو 250 ارب روپے کی سبسڈی دے کر عوام کو اس بھاری رقم کے ثمرات سے محروم رکھا جا رہا ہے
حامد یار ہراج نے کہا کہ حکومت کے تمام شعبے سبسڈی پر چل رہے ہیں جو اچھی گورننس نہیں ہے
پی اے سی کیلئے یہ بات بھی تشویش انگیز تھی کہ پوری حکومت سبسڈی پر چل رہی ہے اور سرکاری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کی مالیت دفاعی بجٹ کے برابر پہنچ چکی ہے