ميری بيگم نے کبھی کرکٹ ميچ نہيں ديکھا تھا ۔ وجہ کہ اُس کے پاس اتنا وقت ہی نہيں ہوتا ۔ گو گھر کا کام کرنے کيلئے ملازمہ رکھی ہوئی ہے مگر اُس کی نگرانی کہ درست کام کر رہی ہے لازمی عمل ہے ۔ نماز يں فرض والی کے ساتھ نفلی بھی پڑھتی ہيں ۔ ترجمہ تفسير بھی پڑھانا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات دوسرے مضامين بھی بچيوں کو پڑھاتی ہيں ۔ اخبار ہمارے ہاں دی نيوز روزانہ آتا ہے اور ڈان ہر اتوار کو ۔ پہلے دونوں روزانہ آتے تھے ۔ بيگم صاحبہ مدير کی ڈاک سميت تمام خبريں اور مضامين پڑھ کے دم ليتی ہيں ۔ ٹی وی پر خبريں اور کوئی اچھا مذاکرہ ہو تو ديکھنا ہوتا ۔ دن بھر خبريں نہ بھی سُنيں تو 9 بجے کی خبريں جو گھنٹہ بھر کی ہوتی ہيں ضرور سُنتی ہيں
حکومتی اہلکاروں کی مہربانی کہ جيو سُپر کے ساتھ گڑبڑ کی تو کرکٹ ورلڈ کپ کی مشہوری ہوئی ۔ پھر وزير صاحب پانی و بجلی نے اعلان داغ ديا کہ ميچ کے دوران بجلی بند نہيں کی جائے گی تو ہم بڑے جوش کے ساتھ دوپہر ايک بجے ہی ٹی وی لگا کر بيٹھ گئے ۔ حُسنِ اتفاق کہ بيگم صاحبہ بھی تسبيح پھيرتے پھيرتے آ کر بيٹھ گئيں
جب ويسٹ انڈيز کی پہلی وکٹ گری تو بيگم بوليں “الحمداللہ” جب دو سری گری تو بوليں “ماشاء اللہ”۔ پھر يہ ورد تسبيح کے ساتھ ساتھ جاری رہا تو ہميں بہت اُميد ہوئی کہ پاکستان جيتے ہی جيتے اور اللہ کے کرم سے وہی ہوا
اب 30 مارچ کو کسی طرح ہم نے اپنی بيگم کو مائل کرنا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے ميچ ديکھنے بيٹھ جائيں اور پھر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بھارت کو ہرا کر فائنل کھيلنے کا حقدار بن جائے