شہباز بھٹی کا قاتل کون ہے ؟ امريکا يا طالبان ؟

جذبات اور جنون نہیں، جنابِ والا، حکمت و دانش اور تحمل و تدبّر ۔ میر صاحب نے کہا تھا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کی مخالفت ، مذمت اور مزاحمت بجامگر یہ کیسے طے ہوا کہ شہباز بھٹی کے قاتل لازماً وہی ہیں؟

قابلِ اعتماد ذرائع یہ کہتے ہیں کہ پنجابی طالبان کے نام سے پمفلٹ واردات کے بعد گرائے گئے، اسی وقت نہیں ۔ ان پر کلمہ طیبہ اور اللہ کے آخری رسول کا اسم گرامی لکھا ہے۔ طالبان ایسا کیوں کرتے؟ گھنی آبادی والا یہ ایسا علاقہ ہے ، جہاں سے طالبان کے لیے بھاگ نکلنا آسان نہ ہوتا کہ چاروں طرف ناکے ہیں۔ پھر ان کا انداز یہ کبھی نہیں رہا۔ وہ ڈرائیور کو بچا لینے کے لیے کیوں فکر مند ہوتے

شہباز بھٹی کے قتل کا ماتم ہی کیا جانا چاہئے ۔ اس میں دو آراء نہیں لیکن مغربی ممالک اور ان کا پریس اس سانحہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اس قدر بے تاب کیوں ہے؟

اس وقت تو موضوع ریمنڈ ڈیوس ہے اور وہ عوامل ، جس نے اس قماش کی مخلوق کے لیے پاکستان کو چراگاہ بنا ڈالا ہے۔ امریکی قاتل کے قضیے میں اگر کوئی گہرا تاریک راز پوشیدہ نہیں تو صدر اوباما تک کو جھوٹ کیوں بولنا پڑا کہ وہ ایک سفارت کار ہے ؟ امریکی قونصل خانے کے کار تلے کچل کر ہلاک کرنے والوں کو تفتیش سے بچانے کا ایسا فولادی عزم کیوں تھا؟ ریمنڈ ڈیوس کا اصل نام تک کیوں چھپایا گیا؟ کیا اس لیے کہ وہ بے نقاب ہوا تو خطرناک بھید کھل جائیں گے

1979ء سے 1989ء تک دس سالہ افغان جنگ میں ، جو تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ (Covert) جنگ تھی، سی آئی اے کے پچاس سے زیادہ اہلکار اس سر زمین پر کبھی نہ تھے، اب سینکڑوں کی ضرورت کیوں ہے؟ براہمداغ بگٹی کیا امریکی اجازت کے بغیر ہی افغانستان میں پناہ گزین رہا؟ امریکی اخبارات کو اور تو سبھی کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن پاک افغان سرحد کے ساتھ پھیلے بھارتی قونصل خانوں کی قطار کیوں نہیں؟ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے انکل سام کو پاکستانی تعاون کی کسی بھی چیز سے زیادہ ضرورت ہے پھر افغان سر زمین پر بھارت کی نازبرداری ؟

پھر ٹھیک انہی ایام میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے سے دھڑا دھڑ ویزے کیوں جاری ہوتے رہے۔ ہمیشہ چوکس اور مستعد رہنے والے حسین حقانی کی نگراں آنکھوں تلے ، جو پاکستان کے نہیں ، صدر زرداری کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔

امریکی شہریوں کے نام کیسا دلچسپ پیغام جاری ہوا ہے: پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر وہ پاکستان نہ آئیں۔ کیا کبھی کوئی سفری دستاویزات کے بغیر دوسرے ملک میں داخل ہوا کرتا ہے ؟ اگر اس سے پہلے امریکی شہری ویزے کے بغیر نہیں آئے تو اب اس اعلان کی ضرورت کیا تھی

يہ چند اقتباسات ہيں ۔ پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

میں خود کُش حملہ آور ہوں

“اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گیا تھا جب اس شخص نے اپنی منزل پر اُترنے سے پہلے مجھے کہا “میں خودکُش حملہ آور ہوں”۔ آصف نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ “اکتوبر 2005ء کی ایک ڈھلتی شام تھی اور میں تنہا اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا مری روڈ کی طرف آ رہا تھا ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب کھڑے ایک چالیس پنتالیس سالہ شخص نے مجھے روکا اور کہنے لگا کہ مجھے پیر ودھائی موڑ جانا ہے ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد ہماری منزل پیر ودھائی موڑ تھی ۔ میں سٹیڈیم روڈ سے ہوتا ہوا پیر ودھائی موڑ کی طرف جا رہا تھا ۔ میرا ہم سفر ایک خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کا شخص لگ رہا تھا ۔ میں ہمیشہ ڈرائیونگ کے دوران ہم سفر سے بات چیت کرتا ہوں ۔ اس طرح سفر کا پتہ نہیں چلتا ۔ دوسرا یہ کہ مسافر کی باتوں سے کچھ نا کچھ سیکھ لیتا ہوں ۔ یہ شخص ہاتھ میں تسبیح کا ورد کر رہا تھا ۔ اسی مناسبت سے میں نے اس سے کہا کہ کوئی دین کی بات بتائیں ۔ وہ شخص ‘صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی برتری کو ماننا ‘ کہہ کر چُپ کر گیا ۔

“پھر کچھ دیر بعد کہنے لگا ‘ہماری مائیں ۔ بہنیں اور بیٹیاں سر پر اسلحہ رکھ کر رات کی تاریکی میں انتہائی دُشوار گذار راستوں پر چل کر جنگ کے محاذ پر پہنچائیں ۔ ہم خود سوکھی اور باسی روٹیاں کھاتے ۔ اگلے محاذ پر جہاد سے واپسی پر کبھی کبھی ہم اُبلا ہوا خُشک گوشت جو کہ پتھروں میں امانتاً رکھتے تھے کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم افغانوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا ۔ امریکا کے دیئے ہوئے اسلحہ سے ہم نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس جنگ کے بعد دنیا نے ہمیں نظرانداز کیا اور ہمیں دہشتگرد قرار دیا گیا ۔ ایک ایسی لڑائی جس میں لاکھوں افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنا پڑی اور ان لاکھوں انسانوں پر جن میں مرد ۔ عورتیں ۔ بچے اور بوڑھے شامل تھے مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ گرا ۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے ۔ پورا مُلک تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیا آج ان ممالک کے ضمیر مُردہ ہو چکے ہیں جن کی افواج ہمارے مُلک افغانستان میں آگ اور خُون کا کھیل کھیل رہی ہیں ؟ یہ ہم پر جتنی مرضی بمباری کر لیں ہم اتنی ہی شدت سے انتہاء پسند ہوں گے ۔ یہ ہمارے مُلک میں ہیں لیکن ہماری سوچ پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ آج دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہونے کے باوجود بھی یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم انہیں خُودکُش حملوں کے ذریعے ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے اور دُنیا کو اس بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا کہ کسی انسان یا مُلک کو ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ یہاں پاکستان میں میری والدہ ہے جو بیمار تھی اور میں اُس کی تیمارداری کیلئے آیا تھا ۔ اب میں واپس افغانستان جا رہا ہوں ۔ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ ہم افغان فاتح ہوں گے ۔ میں اپنا نام رجسٹر کروا چکا ہوں ۔ میں خُودکُش حملہ آور ہوں’ ”

ٹیکسی ڈرائیور آصف حسین شاہ کی آپ بیتی پر مُشتمل کتاب “فار ہائر” سے اقتباس

مددگار کی تلاش

ميں نے يکم مارچ 2011ء کو ايک درخواست کی تھی ۔ اگر پی ٹی سی ايل کا انٹرنيٹ استعمال کرنے والے کوئی صاحب يا صاحبہ ميری اور شايد اپنی بھی مدد کرنا چاہتے ہيں تو مندرجہ ذيل ای ميل بھيجنے والے پی ٹی سی ايل کے اہلکار صاحب کو ای ميل بھيجئے جس میں بتايئے کہ آپ کون سا انٹر نيٹ استعمال کر رہے ہيں اور کس نمبر کی ٹيليفون لائين پر اور ساتھ يہ بھی بتايئے کہ ميرا بلاگ http://www.theajmals.com نہيں کھُلتا يا مشکل سے کئی بار کوشش کرنے کے بعد کھُلتا ہے

FW: Internet Problem
From: “Complaint”
To: iabhopal@yahoo.com

Kindly provide PTCL number on which you are aviling DSL facility.

Regards

Consumer Protection Directorate
PTA Headquarters
Sector F-5/1, Islamabad.
Ph No. 051-9225325
Fax No. 051-2878127
email: complaint@pta.gov.pk
www.pta.gov.pk

—–Forwarded by Complaint/Consumer Protection/Services/PTA/PK on 03/02/2011 02:06PM —–

ابليس کا خطاب ۔ اپنے پيروکاروں سے

ابليس [شيطان] نے ايک بين الاقوامی کانفرنس بلائی جس ميں اُس کے پيروکاروں کے وفود دنيا کے تمام ممالک سے جوق در جوق شامل ہوئے ۔ اپنی تقرير کا آغاز کرتے ہوئے ابليس نے اپنے پيروؤں سے کہا

“ميرے دوستوں و مددگارو ۔ نيک ۔ پرہيزگار ۔ اللہ کے بندوں کو ہم کسی صورت مساجد ميں جانے سے نہيں روک سکتے ۔ نہ ہم اُنہيں قرآن کی تلاوت سے روک سکتے ہيں اور نہ سچائی کی تلاش سے ۔ مجھے اللہ نے اول روز ہی بتا ديا تھا کہ ‘ميرے [اللہ کے] بندوں کو تم ورغلا نہيں سکو گے’۔ ہم اُنہيں اللہ کا قُرب حاصل کرنے سے بھی نہيں روک سکتے ۔ اسلئے اُنہيں نہ مساجد ميں جانے سے روکنے پر وقت ضائع کرو اور نہ دوسرے بھلائی کے کاموں سے روکنے پر”

“ليکن ياد رکھو ۔ اگر سب لوگ اپنے رب کے قريب ہو گئے تو ہمارا اُن پر کوئی اختيار نہيں رہے گا ۔ ان کو اللہ سے دور کرنے کا صرف ايک ہی طريقہ ہے کہ ان سب سے ايک چيز چھين لو ۔ اُن کا وقت [فرصت] ۔ پھر وہ اپنے خالق کے ساتھ مطلوبہ ربط قائم کرنے ميں ناکام رہيں گے ۔ ميں چاہتا ہوں کہ تم سب اس منصوبہ پر ہمہ تن گوش کاربند ہو جاؤ ۔ ميرے پيروکارو ۔ اُنہيں اللہ سے ربط قائم کرنے سے غافل کر دو ۔ جب ربط قائم نہيں ہو گا تو وہ فلاح کی راہ پر چل ہی نہ پائيں گے”

تمام وفود نے يک زبان ہو کر کہا “ہمارے آقا ۔ يہ کيسے ممکن ہو گا ؟”

ابليس بولا “يہ مشکل نہيں ہے ۔ اُنہيں خوش دل بنا دو اور دوسرے غير اہم عوامل ميں ُانہيں ہر وقت مشغول و مصروف رکھو ۔ ايسے عوامل ايجاد کرو جو انہيں پسند آئيں ۔ اُنہيں اور بالخصوص اُن کی بيويوں کو فضول خرچی پر اُکساؤ يہاں تک کہ وہ اپنی من پسند حاجات کيلئے مقروض ہو جائيں يا دولت اکٹھا کرنے کے اور ذرائع تلاش کريں ۔ اُن کے دلوں ميں زيادہ دولت اکٹھا کرنے اور اعلٰی مرتبے حاصل کرنے کی ہوس پيدا کرو ۔ يہاں تک کہ اپنی مادی ضروريات پوری کرنے کيلئے وہ دن ميں 18 سے 20 گھنٹے کام کرنے لگيں ۔ اُنہيں بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے محروم کر دو ۔ اس طرح اُن کے خاندان بکھر جائيں گے اور وہ دل کا سکون کھو بيٹھيں گے ۔ رات گئے تک دولت کمانے کے چکر ميں پڑ کر وہ گھر سے باہر سکون تلاش کريں گے”

“ان کے دماغوں کو اتنا مشغول کر دو کہ وہ ضمير کی آواز سُن نہ سکيں ۔ کلبوں اور پارٹيوں ميں جانے کيلئے اُن کی حوصلہ افزائی کرو اور اگر وہ گھر آئيں تو ريڈيو ۔ ٹی وی ۔ سی ڈیز اور ڈی وی ڈی پليئرز کی دنيا اُن کيلئے حسين بنا دو يا انہيں موبائل فون ميں لگا دو ۔ حتٰی کہ اُن کے دماغ سُن ہو جائيں اور وہ اپنی بھلائی کا سوچ بھی نہ سکيں ۔ اس طرح اُن کا دھيان اپنے اللہ کی طرف نہيں جا پائے گا اور اگر گيا بھی تو اس کيلئے اُن کے پاس وقت نہيں ہو گا”

“ان پر خبروں کی بوچھاڑ کر دو تاکہ ان کے دماغ ہر وقت منتشر رہيں”

“انہيں قائل کرو کہ اللہ سے تعلق انفرادی فعل ہے ۔ اجتماعی معاشرہ جمہور کی اکثريتی رائے سے بنتا ہے ۔ انہيں مذہب کو جديد زمانہ کے مطابق ڈھالنے کی ترغيب دو تاکہ کہ وہ اپنی عقل لڑا کر مذہب کی روح کو غائب کر ديں”

“اگر پھر بھی ان کے پاس کچھ وقت بچے تو انہيں خوش گپيوں ميں مبتلا کر دو تا کہ ان کے دماغ کچھ سوچنے کی سکت نہ رکھيں”

“آگے بڑھو ميرے جانبازو ۔ انسان کی خواہشات کو اتنا بڑھا دو کہ ان کی نيک خواہشات ہوں بھی تو ان پر عمل کرنے کا ان کے پاس وقت نہ ہو”

ايک کھُلا خط

راولپنڈی سے شائع ہونے والے ايک جريدہ کے مدير صاحب کا مؤرخہ 3 مارچ 2011ء کا خط حاضر ہے

محترم ایڈیٹرصاحبان و ذمہ دار صاحبان
پاکستانی پریس اخبارات و جرائد اور چینلز

السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

مجھے معلوم ہے میری اس گذارش کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گالیکن میرا فرض بنتاہے آپ کو بتا نا

جناب نجم الدین اربکان ترکی کے دور جدید کے بانی تھے
ان ہی کی مساعی سے ترکی میں کمال اتاترک کا اسلام دشمن دور ختم ہوا
وہ وفات پاگئے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی
ہمارے ذرائع ابلاغ نے جناب اربکان کی وفات کو نظر انداز کر دیا

حالانکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ۔ ۔ ۔
کوئی خدا کے خوف سے عاری مرد یا عورت مر جائے
کوئی بھانڈیا مراثی مر جائے ۔ کوئی گانے والا بیمار ہو جائے
کسی ناچنے والی کا کوئی سکینڈل عام ہو جائے ۔ ۔ ۔

تو پاکستان کے اخبارات/رسائل/جرائد اور ٹی وی چینلز اس کو ایسی کوریج ديتے ہیں جیسے یہ اطلاع دنیا کو نہ ملی تو دنیا اندھیر ہو جائے گی صرف یہی نہیں بلکہ اللہ کے ان دشمنوں کی موت کے بعد بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اسے مرے ہوئے آج اتنے سال ہو گئے

لیکن امت مسلمہ کی اتنی بڑی خبر جس سے کہ امت کا تعلق ہونا چاہیئے تھا اسے جان بوجھ کر نظر انداز کرنا ور اسے لوگوں کی نظروں سے عمداً اوجھل رکھنا پاکستان کے میڈیا کا مشغلہ ہے

یہ شغل64 برسوں سے نہایت ڈھٹائی سے ”کر لو جو کرنا ہے “ کے اصول پر جاری ہے

عبدالہادی احمد
ایڈیٹر جہاد کشمیر ۔ راولپنڈی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مجرب نسخہ

زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتحِ کا مجرب نسخہ

یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک اور کچھ خوبصورت پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

تابعداری اور التماس

محترمات قاريات و محترمان قارئين
السلام و عليکم
کچھ مہربانوں کی طرف سے کبھی کبھار شکائت ملتی ہے کہ ميرا يہ بلاگ نہيں کھُلتا يا بمُشکل کھُلتا ہے
ايسا اکثر اُن قاريات اور قاريات کے ساتھ ہے جو پاکستان ميں پی ٹی سی ايل يا متحدہ عرب عمارات ميں اتصالات کا انٹرنيٹ استعمال کرتے ہيں ۔ خيال رہے کہ پی ٹی سی ايل بھی اتصالات کے زيرِ انتظام ہے ۔ ميں اس سلسلہ ميں اسلام آباد واپس آ جانے کے بعد پی ٹی سی ايل کے دفتر ميں گيا ہوں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ايسا پاکستان کميونيکيشن اتھارٹی [پی ٹی اے] کی کسی کاروائی کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ چنانچہ ميں نے مندرجہ ذيل پتہ پر پی ٹی اے کو ای ميل بھيج دی ہے
complaint@pta.gov.pk

پی ٹی سی ايل کا انٹر نيٹ استعمال کرنے والے تمام خواتين و حضرات سے ميری درخواست ہے کہ وہ بھی مندرجہ بالا ذيل پتہ پر اس سلسلہ ميں ای ميل بھيج ديں ۔ شکريہ پيشگی

محمد علی مکی صاحب کا خيال ہے کہ ميرے بلاگ کا صفحہ اول بہت بڑا ہونے کی وجہ سے ميرا بلاگ بہت سُست ہے ۔ اختصار کے نتيجہ ميں يہ تيز رفتار ہو جائے گا يعنی آسانی سے کھُلنے لگے گا ۔ اللہ کرے ايسا ہو

متذکرہ بالا حقيقت سے قطع نظر ميں نے محمد علی مکّی صاحب کی
درد بھری فرياد
يا
غم و غُصہ سے بھری ياد داشت
کے نتيجہ ميں
اپنے اس بلاگ کے صفحہ اول کو بہت مختصر کر ديا ہے