چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اذان اور تکبير اقامت

اذان کب دی جاتی ہے اور تکبير اقامت کب کہی جاتی ہے اور کب نہیں ؟

کہنے کو یہ بہت آسان سوال ہے مگر عصرِ حاضر میں سوائے مُستند دينی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے اس کا جواب بہت کم مسلمان جانتے ہیں

نماز سے قبل اذان ضروری ہے ۔ اگر نماز کا وقت ہو جانے کے باوجود اس علاقہ میں کسی جگہ بھی اذان نہ ہو ئی ہو يا کم از کم آواز نہ سُنی گئی ہو تو پہلے اذان کہہ کر پھر نماز پڑھنا چاہيئے

باجماعت نماز کيلئے تکبير اقامت ضروری ہے

مندرجہ ذيل صورتوں ميں نہ اذان کہی جائے گی اور نہ تکبير اقامت

مسجد ميں کچھ لوگ نماز پڑھی جانے کے بعد پہنچیں اور باجماعت نماز پڑھيں
مسجد ميں کچھ لوگ کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے مثال کے طور پر مسافر مقررہ وقت سے پہلے باجماعت نماز پڑھيں
مسجد کے علاوہ کوئی بھی جگہ جہاں باجماعت نماز ادا کر دی گئی ہو

مزيد
مسجد میں جہاں معمول کے امام کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں دوسری جماعت میں شامل نمازيوں کے امام وہاں کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ کم از کم ايک صف پيچھے کھڑے ہوں گے

میں نے دينی مدرسہ ميں تعليم حاصل نہيں کی
اگر کسی قاری کو متذکرہ بالا بيان سے اختلاف ہو یا کوئی بات لکھنا رہ گئی ہو تو ميری رہنمائی فرمائيں

بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ ميں ہے

آ سٹریلوی خاتون کيٹ اوگ [Kate Ogg] کے قبل از وقت پیداہونے والے بچے کو ڈاکٹروں نے مر دہ قرار دیا تاہم ڈاکٹروں کی پروا نہ کر تے ہو ئے کيٹ اوگ نے بچے کو اپنے سینے سے لگا ئے رکھا اور معجزانہ طور پر دو گھنٹے بعد بچے نے سانسیں لینا شروع کر دیا اور آنکھیں کھو ل کر اپنی ماں کی انگلی بھی پکڑ لی ۔ ڈاکٹر جو بچے کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ماں کی محبت کا یہ مظاہر ہ دیکھ کر حیرا ن رہ گئے

بشکريہ ۔ جنگ

سيلاب زدگان کی امداد

ميں ويب گردی کر رہا تھا کہ سيلاب زدگان کی امداد کا جائزہ لوں ۔ مجھے صرف ايک سرکاری ويب سائٹ ملی ہے جو حکومتِ پنجاب کی ہے ۔جس کے مطابق

اب تک موصول ہو نے والی امداد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 191710000 روپے
خيموں کی کُل تعداد جو مطلوب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000
جتنے خيمے متاءثرين کيلئے بھيج ديئے گئے ہيں ۔ ۔ ۔ 26538

اس ميں ايسے افراد اور جماعتوں کيلئے رہنمائی موجود جو کچھ کرنا چاہتے ہيں ۔ مثال کہ طور پر

اگر آپ ريسکيو يا کسی قسم کی مدد چاہتے ہيں
يا
جو ريليف کا کام آپ کر رہے ہيں اس ميں کسی قسم کی مدد يا سہولت چاہتے ہيں
تو مندرجہ ذيل نمبر پر ٹيليفوں کيجئے

1124

اگر آپ اين جی او ہيں اور امداد پہنچانے کيلئے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہيں يا تجاويز دينا چاہتے ہيں
يا
آپ رضاکارانہ طور پر امدادی کام ميں حصہ لينا چاہتے ہيں
يا
آپ ايک ريليف کيمپ يا ڈسٹريبيوشن سينٹر اپنانا چاہتے ہيں
تو
مندرجہ ذيل پتہ يا ٹيليفون يا فيکس پر رابطہ کيجئے

ريليف اينڈ کرائسس منيجمنٹ ڈيپارٹمنٹ ۔ 8/48 ۔ لارنس روڈ ۔ لاہور

ٹيليفون نمبر ۔ لاہور کا کوڈ ہے 042
99204408
99204404
99204403

فيکس نمبر
99204405
99204439

ريليف کنٹرول سينٹر
99200549
99201253

پوليس کنٹرول روم ۔ [ان نمبروں پر غير ممالک سے سکائپ کے ذريعہ بات کی جا سکتی ہے]
+92-42-9211879 begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting
+92-42-9211880

مزيد تفصيل کيلئے يہاں کلِک کيجئے

مگر بدنام صرف ہم ہيں

عنيقہ ناز صاحبہ کے سوالات کے جوابات لکھتے ہوئے ميں نے صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی نشاندہی کی تھی جو امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہونے کے دوران پيش آيا تھا ۔ اب مشہور صحافی حامد مير صاحب نے ايک اور واقعہ ياد کرا ديا ہے

ميں يہ واضح کر دوں کہ برائی ہر صورت ميں برائی ہے چاہے کسی جگہ بھی ہو اور برائی کو سختی سے روکنا چاہيئے ۔ يہ تحرير اسلئے ہے کہ ہمارا کام صرف اپنوں کو ہی رگيدنا نہيں ہے بلکہ اپنوں کی اصلاح کرنا ہمارا فرض ہے جس کی طرف توجہ نہيں دی جا رہی

امریکی ریاست لوسیانا کے ساحلوں پر 27 اگست 2005ء کو ایک سمندری طوفان کا آغاز ہوا۔ سمندر کا پانی ساحلوں سے نکل کر شہروں میں داخل ۔ ہزاروں عمارتیں اور مکان تباہ ہوگئے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ۔ اس سمندری سیلاب کوکترینہ کا نام دیا گیا ۔ امریکی فوج کے 22ہزار جوانوں کوکترینہ سیلاب سے نمٹنے کا فریضہ سونپا گیا ۔ طوفان سے متاثرہ ایک بڑے شہر نیو آرلنیز میں لوٹ مار ۔ قتل و غارت اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات شروع ہوگئے لہٰذا امریکی حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور چند دن کے لئے نیو آرلنیز میں کرفیو کا اعلان کرکے لوٹ مار کرنے والوں کوگولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ۔ کترینہ سیلاب میں 1800 امریکی مارے گئے اور 81 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ امریکی قوم کیلئے سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث پھیلنے والی تباہی سے زیادہ پریشانی کی بات اس سانحے کے دوران شروع ہونے والی لوٹ مار تھی کیونکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ گینگ بنا کر نہ صرف بینکوں اور شاپنگ سینٹرز کو لوٹ رہے تھے بلکہ بے گھر ہونے والی عورتوں اور بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگے

کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

جب سے سيلاب زدگان کی مدد کے متعلق بات شروع ہوئی ہے ” کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟ ” کافی سننے ميں آيا ۔ دريں اثنا مجھے ايک قول ياد آيا ” تعليمی سند اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عملی زندگی ميں قدم رکھا جا سکتا ہے”

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ تجربہ کا کوئی نعم البدل نہيں ۔ مثال کے طور پر ايک آدمی تيراکی کے جتنے بھی تحريری امتحان پاس کر لے جب تک پانی ميں ڈبکی نہيں لگائے گا تيرنا نہيں سيکھ سکتا ۔ آج ہم جن لوگوں کو سائنس کا اُستاد مانتے ہيں اُنہوں نے يہ مقام اسناد کی وجہ سے حاصل نہيں کيا تھا بلکہ يہ مقام اُنہوں نے محنت اور تجربے سے حاصل کيا

چنانچہ بجائے فلسفہ شروع کرنے کے بہتر ہو گا کہ جو تجربہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق اور اللہ ہی کی رہنمائی سے ہميں اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد امداد کے سلسلہ ميں حاصل ہوا اور اب سيلاب زدگان کی امداد کيلئے اسے اللہ کے فضل سے بخير و خُوبی استعمال کيا جا رہا ہے بيان کيا جائے

زلزلہ کی تباہی کے بعد ہم نے امداد کی پہلی کھيپ انجمن ہلالِ احمر کے حوالے کی ۔ دو دن گذرنے کے بعد بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ امداد بھيجی بھی گئی ہے کہ نہيں ۔ امداد کا حجم ايک ٹرک سے زيادہ ہونے کے باعث کسی کونے کھدرے ميں تو چھپ نہيں سکتی تھی

اس کے بعد ہمارے علم ميں آيا کہ جامعہ فريديہ اسلام آباد والے بندوبست کر رہے ہيں ۔ ميں نے لال مسجد جاکر حالات معلوم کئے ۔ اُنہوں نے کہا ” وہاں نہ چولہا ہے نہ ديگچی نہ رکابی نہ پيالہ ۔ اسلئے بھنے ہوئے چنے ۔ کھجوريں ۔ چھوہارے ۔ بسکٹ وغيرہ کا بندوبست کريں ۔ دوسرے دن مجھ سے چھوٹا بھائی ايک سوزوکی پک اپ بھر کر لال مسجد پہنچا ۔ ميں کار ميں براہِ راست وہاں پہنچا ۔ يک دم جامعہ فريديہ کے چند اساتذہ اور طلباء آ گئے اور بورياں اُٹھا کر لے گئے ۔ آخری بوری مرحوم عبدالرشيد غازی نے اٹھائی تھی ۔ يہ عبدالرشيد غازی صاحب سے ميری دوسری اور آخری ملاقات تھی

دوسرے دن معلوم کيا تو وہ لوگ خود سوچ ميں پڑے تھے کہ خالی ٹرک واپس کيوں نہ آيا ۔ انہوں نے تين ٹرک اور بھيجے اور ساتھ ايک ايسے آدمی کو بھيجا جس کے پاس موبائل فون تھا ۔ اس نے بھی رات تک رابطہ نہ کيا ۔ اگلے دن اس کا فون آيا کہ متاثرہ علاقے تک جا نہيں سکتے اور نہ وہاں موبائل کام کرتا ہے کيونکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ واپس مانسہرہ شہر آ کر ٹيليفون کر رہا ہے ۔ اس نے بتايا کہ ٹرک کھڑے کر کے سامان کندھوں پر لاد کر ميلوں پيدل چل کے پہنچايا جا رہا ہے

اس پر ہم لوگوں نے سوچا کہ کيوں نا ہم خود ايک ايسی جماعت تشکيل ديں جس ميں کندھوں پر سامان رکھ کر پہنچانے والے بھی ہوں اور کم از کم ايک آدمی ايسا شامل ہو جو علاقہ سے اچھی طرح واقف ہو ۔ مينجمنٹ ميرے سب سے چھوٹے بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر اور ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی ميں سرجری يونٹ کا سربراہ ہے نے اپنے ذمہ لی ۔ تين دنوں ميں خيموں ۔ لوہے کی چادروں ۔ پينے کے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے 10 لٹر والے کينوں اور کھانے کا خشک سامان سے لدے تين ٹرک تيار ہو گئے اور ميرا بھائی اپنی کار پر قافلے کی کمان کرتا ہوا روانہ ہوا ۔ ايک پک اپ ميں چند لوگ آگے بھيج ديئے کہ جا کر صورتِ حال کا جائزہ لے کر امدادی سامان کا خيال رکھتے ہوئے متاثرين کے ناموں کے ساتھ فہرست تيار کر ليں کہ کس کی کيا ضروت ہے ؟ اور انہيں بتا ديں کہ انہيں کوئی تکليف کرنے کی ضرورت نہيں ۔ جہاں وہ بيٹھے ہيں وہيں انہيں مطلوبہ چيزیں مل جائيں گی جو فی الحال تھوڑی ہيں بعد ميں اِن شاء اللہ اور آ جائيں گی

ٹرک جہاں تک جا سکتے تھے گئے ۔ وہاں پہلے بھيجے گئے نمائندوں ميں سے ايک آدمی اپنی پک اپ کی بجائے ايک بڑی پک اور اس کے ڈرائيور کے ساتھ کھڑا تھا جو علاقہ سے اچھی طرح واقف اور ماہر ڈرائيور تھا ۔ اس پک اپ والے نے کہا کہ “صرف ڈيزل آپ ڈلواتے رہيں ميں مزدوری نہيں لوں گا”۔ اسے جذبہ کہا جاتا ہے ۔ ميرا بھائی پک اپ پر پہلے پھيرے ميں گيا ۔ سامان پک اپ پر لاد کر دو دن ليجاتے رہے کيونکہ راستے ختم ہو چکے تھے پہاڑ کے اوپر نيچے جان ہتھيلی پر رکھے ہوئے سفر کرتے رہے

وہاں اپنا آدمی فہرست کے ساتھ موجود تھا وہ پک اپ کا سامان ديکھ کر بتاتا جاتا کہ يہ فلاں کو دے ديں يہ فلاں کو ۔ اگر کوئی از خود سامان لينے آگے بڑھتا تو اسے نہائت تحمل سے کہا جاتا کہ “جن کے نام لکھے گئے ہيں ان سب کو ملے گا ۔ صرف اپنا سامان اٹھانے ميں آپ ہماری مدد کر سکتے ہيں”

تيسرے دن ان کی واپسی ہوئی ۔ اس کے بعد ايک ايک ہفتہ کے وقفہ سے مزيد دو پھيرے لگائے گئے جن ميں ايک بار ميرا دوسرا بھائی بھی ساتھ گيا اور ايک بار ميری بھابھی بھی ساتھ گئيں تاکہ عورتوں کی مخصوص بيماريوں کے سلسلہ ميں ان کا معائنہ کر سکيں ۔ وہ ڈاکٹر ہيں ۔ مردوں اور عورتوں کی عام بيماريوں کے سلسہ ميں ميرا بھائی ہی انہيں ديکھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے سيلاب کے سلسہ ميں بھی متذکرہ بالا تجربہ دہرايا گيا ہے اور کسی قسم کی بھيڑ چال نہيں ہوئی ۔ سب نے بڑے تحمل کے ساتھ سامان وصول کيا

زلزلہ کے سلسلہ ميں راستہ بہت دشوار گزار ہو گيا تھا اور وہاں فوری طور پر عارضی گھر بنانے کی ضرورت تھی کيونکہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور موسم بھی سرد تھا ۔ سيلاب کے اثر سے راستہ زيرِ آب ہو گيا ہے اور پک اپ کی بجائے کشتی سے کام لينا پڑتا ہے

امدادی اداروں کے متعلق استفسار کيا جاتا ہے ۔ زلزلہ کے بعد سب سے زيادہ اور محنت سے امدادی کام ان لوگوں نے کيا جہنيں ہماری حکومت اور بہت سے ہموطن انتہاء پسند کہتے ہيں ۔سب سے آگے جماعت الدعوہ اس کے بعد جماعت اسلامی کا الخدمت ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتيں مثال کے طور پر الشمس ۔ البدر ۔ اور ہم جيسے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا

اب سيلاب ميں سب سے آگے پاکستان کے فوجی ہيں پھر وہی لوگ پيش پيش ہيں جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے اور ہم جيسے لوگ اپنی ہمت کے مطابق کام کر رہے ہيں ۔ رفاہی اداروں ميں جماعتِ اسلامی کا الخدمت اور فلاحِ انسانيت قابلِ ذکر ہيں

اگر لوگ باجماعت ہو کر مربوط طريقہ سے خود جا کر امداد کريں تو اس سے جو لُطف اور اطمينان حاصل ہو گا وہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اور اس کا اجر بھی سب سے زيادہ ہے

ايک درخواست ہے کہ متاءثرين کی بھاری تعداد کھاتے پيتے لوگ تھے ۔ از راہِ کرم اُنہيں پرانے کپڑے دے کر ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کيجئے ۔ زلزلہ کے بعد پرانے کپڑے پہنچانے سے نہ صرف متاءثرين کی عزتِ نفس اتنی مجروح ہوئی کہ زيادہ تر لوگوں نے آنسو بہاتے ہوئے لينے سے انکار کرديا بلکہ ڈھيروں کے ڈھير کپڑے ضائع ہوئے

قرآن شریف کا اَدَب

لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

بلاشُبہ قرآن شريف کا احترام کرنا چاہيئے اور اس کو پاک صاف ہو کر ہاتھ لگانا چاہيئے ليکن قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو اس پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ ۔ پڑھے لکھوں ميں بھی ايسے مسلمان ہيں جنہوں نے قرآن شريف پڑھا ہی نہيں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن کو اسلامی قرار دے کر اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں

کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ رحمٰن و رحیم ہے انہیں بخش دے گا یا تھوڑی سی سزا کے بعد وہ جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے

کچھ مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو 14 صدیاں پرانے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں

فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو [جو قابلِ تغیّر ہیں] رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ سمجھنے کی کوشش تو کُجا قرآن کو صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں اور رَد کر دیتے ہیں

میرا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو خود تو عربی نہ جانتے ہیں اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کا استدلال ہے کہ قرآن شریف کے سب تراجم غلط ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جب میں نے اُنہیں ایسے تراجم دکھانے کا کہا جو آپس میں مختلف ہیں تو جواب ندارد ۔ معلوم ہوا کہ کبھی قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ہی نہیں یا قرآن شریف ہی نہیں پڑھا

کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن شریف میں تبدیلی کا عندیہ دینے والوں کو عملی یا مفید راستہ [pragmatic approach] قرار دیتے ہیں لیکن قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے

میں یقین رکھتا ہوں کہ قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب بھی کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

ميں دو مواقع پر حيران و پريشان ہوا
جب ہم طربلس لبيا ميں تھے تو ايک ہموطن نے قرآن خوانی کيلئے بلايا ۔ ہمارے ايک دوست سے ان کی جان پہچان تھی وہ مجھے ساتھ لے گئے ۔ ہم کل 6 لوگ تھے جنہوں نے ايک قرآن شريف پڑھا ۔ جب ہم پڑھ چکے تر ايک ہموطن آئے اور گويا ہوئے “ميری طرف سے بھی ايک سپارہ کر ليجئے” ۔ کسی نے پوچھا ” کونسا ؟” جواب ديا “کوئی سا بھی کر ليں “۔ ہم ہکا بکا رہ گئے
ميں ملک سے باہر گيا ہوا تھا تو ايک رشتہ دار فوت ہو گئے ۔ واپس پہنچا تو معلوم ہوا ۔ ميں فاتحہ کہنے دوسرے شہر ان کے گھر گيا ۔ وہاں پہنچا توقرآن خوانی ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ چاليسواں ہے ۔ قرآن خوانی کے بعد دعا شروع ہونے سے قبل صاحبِ خانہ نے کہا کہ اتنے قرآن شريف ختم ہوئے ہيں ۔ تعداد اتنی زيادہ بتائی کہ ميں بھونچکا رہ گيا ۔ قرآن شريف پڑھنے والے بيس بھی نہ تھے ۔ ميں نے بعد ميں پوچھا کہ” اتنی زيادہ بار قرآن شريف کس نے پڑھے ہيں ؟” جواب ملا ” وہ مسجد ميں لڑکے پڑھتے ہيں نا ۔ ان سے لے لئے ہيں”۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین